ابوابراہیم فیصل
مبتدی
- شمولیت
- فروری 27، 2025
- پیغامات
- 13
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 5
" اللہ رب العزت کی صفات میں ملحدین کے مغالطوں کا رد "
۔۔۔
ملحدین ہمیشہ اللہ کی صفات میں نقائص پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں حارث سلطان نامی ملحد نے اعتراض کیا تھا کہ وہ اللہ کس طرح خدا ہو سکتا ہے جو مکر کرتا ہو ، کسی کا ٹھٹھا اڑاتا ہو یا پھر کسی کو دھوکہ دیتا ہو ۔؟نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْأَھْوَاءِ الْمُضِلَّۃِ وَالْعَقَاءِدِ الْبَاطِلَۃِ وَ خُذْلَانِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی
اللہ تعالیٰ کی صفات سب سے اعلیٰ صفات ہیں ان میں کسی قسم کا نقص نہیں ہو سکتا البتہ لغوی اعتبار سے بھی صفات کی کاملیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر " دھوکہ ، مکر اور استھزاء " جیسے الفاظ بھی قرآن و حدیث میں یا شروحات یا تفاسیر میں بیان کئے گئے ہوں تو اس میں سے کمال صفت کو برقرار رکھا جائے گا اور نقص کو دور کر دیا جائے گا ۔
جیسے قرآن میں الفاظ ہیں
وَمَكَـرُوْا وَمَكَـرَ اللّـٰهُ ۖ وَاللّـٰهُ خَيْـرُ الْمَاكِرِيْنَ (54)
اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر فرمائی، اور اللہ بہترین خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سے ہے۔ ( آل عمران)
یہاں پر جب مکر کا لفظ اللہ کی ذات کے لئے استعمال ہوا تو اس سے نقص اس طرح دور ہوا کہ اللہ ان لوگوں کے خلاف تدبیر کرے گا جو مسلمانوں اور اہل ایمان کے خلاف مکر کریں گے ۔ ایسا کس طرح ممکن ہے کہ جو کفار اللہ کی جماعت کے خلاف مکر و عیاری سے کام لے رہے ہوں ۔؟ اللہ مسلمانوں کی نصرت کے لئے ان مکاروں کے خلاف تدبیر نہ کرے ؟
قرآن مجید کا دوسرا مقام۔۔
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ١ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى١ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ۔
منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے) وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر (صرف) لوگوں کے دکھانے کو اور خدا کی یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم ( النساء آیت نمبر 142)
اللہ تعالیٰ کی ذات کے لائق نہیں کہ وہ دھوکہ دے ۔ لیکن یہاں پر بھی مسلمانوں کی امداد و نصرت مقصود ہے ۔ یہاں پر منافقین جو اپنے دلوں میں اسلام کے لئے بغض ، عناد و دشمنی لئے بیٹھے ہیں ۔ وہ بھوجل دلوں کے ساتھ سستی اور کاہلی سے نماز میں کھڑۓ ہوتے ہیں ۔ اللہ کی جماعت کا دل سے ساتھ نہیں دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی صفت علیم و خبیر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ ان دشمنوں سے مسلمانوں کو باخبر کر دے جو ان کو نقصان پہنچانے کے لئے ان کی جماعت میں شامل ہیں ۔ اس لئے اللہ رب العزت کی ذات سے یہ نقص بھی رفع ہوا کہ وہ دھوکہ دیتا ہے ۔ بلکہ وہ ہر طرح سے مسلمانوں کی نصرت و تائید کرتا ہے ۔
قرآن مجید کا تیسرا مقام ۔
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
ان (منافقوں) سے خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیے جاتا ہے کہ شرارت و سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں( سورہ البقرہ : 15)
حافظ عبدالسلام بن محمد فرماتے ہیں ۔۔
منافقین دل میں کفر رکھنے اور کفار کا ساتھ دینے کے باوجود مسلمانوں سے ملتے تو ”اٰمَنَّا“ کہتے اور اسے اہل ایمان کے ساتھ مذاق قرار دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی جواباً ان کے ساتھ یہی معاملہ فرمایا کہ ان کے متعلق یہ طے کر دیا کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے حصے میں ہوں گے، اس کے باوجود دنیا میں انھیں مسلمان قرار دیا اور ان کی رسی دراز کر دی، تاکہ وہ سرکشی میں زیادہ سے زیادہ بڑھ جائیں ، فرمایا : ﴿ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَهُمْ لِيَزْدَادُوْۤا اِثْمًا ﴾ [ آل عمران : ۱۷۸ ] ’’ہم انھیں صرف اس لیے مہلت دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں بڑھ جائیں ۔‘‘ وہ ان کا مذاق تھا یہ اللہ تعالیٰ کا مذاق ہے۔ قرآن مجید میں ایسے الفاظ مقابلے میں استعمال ہوئے ہیں جو ابتداءً کم ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مذاق کرنے میں وہ معاملہ بھی شامل ہے جو قیامت میں منافقین کو پیش آئے گا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جاتے ہوئے ان کے نور سے راستہ دیکھتے ہوئے جا رہے ہوں گے کہ یکایک ایک دیوار کے ذریعے سے جہنم کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔ [ ديكهيے حديد : ۱۲ تا ۱۵ ]
پس ثابت ہوا ، اللہ رب العزت کی طرف سے کفار ، مشرکین و منافقین کو دھوکہ دینا ، مکر کرنا ، استھزاء کرنا یہ کوئی نقص نہیں ۔ بلکہ صفت کمال کا دوسرا پہلو ہے کہ اس سے مراد مسلمانوں کی نصرت و تائید ہے ۔ اس طرح وہ ہر نقص اور عیب سے پاک ہے ۔
اللہ رب العزت فرماتا ہے
لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۖ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
ان لوگوں کے لیے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، بری مثال ہے اور اللہ کے لیے سب سے اونچی مثال ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ (سورہ النحل : آیت نمبر 60)
وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ( الإخلاص:4)
اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔
اللہ جل وعلا کی بلندی مطلق ہے، اور اس کی صفات ہر لحاظ سے کمال ہیں جیسے عزت، رحمت، کرم، جود، نیکی، احسان، عطا، اور شفقت۔
صفات باری تعالیٰ میں ایک اور قانون سمجھنے لائق ہے جس کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کی دو اقسام ہیں ۔ "ایک ثبوتی" ۔ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائیں اور " دوسری سلبی " جس میں رب تعالیٰ نے خود ان صفات کی نفی فرما دی ۔
ثبوتی صفات جیسا کہ اللہ کے ہاتھوں کا ثبوت صحیح بخاری کی حدیث میں ہے ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ يَمِينَ اللَّهِ مَلْأَى لَا يَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ؟، فَإِنَّهُ لَمْ يَنْقُصْ مَا فِي يَمِينِهِ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الْأُخْرَى الْفَيْضُ، أَوِ الْقَبْضُ يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے اسے کوئی خرچ کم نہیں کرتا جو دن و رات وہ کرتا رہتا ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب سے زمین و آسمان کو اس نے پیدا کیا ہے کتنا خرچ کر دیا ہے۔ اس سارے خرچ نے اس میں کوئی کمی نہیں کی جو اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے جسے وہ اٹھاتا اور جھکاتا ہے۔ ( صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7419)
اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ثابت ہیں اس لئے یہ ثبوتی صفت ہے۔ لیکن اس کی کیفیت کیا ہے وہ اللہ نے ہمیں نہیں بتائی ۔ اس پر ہم خاموشی اختیار کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کی پنڈلی حدیث سے ثابت ہے اس کی کیفیت کیا ہے ہمیں معلوم نہیں ۔
يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ
جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدے کی طرف بلائے جائیں گے تو وہ طاقت نہیں رکھیں گے۔ (القلم : 42)
اسی طرح صحیح بخاری میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهٗ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ وَ يَبْقٰی مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَ سُمْعَةً فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ فَيَعُوْدُ ظَهْرُهٗ طَبَقًا وَاحِدًا )) [بخاري، التفسیر، باب : ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : ۴۹۱۹ ]
’’ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت اس کو سجدہ کریں گے اور وہ شخص باقی رہ جائے گا جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لیے سجدہ کرتا تھا، وہ سجدہ کرنے لگے گا تو اس کی پیٹھ ایک طبق ہوجائے گی(یعنی دوہری نہیں ہو سکے گی)۔‘‘
(( هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهٗ آيَةٌ تَعْرِفُوْنَهُ؟ فَيَقُوْلُوْنَ السَّاقُ فَيَكْشِفُ عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهُ )) [بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿وجوہ یومئذ ناظرۃ....﴾ : ۷۴۳۹ ] ’’کیا تمھارے اور تمھارے رب کے درمیان کوئی نشانی ہے جسے تم پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’پنڈلی ہے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اسے سجدہ کرے گا۔‘‘
اسی طرح اللہ کا چہرہ ثابت ہے ۔۔
((وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ)) [الرحمٰن: 27]،
’’اور باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ جو لامحدود عظمت و عزت والا ہے‘‘
((وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ)) الآیۃ [الکھف: 28]۔
’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھ جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں‘‘ (الکہف: 28)
((وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ)) [البقرۃ: 115]۔
’’اور اللہ ہی کے لئے مشرق و مغرب ہے، تو تم جس طرف رُخ کرو، سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے‘‘
اللہ کا چہرہ ہونا بھی ثابت ہے لیکن اس کی کیفیت اور بناوٹ کیسی ہے قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔
ثبوتی صفات کی موجودگی پر یقین رکھنا اور اس کی کیفیت پر کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہ کرنا ہی اصل ایمان ہے ۔
جیسے اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ۔
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا۔
(سورہ الاسراء: آیت نمبر 36)
جو لوگ بھی اللہ رب العزت کے وجود کے بارے میں اپنے ظن اور عقل سے اس کی صفات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قرآن و حدیث میں ایسے مفسرین کے لئے کوئی دل جوئی نہیں کی گئی ۔
﴿وَ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ﴾ [ النجم : ۲۸ ]
’’حالانکہ انھیں اس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمان کے پیچھے چل رہے ہیں۔‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ )) [ بخاری، الأدب، باب : ﴿یأیھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن....﴾ : ۶۰۶۶ ] ’’گمان سے بچو، یقیناً گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔‘‘ اسی طرح سنی سنائی بات بلا تحقیق بیان کرنا بھی منع ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كَفَی بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُّحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ )) [مسلم، المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع : ۵، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر وہ بات آگے بیان کر دے جو اس نے سنی ہو۔‘‘
ہم میں سے اکثر لوگ ملحدین کی چرب زبانی کے باعث اور عقیدے کی صحیح جانکاری نہ ہونے کے باعث ہی صفات باری تعالیٰ پر ان کے کئے گئے مکر و فریب سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور خود قرآن و حدیث میں جو قوانین بیان کئے گئے ہیں ان سے لا علم ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے بھٹکنے کے چانسز بہت زیادہ ہو جاتے ہیں ۔
سلبی صفات وہ ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں اپنے بارے میں نفی کی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی نفی کی ہے
جس طرح اللہ رب العزت فرماتا ہے ۔
إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَٰكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
بے شک اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا اور لیکن لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (سورہ یونس : 109 )
یقینا جب کوئی منافق یا نا فرمان اللہ کے حکموں کی حکم عدولی کرے گا تو وہ خود پر ظلم کرے گا ۔ وہ خالق کائنات پر ظالم ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا ۔ ملحدین کا یہ وطیرہ بھی ہے کہ وہ جہاں بھی کفار ، منافقین ، مشرکین کے ساتھ اللہ کے سلوک کا ذکر آتا ہے وہ اس کو اللہ کی صفت بنا دیتے ہیں ۔ جبکہ وہ اللہ کی صفات کاملہ کا وہ رخ ہوتا ہے جو مسلمانوں کی نصرت و تائید کے لئے بیان کیا گیا ہوتا ہے اور سلبی صفات کو بھول جاتے ہیں جیسے اللہ ظلم نہیں کرتا ۔ انسان خود پر ظلم کرتا ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے
مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ
جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہوگی اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہرگز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔(سورہ فصلت :46)
ملحدین اللہ کی سلبی صفات کا بھی استھزاء کرتے ہیں ۔ مثلا کہ اللہ نے معجزات انبیاء کے ادوار میں ہی کیوں کئے کیا وہ معجزات کرتے کرتے تھک گیا " اللہ رب العزت نے اس کا رد بھی قرآن کریم فرقان حمید میں کیا ۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کسی قسم کی تھکاوٹ نے نہیں چھوا۔ (سورہ :ق ، آیت نمبر 38)
قرآن مجید میں ان کے ہر اعتراض کا جواب آج سے 14 سو برس پہلے دیا جا چکا ۔۔
أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ
تو کیا ہم پہلی دفعہ پیدا کرنے کے ساتھ تھک کر رہ گئے ہیں؟ بلکہ وہ ایک نئے پیدا کیے جانے کے متعلق شک میں مبتلاہیں۔ ( سورہ ق:15 )
ملحدین یہاں پر ایک اعتراض کرتے ہیں کہ ایک طرف اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ وہ انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ، دوسری طرف وہ ہمیں نظر بھی نہیں آتا ۔ ؟
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
اور بلا شبہ یقیناً ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (سورہ ق: 16)
حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ تفسیر القرآن الکریم میں فرماتے ہیں ۔
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ: وسوسہ کا اصل معنی وہ ہلکی یا دبی ہوئی حرکت یا آواز ہے جو عام طور پر محسوس نہ ہوتی ہو۔ اس سے مراد وہ بات بھی ہوتی ہے جو بالکل آہستہ آواز سے کسی کے کان میں کہی جائے اور صرف اسی کو سنائی دے اور وہ بات بھی جو بغیر آواز کے کسی کے دل میں ڈال دی جائے، جیسے شیطان یا نفس انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ قیامت کے منکروں کے اس شبہ کا جواب کہ جب ہم مر کر مٹی ہو گئے تو دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے، اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ ہم انسان کے مٹی ہو جانے والے ہر ذرے کو جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہے، وہ نہ ہمارے علم سے باہر ہے اور نہ ہماری دسترس اور قدرت سے، ہم جب چاہیں گے اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے، اب فرمایا خاک کے ذرّات کا وجود تو پھر بھی باقی رہتا ہے اور نظر آتا ہے، ہم تو انسان کی وہ چیزیں بھی جانتے ہیں جو اس سے بھی زیادہ مخفی ہیں اور بظاہر ان کا وجود بھی باقی نہیں رہتا، کیونکہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے تو ہم سے بڑھ کر اسے کون جان سکتا ہے؟ فرمایا: ﴿ اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾ [الملک: ۱۴] ’’کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
اس لئے قرآن میں یہ کہنا کہ رگ جاں سے زیادہ قریب ہے مراد باریک بین ، باخبر ہونا ہے ۔ جیسا کہ اللہ کی "صفت علیم" ہے یعنی وہ ہر چیز کا جاننے والے ہے۔
جبکہ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے ۔
ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ[102] لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ[103]
یہی اللہ تمھارا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ [102] اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے( سورہ الانعام )
یعنی اللہ ہر چیز کا خالق ہے ۔ انسانی آنکھ کا خالق بھی اللہ ہے ۔ لیکن اللہ رب العزت کے وجود کو کوئی آنکھ دیکھ نہیں سکتی ۔ اس وقت تک جب تک کہ فیصلہ نہ ہو جائے انسان اہل ایمان میں سے ہے یا نہیں یا انسان اہل جنت میں سے ہے یا نہیں ۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے اہل جنت کو اپنے دیدار کا وعدہ دیا ہے ۔
عن صهيب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا دخل اهل الجنة الجنة، قال: يقول الله تبارك وتعالى: تريدون شيئا ازيدكم؟ فيقولون: الم تبيض وجوهنا، الم تدخلنا الجنة، وتنجنا من النار؟ قال: فيكشف الحجاب، فما اعطوا شيئا احب إليهم من النظر إلى ربهم عز وجل "،
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: ”جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے، (اس وقت) اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا تمہیں کوئی چیز چاہیے جو تمہیں مزید عطا کروں؟ وہ جواب دیں گے: کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے! کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نجات نہیں دی؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ پردہ اٹھا دے گا تو انہیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہو گی جو انہیں اپنے رب عز وجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو۔“(حدیث نمبر: 449 صحیح مسلم )
پس ثابت ہوا کہ اس دنیا کی زندگی میں کسی بشر کو اللہ رب العزت نے اپنا دیدار نہیں کروایا نہ کروائے گا ۔ اس لئے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ دکھتا نہیں اس لئے اس کا وجود نہیں ایک باطل اور کفریہ عقیدہ ہے ۔ اس کی دو وجوہات اور بھی ہیں اللہ کی نہ کوئی مثل ہے اور نہ ہی وہ اس کرہ ارض پر موجود ہے ۔ وہ عرش پر استویٰ کئے ہوئے ہے ۔ اور اس کی کیفیت کا علم اللہ نے ہمیں نہیں دیا ۔
اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی ﴿۵﴾
جو رحمٰن ہے ، عرش پر قائم ہے ۔ (سورہ طہٰ)
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ اللہ کا عرش پر ہونا کسی بھی مخلوق کی صفت سے مشابہ نہیں ۔ اللہ نے قرآن مجید فرقان حمید میں بے شمار جگہ ارشاد فرمایا کہ اس نے اس کائنات کو زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ۔ تو ہر اعتبار سے یہ کائنات یہ زمین و آسمان سب اللہ کی مخلوق ہیں ۔ اس لئے یہ کہنا کہ اللہ ہمیں خود آ کر اپنا وجود کیوں نہیں دیکھاتا ایک باطل اعتراض ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خالق مخلوق کا حصہ نہیں ہوتا ۔ کبھی کسی ترکھان کو کرسی یا میز کے اندر داخل ہوتے دیکھا ہے کہ وہ اس بے جان کو سمجھائے کہ میں تیرا خالق ہوں ۔ انسانی آنکھ کی بصارت میں وجود باری تعالیٰ کو اس کائنات میں دیکھنے کی صلاحیت دی ہی نہیں گئی ۔
اس کو دیکھنے کے لئے سات آسمانوں اور پھر اس کے عرش کا پردہ ہے ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلنَّاسُ یَصْعَقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَکُوْنُ أَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ فَإِذَا أَنَا بِمُوْسٰی آخِذٌ بِقَاءِمَۃٍ مِنْ قَوَاءِمِ الْعَرْشِ فَلَا أَدْرِيْ أَفَاقَ قَبْلِيْ أَمْ جُوْزِيَ بِصَعْقَۃِ الطُّوْرِ ) ” لوگ قیامت کے دن بےہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلا شخص جو ہوش میں آئے گا میں ہوں گا۔ اچانک میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے پایوں میں سے ایک پائے کو پکڑے ہوئے ہوں گے، تو میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے، یا انھیں طور کی بےہوشی کا بدلہ دیا گیا۔ “ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( وواعدنا موسیٰ ثلاثین۔۔ ) : ٣٣٩٨، عن أبي سعید الخدري۔ ] مگر اللہ کا عرش پر ہونا یا اس کی کوئی بھی صفت مخلوق کی صفت کے مشابہ نہیں، فرمایا : (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) [ الشورٰی : ١١ ]” اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “
اگر اس کرہ ارض پر اللہ کے دیدار کی قوت انسان کو دی گئی ہوتی تو سب سے پہلے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت کا دیدار فرماتے ۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مطابق سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دیدار الٰہی کی تڑپ پر جس آزمائش کا سامنا کرنا پڑا تھا تو اللہ رب العزت روز محشر اس کا بدلہ انہیں عطا فرما دیں گے اور روز قیامت رسول اللہ ﷺ سمیت تمام اہل جنت اس کا مظاہرہ دیکھ لیں گے ۔ اللہ رب العزت مجھ سمیت تمام اہل توحید اہل ایمان کو اللہ رب العزت اور رسول اللہ ﷺ کا دیدار نصیب فرمائے آمین ۔
ازقلم: عبدالسلام فیصل
۔۔۔
ملحدین ہمیشہ اللہ کی صفات میں نقائص پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں حارث سلطان نامی ملحد نے اعتراض کیا تھا کہ وہ اللہ کس طرح خدا ہو سکتا ہے جو مکر کرتا ہو ، کسی کا ٹھٹھا اڑاتا ہو یا پھر کسی کو دھوکہ دیتا ہو ۔؟نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْأَھْوَاءِ الْمُضِلَّۃِ وَالْعَقَاءِدِ الْبَاطِلَۃِ وَ خُذْلَانِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی
اللہ تعالیٰ کی صفات سب سے اعلیٰ صفات ہیں ان میں کسی قسم کا نقص نہیں ہو سکتا البتہ لغوی اعتبار سے بھی صفات کی کاملیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر " دھوکہ ، مکر اور استھزاء " جیسے الفاظ بھی قرآن و حدیث میں یا شروحات یا تفاسیر میں بیان کئے گئے ہوں تو اس میں سے کمال صفت کو برقرار رکھا جائے گا اور نقص کو دور کر دیا جائے گا ۔
جیسے قرآن میں الفاظ ہیں
وَمَكَـرُوْا وَمَكَـرَ اللّـٰهُ ۖ وَاللّـٰهُ خَيْـرُ الْمَاكِرِيْنَ (54)
اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر فرمائی، اور اللہ بہترین خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سے ہے۔ ( آل عمران)
یہاں پر جب مکر کا لفظ اللہ کی ذات کے لئے استعمال ہوا تو اس سے نقص اس طرح دور ہوا کہ اللہ ان لوگوں کے خلاف تدبیر کرے گا جو مسلمانوں اور اہل ایمان کے خلاف مکر کریں گے ۔ ایسا کس طرح ممکن ہے کہ جو کفار اللہ کی جماعت کے خلاف مکر و عیاری سے کام لے رہے ہوں ۔؟ اللہ مسلمانوں کی نصرت کے لئے ان مکاروں کے خلاف تدبیر نہ کرے ؟
قرآن مجید کا دوسرا مقام۔۔
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ١ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى١ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ۔
منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے) وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر (صرف) لوگوں کے دکھانے کو اور خدا کی یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم ( النساء آیت نمبر 142)
اللہ تعالیٰ کی ذات کے لائق نہیں کہ وہ دھوکہ دے ۔ لیکن یہاں پر بھی مسلمانوں کی امداد و نصرت مقصود ہے ۔ یہاں پر منافقین جو اپنے دلوں میں اسلام کے لئے بغض ، عناد و دشمنی لئے بیٹھے ہیں ۔ وہ بھوجل دلوں کے ساتھ سستی اور کاہلی سے نماز میں کھڑۓ ہوتے ہیں ۔ اللہ کی جماعت کا دل سے ساتھ نہیں دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی صفت علیم و خبیر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ ان دشمنوں سے مسلمانوں کو باخبر کر دے جو ان کو نقصان پہنچانے کے لئے ان کی جماعت میں شامل ہیں ۔ اس لئے اللہ رب العزت کی ذات سے یہ نقص بھی رفع ہوا کہ وہ دھوکہ دیتا ہے ۔ بلکہ وہ ہر طرح سے مسلمانوں کی نصرت و تائید کرتا ہے ۔
قرآن مجید کا تیسرا مقام ۔
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
ان (منافقوں) سے خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیے جاتا ہے کہ شرارت و سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں( سورہ البقرہ : 15)
حافظ عبدالسلام بن محمد فرماتے ہیں ۔۔
منافقین دل میں کفر رکھنے اور کفار کا ساتھ دینے کے باوجود مسلمانوں سے ملتے تو ”اٰمَنَّا“ کہتے اور اسے اہل ایمان کے ساتھ مذاق قرار دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی جواباً ان کے ساتھ یہی معاملہ فرمایا کہ ان کے متعلق یہ طے کر دیا کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے حصے میں ہوں گے، اس کے باوجود دنیا میں انھیں مسلمان قرار دیا اور ان کی رسی دراز کر دی، تاکہ وہ سرکشی میں زیادہ سے زیادہ بڑھ جائیں ، فرمایا : ﴿ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَهُمْ لِيَزْدَادُوْۤا اِثْمًا ﴾ [ آل عمران : ۱۷۸ ] ’’ہم انھیں صرف اس لیے مہلت دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں بڑھ جائیں ۔‘‘ وہ ان کا مذاق تھا یہ اللہ تعالیٰ کا مذاق ہے۔ قرآن مجید میں ایسے الفاظ مقابلے میں استعمال ہوئے ہیں جو ابتداءً کم ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مذاق کرنے میں وہ معاملہ بھی شامل ہے جو قیامت میں منافقین کو پیش آئے گا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جاتے ہوئے ان کے نور سے راستہ دیکھتے ہوئے جا رہے ہوں گے کہ یکایک ایک دیوار کے ذریعے سے جہنم کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔ [ ديكهيے حديد : ۱۲ تا ۱۵ ]
پس ثابت ہوا ، اللہ رب العزت کی طرف سے کفار ، مشرکین و منافقین کو دھوکہ دینا ، مکر کرنا ، استھزاء کرنا یہ کوئی نقص نہیں ۔ بلکہ صفت کمال کا دوسرا پہلو ہے کہ اس سے مراد مسلمانوں کی نصرت و تائید ہے ۔ اس طرح وہ ہر نقص اور عیب سے پاک ہے ۔
اللہ رب العزت فرماتا ہے
لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۖ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
ان لوگوں کے لیے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، بری مثال ہے اور اللہ کے لیے سب سے اونچی مثال ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ (سورہ النحل : آیت نمبر 60)
وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ( الإخلاص:4)
اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔
اللہ جل وعلا کی بلندی مطلق ہے، اور اس کی صفات ہر لحاظ سے کمال ہیں جیسے عزت، رحمت، کرم، جود، نیکی، احسان، عطا، اور شفقت۔
صفات باری تعالیٰ میں ایک اور قانون سمجھنے لائق ہے جس کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کی دو اقسام ہیں ۔ "ایک ثبوتی" ۔ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائیں اور " دوسری سلبی " جس میں رب تعالیٰ نے خود ان صفات کی نفی فرما دی ۔
ثبوتی صفات جیسا کہ اللہ کے ہاتھوں کا ثبوت صحیح بخاری کی حدیث میں ہے ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ يَمِينَ اللَّهِ مَلْأَى لَا يَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ؟، فَإِنَّهُ لَمْ يَنْقُصْ مَا فِي يَمِينِهِ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الْأُخْرَى الْفَيْضُ، أَوِ الْقَبْضُ يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے اسے کوئی خرچ کم نہیں کرتا جو دن و رات وہ کرتا رہتا ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب سے زمین و آسمان کو اس نے پیدا کیا ہے کتنا خرچ کر دیا ہے۔ اس سارے خرچ نے اس میں کوئی کمی نہیں کی جو اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے جسے وہ اٹھاتا اور جھکاتا ہے۔ ( صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7419)
اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ثابت ہیں اس لئے یہ ثبوتی صفت ہے۔ لیکن اس کی کیفیت کیا ہے وہ اللہ نے ہمیں نہیں بتائی ۔ اس پر ہم خاموشی اختیار کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کی پنڈلی حدیث سے ثابت ہے اس کی کیفیت کیا ہے ہمیں معلوم نہیں ۔
يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ
جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدے کی طرف بلائے جائیں گے تو وہ طاقت نہیں رکھیں گے۔ (القلم : 42)
اسی طرح صحیح بخاری میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهٗ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ وَ يَبْقٰی مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَ سُمْعَةً فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ فَيَعُوْدُ ظَهْرُهٗ طَبَقًا وَاحِدًا )) [بخاري، التفسیر، باب : ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : ۴۹۱۹ ]
’’ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت اس کو سجدہ کریں گے اور وہ شخص باقی رہ جائے گا جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لیے سجدہ کرتا تھا، وہ سجدہ کرنے لگے گا تو اس کی پیٹھ ایک طبق ہوجائے گی(یعنی دوہری نہیں ہو سکے گی)۔‘‘
(( هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهٗ آيَةٌ تَعْرِفُوْنَهُ؟ فَيَقُوْلُوْنَ السَّاقُ فَيَكْشِفُ عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهُ )) [بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿وجوہ یومئذ ناظرۃ....﴾ : ۷۴۳۹ ] ’’کیا تمھارے اور تمھارے رب کے درمیان کوئی نشانی ہے جسے تم پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’پنڈلی ہے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اسے سجدہ کرے گا۔‘‘
اسی طرح اللہ کا چہرہ ثابت ہے ۔۔
((وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ)) [الرحمٰن: 27]،
’’اور باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ جو لامحدود عظمت و عزت والا ہے‘‘
((وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ)) الآیۃ [الکھف: 28]۔
’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھ جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں‘‘ (الکہف: 28)
((وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ)) [البقرۃ: 115]۔
’’اور اللہ ہی کے لئے مشرق و مغرب ہے، تو تم جس طرف رُخ کرو، سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے‘‘
اللہ کا چہرہ ہونا بھی ثابت ہے لیکن اس کی کیفیت اور بناوٹ کیسی ہے قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔
ثبوتی صفات کی موجودگی پر یقین رکھنا اور اس کی کیفیت پر کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہ کرنا ہی اصل ایمان ہے ۔
جیسے اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ۔
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا۔
(سورہ الاسراء: آیت نمبر 36)
جو لوگ بھی اللہ رب العزت کے وجود کے بارے میں اپنے ظن اور عقل سے اس کی صفات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قرآن و حدیث میں ایسے مفسرین کے لئے کوئی دل جوئی نہیں کی گئی ۔
﴿وَ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ﴾ [ النجم : ۲۸ ]
’’حالانکہ انھیں اس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمان کے پیچھے چل رہے ہیں۔‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ )) [ بخاری، الأدب، باب : ﴿یأیھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن....﴾ : ۶۰۶۶ ] ’’گمان سے بچو، یقیناً گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔‘‘ اسی طرح سنی سنائی بات بلا تحقیق بیان کرنا بھی منع ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كَفَی بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُّحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ )) [مسلم، المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع : ۵، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر وہ بات آگے بیان کر دے جو اس نے سنی ہو۔‘‘
ہم میں سے اکثر لوگ ملحدین کی چرب زبانی کے باعث اور عقیدے کی صحیح جانکاری نہ ہونے کے باعث ہی صفات باری تعالیٰ پر ان کے کئے گئے مکر و فریب سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور خود قرآن و حدیث میں جو قوانین بیان کئے گئے ہیں ان سے لا علم ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے بھٹکنے کے چانسز بہت زیادہ ہو جاتے ہیں ۔
سلبی صفات وہ ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں اپنے بارے میں نفی کی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی نفی کی ہے
جس طرح اللہ رب العزت فرماتا ہے ۔
إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَٰكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
بے شک اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا اور لیکن لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (سورہ یونس : 109 )
یقینا جب کوئی منافق یا نا فرمان اللہ کے حکموں کی حکم عدولی کرے گا تو وہ خود پر ظلم کرے گا ۔ وہ خالق کائنات پر ظالم ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا ۔ ملحدین کا یہ وطیرہ بھی ہے کہ وہ جہاں بھی کفار ، منافقین ، مشرکین کے ساتھ اللہ کے سلوک کا ذکر آتا ہے وہ اس کو اللہ کی صفت بنا دیتے ہیں ۔ جبکہ وہ اللہ کی صفات کاملہ کا وہ رخ ہوتا ہے جو مسلمانوں کی نصرت و تائید کے لئے بیان کیا گیا ہوتا ہے اور سلبی صفات کو بھول جاتے ہیں جیسے اللہ ظلم نہیں کرتا ۔ انسان خود پر ظلم کرتا ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے
مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ
جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہوگی اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہرگز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔(سورہ فصلت :46)
ملحدین اللہ کی سلبی صفات کا بھی استھزاء کرتے ہیں ۔ مثلا کہ اللہ نے معجزات انبیاء کے ادوار میں ہی کیوں کئے کیا وہ معجزات کرتے کرتے تھک گیا " اللہ رب العزت نے اس کا رد بھی قرآن کریم فرقان حمید میں کیا ۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کسی قسم کی تھکاوٹ نے نہیں چھوا۔ (سورہ :ق ، آیت نمبر 38)
قرآن مجید میں ان کے ہر اعتراض کا جواب آج سے 14 سو برس پہلے دیا جا چکا ۔۔
أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ
تو کیا ہم پہلی دفعہ پیدا کرنے کے ساتھ تھک کر رہ گئے ہیں؟ بلکہ وہ ایک نئے پیدا کیے جانے کے متعلق شک میں مبتلاہیں۔ ( سورہ ق:15 )
ملحدین یہاں پر ایک اعتراض کرتے ہیں کہ ایک طرف اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ وہ انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ، دوسری طرف وہ ہمیں نظر بھی نہیں آتا ۔ ؟
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
اور بلا شبہ یقیناً ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (سورہ ق: 16)
حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ تفسیر القرآن الکریم میں فرماتے ہیں ۔
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ: وسوسہ کا اصل معنی وہ ہلکی یا دبی ہوئی حرکت یا آواز ہے جو عام طور پر محسوس نہ ہوتی ہو۔ اس سے مراد وہ بات بھی ہوتی ہے جو بالکل آہستہ آواز سے کسی کے کان میں کہی جائے اور صرف اسی کو سنائی دے اور وہ بات بھی جو بغیر آواز کے کسی کے دل میں ڈال دی جائے، جیسے شیطان یا نفس انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ قیامت کے منکروں کے اس شبہ کا جواب کہ جب ہم مر کر مٹی ہو گئے تو دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے، اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ ہم انسان کے مٹی ہو جانے والے ہر ذرے کو جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہے، وہ نہ ہمارے علم سے باہر ہے اور نہ ہماری دسترس اور قدرت سے، ہم جب چاہیں گے اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے، اب فرمایا خاک کے ذرّات کا وجود تو پھر بھی باقی رہتا ہے اور نظر آتا ہے، ہم تو انسان کی وہ چیزیں بھی جانتے ہیں جو اس سے بھی زیادہ مخفی ہیں اور بظاہر ان کا وجود بھی باقی نہیں رہتا، کیونکہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے تو ہم سے بڑھ کر اسے کون جان سکتا ہے؟ فرمایا: ﴿ اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾ [الملک: ۱۴] ’’کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
اس لئے قرآن میں یہ کہنا کہ رگ جاں سے زیادہ قریب ہے مراد باریک بین ، باخبر ہونا ہے ۔ جیسا کہ اللہ کی "صفت علیم" ہے یعنی وہ ہر چیز کا جاننے والے ہے۔
جبکہ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے ۔
ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ[102] لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ[103]
یہی اللہ تمھارا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ [102] اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے( سورہ الانعام )
یعنی اللہ ہر چیز کا خالق ہے ۔ انسانی آنکھ کا خالق بھی اللہ ہے ۔ لیکن اللہ رب العزت کے وجود کو کوئی آنکھ دیکھ نہیں سکتی ۔ اس وقت تک جب تک کہ فیصلہ نہ ہو جائے انسان اہل ایمان میں سے ہے یا نہیں یا انسان اہل جنت میں سے ہے یا نہیں ۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے اہل جنت کو اپنے دیدار کا وعدہ دیا ہے ۔
عن صهيب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا دخل اهل الجنة الجنة، قال: يقول الله تبارك وتعالى: تريدون شيئا ازيدكم؟ فيقولون: الم تبيض وجوهنا، الم تدخلنا الجنة، وتنجنا من النار؟ قال: فيكشف الحجاب، فما اعطوا شيئا احب إليهم من النظر إلى ربهم عز وجل "،
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: ”جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے، (اس وقت) اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا تمہیں کوئی چیز چاہیے جو تمہیں مزید عطا کروں؟ وہ جواب دیں گے: کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے! کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نجات نہیں دی؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ پردہ اٹھا دے گا تو انہیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہو گی جو انہیں اپنے رب عز وجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو۔“(حدیث نمبر: 449 صحیح مسلم )
پس ثابت ہوا کہ اس دنیا کی زندگی میں کسی بشر کو اللہ رب العزت نے اپنا دیدار نہیں کروایا نہ کروائے گا ۔ اس لئے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ دکھتا نہیں اس لئے اس کا وجود نہیں ایک باطل اور کفریہ عقیدہ ہے ۔ اس کی دو وجوہات اور بھی ہیں اللہ کی نہ کوئی مثل ہے اور نہ ہی وہ اس کرہ ارض پر موجود ہے ۔ وہ عرش پر استویٰ کئے ہوئے ہے ۔ اور اس کی کیفیت کا علم اللہ نے ہمیں نہیں دیا ۔
اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی ﴿۵﴾
جو رحمٰن ہے ، عرش پر قائم ہے ۔ (سورہ طہٰ)
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ اللہ کا عرش پر ہونا کسی بھی مخلوق کی صفت سے مشابہ نہیں ۔ اللہ نے قرآن مجید فرقان حمید میں بے شمار جگہ ارشاد فرمایا کہ اس نے اس کائنات کو زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ۔ تو ہر اعتبار سے یہ کائنات یہ زمین و آسمان سب اللہ کی مخلوق ہیں ۔ اس لئے یہ کہنا کہ اللہ ہمیں خود آ کر اپنا وجود کیوں نہیں دیکھاتا ایک باطل اعتراض ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خالق مخلوق کا حصہ نہیں ہوتا ۔ کبھی کسی ترکھان کو کرسی یا میز کے اندر داخل ہوتے دیکھا ہے کہ وہ اس بے جان کو سمجھائے کہ میں تیرا خالق ہوں ۔ انسانی آنکھ کی بصارت میں وجود باری تعالیٰ کو اس کائنات میں دیکھنے کی صلاحیت دی ہی نہیں گئی ۔
اس کو دیکھنے کے لئے سات آسمانوں اور پھر اس کے عرش کا پردہ ہے ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلنَّاسُ یَصْعَقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَکُوْنُ أَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ فَإِذَا أَنَا بِمُوْسٰی آخِذٌ بِقَاءِمَۃٍ مِنْ قَوَاءِمِ الْعَرْشِ فَلَا أَدْرِيْ أَفَاقَ قَبْلِيْ أَمْ جُوْزِيَ بِصَعْقَۃِ الطُّوْرِ ) ” لوگ قیامت کے دن بےہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلا شخص جو ہوش میں آئے گا میں ہوں گا۔ اچانک میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے پایوں میں سے ایک پائے کو پکڑے ہوئے ہوں گے، تو میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے، یا انھیں طور کی بےہوشی کا بدلہ دیا گیا۔ “ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( وواعدنا موسیٰ ثلاثین۔۔ ) : ٣٣٩٨، عن أبي سعید الخدري۔ ] مگر اللہ کا عرش پر ہونا یا اس کی کوئی بھی صفت مخلوق کی صفت کے مشابہ نہیں، فرمایا : (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) [ الشورٰی : ١١ ]” اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “
اگر اس کرہ ارض پر اللہ کے دیدار کی قوت انسان کو دی گئی ہوتی تو سب سے پہلے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت کا دیدار فرماتے ۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مطابق سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دیدار الٰہی کی تڑپ پر جس آزمائش کا سامنا کرنا پڑا تھا تو اللہ رب العزت روز محشر اس کا بدلہ انہیں عطا فرما دیں گے اور روز قیامت رسول اللہ ﷺ سمیت تمام اہل جنت اس کا مظاہرہ دیکھ لیں گے ۔ اللہ رب العزت مجھ سمیت تمام اہل توحید اہل ایمان کو اللہ رب العزت اور رسول اللہ ﷺ کا دیدار نصیب فرمائے آمین ۔
ازقلم: عبدالسلام فیصل