رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ وَ مَنْ کَرِہَ لِقَائَ اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ۔ ))1
'' جو اللہ سے ملنے کا شوق رکھتا ہے، اللہ اس کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات ناپسند کرتے ہیں۔''
شرح...: اس بات کی تشریح خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جواب دیتے ہوئے کردی تھی۔ سوال کیا تھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! موت کو تو ہم سب برا جانتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لَیْسَ ذٰلِکَ، وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ، فَلَیْسَ شَيْئٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ، فَأَحَبَّ لِقَائَ اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللّٰہِ وَعُقُوْبَتِہِ فَلَیْسَ شَيْئٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہُ فَکَرِہَ لِقَائَ اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ۔ ))2
''ایسے نہیں(بلکہ) بات یہ ہے کہ ایماندار آدمی کو جب موت آلگتی ہے (مرنے کے قریب ہوتا ہے) تو اس کو اللہ کی رضا مندی اور اس کی سرفرازی کی خوشخبری دی جاتی ہے، وہ اس وقت ان باتوں سے زیادہ جو آگے اس کو ملنے والی ہیں، کوئی بات پسند نہیں کرتا اور اللہ سے ملنے کی (جلد) آرزو کرتا ہے۔ اور جب کافر کو موت آنے لگتی ہے تو اسے عذاب اور سزا کی خبر دی جاتی ہے۔ پس اسے یہ آگے والی صورتحال انتہائی ناپسند ہوتی ہے ۔ چنانچہ وہ اللہ سے ملاقات کو پسند نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتے ہیں۔''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب الرقاق، باب: من أحب لقاء اللّٰہ أحب اللّٰہ لقاء ہ، رقم: ۶۵۰۸۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب الرقاق، باب: من أحب لقاء اللّٰہ أحب اللّٰہ لقاء ہ، رقم: ۶۵۰۷۔
شریح بن ہانی اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا: اے ام المومنین! میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث سنی ہے۔ اگر وہ حدیث ایسی ہی ہے تو ہم ہلاک ہوگئے ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے ہلاک ہونے والا ہی (حقیقت میں) ہلاک ہونے والا ہے۔ بات کیا ہے؟ کہا: (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتا ہے:) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ، وَمَنْ کَرَہَ لِقَائَ اللّٰہِ کَرَہَ اللّٰہُ لِقَائَہُ وَلَیْسَ مِنَّا أَحَدٌ إِلاَّ وَھُوَ یَکْرَہُ الْمَوْتَ۔ فَقَالَتْ: قَدْ قَالَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلَیْسَ بِالَّذِيْ تَذْھَبُ إِلَیْہِ، وَلٰکِنْ إِذَا شَخَصَ الْبَصَرُ، وَحَشْرَجَ الصَّدْرُ، وَاقْشَعَرَّ الْجِلْدُ، وَتَشَنَّجَتِ الْأَصَابِعُ فَعِنْدَ ذٰلِکَ مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَ ہَ وَمَنْ کَرِہَ لِقَائَ اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ۔ ))1
'' جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا۔ (شریح نے کہا:) ہم میں سے ہر ایک موت کو مکروہ سمجھتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے (مگر) جس کی طرف تو گیا ہے وہ اس سے مراد نہیں (اس کا مطلب یہ ہے کہ) جب نظر موت کی وجہ سے ایک جگہ جم جائے اور سینہ غر غرانا شروع ہوجائے اور جلد کے بال کھڑے ہوجائیں اور انگلیاں اکڑ جائیں تو اس وقت جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ اس کے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات کو ناپسند کرتے ہیں۔''
لفظ لقاء کے کئی معانی ہیں:
(۱)...معاینہ
(۲)...مرنے کے بعد اٹھنا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآئِ اللّٰہِ o} [الانعام:۳۱]
'' (نقصان میں) وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی ملاقات یعنی دوبارہ جی اٹھنے کو جھٹلایا۔ ''
(۳)...موت
چنانچہ فرمایا:
{مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ اللّٰہِ فَإِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ o} [العنکبوت:۵]
'' جس کو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید ہے (اس کو تیاری کرلینی چاہیے) کیونکہ اللہ کا مقررہ کردہ وقت آنے والا ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب الذکر، باب: من أحب لقاء اللّٰہ أحب اللّٰہ لقاء ہ، رقم: ۶۸۲۶۔
نیز فرمایا:
{قُلْ إِِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّونَ مِنْہُ فَإِِنَّہٗ مُلاَقِیکُمْ o} [الجمعۃ:۸]
'' آپ فرما دیں! بے شک وہ موت کہ جس سے تم بھاگتے ہو وہ یقینا تمہیں ملنے والی ہے۔''
بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس سے مراد دار آخرت کی طرف جانا اور جو اللہ کے پاس ہے اسے طلب کرنا ہے۔ موت کا مفہوم لینا درست نہیں کیونکہ ہر ایک اسے ناپسند کرتا ہے چنانچہ جس نے دنیا سے روگردانی کی اور اسے حقیر سمجھا تو وہ یہاں پر ہمیشہ رہنے کا خواہش مند ہرگز نہیں ہوگا لہٰذا وہ کوچ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ یہ ہے اللہ کی ملاقات کو پسند کرنے والا۔1
معتبر کراہیت نزع کی حالت میں ہوتی ہے کہ جس وقت توبہ قبول ہونے کا وقت نکل چکا ہوتا ہے چنانچہ اس وقت ہر انسان کو جو ملنے والا ہے، اس پر منکشف کردیا جاتا ہے۔ نیک بخت موت کو اور اللہ کی ملاقات کو پسند کرتے ہیں تاکہ جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے انعامات، عطیات و تحائف اور عزت و شرف تیار کر رکھا ہے، اس کو جا کر جلد حاصل کرسکیں، چنانچہ ایسے لوگوں کی ملاقات کو اللہ تعالیٰ بھی پسند فرماتے ہیں اور ان کے لیے عزت اور عطیات تیار کرتے ہیں۔2
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 فتح الباری، ص: ۳۵۹، ۳۶۰ ؍ ۱۱۔
2 نووی شرح مسلم، ص: ۱۰ ؍ ۱۷۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند