محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَمَا كَانَ قَوْلَھُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِيْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۱۴۷ فَاٰتٰىھُمُ اللہُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ۱۴۸ۧ
۱؎ جس طرح ایک مادہ پرست انسان کے نصب العین میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے اسی طرح ان کے طریق کار میں اور عام لوگوں کی روش میں عظیم امتیاز پایاجاتاہے ۔مادیت پرست لوگ مادی خواہشات کے حصول کے لیے لڑتے ہیں اور اللہ والے بلند نصب العین کے ماتحت میدان جہاد میں کودتے ہیں۔
دنیا داروں کے سامنے خدا کی بادشاہت پھیلانے کا مقصد ہوتا ہے ۔ظالم اپنے نفس امارہ کے لیے لڑتے ہیں اورخدائی مجاہد اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ۔پھرجس طرح ان کے مقاصد میں اختلاف ہے ، اسی طرح ان کے طریق جنگ میں بھی اختلاف ہے۔دنیا کے قیاصر واکاسرہ مادی قوتوں کو جمع کرتے ہیں اوراقلیم ایمان وعقیدت کے شہنشاہ بصیرت ونیاز مندی کے متاع عزیز کو۔
ان آیات میں اسی نقشہ کو پیش کیا ہے کہ انبیاء کا ساتھ دینے والے سپاہی جنگ ونَے کے نغموں سے مست ہوکر نہیں لڑتے۔شراب ونَے سے مخمور ہوکر دشمنوں کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ ایمان ومغفرت کا افشردہ پیتے ہوئےمیدان جنگ میں نبردآزما ہوتے ہیں۔ خدا سے ڈرتے ہوئے اپنی لغزشوں سے معافی چاہتے ہوئے ۔ ثبت اقدامنا کے نعرے لگاتے ہوئے جنگ کی آگ میں کودتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا دنیا کا ثواب اورعقبیٰ وآخرت کی فیروزمندیاں ان پر سے نچھاور کردیتا ہے ، اس لیے کہ وہ جنگ میں بھی جہاں عام سپاہی اخلاق پس پشت ڈال دیتے ہیں۔احسان ومروت کا پیکر ہوتے ہیں، ان کی دشمنی سوائے باطل اورباطل پرست کے اور کسی شے سے نہیں ہوتی۔وہ اللہ کے لیے لڑتے ہیں اور اللہ کے لیے جیتے ہیں۔ ان کی کوئی حرکت اور ان کا کوئی اقدام ان کے اپنے لیے نہیں ہوتا۔ وہ پوری بے غرضی اوربے لوثی کے ساتھ رہتے ہیں۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔
ہمارے رب ہمارے گناہ اور جو زیادتی ہمارے کاموں میں ہم سے ہوئی تو معاف کردے اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور ہمیں کافر قوم پر مدد دے۔(۱۴۷) پھرخدا نے بھی ان کو دنیا کا ثواب اورآخرت کا اچھا ثواب دیا اورخدا نیکوں سے محبت رکھتا ہے۔۱؎(۱۴۸)
اللہ والو ں کا جہاد
۱؎ جس طرح ایک مادہ پرست انسان کے نصب العین میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے اسی طرح ان کے طریق کار میں اور عام لوگوں کی روش میں عظیم امتیاز پایاجاتاہے ۔مادیت پرست لوگ مادی خواہشات کے حصول کے لیے لڑتے ہیں اور اللہ والے بلند نصب العین کے ماتحت میدان جہاد میں کودتے ہیں۔
دنیا داروں کے سامنے خدا کی بادشاہت پھیلانے کا مقصد ہوتا ہے ۔ظالم اپنے نفس امارہ کے لیے لڑتے ہیں اورخدائی مجاہد اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ۔پھرجس طرح ان کے مقاصد میں اختلاف ہے ، اسی طرح ان کے طریق جنگ میں بھی اختلاف ہے۔دنیا کے قیاصر واکاسرہ مادی قوتوں کو جمع کرتے ہیں اوراقلیم ایمان وعقیدت کے شہنشاہ بصیرت ونیاز مندی کے متاع عزیز کو۔
ان آیات میں اسی نقشہ کو پیش کیا ہے کہ انبیاء کا ساتھ دینے والے سپاہی جنگ ونَے کے نغموں سے مست ہوکر نہیں لڑتے۔شراب ونَے سے مخمور ہوکر دشمنوں کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ ایمان ومغفرت کا افشردہ پیتے ہوئےمیدان جنگ میں نبردآزما ہوتے ہیں۔ خدا سے ڈرتے ہوئے اپنی لغزشوں سے معافی چاہتے ہوئے ۔ ثبت اقدامنا کے نعرے لگاتے ہوئے جنگ کی آگ میں کودتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا دنیا کا ثواب اورعقبیٰ وآخرت کی فیروزمندیاں ان پر سے نچھاور کردیتا ہے ، اس لیے کہ وہ جنگ میں بھی جہاں عام سپاہی اخلاق پس پشت ڈال دیتے ہیں۔احسان ومروت کا پیکر ہوتے ہیں، ان کی دشمنی سوائے باطل اورباطل پرست کے اور کسی شے سے نہیں ہوتی۔وہ اللہ کے لیے لڑتے ہیں اور اللہ کے لیے جیتے ہیں۔ ان کی کوئی حرکت اور ان کا کوئی اقدام ان کے اپنے لیے نہیں ہوتا۔ وہ پوری بے غرضی اوربے لوثی کے ساتھ رہتے ہیں۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔
{اِسْرَافَنَا} ہماری زیادتی۔حل لغات