• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ نے انسان کو کیا کیا دیا

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
اللہ نے انسان کو کیا کیا دیا

قدرتیں اور نعمتیں دیں عظمتیں دیں شان دی

منظور احمد گورکھو

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’اور ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا فرما ئی‘‘
(سورۃ بنی اسرائیل آیت: 70)

اللہ تعالی نے اس آیت میں ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے انسان کو دوسرے مخلوقات پر فضیلت اور شرف عطا کیا گیا۔ اس شرف اور فضل کی دستار تکونیاً ہر انسان کے سر باندھی گئی ہے، چاہے وہ مومن ہو یا کافر، اللہ کی ذات کو ماننے والا ہو یا اس کا انکار کرنے والا۔ انسان کو یہ شرف وعزت اور فضل وعنایت دوسری مخلوقات حیوانات، جمادات ونباتات کے مقابلے میں ہے اورانسان کو یہ شرف وعزت دوسرے مخلوقات کے مقابلے میں متعدد اعتبار سے ہے، جن میں سے چند ایک کا ذکر اللہ نے اس آیت میں فرمایا۔

1:
’’اور ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی‘‘۔۔۔

یہ عزت مختلف طریقے سے اس کو ملی، ہم نے اس کو قوت گویائی بخشی جس سے وہ دوسرے مخلوقات کے مقابلے میں اپنا مافی الضمیر کی ترجمانی اپنی زبان سے کر سکتا ہے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔

جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے :

’’رحمٰن نے قرآن سکھایا اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا‘‘
(سورۃ رحمن آیت:1- 4)

اور دوسری جگہ فرمایا:

’’ہم نے ہر ہر رسول (نبی) کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے‘‘
(سورۃ ابراہیم آیت: 4)

اور اس کو عقل وشعور کا مادہ عطا کیا جس کی بنیاد پر وہ صحیح اور غلط، کھرے اور کھوٹے، حق و باطل، نفع ونقصان، خیراور شر میں فرق کر کے اپنے آپ اور دوسروں کے لیے صحیح، حق، نفع اور خیر کو پسند کرتا ہے اور غلط، باطل، نقصان، اور شر سے محفوظ رہنے اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی عقل وشعور سے انسان اللہ تعالی کو پہچانتا ہے اور اس کے پیغام کو سمجھتا اور عملاتاً ہے اوراس کی بیش قیمت نعمتوں کا مستحق بنتا ہے اور اس کے رسولوں ؑکی تصدیق کرتا ہے۔ جو انسان اس دی ہوئی نعمت یعنی عقل وشعورکا صحیح استعمال نہیں کرتا، اللہ تعالی نے اس کو ان الفاظ میں متنبہ فرمایا :

’’ان کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور ان کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور ان کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں‘‘
(سورۃ الاعراف آیت: 179)

یعنی دل و دماغ ،آنکھ،اور کان یہ چیزیں اللہ تعالی نے اس لئے دی ہیں تاکہ انسان ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی اور معبود برحق کو سمجھے، اس کی پیدا کردہ نشانیوںکا مشاہدہ کرے اور حق کی بات کو غور سے سنے اور سنجیدگی کے ساتھ عملائے،لیکن جو شخص اللہ کی دی ہوئی ان نعمتوں سے کام نہیں لیتا وہ گویا ان سے فائدہ اٹھانے میں چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہے کیونکہ چوپائے تو پھر بھی اپنے نفع ونقصان کا کچھ شعور رکھتے ہیں اور نفع والی چیزوں سے نفع اٹھاتے اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچ کررہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسرے مخلوقات کے مقابلے میں بہترین شکل وصورت عطا کی۔ جس طرح کی شکل وصورت، قد و قامت اور ہیئت اللہ تعالی نے انسان کو عطا کی ہے وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔

جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:

’’یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا‘‘
(سورۃالتین آیت: 4)

اللہ تعالی نے ہر مخلوق کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کا منہ نیچے کو جھکا ہوا ہے۔ صرف انسان کو متناسب قد وقامت والا سیدھا بنایا ہے کہ یہ اپنے ہاتھوں سے کھاتا پیتا ہے۔ پھر اس کے اہم عضو دو دو بنائے اور ان میں نہایت مناسب فاصلہ رکھا تاکہ انسان ان کو صحیح ڈھنگ اور وقت پر استعمال کر سکے۔ اپنے اعضاء کا صحیح ڈھنگ اور وقت پر استعمال کرنا انسان کو باقی مخلوقات سے مختلف اور شرف والا بناتا ہے۔

اللہ تعالی نے زمین میں موجود چیزیں انسان کے لئے مسخر فرما دی تاکہ وہ ان سے صحیح فائدہ اٹھا سکے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

’’وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا‘‘
(سورۃ البقرۃ آیت: 29)

یعنی زمین کی جملہ اشیاء انسان کے لئے مسخر کی گئی ہے انسان ان سے اپنے فہم وفراست، عقل و تدبر سے استفادہ کر سکتا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا:

’’اور آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لئے تابع کر دیا ہے‘‘
(سورۃ الجاثیۃ آیت:13)

باقی مخلوقات کے مقابلے میں زمین کی چیزیں انسان کے لئے مسخر کرنا انسان کی حوصلہ افزائی اور باعث شرف وعزت ہے۔

2:
’’اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں‘‘

خشکی اور سمندر میں ان کے لئے سواریا مسخر کر دی جن کو استعمال میں لا کر یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل اور مال واسباب کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں جس وجہ سے ان کو آمدنی کے ذرایعے بھی حاصل ہوتے ہیں اور ان کا کام بھی چل پاتا ہے اور جس سے ان کے اسباب معاش اور منتقلی کے ذرایع کو ہم نے آسان کر دیا ہے تاکہ یہ دوسری مخلوق کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ ان سواریوں سے مستفید ہو جائے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

(اللہ کی نشانیوں میں یہ بھی ہے ) اور کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا‘‘
(سورۃ البقرۃ آیت: 164)

ایک جگہ ان الفاظ میں ارشاد فرمایا :

’’کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کئے گئے ہیں‘‘
(سورہ الغاشئۃ آیت: 17)

اللہ تعالی نے مذکورہ آیت میں اونٹ کا ذکر کر کے فرمایا کہ اس کی خلقت پر غور کرو اللہ نے اسے کتنا بڑا وجود عطا کیا ہے اور کتنی قوت وطاقت اس کے اندر رکھی ہے اس کے با وجود وہ تمہارے لئے نرم اور تابع ہے۔ تم اس پر جتنا چاہو بوجھ لادو وہ انکار نہیں کرے گا، تمہارا ماتحت رہے گا ۔ اور فرمایا :

’’اس نے چوپائے پیدا کئے جن میں تمہارے لئے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے نفع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں۔ اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر لاؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی ۔ اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھا لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر آدھی جا ن کئے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے ‘‘
(سورۃ النحل آیت: 5-7)

نیز فرما یا:

’’اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کر دیا ہے کہ دریاؤں میں اس (اللہ) کے حکم سے چلے پھریں‘‘
(سورۃ ابراہیم آیت:32)

اور ان کشتیوں کے چلنے پھرنے سے تمہیں کیا حاصل ہوگا ، تو فرمایا:

’’تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو‘‘
(سورۃ بنی اسرائیل آیت: 66)

تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی طرف سے انسان کے لئے مسخر کی گئی ان سواریوں سے انسان کو نفع حاصل ہوتا ہے اس کے کاروبار کو فروغ ملتا ہے اور اس کے آمدورفت میں آسانی ہوتی ہے جو انسان کا دوسرے مخلوقات کے مقابلے میں باعث شرف والا ہونے کی واضح دلیل ہے۔

3:
’’ اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں‘‘۔۔۔۔

اللہ تعالی انسان کو پیدا کرنے سے پہلے ہی اس کے رزق کا انتظام کرتا ہے۔ اور زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ چاہے انسان ان کا مطالبہ کرے یا نہ کرے لیکن اللہ تعالی کو معلوم ہے کہ وہ انسان کی ضرورت کی چیز ہے ۔انہی ضرورت کی چیزوں میں ایک اہم چیز رزق ہے جس کے بغیر کوئی بھی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی ہے۔ زمینی مخلوقات کیلئے غذا یا تو حیوانات کی شکل میں ہے یا نباتات کی شکل میں اور دونوں قسم کی غذاؤں میں سے انسان کے لئے ایسی چیزیں غذا میں رکھی گئی ہیں جو ان تمام میں سب سے افضل ، لزیزاور فائدہ مند ہے۔ اور جو اللہ تعالی نے ہر ایک انسان کے لئے مقرر کیا ہوا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

’’یقینا رزق انسان کو ایسے تلاش کرتا ہے جیسے اسکی موت اس کو تلاش کرتی ہے‘‘
(صحیح الترغیب والترھیب للالبانی کتاب البیوع: باب الترغیب فی الاکتساب بالبیع وغیرہ (1703))

اور اسی پر انسانی نسل کی بقاء کا انحصار ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

’’اللہ نے تمہارے لئے تم میں سے تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لئے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں‘‘
(سورۃ النحل آیت: 72)

تو معلوم ہوا کہ انسانی نسل کی بقاء کے لئے جہاں دو مختلف جنسوں کا ملنا ضروری ہے جوکہ شرعیت کی رو سے نکاح کی صورت میں جائز اورموجود ہے وہاں اس نسل انسانی کا انحصار پاک اور حلال رزق پر رکھا گیا ہے۔ جو اللہ تعالی نے بنی آدم کو باقی مخلوقات کے مقابلے میں زیادہ پاک اور لزیذ عطا کیا ہے جوکہ اس کے اشرف المخلوقات ہو نے کی ایک دلیل ہے۔

4:
’’اور انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا فرما ئی‘‘۔۔۔۔

یہ فضیلت صرف جسمانی قوت سے نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ مخلوقات میں اونٹ اور ہاتھی وغیرہ انسان سے زیادہ جسمانی طاقت اور قوت رکھتے ہیں۔ اور نہ طویل عمر کی وجہ سے کیونکہ انسان کے علاوہ بھی کچھ مخلوقات طویل عمر سے نوازے گئے ہیں اور نہ مضبوط گرفت سے کیونکہ شیر اور چیتا وغیرہ ایسی مخلوق ہے جو انسان سے بھی زیادہ گرفت رکھتے ہیں۔ اور نہ ہی زیادہ سونا چاندی کی وجہ سے کیونکہ پہاڑ ایک ایسی تخلیق الہیٰہ ہے جو اپنے اندر کافی تعداد میں معدنیات اور سونا چاندی رکھتے ہیں۔ انسان کی باقی مخلوقات پر فضیلت کس کس اعتبار سے ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

’’تو جب میں نے اسے (انسان کو ) پورا بنایا اور اس میں اپنی روح پھونک دی‘‘
(سورۃ الحجر آیت: 29)

اور فرمایا:

’’اسے (انسان کو) میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا‘‘
(سورۃ ص آیت: 75)

اور فرمایا

’’میں زمین میں (انسان کو ) خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘
(سورۃ البقرۃ آیت: 30)

اور فرمایا:

’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (انسان) کو سجدہ کرو‘‘
(سورۃ البقرۃ آیت: 34)

اللہ تعالی کا انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس میں اپنی روح پھونکنا اور اسے اپنے ہاتھوں سے بنانا زمین کی خلافت اس کو سپرد کرنا اور فرشتوں کو اس کے سجدے کا حکم کرنا انسان کا باقی مخلوقات کے مقابلے معزز اور قابل شرف ہونے کی دلیل ہے۔ انسان کا اشرف وافضل ہونا اس کے نفس اور جسم کے اعتبار سے اس طرح ہے کہ انسان کے نفس میں فکری طاقت موجود ہے جو اس کو عقل، علم ، حکمت اور رائے سے ملتی ہے اور اس کی فکر و سونچ میں نکھار پیدا کرتی ہے جس سے انسان غیر واضح چیزوں کو واضح اور چیزوں کے وقوع پزیر ہونے کے اسباب کو معلوم کرتا ہے اور اس کے متعلق اپنا نظریہ پیش کر سکتا ہے جبکہ بھائم اس چیز سے قاصر ہے۔ اسی طرح انسان جسم کے اعتبار سے بھی دوسرے مخلوقات سے افضل واشرف ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس کو کام کرنے والے دو ہاتھ اور بات کرنے والی زبان اور بہترین ومناسب قدوقامت عطا کیا ہے۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

’’اور تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائی‘‘
(سورۃ المؤمنون آیت: 64)

انسان کو اللہ تعالی کی طرف سے باقی زمینی مخلوقات کے برعکس جسمانی اور نفسانی قوت کا عطا کرنا اس کے اشرف اور افضل ہونے کی دلیل ہے۔

خلاصہ ٔ کلام

اللہ تعالی نے ایک انسان کو باقی مخلوقات کے مقابلے میں ان نعمتوں سے نوازا ہے جو اس کے لئے مسخر کر دی گئی ہیں تاکہ ان نعمتوں سے ایک تو اس کی آزمائش کی جائے اور انسان ان نعمتوں کے حصول کے بعد منعم حقیقی کو پہچان کر اس کے بتائے ہوئے طریقہ پر اپنی زندگی گزارے اور اس دارالعمل (دنیا) میں رہ کر اپنے خالق حقیقی کا فرمانبردار بن کر دارالبقاء (آخرت) کی سرخ روئی حاصل کرے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’روئے زمین پر جو ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انہیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال کرتا ہے‘‘
(سورۃ الکہف آیت: 7)

ان تمام نعمتوں کے حصول کے بعد اور اللہ تعالی کی طرف سے انسان کا باقی مخلوقات کے مقابلے میں معزز اور شرف والا ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے خالق حقیقی کو پہچان لے اور اس کا فرمانبردار بن کر اس کی دی ہوئی نعمتوں پر اللہ تعا لی کا شکر بجا لائے اور اللہ تعالی کے اس عظیم احسان کا اعتراف کر کے خالص اس ایک اللہ کی عبادت کرے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’اے انسان تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکا دیا جس (رب نے) تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا پھر (درست اور) برابر کیا جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا‘‘
(سورۃ الانفطار آیت: 6 - 8 )

اللہ تعالی ہم سب کو اس کے بتائے ہوئے طریقہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

ح

 
Top