عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے بھائی حضرت المکرم دکتور- م ا ح (سلمہ اللہ)۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد:
آپ کی اس تحریر کے جواب میں جس میں آپ فرماتے ہیں فضیلۃ الشیخ آپ سے ان آیات کے معانی درکار ہیں۔
﴿وَهُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ ۭ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ﴾ (الانعام: 3) اور وہی ہے اللہ(معبود برحق) آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے
﴿وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾ (البقرۃ: 255) اس کی کرسی آسمانوں اورزمین پر وسیع ہے، اور اسے ان کی حفاظت کوئی مشکل نہيں، اور وہ بلند اور عظیم ہے
﴿وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ﴾ (الزخرف: 84) وہی آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی وہی قابل عبادت ہے، اور وہ بڑی حکمت والا اور پورے علم والا ہے
﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ﴾ (المجادلۃ: 7) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہرچیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں ، پھر قیامت کے دن انہیں اعمال سے آگاہ کرے گا ، بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہے
اور لونڈی والی مشہور حدیث جو صحیح مسلم میں ہے کہ آپﷺ نے اس سے پوچھا کہ اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس پر اس نے کہا کہ: آسمان پر، پھر پوچھا کہ: میں کون ہوں؟کہا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اس لونڈی کوآزاد کردو یہ تو مومنہ عورت ہے۔
فضیلۃ الشیخ آپ سے ان آیات کے معانی کی وضاحت درکار ہے اور ساتھ ہی رسول اللہﷺ کی لونڈی سے متعلق حدیث کی وضاحت بھی درکار ہے؟
جواب:
شیخ فرماتے ہیں:
معلوم ہو کہ یہ تمام آیات کریمہ اورحدیث نبوی شریف اللہ تعالی کی عظمت ، اس کا مخلوق پر علو وبلندی اورتمام مخلوق کے معبود حقیقی ہونے پر دلالت کناں ہیں ۔ اورساتھ ہی اس کے علم کا احاطہ کی تمام چیزوں پر خواہ بڑی ہوں یا چھوٹی، پوشیدہ ہوں یا ظاہر وعلانیہ شمولیت کی دلیل ہیں، اور یہ کہ ہر چیز پر اس کی قدت کا بیان ہے۔ساتھ ہی اس سے عجز کی نفی ہے۔
جبکہ ان آیت کا الگ الگ سے خاص معنی یہ ہیں، پس اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ﴾ (البقرۃ: 255) اس کی کرسی آسمانوں اورزمین پر وسیع ہے
اس میں اللہ کی کرسی کی عظمت اور اس کی وسعت پر دلالت کے ساتھ ساتھ اس کے خالق کی عظمت اور کمال قدرت پر دلالت بھی ہے۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:
﴿ وَلَا يَوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾ (البقرۃ: 255) اور اسے ان کی حفاظت کوئی مشکل نہيں، اور وہ بلند اور عظیم ہے
یعنی اس پر آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہیں یاان کے درمیان ہیں کی حفاظت کوئی بھاری یا مشقت نہیں۔ بلکہ یہ تو اس کے لیے نہایت ہی سہل اور آسان ہے۔ ہر نفس جو کرتا یا کماتا ہے وہ اس پر قائم ونگہبان ہے۔ تمام اشیاء پر رقیب ہے۔ اس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں اور نہ غائب ہے۔اور اس کے سامنے تمام اشیاءمتواضع، ذلیل وحقیر اور اس کی بنسبت صغیر(چھوٹی) ہی ہیں۔ اسکی محتاج وفقیر ہیں جبکہ وہ غنی وحمید ہے۔ جو چاہے کرنے والا ہے۔ وہ جو کچھ کرے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ مخلوقات سے وہ سوال کرے گا۔ وہ ہر شے پر قاہر وغالب ہے۔اور ہر شے پر حسیب ورقیب اور العلی العظیم ہے۔ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ ہی کوئی رب ہے۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمانا:
﴿وَهُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ ۭ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ﴾ (الانعام: 3) اور وہی ہے اللہ(معبود برحق) آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے
اس کا مطلب ہے کہ اسے ہی آسمان وزمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے، اور اسی کی عبادت اور الوہیت میں توحید کا زمین وآسمان والے اقرار کرتے ہیں۔ اسے اللہ کا نام دیتے ہیں اور سوائے کافر جن وانس کے تمام ایمان والے اور مخلوقات اسے ہی خوف وامید سے پکارتے ہیں ۔اور اس میں اللہ تعالی کے علم کی وسعت اور اپنے بندوں پر مطلع ہونے اور ان کے اعمال کا خواہ اعلانیہ ہوں یا پوشیدہ احاطے کرلینے پر دلالت ہے۔پس اس کے نزدیک پوشیدہ اور اعلانیہ دونوں باتیں برابر ہیں اور وہ اپنے بندوں کوان کےتمام اعمال جتلادے گا خواہ خیر ہوں یا شر۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:
﴿وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ﴾ (الزخرف: 84) وہی آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی وہی قابل عبادت ہے، اور وہ بڑی حکمت والا اور پورے علم والا ہے
اس کا معنی ہے کہ جو کوئی آسمان میں ہیں اور جو کوئی زمین میں ہیں ان سب کا الہ ومعبود اللہ تعالی ہی ہے۔ آسمان وزمین کے رہنے والے اسی کی عبادت کرتے ہیں اور وہ تمام اس کے حضور جھکے ہوئے اور ذلیل ہیں سوائے ان لوگوں کے جن کی بدبختی ان پر غالب آگئی پس انہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا اور ایمان نہیں لائے۔ وہ اپنی شریعت اور قدرت میں حکیم ہے۔ اور اپنے بندوں کے تمام اعمال پر علیم ہے۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:
﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ﴾ (المجادلۃ: 7) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہرچیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں ، پھر قیامت کے دن انہیں اعمال سے آگاہ کرے گا ، بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہے
اس کا معنی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں پر مطلع ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں، ان کی باتوں کو سنتا ہے خفیہ ہوں یا سرگوشی میں۔ ان کے اعمال کو جانتا ہے۔ اس کے باوجود اس کے فرشتے کراما کاتبین بھی جو کچھ لوگ سرگوشی کرتے ہیں اسے لکھ لیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالی ویسے ہی ان کا علم رکھتا ہے اور تمام باتوں کو خود سنتا ہے۔ اور اس آیت میں اللہ تعالی کی معیت (ساتھ ہونے) سےاہل سنت والجماعت کے نزدیک مراد علم کے لحاظ سے معیت ہے یعنی وہ اپنے علم کے لحاظ سے ان کے ساتھ ہے اور ان کااحاطہ کیے ہوئے ہے۔اور اس کی بصارت ان پر نافذ ہے۔ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات سے بلند اور جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے عرش پر مستوی ہونے کے باوجوداپنے بندوں کے اعمال پر مطلع ہے اس سے کوئی بھی شے غائب نہیں۔اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی کسی بھی صفت کے مشابہ نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11) اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے
پھر وہ بروزقیامت انہیں ان کے تمام اعمال جتلادے گا جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور ہر شے پر محیط ہے۔ عالم الغیب ہے کہ جس کے علم سے ذرہ برابر شے بھی مخفی نہیں نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں، نہ ذرہ سے بڑھ کر یا کم تر کوئی بھی شے نہیں مگر وہ سب کتاب مبین میں لکھا ہوا ہے([6])۔
اور جو لونڈی والی حدیث ہے کہ جس کا آقا اسےتھپڑ ماردینے کے کفارے میں آزاد کرنا چاہتا تھا ۔ جس پر نبی کریم ﷺ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ : اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان پر۔ پھر پوچھا: میں کون ہوں؟ کہا: آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے آزاد کردو کیونکہ یہ تو مومنہ عورت ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالی کے مخلوقات پر علو وبلندی کی دلیل ہے۔ اور اس عقیدے کا اعتراف اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اعتراف کسی کے ایمان کی دلیل ہے۔
یہ مختصر سے معانی تھے جو کچھ آپ نے دریافت کیا تھا ان کے۔ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ان آیات اور اس جیسی دیگر آیات اور اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر مشتمل صحیح احادیث کے معانی کےسلسلے میں مسلک اہل سنت والجماعت کی پیروی کرے۔ اور وہ یہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے، اور جس بات یا معنی پر یہ دلالت کرتے ہیں ان کی صحت کااعتقاد رکھا جائے، اور اسے ذاتی باری تعالی کی شان کےلائق بلاتحریف، تعطیل، تکییف وتمثیل کےثابت کیا جائے۔ یہ ہی وہ صحیح مسلک ہے ک جسے سلف صالحین نے اپنایا اور اس پر متفق رہے۔ اسی طرح سے ہر اس مسلمان پر واجب ہے جو اپنی سلامتی چاہتا ہے کہ ایسی بات میں واقع ہونے سے ڈرے جو غضب الہی کی موجب ہو اور اس مسلک حق کو چھوڑ کر اہل بدعت وضلالت کےطریقےکو اپنانے سے جو کہ صفات الہی کی یا تو نفی کرتے ہیں یا پھر غلط تاویل کرتے ہیں، اور اللہ تعالی تو اس سے پاک ہے اور بہت بلندو ارفع ہے جو کچھ یہ ظالم وجاہل لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی نور علی الدرب رقم 8206)