• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ رب العالمین کی نازل شدہ شریعت میں مدت رضاعت صرف اور صرف دو سال ہے

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


اللہ رب العالمین کی نازل شدہ شریعت میں مدت رضاعت صرف اور صرف دو سال ہے


وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ


( البقرة : 233 )

مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو
اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو ہر شخص اتنی ہی تکلیف دیا جاتا ہے جتنی اس کی طاقت ہو ماں کو اس بچے کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، پھر اگر دونوں (یعنی ماں باپ) اپنی رضامندی سے باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں جب کہ تم ان کو مطابق دستور کے جو دینا ہو وہ ان کے حوالے کر دو اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ اللہ تعالٰی تمہارے اعمال کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔



 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436



تفسیر عثمانی میں شبیر احمد عثمانی بھی مانتے ہیں کہ رضاعت دو سال ہے


اور ساتھ میں مقلدین کے منہ پر طمانچہ بھی مارتے ہیں


اور کہتے ھیں کہ امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے نزدیک جو مدت رضاعت ڈھائی سال ہے اس کی ان کے پاس کوئی دلیل ھو گی


لکن ان کو بھی نہیں پتا کہ کون سی دلیل امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے پاس تھی


ثبوت































 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
تفسیر عثمانی میں شبیر احمد عثمانی بھی مانتے ہیں کہ رضاعت دو سال ہے
اور ساتھ میں مقلدین کے منہ پر طمانچہ بھی مارتے ہیں
اور کہتے ھیں کہ امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے نزدیک جو مدت رضاعت ڈھائی سال ہے
اس کی ان کے پاس کوئی دلیل ھو گی
لکن ان کو بھی نہیں پتا کہ کون سی دلیل امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے پاس تھی

السلام علیکم

محترم لولی، آپ نے مجھے پرائیوٹ میں ایسے ہی کسی اختلافی موضوع پر رائے دینے کو دعوت دی تھی جسے میں نے اگنور کر دیا کیونکہ آپ کا علم صرف کاپی تک ھے اپنے قلم سے کچھ بھی نہیں لکھ پاتے اور دوسرا لب و لہجہ بھی مشکوک ھے اس لئے اپنی عزت بچانا بھی فرض ھے۔

ایکڈمک لیول پر اگر گفتگو کی جائے تو ایسی ناشائستہ باتوں کی ضرورت پیش نہیں آتی ورنہ یہی سمجھا جاتا ھے کہ اچھے اساتذہ اور سکول سے تعلیم کا موقع نہیں مل پایا۔

ایسی گفتگو کے ساتھ اگر آپ اپنے پلیٹ فارم پر نقل کر کے لگائیں گے تو شائد محفوظ رہ سکیں ورنہ کسی دوسرے پلیٹ فارم پر ایسی گفتگو پر شائد آپ نہیں بچ پائیں، پھر بھی جہاں سے اس موضوع کے حوالہ سے آپ تمانچے کھا کر آئے ہیں وہاں سے ایک صفحہ اور عبارت میں یہاں شیئر کر دیتا ہوں۔

محترم موضوع چاہے نقل کئے ہوئے لگاؤ مگر مصالحے لگانے کے بغیر، تاکہ کوئی اس میں اگر چاہے تو اپنی رائے کے مطابق حصہ لے۔

لولی صاحب
اعتراض تو آپ کا امام ابو حنیفہ رھ پہ ہے لیکن سعودیہ کی فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے
" تو يہ معلوم ہوا كہ رضاعت ميں ہى بچے كى مصلحت و حق ہے، اور اگر بچے كو دودھ چھڑانے ميں ضرر و نقصان ہو تو دو برس سے قبل اسے دودھ چھڑانا جائز نہيں ہوگا، چنانچہ اگر مصلحت ہو اور بچے كو ضرر سے دور ركھنا مقصود ہو تو ماں كے ليے دو برس كے بعد بھى بچے كو دودھ پلانا جائز ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ اپنى كتاب " تحفۃ المودود في احكام المولود " ميں كہتے ہيں:​
" ماں كے ليے بچے كو اڑھائى سال سے بھى زيادہ دودھ پلانا جائز ہے " انتہى​
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 60 ).
اور یہ فتوی علامہ ابن بازؒ، شیخ عبدالعزیز الشیخ اور شیخ صالح الفوزان کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ علامہ ابن قیم کے نزدیک اڑھائی سال سے بھی ذیادہ دودھ پلانا جائز ہے۔




لولی اب ذرا بتانا کہ علامہ ابن قیم بھی اڑھائی سال کہہ رہے ہیں دودھ پلانے کے لئے تو ان پہ کیا فتوی لگے گا؟؟؟ کتنے طمانچے ان پہ لگاؤ گے۔۔؟

صاحب مراسل کو بھی اتنی شرم ھے کہ اس نے جواب میں لولی کو ہی لکھا کہ کتنے تمانچے لگاؤ گے۔​
محترم لولی اپنی معلومات اس طرح شیئر کرو کہ مجھ جیسا بھی اس میں آسانی سے حصہ لے سکے۔​
والسلام​
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اسی موضوع پر کسی تھریڈ میں جوب دیا ہے اگر مجھے مل جاتا ہے تو انشاءاللہ پیش کردوں گا لیکن سردست اتنا عرض کردیتا ہوں بعض اکابر نے اس کنڈیشنل تسلیم کیا ہے وہ بچہ کی صحت پر منحصر ہے اس اعتبار سے دوسال سے ڈھائی اور کچھ زیادہ بھی مدت بڑھائی جا سکتی جیسا کہ ابن قیم ؒ کا فرمان ہے
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
لولی بھائی کنعان بھائی کے مشورہ غور فرمائیں،اور اگر آپکے پاس اتنے مضبوط دلائل ہیں،تو ذرا حناف حضرات کے فورم یہ مباحث لے جائے ،تا کہ ہمیں بھی اصل صورتحال پتہ چل سکے،اپنے انگن میں ناچنے کا کوئی مقصد نہیں،میں اگر میں تصوف کی باتیں حناف سے کروں تو کیا حاصل ۔وہ کون سے انکاری ہیں ،اس لئے بات یہاں کی جاتی ہے کہ یہاں پر منکرین تصوف حضرات تشریف رکھتے ہیں ،ان کے سامنے یہ دلائل رکھے جائے۔تو اآپ بھی مہربانی فرما کر بات وہاں کریں اور اسکا لنک ہمیں دے دے ،تا کہ ہمیں بھی آپ کی قابلیت کا اندازہ ہو سکے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
میری گزارش ہے کہ اگر موضوع شروع کرنے والے صاحب نے اپنی پوسٹ میں کچھ غلط لکھ بھی دیا ہے تو اس کی جانب فقط نشاندہی کی جائے اور اس کی ذات کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ورنہ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جس چیز کی شکایت ہم کسی دوسرے سے کر رہے ہوتے ہیں، اسی میں دراصل خود مبتلا ہو جاتے ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

السلام علیکم

محترم لولی، آپ نے مجھے پرائیوٹ میں ایسے ہی کسی اختلافی موضوع پر رائے دینے کو دعوت دی تھی جسے میں نے اگنور کر دیا کیونکہ آپ کا علم صرف کاپی تک ھے اپنے قلم سے کچھ بھی نہیں لکھ پاتے اور دوسرا لب و لہجہ بھی مشکوک ھے اس لئے اپنی عزت بچانا بھی فرض ھے۔

ایکڈمک لیول پر اگر گفتگو کی جائے تو ایسی ناشائستہ باتوں کی ضرورت پیش نہیں آتی ورنہ یہی سمجھا جاتا ھے کہ اچھے اساتذہ اور سکول سے تعلیم کا موقع نہیں مل پایا۔

ایسی گفتگو کے ساتھ اگر آپ اپنے پلیٹ فارم پر نقل کر کے لگائیں گے تو شائد محفوظ رہ سکیں ورنہ کسی دوسرے پلیٹ فارم پر ایسی گفتگو پر شائد آپ نہیں بچ پائیں، پھر بھی جہاں سے اس موضوع کے حوالہ سے آپ تمانچے کھا کر آئے ہیں وہاں سے ایک صفحہ اور عبارت میں یہاں شیئر کر دیتا ہوں۔

محترم موضوع چاہے نقل کئے ہوئے لگاؤ مگر مصالحے لگانے کے بغیر، تاکہ کوئی اس میں اگر چاہے تو اپنی رائے کے مطابق حصہ لے۔



صاحب مراسل کو بھی اتنی شرم ھے کہ اس نے جواب میں لولی کو ہی لکھا کہ کتنے تمانچے لگاؤ گے۔​
محترم لولی اپنی معلومات اس طرح شیئر کرو کہ مجھ جیسا بھی اس میں آسانی سے حصہ لے سکے۔​
والسلام​
آپ سے گزارش ہے کہ درج سوالوں کے دوٹوک جواب میں آپ اپنا موقف بیان کیجئے!
انتہائی آسان الفاظ میں یہ کہ کیا آپ کے نزدیک مدتِ رضاعت کے متعلّق امام ابو حنیفہ﷫ کا اڑھائی سال والا موقف راجح ہے یا جمہور کا قرآن وحدیث کے آج موجود صحیح وصریح دلائل کی بناء پر دو سال والا؟؟؟!!!
كيا آپ کے نزدیک نمازِ استسقاء کے متعلّق امام ابو حنیفہ﷫ کا فتوائے بدعت راجح ہے یا آج موجود صحیح وصریح نصوص کی بناء پر جمہور کا فتویٰ کہ وہ سنت ہے؟؟!!
کیا آپ کے نزدیک امام ابو حنیفہ﷫ کا فتویٰ کہ مرتد خاتوں کی سزا قتل نہیں ہے راجح ہے یا جمہور کا آج موجود صحیح وصریح احادیث مبارکہ کی بناء پر فتویٰ کہ اس کی سزا بھی مرد مرتد کی طرح قتل ہے؟؟!!
وعلیٰ ہذا القیاس!
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
لولی بھائی کنعان بھائی کے مشورہ غور فرمائیں،اور اگر آپکے پاس اتنے مضبوط دلائل ہیں،تو ذرا حناف حضرات کے فورم یہ مباحث لے جائے ،تا کہ ہمیں بھی اصل صورتحال پتہ چل سکے،اپنے انگن میں ناچنے کا کوئی مقصد نہیں،میں اگر میں تصوف کی باتیں حناف سے کروں تو کیا حاصل ۔وہ کون سے انکاری ہیں ،اس لئے بات یہاں کی جاتی ہے کہ یہاں پر منکرین تصوف حضرات تشریف رکھتے ہیں ،ان کے سامنے یہ دلائل رکھے جائے۔تو اآپ بھی مہربانی فرما کر بات وہاں کریں اور اسکا لنک ہمیں دے دے ،تا کہ ہمیں بھی آپ کی قابلیت کا اندازہ ہو سکے۔

یہ بات ذہن میں رکھیں کہ احناف کے مدارس دو سال کی رضاعت کا فتوی دیتے ہیں۔



امام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دینا جائز ہے بلکہ واجب ہے اگرچہ ہمیں ان کی دلیل کا علم نہ ہو
(ردالمحتار١ - ٤٩)

پس ثابت ہوا کہ حنفی مذہب میں کچھ مقلدین کے اپنے امام کے خلاف دو سال رضاعت کا جو فتویٰ دیا ہے وہ ان کے اپنے اصولوں کی وجہ سے باطل ہے۔

شبیر احمد عثمانی دیوبندی کے نزدیک بھی قرآنی الفاظ ثَلَاثُونَ شَهْرً‌ا ڈھائی سال مدت رضاعت کی دلیل نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے دو سال مدت رضاعت بیان کرنے والی سورہ لقمان کی آیت نمبر ١٤ کی تفسیر میں لکھا ہے: دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی ہے باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہے۔ امام ابوحنیفہ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔جمہور کے نزدیک دو سال ہی ہے۔واللہ اعلم۔
(تفسیر عثمانی، صفحہ ٧٠٧، حاشیہ نمبر١٥)
پس اگر قرآن میں کوئی ایسی آیت ہوتی جس کا مطب ڈھائی سال مدت رضاعت ہوتا تو شبیر احمد عثمانی اسے امام ابوحنیفہ کی دلیل کے طور پر پیش کر دیتے۔
حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب کے نزدیک امام ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت غلط اور حرام ہے کیونکہ انہوں نے لکھا ہے: دو برس کے بعد دودھ پینا بالکل حرام ہے۔
(بہشتی زیور،چوتھا حصہ، صفحہ ١٨، مسئلہ نمبر١٣)

حوالہ اس لنک پر

اب اگر دیوبندی ڈھائی سال مدت کی رضاعت کے لئے قرآن سے کوئی دلیل پیش کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اشرف علی تھانوی کے نزدیک ایک حرام کام کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارا مقلدین سے سوال ہے کہ کیا قرآن حرام کاموں کا حکم دیتا ہے؟؟؟

دیوبندیوں کے مناظر اسلام، ترجمان اہلسنت اور وکیل احناف جیسے القابات رکھنے والے امین اوکاڑوی صاحب فرماتے ہیں:مجتہد کی رائے کتاب وسنت اور اجماع کی دلیل پر مبنی ہوتی ہے۔اس رائے کا نام فقہ ہے اور ایسی رائے جو کسی دلیل شرعی پر مبنی نہ ہو اس رائے کو بدعت کہتے ہیں۔اس رائے سے ائمہ مجتہدین بالکل پاک ہیں۔
(تجلیات صفدر،جلد سو، صفحہ ٥٤٠)
امین اوکاڑوی صاحب کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ مجتہد کا ہر فتویٰ اور ہر رائے قرآن وحدیث کی اجماع کی دلیل پر مبنی ہوتے ہیں اور ایسا ممکن ہی نہیں کہ مجتہد کوئی ایسی بات کہے جس کی دلیل قرآن و حدیث اور اجماع میں موجود نہ ہو۔ اب میرے بھائی یا تو اس بات کا اقرار فرمائیں کہ یہاں امین اوکاڑدی دیوبندی نے خالص کذب بیانی سے کام لیا ہے ورنہ دوسری صورت میں وہ
دلیل ذکر کریں جس کی بنیاد پر ابوحنیفہ نے رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتائی ہے۔
ابوبکر غازی پوری دیوبندی لکھتے ہیں:لیکن چونکہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ عقیدہ اور مسلک کا باب میں اعتماد ہمیشہ متقدمین پر کیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلہ میں بعد میں آنے والوں پر اعتماد نہیں کیا جاتااس لئے غیر مقلدین کے عقائد اور مذہب کے بارے میں بھی وہی باتیں معتبر ہوں گی جو ان کے مذہب کی کتابوں میں مدون اور جمع ہیں،بعد میں آنے والوں کا کوئی اعتبار نہیں۔
(کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ ١١٤)
اب مقلدین کے پاس اس کے علاوہ کوئی صورت باقی نہیں کہ وہ سارے کام چھوڑ کر اپنے امام کی وہ غائب دلیل لائیں جو کہ بقول شبیر احمد عثمانی "کوئی اور دلیل ہوگی" یا پھر ثابت کریں کہ قرآن سے ڈھائی سال مدت رضاعت کیسے ثابت ہوتی ہے؟



 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ سے گزارش ہے کہ درج سوالوں کے دوٹوک جواب میں آپ اپنا موقف بیان کیجئے!
انتہائی آسان الفاظ میں یہ کہ کیا آپ کے نزدیک مدتِ رضاعت کے متعلّق امام ابو حنیفہ﷫ کا اڑھائی سال والا موقف راجح ہے یا جمہور کا قرآن وحدیث کے آج موجود صحیح وصریح دلائل کی بناء پر دو سال والا؟؟؟!!!
كيا آپ کے نزدیک نمازِ استسقاء کے متعلّق امام ابو حنیفہ﷫ کا فتوائے بدعت راجح ہے یا آج موجود صحیح وصریح نصوص کی بناء پر جمہور کا فتویٰ کہ وہ سنت ہے؟؟!!
کیا آپ کے نزدیک امام ابو حنیفہ﷫ کا فتویٰ کہ مرتد خاتوں کی سزا قتل نہیں ہے راجح ہے یا جمہور کا آج موجود صحیح وصریح احادیث مبارکہ کی بناء پر فتویٰ کہ اس کی سزا بھی مرد مرتد کی طرح قتل ہے؟؟!!
وعلیٰ ہذا القیاس!
 
Top