• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی کو ہرجگہ کہنا اور ایسا عقیدہ رکھنے والے کے پیچھے نماز کا حکم - مختلف علماء کرام

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اللہ تعالی کو ہرجگہ کہنا اور ایسا عقیدہ رکھنا والے کے پیچھے نماز کا حکم - مختلف علماء کرام


فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز "
مترجم:طارق علی بروہی
سوال:
ہمیں ایک امام نماز کی امامت کرواتا ہے، اور وہ کہتا ہے: اللہ تعالی نہ اوپر ہے نہ نیچے بلکہ وہ تو ہر جگہ ہے، کیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب:
ایسا شخص بدعتی گمراہ ہے، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔ جو یہ کہے کہ اللہ تعالی نہ اوپر ہے نہ نیچے وہ کافر ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے:
﴿اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ : 5) جو رحمن ہے، عرش پر بلند ہے
﴿اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ﴾ (الاعراف: 54، یونس: 3) بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے
اور فرمایا:
﴿وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾ (البقرۃ: 255، الشوری: 4) اور وہ بلند اور بہت عظیم ہے
﴿وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ﴾ (الحج: 62، لقمان: 30) بیشک اللہ ہی بلندی والا کبریائی والا ہے
﴿فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيْرِ﴾ (المؤمن: 12) پس اب فیصلہ اللہ بلند و بزرگ ہی کا ہے
﴿اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ﴾ (فاطر: 10) تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں ، اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے
﴿مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ۔ تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ﴾ (المعارج: 3-4) اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں/ آسمانی زینوں والا ہے۔ جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں
اور بہت سےآیات میں ذکر ہے([1])۔ لہذا جو کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالی بلند نہیں بلکہ ہرجگہ پر ہے، تو وہ گمراہ، گمراہ گر اور کافر ہے۔ اس سے توبہ کروائی جائے اگر توبہ کرلے تو بہتر ورنہ قتل کردیا جائے۔ مسلمان حکمران پر یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے شخص کوعدالت کے سامنے توبہ کروائے اگر توبہ کرلے تو بہتر ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔ اللہ تعالی ہی سے عافیت کاسوال ہے۔
(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی نور علی الدرب رقم 15782)​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال:
اس شخص کا کیا حکم ہے کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ اللہ تعالی کہاں ہے تو وہ کہتا ہے ہرجگہ! شرعی دلائل کی روشنی میں صحیح جواب کیا ہونا چاہیے؟
جواب:
بسم الله الرحمن الرحيم، الحمد لله، صلى الله وسلم على رسول الله وعلى آله وأصحابه ومن اهتدى بهداه أما بعد:
اس شخص پرواجب ہےکہ جس سے پوچھاجائے کہ اللہ تعالی کہاں ہے؟ کہ وہ وہی جواب دے جو اس لونڈی صحابیہ نے دیا تھا کہ جب رسول اللہﷺ نے اس سے یہی سوال کیا تھا۔ آپﷺکے پاس ایک لونڈی لائی گئی جس کا آقا اسے آزاد کرنا چاہتا تھا۔ لہذا آپ ﷺ نے (اس کے ایمان کا امتحان لینے کو) پوچھا کہ:
’’ أَيْنَ اللَّهُ ؟ قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ ‘‘ (اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا آسمان پر، آپﷺنے پوچھا: میں کون ہوں؟ کہا: آپ اللہ کےرسول ﷺ ہیں) اس پر آپ ﷺ نے جو انہیں لے کر آئے تھے ان سےکہا:
’’ أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ ‘‘ ([2]) اسے آزاد کردیں کیونکہ یہ مومنہ عورت ہے۔
چناچہ ہر اس شخص پر واجب ہے جس سے پوچھا جائے کہ اللہ تعالی کہاں ہے کہ وہ یہی جواب دے اللہ تعالی آسمانوں پر ہے اپنے عرش کے اوپر، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ﴾ (الملک: 16) کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ جو آسمان پر ہے تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے
اور دوسری آیت میں فرمایا:
﴿اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ﴾ (الملک: 17) یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے تم پر پتھر برسائے پھر تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا
یعنی وہ بلندی کی جہت پر ہے اپنے عرش کے اوپر، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ﴾ (فاطر: 10) تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے
اور فرمایا:
﴿مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ۔ تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ﴾ (المعارج: 3-4) اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں/ آسمانی زینوں والا ہے۔ جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں
﴿اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ : 5) جو رحمن ہے، عرش پر بلند ہے
﴿اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ﴾ (الاعراف: 54، یونس: 3) بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے
اور"استوی" کا معنی ہے "ارتفع وعلا"یعنی بلند ہوا۔قرآن کریم کے سات مقامات پر یہی الفاظ ہیں کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر بلند مستوی وبلند ہوا ([3])۔ صحابہ کرام اور ان کی بطور احسن اتباع کرنے والے اس پر ایمان لاتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی عرش کے اوپر ہے، اپنی تمام مخلوقات سے اوپر، اور وہ اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ اس کی شان اور عظمت کے لائق ہے ، اس کی کوئی بھی صفت اس کی کسی مخلوق سے مشابہ نہیں۔
جس کسی سے پوچھا جائے کہ اللہ تعالی کہاں ہے؟ تو اسے کہنا چاہیے وہ عرش پر بلند ومستوی ہے۔ اہل سنت والجماعت اسی طرح کہتے ہیں جیسا کہ اس عقیدہ پر قرآن عظیم اور سنت مطہرہ دلالت کرتے ہیں۔
جس نے یہ کہا کہ اللہ تعالی ہر جگہ ہے اس نے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کو جھٹلایا ہے اور اپنے اس عقیدے کی بنا پر وہ کافر ہوگیا ہے۔ اسے توبہ کروائی جائے ورنہ قتل کردیا جائے۔حکمران وقت کو چاہیے کہ اس کا معاملہ عدالت تک لے جائے اگر وہ توبہ کرلے تو بہتر ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔ کیونکہ اس کا معنی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے علو وبلندی اور اپنے عرش پر بلند ہونے کا انکاری ہے یعنی وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کو جھٹلاتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ کافر ومرتد ہوگیاہے ، جس سے توبہ کروائی جائے۔ ورنہ حکمران وقت کی جانب سے اسے عدات میں پیش کرکے وہاں توبہ کروائے توبہ کرلے تو صحیح ورنہ حکمران وقت کی جانب سےاسےقتل کردیا جائے ۔
(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی نور علی الدرب رقم 20258)​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال:
اللہ تعالی کہاں ہے؟ کیا وہ اپنے عرش پر ہے یا پھر ہرجگہ ہے؟ اس شخص کا کیا حکم ہے جو کہتا ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ ہے؟
جواب:
اہل سنت والجماعت کے نزدیک اللہ تعالی عرش کے اوپر ہے، علو وبلندی پر ہے۔ تمام مخلوقات سے اوپر۔ تمام انبیاء کرام ؑ یہی عقیدہ لے کر آئے تھے کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر ہے تمام مخلوقات سے اوپر۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ : 5) جو رحمن ہے، عرش پر بلند ہے
﴿اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ﴾ (الملک: 16-17) یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے
﴿اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ﴾ (فاطر: 10) تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں ، اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے
﴿مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ۔ تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ﴾ (المعارج: 3-4) اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں/ آسمانی زینوں والا ہے۔ جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں
﴿اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ﴾ (الاعراف: 54، یونس: 3) بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے
سات مقامات پر اس بات کی تصریح ہے کہ وہ عرش کےاوپر ہے اس کا عرش پر مستوی ہونا اس کی شان اور عظمت کےلائق ہے ، مخلوقات میں سے کسی کے مستوی وبلند ہونےکی مانند نہیں۔اور اس صفت علو واستوی کے علاوہ بھی کوئی صفت الہی کسی بھی مخلوق کےمشابہ نہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11) اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (سورۃ الاخلاص) آپ کہہ دیجئے کہ وه اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے -اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے -نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وه کسی سے پیدا ہوا -اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے
اور فرمایا:
﴿هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا﴾ (مریم: 65)کیا تیرے علم میں اس کا ہمنام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟
یہ استفہامی انکار ہے یعنی اس جیسے نام والا کوئی نہیں، نا اس کے ہم پلہ کوئی ہے۔
اور جب صحابہ میں سے کوئی شخص رسول اللہﷺ کے پاس اپنی لونڈی کو آزاد کرنےکی غرض سے لے کر آیا ۔ تو نبی کریمﷺ نے (اس کے ایمان کا امتحان لیتے ہوئے) اس سے پوچھا: اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان پر۔ پھر پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: اسے آزاد کردو یہ تو مومنہ عورت ہے۔ (اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا) جب آپﷺ نے اس سے پوچھا: اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان پر۔ تو اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اسے آزاد کردو یہ تو مومنہ عورت ہے([4])۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارا رب اوپر آسمانوں پر ہے، اپنے عرش کے اوپر اورتمام مخلوقات سے اوپر۔ اوراللہ تعالی کےاس فرمان کا یہی معنی ہے:
﴿ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ﴾ (الملک: 16) کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ جو آسمان پر ہے تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے
﴿اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ﴾ (الملک: 17) یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے تم پر پتھر برسائے پھر تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا
اسی طرح سورۂ ملک میں یہ آیات وارد ہوئی ہیں۔
اس بات پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے۔ اسی طرح سے صحابہ کرام  کااس پر اجماع ہے جس طرح کہ تمام انبیاء کرام ؑ کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالی اپنے عرش کے اوپر ہے بلندی پر ہے۔ اسی میں سے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے:
﴿وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰهَامٰنُ اcبْنِ لِيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ، اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰٓى اِلٰهِ مُوْسٰى وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٗ كَاذِبًا﴾ (غافر: 36-37) فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے ایک عمارت بناؤ شاید کہ میں آسمان کے جو دروازے ہیں، (ان) دروازوں تک پہنچ جاؤں اور موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں اور بیشک میں سمجھتا ہوں وہ جھوٹا ہے
اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا موسیؑ نے فرعون کو خبر دی تھی کہ اللہ تعالی بلندی پر ہے اپنے عرش کے اوپر، اسی لیے فرعون نے یہ بات کہی۔
جو یہ کہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ ہے یا اوپر وبلندی پر نہیں تو وہ کافر ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کو جھٹلانے والا ہے، اہل سنت والجماعت کے اجماع کو بھی جھٹلانے والا ہے۔ جیسے جہمیہ اور ان جیسے دوسرےاور معتزلہ یہ تو سب سے بڑھ کر کافر ہیں، کہ انہوں نے اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا انکار کیا ہے۔
(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی نور علی الدرب رقم 10305)​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال:
مجھ سے ایک مسلمان بھائی نے پوچھا "این اللہ؟" (اللہ تعالی کہاں ہے؟) تو میں نے کہا: آسمان پر۔ تو وہ کہنے لگا تمہاری پھر اللہ تعالی کے اس فرمان سے متعلق کیا رائے ہے:
﴿وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ (اس کی کرسی زمین وآسمان پر وسیع ہے)
اور بھی بہت سی آیات اس نے ذکر کیں۔ پھر کہا: اگرہم یہ گمان کریں کہ اللہ تعالی آسمان پر ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم نے اس کے لیے کسی جہت یا سمت کی تحدید کردی ہے۔ فضیلۃ الشیخ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔ کیا اس قسم کے سوال سے شریعت میں منع کیا گیا ہے؟
جواب:
آپ نے بالکل ٹھیک جواب دیا تھا۔ یہ وہی جواب ہے جو جواب نبی کریمﷺ دیا کرتے تھے کہ اللہ تعالی آسمان پر بلندی پر ہے۔ جیسا کہ اس کا فرمان ہے:
﴿ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ﴾ (الملک: 16) کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ جو آسمان پر ہے تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے
﴿اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ﴾ (الملک: 17) یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے تم پر پتھر برسائے پھر تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا
اور فرمایا:
﴿اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ : 5) جو رحمن ہے، عرش پر بلند ہے
اور فرمایا:
﴿اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ﴾ (الاعراف: 54، یونس: 3) بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے
اہل سنت کے تمام علماء کے نزدیک اللہ تعالی اپنے عرش کے اوپر ہے بلندی کی جہت پر تمام مخلوق سے اوپر، اس بات پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالی تمام مخلوقات سےبلند عرش کے اوپر ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں یہی عقیدہ بیان کیاگیا ہے لہذا یہی بات رسول اللہﷺ، آپ کے صحابہ کرام  اور جنہوں نے بطور احسن ان کی پیروی کی ان سے منقول چلی آرہی ہے ۔ اور نبی کریم ﷺ نے اس لونڈی سے بھی یہی سوال کیا تھا کہ جس کا آقا اسے آزاد کرنا چاہتا تھا کہ: اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمان پر۔ پھر پوچھا: میں کون ہوں؟ کہا: آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ: اسے آزاد کردے یہ تو مومنہ عورت ہے۔ (صحیح مسلم کی حدیث ہے حوالہ گزر چکا ہے)۔ یہ اس لیے کہا کہ اس کا اس بات پر ایمان ہونا کہ اللہ تعالی آسمان پر ہے اس کے اللہ تعالی کے لیے اخلاص اور اس کے لیے توحید پر دلالت کرتا ہے، اور اس بات پر کہ وہ اللہ تعالی پر ، اس کی تمام مخلوقات پر بلندی اور اس کے رسول محمدﷺ پر ایمان لاتی ہے۔
البتہ آیت
﴿وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ (اس کی کرسی زمین وآسمان پر وسیع ہے)
اس کے منافی نہیں۔ کرسی آسمانوں سے اوپر ہے اور عرش کرسی سے بھی اوپر ہے اور اللہ تعالی اس عرش کے اور تمام مخلوقات سے اوپر ہے۔ اور اللہ تعالی کی جہت کی تحدید کرنے میں کوئی مانع نہیں کہ کہا جائے وہ جہت علو یعنی اوپر کی جہت میں ہے، کیونکہ اللہ تعالی علو وبلندی پر ہے۔ مگر اس قسم کی مشابہت متکلمین اور بعض اہل بدعت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کسی جہت میں نہیں۔ حالانکہ اس کلام میں کچھ تفصیل درکار ہے کہ اگر وہ جہت سے مخلوق مراد لیتے ہیں اور یہ کہ اللہ تعالی زمین میں داخل نہیں یا آسمان میں داخل نہیں تویہاں تک تو بات صحیح ہے۔ لیکن اگر یہ مراد لیتے ہیں کہ اللہ تعالی بلندی پر نہیں تو یہ باطل ہے ، کتاب اللہ ، سنت رسول اللہﷺ اور اجماع سلف کے مخالف ہے۔ علماء اسلام کا اجماع ہے اللہ تعالی آسمان پر اپنے عرش کے اوپر ہے اور تمام مخلوقات سے بلند ہے۔ اور وہ جس جہت میں ہے وہ جہت علو ہے جو کہ تمام مخلوقات سے بلند ہے([5])۔
اور اس قسم کا سوال کرنا بدعت نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اس سے منع کیا گیا ہے بلکہ اس کے پوچھنے کا تو ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی لوگوں کوتعلیم دیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی خود اس لونڈی سے سوال کیا کہ: اللہ تعالی کہاں ہے؟ پس اللہ تعالی جہت علو میں ہے آسمان سے،اپنے عرش عظیم سے اور تمام مخلوقات سے اوپر۔ وہ نہ زمین پر ہے نہ اس میں داخل ہے اور نہ ہی آسمان میں داخل ہے۔ جو یہ کہے کہ اللہ تعالی زمین میں یا پر ہے یا وہ ہر جگہ ہے جیسا کہ جہمیہ، معتزلہ اور ان جیسے دیگر فرقے کہتے ہیں تو وہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک کافر ہے۔ اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی دی گئی خبر میں انہيں جھٹلانے والاہے کہ وہ اللہ آسمان پر ہے یعنی السماء کا معنی دراصل علو بلندی ہے۔ کیونکہ السماء کا اطلاق دو معانی پر ہوتا ہے:
ایک تو یہ بنے ہوئے آسمان انہیں بھی السماء کہا جاتا ہے، دوسرا معنی مطلق علو وبلندی کے معنی میں آتا ہے، اسے بھی السماء کہا جاتا ہے۔
لہذا اللہ تعالی علو میں ہے جہت علو میں تمام مخلوقات سے اوپر۔اگر یہ بنے ہوئے آسمان مراد ہو تو یہاں فی(میں) بمعنی علی(پر) استعمال ہوا ہے (فی السماء) یعنی (علی السماء) آسمان پر اوراس کے اوپر۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ﴾ (التوبۃ: 2) زمین میں چل پھرلو
﴿فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ﴾ (آل عمران: 137، النحل: 36) زمین میں چل پھرلو
(فی الارض) (زمین میں) بمعنی( علیھا) یا (فوقھا) (زمین پر یا زمین کے اوپر) استعمال ہوا ہے۔
یا جیسے فرعون نے کہا کہ:
﴿لَاُصَلِّبَنَّكُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ﴾ (طہ: 71) میں ضرور تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی دے دوں گا
یعنی (علی جذوع النخل) (کھجور کےتنوں پر) لہذا اس میں کوئی تعارض نہیں کہ کوئی کہے (فی السماء) یعنی (علی السماء) اور کوئی کہے کہ وہ علو میں ہے کیونکہ السماء سے مراد علو ہے۔ اللہ تعالی علو(بلندی) پر ہے تما م آسمانوں سے اوپر اوراپنے عرش سے اوپر۔
چناچہ آپ صحیح عقیدے پر ہیں، آپ کوخیر کی بشارت ہو اورتمام تعریفیں اس اللہ تعالی کے لیے ہیں جس نے آپ کواس صحیح عقیدے کی ہدایت عطا فرمائی ۔ ان تشبیہ دینے والوں اور تلبیس کرنے والوں کےاقوال کی طرف التفات نہ کریں کیونکہ یہ لوگ گمراہی میں ہیں اور الحمدللہ آپ اورجوآپ کےساتھ اسی عقیدے اور اس ایمان میں کہ اللہ تعالی آسمان پر ہے عرش کے اوپر تمام مخلوقات سے اوپر اور اس کا علم ہر جگہ ہےآپ لوگ حق پر ہیں۔ اس کی کوئی بھی صفات اسکی کسی مخلوق سے مشابہ نہیں۔ اور اللہ تعالی کو عرش کی یا آسمان کی کوئی حاجت نہیں بلکہ وہ تو ان سے اورہر چیز سے غنی وبےنیاز ہے۔ بلکہ خود تمام آسمان اور عرش اس کے محتاج ہیں۔ وہی تو ہے جس نے اس عرش کو، کرسی کواور آسمانوں کوقائم رکھا ہوا ہے۔
﴿وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ﴾ (الروم: 25) اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں
اور فرمایا:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا﴾ (فاطر: 41) یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں
اللہ ہی نے آسمانوں اور عرش کو تھام رکھا ہے اور تمام مخلوقات کو اگر اس کا انہیں تھامنا نہ ہوتا تو یہ سب ایک دوسرے پر گر پڑتے۔ تو اللہ ہی وہ ذات ہے جس نےانہیں قائم رکھا ہے اور تھام رکھا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کا امر قیامت آجائے اوران کا یہی حال ہوجائے۔ اور وہ سبحانہ وتعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور وہ العلی وبلند ہے اپنی تمام مخلوقات سے اس کی تمام صفات اعلی ہیں اور تمام اسماء حسنی ہیں لہذا اہل علم اور ایمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کوبلا تحریف، بلاتعطیل (انکار)، بلاتکییف(کیفیت بیان کیے)، بلاتمثیل(مثال بیان کیے) انہیں صفات سے متصف کریں جس سے اس نے خود اپنےآپ کو متصف فرمایا ہے یا اس کے رسول ﷺ نے اسے متصف فرمایا ہے بلکہ ان پر اس طور پر ایمان لائے کہ:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11) (اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے)۔
(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی نور علی الدرب رقم 10296)​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے بھائی حضرت المکرم دکتور- م ا ح (سلمہ اللہ)۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد:
آپ کی اس تحریر کے جواب میں جس میں آپ فرماتے ہیں فضیلۃ الشیخ آپ سے ان آیات کے معانی درکار ہیں۔
﴿وَهُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ ۭ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ﴾ (الانعام: 3) اور وہی ہے اللہ(معبود برحق) آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے
﴿وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾ (البقرۃ: 255) اس کی کرسی آسمانوں اورزمین پر وسیع ہے، اور اسے ان کی حفاظت کوئی مشکل نہيں، اور وہ بلند اور عظیم ہے
﴿وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ﴾ (الزخرف: 84) وہی آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی وہی قابل عبادت ہے، اور وہ بڑی حکمت والا اور پورے علم والا ہے
﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ﴾ (المجادلۃ: 7) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہرچیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں ، پھر قیامت کے دن انہیں اعمال سے آگاہ کرے گا ، بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہے
اور لونڈی والی مشہور حدیث جو صحیح مسلم میں ہے کہ آپﷺ نے اس سے پوچھا کہ اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس پر اس نے کہا کہ: آسمان پر، پھر پوچھا کہ: میں کون ہوں؟کہا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اس لونڈی کوآزاد کردو یہ تو مومنہ عورت ہے۔
فضیلۃ الشیخ آپ سے ان آیات کے معانی کی وضاحت درکار ہے اور ساتھ ہی رسول اللہﷺ کی لونڈی سے متعلق حدیث کی وضاحت بھی درکار ہے؟
جواب:
شیخ فرماتے ہیں:
معلوم ہو کہ یہ تمام آیات کریمہ اورحدیث نبوی شریف اللہ تعالی کی عظمت ، اس کا مخلوق پر علو وبلندی اورتمام مخلوق کے معبود حقیقی ہونے پر دلالت کناں ہیں ۔ اورساتھ ہی اس کے علم کا احاطہ کی تمام چیزوں پر خواہ بڑی ہوں یا چھوٹی، پوشیدہ ہوں یا ظاہر وعلانیہ شمولیت کی دلیل ہیں، اور یہ کہ ہر چیز پر اس کی قدت کا بیان ہے۔ساتھ ہی اس سے عجز کی نفی ہے۔
جبکہ ان آیت کا الگ الگ سے خاص معنی یہ ہیں، پس اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ﴾ (البقرۃ: 255) اس کی کرسی آسمانوں اورزمین پر وسیع ہے
اس میں اللہ کی کرسی کی عظمت اور اس کی وسعت پر دلالت کے ساتھ ساتھ اس کے خالق کی عظمت اور کمال قدرت پر دلالت بھی ہے۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:
﴿ وَلَا يَوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾ (البقرۃ: 255) اور اسے ان کی حفاظت کوئی مشکل نہيں، اور وہ بلند اور عظیم ہے
یعنی اس پر آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہیں یاان کے درمیان ہیں کی حفاظت کوئی بھاری یا مشقت نہیں۔ بلکہ یہ تو اس کے لیے نہایت ہی سہل اور آسان ہے۔ ہر نفس جو کرتا یا کماتا ہے وہ اس پر قائم ونگہبان ہے۔ تمام اشیاء پر رقیب ہے۔ اس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں اور نہ غائب ہے۔اور اس کے سامنے تمام اشیاءمتواضع، ذلیل وحقیر اور اس کی بنسبت صغیر(چھوٹی) ہی ہیں۔ اسکی محتاج وفقیر ہیں جبکہ وہ غنی وحمید ہے۔ جو چاہے کرنے والا ہے۔ وہ جو کچھ کرے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ مخلوقات سے وہ سوال کرے گا۔ وہ ہر شے پر قاہر وغالب ہے۔اور ہر شے پر حسیب ورقیب اور العلی العظیم ہے۔ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ ہی کوئی رب ہے۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمانا:
﴿وَهُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ ۭ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ﴾ (الانعام: 3) اور وہی ہے اللہ(معبود برحق) آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے
اس کا مطلب ہے کہ اسے ہی آسمان وزمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے، اور اسی کی عبادت اور الوہیت میں توحید کا زمین وآسمان والے اقرار کرتے ہیں۔ اسے اللہ کا نام دیتے ہیں اور سوائے کافر جن وانس کے تمام ایمان والے اور مخلوقات اسے ہی خوف وامید سے پکارتے ہیں ۔اور اس میں اللہ تعالی کے علم کی وسعت اور اپنے بندوں پر مطلع ہونے اور ان کے اعمال کا خواہ اعلانیہ ہوں یا پوشیدہ احاطے کرلینے پر دلالت ہے۔پس اس کے نزدیک پوشیدہ اور اعلانیہ دونوں باتیں برابر ہیں اور وہ اپنے بندوں کوان کےتمام اعمال جتلادے گا خواہ خیر ہوں یا شر۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:
﴿وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ﴾ (الزخرف: 84) وہی آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی وہی قابل عبادت ہے، اور وہ بڑی حکمت والا اور پورے علم والا ہے
اس کا معنی ہے کہ جو کوئی آسمان میں ہیں اور جو کوئی زمین میں ہیں ان سب کا الہ ومعبود اللہ تعالی ہی ہے۔ آسمان وزمین کے رہنے والے اسی کی عبادت کرتے ہیں اور وہ تمام اس کے حضور جھکے ہوئے اور ذلیل ہیں سوائے ان لوگوں کے جن کی بدبختی ان پر غالب آگئی پس انہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا اور ایمان نہیں لائے۔ وہ اپنی شریعت اور قدرت میں حکیم ہے۔ اور اپنے بندوں کے تمام اعمال پر علیم ہے۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:

﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ﴾
(المجادلۃ: 7) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہرچیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں ، پھر قیامت کے دن انہیں اعمال سے آگاہ کرے گا ، بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہے
اس کا معنی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں پر مطلع ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں، ان کی باتوں کو سنتا ہے خفیہ ہوں یا سرگوشی میں۔ ان کے اعمال کو جانتا ہے۔ اس کے باوجود اس کے فرشتے کراما کاتبین بھی جو کچھ لوگ سرگوشی کرتے ہیں اسے لکھ لیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالی ویسے ہی ان کا علم رکھتا ہے اور تمام باتوں کو خود سنتا ہے۔ اور اس آیت میں اللہ تعالی کی معیت (ساتھ ہونے) سےاہل سنت والجماعت کے نزدیک مراد علم کے لحاظ سے معیت ہے یعنی وہ اپنے علم کے لحاظ سے ان کے ساتھ ہے اور ان کااحاطہ کیے ہوئے ہے۔اور اس کی بصارت ان پر نافذ ہے۔ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات سے بلند اور جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے عرش پر مستوی ہونے کے باوجوداپنے بندوں کے اعمال پر مطلع ہے اس سے کوئی بھی شے غائب نہیں۔اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی کسی بھی صفت کے مشابہ نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11) اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے
پھر وہ بروزقیامت انہیں ان کے تمام اعمال جتلادے گا جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور ہر شے پر محیط ہے۔ عالم الغیب ہے کہ جس کے علم سے ذرہ برابر شے بھی مخفی نہیں نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں، نہ ذرہ سے بڑھ کر یا کم تر کوئی بھی شے نہیں مگر وہ سب کتاب مبین میں لکھا ہوا ہے([6])۔
اور جو لونڈی والی حدیث ہے کہ جس کا آقا اسےتھپڑ ماردینے کے کفارے میں آزاد کرنا چاہتا تھا ۔ جس پر نبی کریم ﷺ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ : اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان پر۔ پھر پوچھا: میں کون ہوں؟ کہا: آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے آزاد کردو کیونکہ یہ تو مومنہ عورت ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالی کے مخلوقات پر علو وبلندی کی دلیل ہے۔ اور اس عقیدے کا اعتراف اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اعتراف کسی کے ایمان کی دلیل ہے۔
یہ مختصر سے معانی تھے جو کچھ آپ نے دریافت کیا تھا ان کے۔ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ان آیات اور اس جیسی دیگر آیات اور اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر مشتمل صحیح احادیث کے معانی کےسلسلے میں مسلک اہل سنت والجماعت کی پیروی کرے۔ اور وہ یہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے، اور جس بات یا معنی پر یہ دلالت کرتے ہیں ان کی صحت کااعتقاد رکھا جائے، اور اسے ذاتی باری تعالی کی شان کےلائق بلاتحریف، تعطیل، تکییف وتمثیل کےثابت کیا جائے۔ یہ ہی وہ صحیح مسلک ہے ک جسے سلف صالحین نے اپنایا اور اس پر متفق رہے۔ اسی طرح سے ہر اس مسلمان پر واجب ہے جو اپنی سلامتی چاہتا ہے کہ ایسی بات میں واقع ہونے سے ڈرے جو غضب الہی کی موجب ہو اور اس مسلک حق کو چھوڑ کر اہل بدعت وضلالت کےطریقےکو اپنانے سے جو کہ صفات الہی کی یا تو نفی کرتے ہیں یا پھر غلط تاویل کرتے ہیں، اور اللہ تعالی تو اس سے پاک ہے اور بہت بلندو ارفع ہے جو کچھ یہ ظالم وجاہل لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی نور علی الدرب رقم 8206)​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین "​
سوال:
جزاکم اللہ عنا وعن المسلمین خیر الجزاء سائل سالم سلیم شمال سیناء سے سوال پوچھتا ہے کہ ہمارے یہاں ایک جماعت ہے جو یہ کہتی ہے کہ اللہ تعالی بذاتہ ہر جگہ ہے۔ ہم نے ان سے کہا یہ بات صحیح نہیں بلکہ وہ آسمان پر ہے اور دلیل بیان کی کہ
﴿اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ : 5) (جو رحمن ہے، عرش پر بلند ہے)
لیکن وہ ہماری بات نہ مانے اور اپنے عقیدے پر مصر اور ڈٹے رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ کفار ہیں اور جو ان کی جہالت میں پیروی کیے جارہے ہیں انہی کے حکم میں شامل ہوں گے، یا پھر ایسوں کے متعلق کیا کہا جائے گا؟ میں نے بعض کتب میں پڑھا ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ " ایسے گمراہوں کے متعلق کہا کرتے تھے کہ اگر میں تمہاری جیسی بات کروں تو میں کافر ہوجاؤ ں گا لیکن تم پھر بھی میرے نزدیک کافر نہیں ہو کیونکہ میں جانتے بوجھتے ایسا کرنے والا کہلاؤ گا اور تم جہالت میں ایسا کرتے ہو۔ پس ایسوں کے بارے میں صحیح قول کیا ہے، جواب دیں اجر پائيں؟
جواب:
ایسوں کےبارے میں صحیح قول وہی ہے جو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ " نے فرمایا کہ اگر وہ جاہل ہیں تو ان کی تکفیر صحیح نہیں۔ لیکن اگر انہیں علم ہے کہ اللہ تعالی آسمان پر ہے لیکن وہ تکبر کرتے اور ماننے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ نہ زمین پر ہے۔ حالانکہ یہ بات مخفی نہیں کہ ایسا کہنا کتنی بری اور باطل باتوں کو لازم کرتا ہے ، کیونکہ اگر آپ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ نعوذباللہ استنجاء خانوں، کچرا کنڈیوں، گندگی کی ڈھیروں وغیرہ میں بھی ہے۔ اور جو کوئی اپنے رب کو ایسی صفات سے متصف کرے کبھی ممکن ہی نہیں کہ وہ مومن ہو ۔ لیکن بعض لوگ (بناسوچے سمجھے) جو ایسا کہہ دیتے ہیں اس مسئلہ کے تعلق سے([7]) تو ہمیں چاہیے کہ ان سے احسن طریقے سے بات چیت ومناقشہ کریں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ﴾ (النحل: 125) اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے
(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے - فتاوى نور على الدرب، نصية : التوحيد والعقيدة)​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب​
سوال:
ہماری بستی میں ایک بڑی وسیع مسجد ہے کہ جس میں تقریباً 500 کےقریب نمازی جمع ہوسکتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس مسجد کا امام حلول کا فاسد عقیدہ رکھتاہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی اس مسجد میں بہت سی بدعات وخرافات ہوتی ہیں ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے اس مسجد کےامام سے مناقشہ کیا اوراس کے سامنے دلائل وبراہین پیش کیے کہ اللہ تعالی آسمان میں اپنے عرش پر مستوی ہے اور اس استوی کی ہم کیفیت وتمثیل بیان نہیں کرتے مگر اس پر ایمان لاتے ہیں۔ میں نے ان دلائل سے مدد لی جیسے :
﴿اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ : 5) (جو رحمن ہے، عرش پر بلند ہے)
اسی طرح سے میں نے اس کے آگے اسراء ومعراج کا واقعہ بیان کیا کہ جس میں رسول اللہ ﷺ اوپر گئے تھے، اسی طرح سے حدیث جاریہ(لونڈی والی حدیث جس کا ذکر پہلے ہوچکاہے) بیان کئے۔ اسی طرح سے
﴿اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ﴾ (فاطر: 10) (تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں ، اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے)
بیان کی لیکن وہ نہیں مانا اور اپنی ہٹ دھرمی وعقیدے پر جما رہا۔ یہ بات علم میں رہے کہ اس بستی میں ایک اور مسجد بھی ہے جہاں اسی قسم کی بدعات وخرافات ہوتی ہیں۔ میں نے ابھی تک اپنا سوال نہیں کیا۔ سوال دراصل یہ ہے کہ کیا میرے لیے جائز ہے کہ اس امام کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہیں، جبکہ مجھے نماز باجماعت پڑھنے سے شدید محبت ہے؟
جواب:
یہ لوگ کفار ہیں اوران کے پیچھے نماز صحیح نہیں۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رئیس: عبدالعزيز بن عبدالله بن باز
نائب رئیس: عبدالرزاق عفيفی
رکن: عبدالله بن قعود
فتاوی اللجنۃ الدائمۃ 7/361: الفتوی رقم (6825)۔​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال:
ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جو کہتا ہے کہ اللہ تعالی آسمان میں بھی ہے اور زمین پر بھی، جائز ہے کہ اللہ تعالی زمین پر بھی ہو تاکہ کہیں ہم اس کے لیے مکان کی تحدید کرنے کے مرتکب نہ ہوجائیں؟
جواب:
اہل سنت والجماعت کے عقیدے میں سے ہے کہ اللہ تعالی بلندی پر ہے اپنی تمام مخلوقات سے اوپرہے، اور وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا جیساکہ اس کی شان کے لائق ہے، اس کے دلائل میں سے یہ ہیں :
﴿اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ : 5) جو رحمن ہے، عرش پر بلند ہے
﴿وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾ (البقرۃ: 255، الشوری: 4) اور وہ بلند اور بہت عظیم ہے
﴿وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ﴾ (الانعام: 18، 61) اور وہی اللہ اپنے بندوں کے اوپر غالب اور برتر ہے
اورسیدنا عیسی ؑ کے متعلق فرمانا کہ:
﴿بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ﴾ (النساء: 158) بلکہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی طرف (اوپر) اٹھا لیا
(بلندی پر ہونےکے باوجود) وہ آسمان میں بھی الہ (معبود) ہے اور زمین پر بھی اس کی عبادت ہوتی ہے۔
﴿وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ﴾ (الزخرف: 84) وہی آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی وہی قابل عبادت ہے
وہ اپنی مخلوقات کےساتھ اپنے علم کے اعتبار سے ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ﴾ (الحدید: 4) تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے([8])
جو کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی بذاتہ زمین پر ہے تو یہ بات کتاب وسنت اور اجماع کے خلاف ہے اور یہ حلولیوں کا مذہب ہے کہ جو کہتے ہیں: اللہ تعالی ہر مکان میں حلول کرچکا ہے۔ جو کوئی جہالت سے ایسا کہے اسے صحیح حکم بیان کیا جائے، اگر وہ اصرار کرے یا پھر جہالت میں نہيں بلکہ مکمل علم ہونے کے باوجود ایسا کہتا ہے تو ایسا شخص اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرنے والا ہے، اور اس کے پیچھے نماز صحیح نہیں۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رئیس: عبدالعزيز بن عبدالله بن باز
نائب رئیس: عبدالرزاق عفيفی
رکن: عبدالله بن قعود
رکن: عبداللہ بن غدیان
فتاوی اللجنۃ 3/200، پہلا سوال رقم (3235)۔​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال:
مساجد میں قائم کچھ مذہبی تنظیمیں جو مسلمانوں کےبعض فرقوں سے تعلق رکھتی ہيں مثلاًوہ جماعتیں حدیث رسولﷺ کے متعلق عقل معیار بناتی ہیں اور اس طرح ہزاروں صحیح حدیثوں کا انکار کردیتی ہیں۔ بعض جماعتیں اللہ تعالی کے اسماء وصفات کوان کے ظاہری معنوں سے ہٹا کران کی دوسری تشریح کرتی ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں "مذہب سلف محفوظ ترین ہے مگر مذہب خلف علم وفہم کے اعتبار سے سلف سے بہتر ہے" انہوں نےیہ بات مشہور کررکھی ہے کہ "اللہ ہر جگہ موجود ہے" اس کے علاوہ اور بھی جماعتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی اپنی مسجدیں بھی بنارکھی ہیں۔ کیا ان مساجد میں ایسا عقیدہ رکھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟ ان میں سے کسی مسجد کا امام اگر یہ ظاہر کرے کہ وہ اس قول سےرجوع کرتا ہے تو کیا مجھےاس سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرے یا میں اس کی بات کوصحیح مان لوں؟
جواب:
الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ وآلہ وصحبہ وبعد:
جو شخص ان صحیح احادیث کا انکار کرتا ہے جونبی کریم ﷺ سے ثابت ہیں اور ان کی تکذیب کرتا ہے، وہ غلطی پر ہے اور گنہگار ہے۔ جہاں تک اس کے کافر ہونے کا تعلق ہے تو اس میں کچھ تفصیل ہے([9])۔جو شخص ان احادیث وآیات کی تاویل کرتا ہے جن میں اللہ تعالی کے اسمائے حسنی اور صفات مقدسہ بیان ہوئی ہیں اوران کے ظاہری معنی کوچھوڑ کر دوسرے معنی مراد لیتا ہے اوریہ کہتا ہے کہ "سلف کا مذہب زیادہ پختہ اور سلامتی والا ہے لیکن متاخرین کا علم زیادہ ہے" اس شخص کی یہ بات غلط ہے کہ متاخرین کا علم زیادہ ہے۔ کیونکہ سلف صالحین (صحابہ کرام وتابعین عظام وغیرہ) کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے زیادہ باخبر تھے اور انہیں زیادہ اچھی طرح سے سمجھتے تھے اور ان کے مطالب ومقصد سے خوب واقف تھے۔ لہذا ان کا مذہب متاخرین کے مذہب سے زیادہ پختہ اور زیادہ سلامتی وعلم والا ہے۔
اور جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات کے لحاظ سے ہرجگہ موجود ہے، وہ حلول کا عقیدہ رکھنے والا ہے، لہذا وہ کافر ہے اور شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی علم کے لحاظ سے ہرجگہ ہے، ذات کے لحاظ سے نہیں (بلکہ ذات کےلحاظ سے وہ عرش پر مستوی وبلد ہے جیسا کہ اس کی شان کےلائق ہے) تو وہ صحیح کہتا ہے اور جو شخص غلو کرتے ہوئے تمام صحیح احادیث نبویہﷺ کا انکار کرتا ہے اورصرف قرآن پر ایمان لانے کا دعوی کرتا ہے تو وہ بھی کافر ہے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ نہ اس کی اقتداء میں ادا کی ہوئی نماز ہوتی ہے۔ اسی طرح جو شخص اسمائے حسنی اور صفات باری تعالی اور قیامت وغیرہ کے نصوص کی تاویل کرتا ہے اور وحدۃ الوجود کے عقیدے کا قائل ہے یا اللہ تعالی کو ایک ایسا کلی وجود قرار دیتا ہے جس کا وجود صرف ذہن میں ہے ذہن سے باہر کہیں نہیں، یا موت کے بعدجسمانی طور پر اٹھنے کا انکار کرتا ہے ہوئے روحانی طور پر اٹھنےکا قائل ہے تو وہ بھی کافر ہے، اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ مذکورہ بالا افراد میں سے جو کوئی توبہ کرلے ہم اس کی توبہ کو صحیح سمجھیں گے اور اس کے دل کی صحیح کیفیت اللہ کےعلم میں ہے۔ (فتوی رقم3786)
وباللہ التوفیق وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم
اللجنۃ الدائمۃ (مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب)
صدر: عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز "
رکن: عبداللہ بن قعود
رکن: عبداللہ بن غدیان "
نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی "
(فتاوی دارالافتاء، سعودی عرب، جلد دوم، ص32-33، ط دارالسلام)​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حاشیہ جات

[1] اس مسئلہ کے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے اس موضوع پر بہترین کتاب "توحید خالص" از شیخ بدیع الدین شاہ راشدی " کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (ط ع)
[2] صحیح مسلم 540۔
[3] وہ سات مقامات یہ ہیں: الاعراف: 54، یونس: 3، رعد: 2، طہ: 5، الفرقان: 59، السجدۃ: 4، الحدید: 4۔ ( ط ع)
[4] حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
[5] سلف کا مؤقف ہے کہ جو الفاظ اللہ تعالی نے اپنی ذات وصفات کے لیے استعمال نہیں کیے اسے استعمال نہ کیا جائے۔ جیسے جسم وجہت قرآن وسنت میں نہ اس کی نفی ہے اور نہ اثبات مگر جب اہل بدعت اس کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی علماء کرام تفصیل بیان کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالی کی صفات جیسے چہرہ، قدم، ہاتھ، آنکھ وغیرہ کو بلاتشبیہ ماننے کو تم جسم ہونا کہتے ہو تو اسے ہم مانتے ہیں لیکن اگر تم جسم سے مراد مخلوق کے مشابہ جسم لے رہے ہو تو ہم اسے نہیں مانتے، اسی طرح سے اللہ تعالی کو بلندی وعرش پر بلاتشبیہ تسلیم کرنے کو اگر تم جہت ومکان ثابت کرنا کہتے ہو تو ہم اسے مانتے ہیں لیکن اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی جہت ومکان میں مقید ہے یا وہ اوپر کی جہت یا عرش اس کو محیط ہے تو یہ ہم نہیں مانتے بلکہ اللہ تعالی ان پر محیط ہے۔ (ط ع)
[6] اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿عٰلِمِ الْغَيْبِ ۚ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْـقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ﴾ (سباء: 3، یونس: 61) (ط ع)۔
[7] جیسا کہ یہ تجربہ رہا ہے کسی عام مسلمان سے پوچھو کہ اللہ تعالی کہاں ہے تو کہتاہے ہر جگہ لیکن جب اسے بعض نازیبا مقامات کا ذکرکرکے کہا جاتا ہے کیا وہاں بھی ہے؟ تو وہ پچھتاتے ہوئے کہتا ہے میرا مطلب ہے کہ وہ اوپر ہی ہے اس کا علم ہرجگہ ہے۔ یا کوئی کہتا ہے کہ اللہ توانسان کے دل میں رہتا ہے، جب اسے بھی دلائل بتائیں جائیں تو کہتا ہے کہ میرا مطلب یہی تھا کہ اس کی یاد اورخیال دل میں ہے وہ تو اعلی وبلند ہے۔ لہذا ایسا کہنے والوں پر عمومی حکم لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایک اور نکتے کو شیخ ابن عثیمین " کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ: (جیسا کہ اہل تاویل (مثل اشاعرہ وماتریدیہ) استوی علی العرش (اللہ تعالی کے عرش پر بلند ہونے) کی تاویل استولی (غلبہ) سے کرتے ہیں، مگر استوی کا انکار نہیں کرتے ، کیونکہ اگر کریں گےتو کافر ہوجائیں گے۔ اگر کوئی ایسی تاویل کرتا ہے جس کی لغت میں گنجائش ہے تو گمراہ ہونے کے باوجود وہ کافر نہیں کہلائے گا۔ لیکن اگر ایسی تاویل کرے کہ جس میں لغت تک کی گنجائش نہ چھوڑے جیسے اللہ تعالی کے ید(ہاتھ) کوحقیقی نہ مانے اور جو اس کی تاویل کرتے ہیں نعمت وقدرت سے اسے بھی نہ مانے تو وہ کافر ہے۔ کیونکہ اس نے (معطلہ کی مانند) مکمل نفی کردی۔ لیکن یہ لوگ اسکی تصدیق تو کرتے ہیں مگر معنوی تحریف کے مرتکب ہیں) (شرح اربعین نووی – مقدمہ)۔ (ط ع)
[8] اگر کوئی اسی آیت کو مکمل پڑھ کر اس پر غور کرلے تو عرش پر مستوی ہونے، ہر جگہ کا علم رکھنے کے اعتبار سے وہاں ہونے کا واضح بیان ہے، ملاحظہ ہو:
﴿هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ۭ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ﴾ (وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوگیا۔ اور وہ خوب جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آئے اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے (یعنی) اور جو تم کر رہے ہو وہ اللہ دیکھ رہا ہے)۔ (ط ع)
[9] مزید تفصیل کے لیے پڑھیں شیخ ابن باز " کا رسالہ "سنت پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کا انکار کفر ہے"۔
 
Top