• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کن لوگوں سے محبت کرتا ہے؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
40
بسم اللہ الرحمن الرحیم​



اللہ کن لوگوں سے محبت کرتا ہے؟



ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی


الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:

برادران اسلام!

اگرمیں آپ سے پوچھوں کہ ایک انسان کے لئے سب سے بڑی خوش نصیبی اورخوش بختی کیا ہے؟ تو آپ کیاجواب دیں گے؟آپ یہی کہیں گے کہ وہ انسان سب سے بڑا خوش نصیب ہے جسے اس دنیا میں مال ودولت مل جائے اوروہ اربوں ،کھربوں اوربے شمار زمین وجائداد کا مالک ہو،ہماری اورآپ کی نظروں میں ایساانسان خوش نصیب ہوسکتاہے مگر درحقیقت ایساانسان خوش نصیب نہیں ہے بلکہ خوش نصیب انسان تو وہ ہے جسے رب العزت کی محبت مل جائے،یہ دنیا اوردنیا کی مال ودولت تو اللہ اسے بھی دے دیتاہے جسے نفرت کرتاہے مگر اللہ رب العزت اپنی محبت سے ہرکس وناکس کو نہیں نوازتاہے!اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کو اپنانے سے ہم کو اورآپ کو اللہ کی محبت مل سکتی ہےتوآج کے اس خطبۂ جمعہ میں میں آپ کو انہیں نیک اعمال کے بارے میں بتانے جارہاہوں جن کو اپنانے سے ہم کو اورآپ کو اللہ رب العزت کی محبت مل جائے گی ۔ان شاء اللہ۔آج کل کے ہم مسلمانوں کی بس یہ خواہش اورتمنا ہے کہ اسے مفت میں اللہ رب العزت کی محبت مل جائےچاہے اس کے جیسے بھی اعمال وکردارہوں،میرے دوستو! کیاایساممکن ہے کہ کوئی مسلمان فسق وفجورکی زندگی گذارے اوراسے اللہ رب العزت کی محبت مل جائے،ہرگز نہیں!ایساکبھی نہیں ہوسکتاہے!اگرہم اورآپ اللہ کی محبت کو پاناچاہتے ہیں تو سب سےپہلے ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہم اپنے جان ومال اورآل واولادسےبڑھ کراپنے رب سے محبت کریں اوریہی ایک مومن کی شان وپہچان ہے جیسا کہ رب العزت نے فرمایا کہ ’’ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ‘‘اورايمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔(البقرۃ:165)یعنی کہ اہل ایمان اللہ رب العزت سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں تو ہم اورآپ اپنے رب سے سب زیادہ محبت کرے ،اس کے بعد دوسرا کام ہمیں یہ کرنا ہے کہ آج کے خطبۂ جمعہ میں میں جو جواعمال بتانے والاہوں اس پر آج سے ہی عمل پیرا ہوجائیں،ان شاء اللہ آپ کو اللہ کی محبت مل جائے گی،میرے دوستو!جس انسان کو بھی اللہ کی محبت حاصل ہوگئی سمجھواس سے ساری کائنات محبت کرنے لگے گی،جن وانس ہی کیا فرشتے بھی ایسے انسان سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ ‘‘ جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرنے لگتا ہے تو اللہ جبرئیل علیہ السلام کو کہتا ہے کہ ’’ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبَّهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ‘‘ میں فلاں بندے سے محبت کرتاہوں توبھی اس سے محبت کر،پس جبرئیل امین بھی اس سے محبت کرنی شروع کردیتے ہیں،پھر’’ فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ ‘‘ جبرئیل امین آسمان میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ اے فرشتوں کی جماعت اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت کرتے ہیں تم سب بھی اس سے محبت کرنے لگو پس تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں ،’’ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ القَبُولُ فِي أَهْلِ الأَرْضِ ‘‘ پھر تو زمین میں بھی اس کی مقبولیت اورپذیرائی کو رکھ دی جاتی ہے اور اس طرح سے اہل زمین بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ (بخاری:6040،ترمذی:3161)

(1) ایمان وعمل صالح کو اپناؤ اوراللہ کی محبت کو پالو:

میرے دوستو!جن عملوں کی وجہ سے ایک انسان کو سب سے پہلے اللہ رب العزت کی محبت حاصل ہوسکتی ہے وہ ہے ایمان اورعمل صالح،ایمان وعمل صالح کے بغیر انسان کچھ بھی کرلےغریبوں کی مدد کرےیاپھرشوشل ورک کرے،حج وعمرہ کرلےیا پھرمسجد ومدرسہ بنوادے مگر اسے رب العزت کی محبت نہیں ملی سکتی ہےکیونکہ ایمان یہ محبت الٰہی کے حصول کی پہلی سیڑھی ہے جب کہ دوسری سیڑھی عمل صالح ہے،ایمان وعمل صالح یہ دونوں لازم ملزوم ہیں یعنی ایمان کے بغیر عمل صالح کی کوئی حیثیت نہیں اورعمل صالح یہ تو ایمان کے بغیرقبول ہی نہیں کئے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ رب العزت نے قرآن مجید کے اندر جگہ جگہ پر ایمان وعمل صالح کو ایک ساتھ بیان کیا ہے اوراگر آپ کو میری باتوں پر یقین نہ ہو تو پھر آپ خود قرآن کھول کردیکھئے آپ کو پورے تیس پارے کے اندرہرپارے میں کثیرتعداد میں ’’ الذین آمنو وعملوا الصالحات ‘‘ کے الفاظ ملیں گے اورہرجگہ پر آپ کو یہی بات ملے گی کہ رب کی رضا وخوشنودی ہو یا پھرجنت کی ٹکٹ،جہنم سے آزادی ہو یا پھرمیدان محشر کی پریشانیوں سے نجات،آپ ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر کی سیرابی ہویا پھرجنت میں رسول ﷺ کی صحبت ومعیت ان سب کے حصول کے لئے ایمان وعمل صالح کا ہونا ضروری ہے مگرکتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے پاس ایمان تو ہے مگر عمل صالح نہیں ہے!ہم عمل صالح کے بغیر ہی ان ساری چیزوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کہ ناممکن اورمحال ہے ،اس لئے میرے دوستو !اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو یہ ساری چیزیں بھی مل جائے اوراللہ کی محبت بھی حاصل ہوجائے تو پھرآپ آج ہی سے نیک اعمال کو بجالانا شروع کردیں کیونکہ اللہ رب العزت نے اپنے کلام پاک میں آپ کے لئے یہ وعدہ کررکھا ہے کہ ’’ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ‘‘ بیشک جوایمان لائے ہیں اور جنہوں نے شائستہ اعمال کئے ہیں ان کے لئے اللہ رحمان محبت پیداکردے گا۔(مریم:96)تو اگر آپ اللہ کی محبت کو حاصل کرناچاہتے ہیں تو پھر سب سے پہلے ایمان کے بعد نیک اعمال کو انجام دیجئےاور یادرکھ لیجئے نیک اعمال کے بغیر اللہ کی محبت کبھی بھی کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی ہےگرچہ وہ سید وسادات گھرانے سے ہی کیوں نہ ہوجیساکہ فرمان مصفطیﷺ ہے ’’ وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ ‘‘ جس کا عمل اسے پیچھے چھوڑدے تو اس کا حسب ونسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتاہے۔(مسلم:2699)کتنے بڑے نادان ہیں وہ لوگ جو بے نمازیوں،داڑھی مونڈھے،دیوانے اورمجنوں ،بیڑی اورسگریٹ وحقہ پینے والوں اورکبھی غسل نہ کرنےوالوں کو اللہ کا ولی سمجھ بیٹھتے ہیں۔اعاذنااللہ۔

(2)تقوی اختیار کرو اوراللہ کی محبت کو پالو:

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اوربہنو!ہم اور آپ اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی محبت مل جائے تو پھر اپنے آپ کو متقی بنائیے،اپنے دل کے اندرتقوی پیداکیجئے کیونکہ جولوگ بھی تقوی کواختیارکرتے ہیں تو ایسے لوگوں سے اللہ تعالی محبت کرنے لگ جاتاہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے اورقرآن میں اس بات کا ذکرباربارآیا ہے کہ’’ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ‘‘ الله تعالي متقيوں سے محبت رکھتاہے۔ (التوبہ:7)ايك دوسري جگہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے ’’ بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ‘‘کیوں نہیں البتہ جو شخص اپنا قرار پورا کرے اور پرہیزگاری کرے،تو اللہ تعالی بھی ایسے پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔(اٰل عمران:76)اور آپ ﷺ نے بھی فرمایا ’’ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ ‘‘ کہ بے شک اللہ تعالی اس بندے سے محبت کرتاہے جو متقی وپرہیزگار ،بےنیاز اور پوشیدہ نیکی کرنے والاہو۔(مسلم:2965) اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ متقی کون ہے اور تقوی کسے کہتے ہیں تو سنئےبقول حضرت علیؓ کہ’’ أَلتَّقْوىٰ هِيَ الْخَوْفُ مِنَ الْجَلِيْلِ وَالْعَمْلُ بِالتَّنْزِيْلِ وَالْقِنَاعَةُ بِالْقَلِيْلِ وَالْاِسْتِعْدَادُ لِيَوْمِ الرَّحِيْلِ ‘‘ تقوی اس چیز کا نام ہےکہ اللہ کےڈر وخوف کو اپنایا جائے اور قرآن کے مطابق عمل کیاجائے اور تھوڑےرزق پر قناعت کی جائے اور یوم آخرت کے لئے تیاری کی جائے،(مجلۃ البحوث الاسلامیۃ:69/289)اور ابن مسعودؓ نے کہا کہ تقوی یہ ہے’’ أَنْ يُطَاعَ فَلَا يُعْصَى وَأَنْ يُذْكَرَ فَلَا يُنْسَى وَأَنْ يُشْكَرَ فَلَا يُكْفَرَ ‘‘ کہ اللہ کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی نہ کی جائے،اور اللہ کو یادرکھا جائے اور بھلایانہ جائے،اور اللہ کا شکربجالایاجائے اور ناشکری نہ کی جائے۔(تفسیرطبری:5/639)تومیرے دوستو اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ آپ سے محبت کرے تو پھر اپنے دل کے اندر تقوی وللہیت اور خوف خداکو پیداکیجئےاوراپنے لئے اللہ سے تقوے کا بھی سوال کرتے رہئے جیساکہ اس سلسلےمیں مسلم شریف اور ابن ماجہ وغیرہ کے اندروہ دعامذکورہے جو آپﷺ اکثروبیشترمانگاکرتے تھے کہ ’’ أَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى ‘‘اے اللہ میں تجھ سے ہدایت،تقویی،پاک دامنی اور بے نیازی کا سوال کرتاہوں۔(مسلم:2721،ابن ماجہ:3832)

(3)طہارت وپاکیزگی کا اہتمام کرواوراللہ کی محبت کو حاصل کرلو:

میرے دوستو!اسلام ہی وہ مذہب جو ایک انسان کو اس کے عین فطرت کے مطابق وموافق دنیا وآخرت کی ہرطرح کی خیروبھلائی کی طرف رہنمائی کرتاہے،اب دیکھئے کہ فطری طورپرہرانسان کو صفائی وستھرائی اور خوشبو وپاکیزگی پسند ہے اوراسی کے برعکس ہرانسان کو گندگی وبدبوناپسند ہے، یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے انسانی فطرت کے موافق یہ فرمان سنایا کہ ہرآن و ہمہ وقت اپنے آپ کو پاک وصاف رکھنا اورطہارت وپاکیزگی کا خیال رکھنا یہ نصف یعنی آدھاایمان ہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ أَلطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ ‘‘کہ پاکی وصفائی کا اہتمام کرنا یہ نصف یعنی آدھا ایمان ہے۔ (مسلم:223)طہارت وپاکیزگی اورصفائی کا خاص خیال رکھنا یہ آدھاایمان کیوں نہ ہو جب کہ آج سائنس نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ طہارت وپاکیزگی جہاں ہوگی وہاں صحت مندی اور تندرستی اور جہاں گندگی ہوگی وہاں بیماریاں ہی بیماریاں ہوں گی الغرض جہاں ایک طرف طہارت وپاکیزگی یہ روحانیت کی غذا ہے اورنصف ایمان ہے وہیں پر دوسری طرف اس کی سب سے بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس سے رب کی رضاوخوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ‘‘اوراللہ تعالی خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتاہے۔(التوبۃ:108)

(4)توبہ کرتے رہاکروکیونکہ اس سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے:

انسان گناہوں کا پتلاہےاورانسان سے گناہوں کاصدور ہوجانایہ انسانی خاصہ ہے مگر گناہوں پر نادم وپشیمان ہوکرتائب ہوجانا یہ انسانی صفت ہے اور اپنے گناہوں پر ڈٹ جانا یہ ابلیسی صفت ہے، یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نےتوبہ کرنے والوں کو سب سے بہترین لوگ قراردیتے ہوئے فرمایا کہ’’ كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ ‘‘ ہرانسان گناہوں اورخطاؤں کاپُتلا ہے اوربہترین خطاکاروہ لوگ ہیں جو کثرت سے توبہ کرتے رہتے ہیں۔(ابن ماجہ:4251،اسنادہ :حسن)توبہ کرناجہاں ایک طرف اچھے اور بہترین لوگوں کی علامت وخصلت ہے وہیں پر دوسری طرف توبہ کرنے سے رب العزت خوش بھی ہوتا ہے اور ایسے لوگوں سے محبت بھی کرتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ‘‘ الله تعالي توبه كرنے والوں کو اورپاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔(البقرۃ:222)

(5)اطاعت رسولﷺکواپناؤ اوراللہ کی محبت کو پالو:

جن عملوں کی وجہ سے ایک انسان کو اللہ کی محبت حاصل ہوسکتی ہے اس میں سب سے اہم چیز اطاعت رسولﷺ ہے،اطاعت رسول ہی وہ چیز ہے جوایک مسلمان کو دنیا وآخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے،اطاعت رسول کے بغیر نہ تو کوئی مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان کہلائے جانے کا مستحق ہے اور نہ ہی اطاعت رسول کے بغیرکوئی عمل اس کی قبول ہوسکتی ہے،قرآن مجید کے اندر جگہ جگہ پر اس بات کا تذکرہ کیاگیا ہے کہ اطاعت رسول ہی اللہ کی اطاعت ہے، اطاعت رسول ہی ایک مومن کی پہچان ہے ،اطاعت رسول سے ہی اخروی نجات ممکن ہے الغرض اطاعت رسول سے ہی دنیا وجہاں میں کامیابی ممکن ہے،صرف یہی نہیں بلکہ اطاعت رسول ہی وہ چیز سے جس سے ایک انسان کو اللہ کی محبت سب سے پہلے حاصل ہوسکتی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ‘‘كهه ديجئے!اگرتم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہوتومیری تابعداری کرو،خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالی بڑابخشنے والا مہربان ہے۔(اٰل عمران:31)

(6)احسان کرو!اللہ کی محبت تمہیں مل جائے گی:

جن عملوں کی وجہ سے ایک انسان محبوب خدابن جاتاہےان میں سے ایک احسان کرنا بھی ہے،احسان کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی تمام مخلوق انسان وحیوان،چرندوپرند وغیرہ کے ساتھ اچھابرتاؤ کرے اوران کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اور اللہ تعالی کی عبادت وبندگی اور تمام نیکیوں کو بہترین طوروطریقے سےاور اخلاص کے ساتھ بجالائے،اس بارے میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے ’’ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ‘‘اورسلوك واحسان کرو،اللہ تعالی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتاہے۔(البقرۃ:195)ایک دوسری جگہ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ’’ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ‘‘ جولوگ آسانی میں سختی کے موقعہ پر بھی اللہ کےراستے میں خرچ کرتے ہیں،غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزرکرنے والے ہیں،اللہ تعالی ان نیک کاروں سے محبت کرتاہے۔(اٰل عمران:134)

(7) مصائب ومشکلات پر صبرکرنے والوں کو اللہ کی محبت مل جاتی ہے:

اس دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں جس کو مصیبتوں اورپریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتاہو،ہرانسان کو اس کی موت تک کسی نہ کسی شکل میں کوئی نہ کوئی پریشانی ومصیبت لاحق ہوتی رہتی ہے،اب اس انسان کے اختیارمیں ہے کہ وہ اس مصیبت پرجزع وفزع اور آہ وبکا کرے یاپھر رب کا شکربجالائے،اگر انسان جزع وفزع اور آہ وبکاکرے گا تو اسی کا نقصان ہوگااوراگر صبرسے کام لے گا تو اسی کا بھلا اور فائدہ ہوگاکیونکہ صبرکرنے والوں کو بے حساب اجروثواب سے نوازاجائے گا جیساکہ فرمان باری تعالی ہے’’ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ‘‘ صبركرنے والوں ہی کو ان کا پوراپورا بے شمار اجردیاجاتاہے۔ (الزمر:10)صبرکرنے والوں کو جہاں بے حساب اجروثواب سے نوازاجائے گا وہیں پر دوسری طرف ایسے لوگوں کو رب کی رضاوخوشنودی بھی حاصل ہوجاتی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ ‘‘ اور الله صبركرنے والوں کو (ہی )چاہتاہے۔(اٰل عمران:146)

(8) آزمائشوں سے دوچارہونے والے مومن کو بھی اللہ کی محبت مل جاتی ہے:

ہم انسانوں پر جوبھی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور جوکچھ بھی ہمیں غم وپریشانی لاحق ہوتی ہے وہ کبھی ہمارے برے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے تو کبھی ہمارے اوپر یہ ساری چیزیں بطورآزمائش نازل کی جاتی ہے،اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم یہ کیسے جانیں کہ کون سی مصیبت باعث آزمائش ہے اور کون سی مصیبت باعث سزا ،تو اس کی پہچان آپ اس طرح سے کرسکتے ہیں کہ جس مصیبت وپریشانی سے ایک انسان اللہ کے قریب ہوجائے تو وہ مصیبت اس کے لئے باعث آزمائش تھی اورجس مصیبت سے ایک انسان اللہ سے دورہوجائے تو وہ مصیبت اس کے برے اعمال وکرتوت کی وجہ سے اس کے لئے باعث سزاتھی۔

میرے دوستو!آپ یہ بات جان لیں کہ جو مسلمان اپنے ایمان وعقیدے میں جتناپختہ ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ ابتلا وآزمائش سے دوچار ہوگااور جتنا وہ اس ابتلاوآزمائش پرصابروشاکررہے گا اتنا ہی اسے رب کی رضاوخوشنودی ملے گی جیسا کہ سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا’’ عِظَمُ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاءِ ‘‘ زیادہ ثواب بڑی آزمائش سے ہی حاصل ہوتا ہے،’’ وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السُّخْطُ ‘‘اور اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتاہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتاہے،اب جو اس آزمائش پر راضی برضارہے گا تو اسے اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل ہوگی اور جو ناراض ہوجائے گا تو اسے اللہ کی ناراضگی ہی حاصل ہوگی۔(ابن ماجہ:4031،ترمذی:2396، وقال الألبانیؒ اسنادہ حسن)اس لئے میرے دوستو!ہمیشہ ہرمصیبت و پریشانی کے وقت صبروسہاررکھو اورہر مصیبت وپریشانی کو اپنے لئے برامت سمجھو بلکہ اللہ سے اچھی امید رکھو اور یہ حدیث یادرکھو کہ اللہ جس کے ساتھ خیروبھلائی کا ارادہ رکھتاہے اسے ہی مصیبت وپریشانی سے دوچار کرتاہےجیسا کہ سیدنا انسؓ سے ہی مروی حدیث کے اندر ہے آپﷺ نے فرمایاکہ’’ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ العُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا ‘‘جب اللہ تعالی اپنے بندے سے بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اسے دنیا میں ہی جلدسزادے دیتاہے ’’ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَافِيَ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ ‘‘اور جب اپنے بندے سے شرکاارادہ کرتاہے تو اس کے گناہوں کے باوجود اس سے سزاکو روک لیتاہے،یہاں تک کہ اسے قیامت کے دن پوراپورابدلہ دیاجائے گا۔(ترمذی:2396،وقال الألبانیؒ اسنادہ حسن)

(9) اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرو!رب کی محبت تمہیں مل جائے گی:

برادران اسلام! جولوگ بھی ایک دوسرے سے صرف اورصرف ایک اللہ کے محبت کریں گے اورایک اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے ایک دوسرے سے تعلقات قائم رکھیں گے تو ایسے لوگوں کوبھی اللہ کی محبت حاصل ہوجاتی ہے جیسا کہ ابوادریس خَوْلانیؒ کہتے ہیں کہ دمشق کی ایک مسجد میں میری ملاقات سیدنا معاذبن جبلؓ سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ ’’ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ لِلَّهِ ‘‘ اللہ کی قسم میں آپ سے صرف اور صرف اللہ کے لئے محبت کرتاہوں!تو انہوں نے مجھ سے تین مرتبہ پوچھا کہ اللہ کی قسم!کیا ایسا ہی ہے، تو میں نےتینوں مرتبہ یہی جواب دیا کہ اللہ کی قسم!جی ہاں ایسا ہی ہےتو انہوں نے میری چادر کا کونہ پکڑااورمجھے اپنی طرف کھینچتے ہوئے فرمایا کہ تم یہ خوشخبری حاصل کرلوکہ میں نے آپﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ رب العزت کا یہ کہنا ہےکہ ’’ وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ،وَلِلْمُتَجَالِسِينَ فِيَّ،وَلِلْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ ،وَلِلْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ ‘‘میری محبت ان لوگوں کے لئے واجب ہوجاتی ہے جو میری ذات کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں،اورمیری ذات کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے اوربیٹھتے ہیں اور میری ذات کی خاطر ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور میری ذات کی خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔(صحیح الترغیب والترھیب للألبانیؒ:3018)آئیے اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں کی فضیلت میں ایک اور حدیث کوسنتے ہیں کہ ابومسلمؒ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنامعاذؓ سے کہا کہ اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت رکھتاہوں اور یہ محبت کسی دنیاوی فائدے حاصل کرنے کی وجہ سے نہیں ہے کہ جس کے بارے میں مجھےیہ امید ہوکہ مجھے آپ سے یہ فائدہ حاصل ہوجائے گا،اورنہ ہی یہ محبت میرے اورآپ کے درمیان کسی رشتے داری کی وجہ سے ہے،انہوں نے فرمایاکہ جب ایسی کوئی چیز نہیں ہے تو پھر کس وجہ سے تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟میں نے کہا کہ اللہ کی وجہ سے! تو انہوں نے میری چادرکا کنارہ پکڑا اور پھر فرمایا کہ اگرتم سچے ہو تم یہ خوشخبری حاصل کروکہ میں نے آپﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’ أَلْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ يَغْبِطُهُمْ بِمَكَانِهِمِ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ ‘‘اللہ تعالی کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے لوگ اس دن عرش کے سائے میں ہوں گے،جب اس کے سائے کے علاوہ کوئی اور دوسراسایہ نہیں ہوگا اور ان لوگوں کے اس مقام ومرتبے پر پہنچنے کی وجہ سے انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے،ابومسلم بیان کرتے ہیں کہ میری ملاقات سیدناعبادہ بن صامتؓ سے ہوئی تو میں نے سیدنامعاذؓ کی بیان کردہ حدیث انہیں سنائی تو انہوں نےیہ کہاکہ میں نے بھی آپﷺ کو یہ حدیث قدسی بیان کرتے ہوئے سنا کہ اللہ رب العزت کا یہ کہنا ہے کہ’’ حَقَّتْ مَحَبَّتِي عَلَى الْمُتَحَابِّينَ فِيَّ وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي عَلَى الْمُتَنَاصِحِينَ فِيَّ وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي عَلَى الْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ هُمْ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُهُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ وَالصِّدِّيقُونَ ‘‘ میری محبت ان لوگوں کے لئے واجب ہوجاتی ہے جو میرے لئےایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے واجب ہوجاتی ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کی خیرخواہی کرتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے واجب ہوجاتی ہےجو میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں،یہ لوگ نورکے بنے ہوئے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے اور انبیاء ،شہداء اور صدیقین بھی ان لوگوں پر رشک کریں گے۔(صحیح الترغیب والترھیب للألبانیؒ:3019)میرے دوستو!اللہ کےلئے محبت کرنا یہ کتنی عظیم چیز ہےاوراس کی فضیلت کتنی عظیم ہے آئیے اس بارے میں ایک اورپیاری سی حدیث کوسنتے ہیں ،سیدنا عمربن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لَأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى ‘‘ اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو نہ تو نبی ہوں گے اورنہ ہی شہداء مگر ان کے بلندمقام ومرتبے کی وجہ سے ان پر انبیاء وشہداء بھی رشک کریں گے،صحابہ ٔ کرام نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ !آپ ہمیں بتادیں کہ وہ خوش نصیب کون لوگ ہوں گے؟توآپﷺ نے فرمایا’’ هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ وَلَا أَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ لَا يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ وَلَا يَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ ‘‘کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپس میں اللہ کی کتاب یا اللہ کے ساتھ محبت کی بناپر محبت کرتے تھے،حالانکہ ان کا آپس میں کوئی رشتہ ناتا یا مالی لین دین نہ تھا،اللہ کی قسم!ان کے چہرےپُرنور ہوں گے اوروہ نورپر ہوں گے،جب لوگ خوف زدہ ہوں گے تو انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اورجب لوگ غمگین وپریشان ہورہے ہوں گے تو انہیں کوئی غم اورپریشانی نہ ہوگی،پھرآپﷺ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی کہ ’’ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ‘‘آگاہ رہو! اللہ کے ولیوں کوکوئی خوف نہ ہوگا اورنہ ہی وہ غم کھائیں گے۔(یونس:62)۔(ابوداؤد:3527،وقال الألبانیؒ اسنادہ صحیح)

(10)انصاف کرواوراللہ کی محبت کو حاصل کرلو:

محترم قارئین! جن لوگوں سے اللہ محبت کرتاہے ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو اپنے زندگی کے تمام معاملات میں انصاف سے کام لیتے ہیں،جواپنے اولاد کے درمیان میں انصاف سے کام لیتے ہیں،جو اپنے ماتحت لوگوں کے درمیان میں انصاف سے کام لیتے ہیں،جو لوگوں کے درمیان صلح وغیرہ کرانے میں انصاف سے کام لیتے ہیں،جو لوگوں کے درمیان پنچائت کرنے کے وقت انصاف سے کام لیتے ہیں،جواپنی زمین وجائیداد کی تقسیم کے وقت انصاف سے کام لیتے ہیں،فرمان باری تعالی ہے’’ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ‘‘ اورعدل کرو بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔(الحجرات:9)ایک دوسری جگہ اللہ رب العالمین نے فرمایا ’’ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ‘‘ اوراگرتم فیصلہ کرو تو ان میں عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرو،یقینا عدل والوں کے ساتھ اللہ محبت رکھتا ہے۔(المائدہ:42)

میرے دوستو!انصاف کرنے والوں کو اللہ کتناپسند کرتاہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو رب العزت کل قیامت کے دن اپنے دائیں جانب نورکے منبروں پر بیٹھائے گاجیسا کہ سیدناعبد اللہ بن عمروبن عاصؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ ‘‘بے شک کہ انصاف کرنے والے لوگ اللہ کے پاس دائیں جانب نورکے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے اور اللہ رب العزت کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں،اور یہ خوش نصیب وہ لوگ ہوں گے جو’’ أَلَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا ‘‘اپنی رعایا اور اپنے اہل وعیال اور جس کا انہیں ذمہ داربنایاگیا تھا اس میں وہ عدل وانصاف سے کام لیتے تھے۔ (مسلم:1827)

(11) اللہ پر بھروسہ کرنے والوں سے اللہ محبت کرتاہے:

میرے دوستو!جن لوگوں کواللہ کی محبت حاصل ہوتی ہیں ان خوش نصیب افراد میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو اپنے زندگی کے ہرمعاملے میں اللہ ہی پربھروسہ کرتے ہیں،یہ توکل علی اللہ جہاں ایک طرف مومن کی نشانی وپہچان ہے وہیں پر دوسری طرف یہ توکل علی اللہ ایک ایسی عبادت ہے جس کو اپنانے اوراختیارکرنے والا کبھی مایوس نہ ہوگا اورنہ ہی کبھی ناکام ونامراد ہوگااور یہ توکل علی اللہ ہیوہ دوا ہے جس سے ہربگڑی بن جاتی ہےجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا ‘‘آپ اللہ ہی پر توکل رکھیں وہ کارسازی کے لئے کافی ہے۔(الاحزاب:3)ایک دوسری جگہ پر فرمان باری تعالی ہے’’ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ‘‘ اورجو شخص الله پرتوکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔(الطلاق:3)یہ توکل علی اللہ ہی وہ ہتھیار ہے جس سے ایک انسان کےجان ومال کی حفاظت کی جاتی ہےاگرآپ کو میری باتوں پریقین نہ آئے تو پھرسیدہ ہاجرہ اوران کے معصوم بیٹے سیدنا اسماعیل علیھما الصلاۃ والسلام کے اس واقعے کو یاد کیجئے کہ سیدہ ہاجرہ اور ان کے معصوم ننھے منے بیٹے اسماعیل علیھما الصلاۃ والسلام کو جب بے آب وگیاہ میدان میں سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام نے چھوڑا تو اس وقت سیدہ ہاجرہ نے اللہ پر بھروسہ دکھاتے ہوئے اپنے سرتاج سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سے یہ کہاتھا کہ’’ إِذَنْ لاَ يُضَيِّعُنَا ‘‘ آپ بے فکر ہوکرجائیں جب یہ اللہ کا حکم ہے تو پھر اللہ ہمیں ضائع وبرباد نہیں کرے گا،(بخاری:3364)اوردنیا جانتی ہے کہ اللہ نے کس طرح سے دونوں ماں بیٹے کے جان ومال کی حفاظت کی،اسی طرح سے توکل علی اللہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے رزق کے دروازے بھی وا ہوتے ہیں جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا ‘‘ اگر تم اللہ پر ویسے ہی بھروسہ کرو جیسا کہ اللہ پربھروسہ کرنے کا حق ہے تو اللہ تمہیں اس طرح سے رزق دے گا جس طرح پرندوں کو دیتاہےکہ وہ صبح کو اپنے گھونسلوں سے بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو سیرہوکرلوٹتے ہیں۔(ابن ماجہ:4164،ترمذی:3344،وقال الالبانیؒ:اسنادہ صحیح)یہ توکل علی اللہ ایک ایسی عبادت ہے جس کو اپنانے اوراختیارکرنے والے لوگ بغیرحساب وکتاب کے جنت میں جائیں گے۔(مسلم:218،بخاری:6541)میرے دوستو!توکل علی اللہکی یہ ساری فضیلتیں ایک طرف مگردوسری سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ جو انسان بھی توکل علی اللہ کو اپناتاہے تو اللہ رب العزت اس سے محبت کرنے لگ جاتاہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ‘‘بے شک اللہ تعالی توکل کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔(اٰل عمران:159)

(12) نرمی کو اپناؤ!اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا:

میرے دوستو! جن خوش نصیب افراد کو اللہ پسند کرتاہے اورجن سے رب العزت محبت کرتاہے ان میں سے ایک وہ خوش نصیب انسان بھی ہے جو نرمی کو اپناتاہےکیونکہ یہ نرمی کرنا اللہ کو ہرکام میں بے حدپسند ہے،صرف پسند ہی نہیں بلکہ نرمی اختیارکرنے پر رب العزت وہ سب کچھ عطابھی کردیتاہے جن سے سختی کو اپنانے والے لوگ محروم رہتے ہیں،جیسا کہ اماں عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپﷺ نے انہیں یہ نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے عائشہؓ ایک بات یاد رکھنا کہ ’’ إِنَّ اللهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ ‘‘ بے شک اللہ تعالی نرمی کرنے والا اورنرمی کو پسند کرتاہے اورنرمی کی وجہ سے اللہ رب العزت وہ سب کچھ عطافرتاہے جو سختی کی بناپر عطا نہیں فرماتاہے ،بلکہ جتنا نرمی کی بناپر اللہ رب العزت عطا کرتاہے اتنا تو کسی بھی بات پر عطا نہیں کرتاہے۔(مسلم:2593) ایک دوسری روایت کے اندر ہے اماں عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِأَهْلِ بَيْتٍ خَيْرًا أَدْخَلَ عَلَيْهِمُ الرِّفْقَ ‘‘ جب اللہ تعالی کسی گھروالوں کے ساتھ خیروبھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اللہ ان میں نرمی کو پیدافرمادیتاہے۔(الصحیحۃ:1219،مسنداحمد:24427)میرے دوستو!آپﷺ کی یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا کہ جوگھروالے بھی نرمی کو اپنائیں گے ہمیشہ فائدے میں رہیں گے اورجوگھر والے بھی سختی کو اپنائیں گے ہمیشہ نقصان اٹھائیں گے جیسا کہ حضرت عبد الله بن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ مَا أُعْطِيَ أَهْلُ بَيْتِ الرِّفْقَ إِلَّا نَفَعَهُمْ وَلَا مُنِعُوهُ إِلَّا ضَرَّهُمْ ‘‘کہ جس گھروالوں کو نرمی عطا کی جاتی ہے تو یہ نرمی ان کو فائدہ دیتی ہے اورجس گھروالوں کو بھی نرمی سے محروم کردیاجاتاہے تو وہ گھر والے نقصان ضروراٹھاتے ہیں۔(الصحیحۃ:942،صحیح الجامع للألبانیؒ:5541)سبحان اللہ!!آپﷺ نے نرمی اپنانے والوں کو کتنی بڑی بڑی فضیلتیں سنائی ہے کاش کہ ہم سب اپنے تمام معاملات میں نرمی کو اختیارکرتے،میرے دوستو!اگرآپ اپنے رب کی بے پایاں انعام واکرام کو حاصل کرناچاہتے ہیں تو پھراپنی زندگی میں،اپنے معاملات میں، اپنے خاندانی وسماجی ومعاشرتی مسائل میں اور اپنے لین دین میں،اپنے کاروبار میں نرمی کو اپناؤ کیونکہ جولوگ بھی نرمی کو اپناتے ہیں تو ایسے لوگوں کے حق میں نبیٔ اکرم ومکرمﷺ نے بھی دعادیتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ رب العزت بھی ایسے لوگوں پر رحم کرے جو نرمی کو اپنائے جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ وَإِذَا اشْتَرَى وَإِذَا اقْتَضَى ‘‘ اللہ تعالی ایسے شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت اورخریدتے وقت اورتقاضاکرتے وقت فیاضی اورنرمی سے کام لیتاہے۔(بخاری:2076)صرف اللہ رحم ہی نہیں کرتاہے بلکہ ایسے لوگوں سے اللہ محبت بھی کرتاہے جو اپنے خریدوفروخت اورلین دین میں نرمی کو اپناتے ہیں جیسا کہ سیدناابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ سَمْحَ البَيْعِ سَمْحَ الشِّرَاءِ سَمْحَ القَضَاءِ ‘‘ بے شک اللہ تعالی اس انسان سے محبت کرتاہے جو بیچنے میں،خریدنے میں اورقرض کی ادائیگی میں نرمی کو اپنائے۔ (ترمذی:1319،الصحیحۃ:899)ایک دوسری روایت کے اندر ہے حضرت ابوعِنَبَہْ خَوْلانی ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ للهِ آنِيَةً مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ وَآنِيَةُ رَبِّكُمْ قُلُوبُ عِبَادِهِ الصَّالِحِينَ وَأَحَبُّهَا إِلَيْهِ أَلْيَنُهَا وَأَرَقُّهَا ‘‘ کہ بے شک اہل زمین میں سے اللہ تعالی کے لئے برتنیں ہیں اورتمہارے پروردگار کے برتن نیک لوگوں کے دل ہیں اوران میں سب سے زیادہ محبوب وپسندیدہ وہ لوگ ہیں جو نرمی اورشفقت کرنے والے ہیں۔(الصحیحۃ:1691)ميرے دوستو!آپﷺ کی یہ نصیحت اورآپﷺ کا یہ فرمان ہمیشہ یادرکھنا کہ ’’ فَإِنَّ الرِّفْقَ لَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا زَانَهُ وَلَا نُزِعَ مِنْ شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا شَانَهُ ‘‘جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے تو یہ اس کو خوبصورت بنادیتی ہے اورجس چیز سے بھی نرمی چھین لی جاتی ہےتو یہ اس کو عیب دار بنادیتی ہے۔(الصحیحۃ:524،ابوداؤد:2478)

(13)دنیا میں مگن نہ رہنےوالوں کے لئے اللہ کی محبت کا اعلان:

میرے دوستو!اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ آپ سے محبت کرنے لگے تو پھرآپ دنیاسے بے رغبت ہوجاؤ اوردنیا کے پیچھے نہ بھاگو ،اس دنیا کی حیثیت تو اللہ رب العزت کی نگاہ میں ایک مچھر کے پرکے برابربھی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت اس دنیا اوراس دنیا کے مال ومنال سےاسے بھی نوازتاہے جسے پسند نہیں کرتاہے مگراللہ اپنی محبت سے سب کو نہیں نوازتاہے اسی لئےدنیاسے اتناہی دل لگاؤ جتنا کہ تمہاراگذربسرہوجائےاوراگرزیادہ دل لگاؤ کہ تو پھر ایک نہ ایک دن بہت پچھتاؤگے اورخون کے آنسوروؤگےکیونکہ یہ دنیااوراس کی تمام رعنائی وخوبصورتی ایک نہ ایک دن فناہونے والی ہے مگر رب العزت اوراس کی محبت کو کبھی زوال نہیں اس لئے اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو رب کی محبت حاصل ہوجائے تو پھرآج سے ہی ایک آسان عمل پر عمل پیراہوجائیں،اللہ آپ سے محبت کرنے لگے گا ،حضرت سھل بن سعد ساعدیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اورگویاہوا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ’’ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِي اللَّهُ وَأَحَبَّنِي النَّاسُ ‘‘مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ اگرمیں وہ کرنے لگوں تو رب العزت بھی مجھ سے محبت کرنے لگے اورلوگ بھی مجھ سے محبت کرنے لگے تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ إِزْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ ‘‘دنیاسے بے رغبت ہوجاؤ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اورلوگوں کے پاس جو کچھ بھی ہے اس سے تم بے نیاز ہوجاؤیعنی ان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھو،لوگ بھی تم سے محبت کرنے لگیں گے۔(ابن ماجہ:4102،الصحیحۃ:944)میرے دوستو! یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھ لیں کہ رب کی محبت سے بڑھ کرکوئی چیز نہیں اورجسے رب کی محبت مل گئی تو سمجھو اس کی دنیا وآخرت سنورگئی۔

(14) تین قسم کے لوگوں سے اللہ محبت کرتاہے:

برادران اسلام! آپ نے بالکل صحیح سنا کہ تین قسم کے لوگ ایسے خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جن سے اللہ محبت کرتاہے،نمبرایک وہ خوش نصیب انسان جو متقی ہویعنی اپنے دل میں ہرآن اورہرلمحہ اللہ کا ڈر وخوف رکھ کرجیتاہو، نمبر دو وہ انسان جو لوگوں کے مال ودولت پرنگاہ نہ رکھتاہوبلکہ وہ ان سے بے نیاز ہو اورنمبر تین وہ انسان جو گمنام ہویعنی چھپ چھپاکرنیکیاں کرتاہو اورریاکاری وشہرت کے مقامات سے بچتاہواورلوگوں کے معاملات میں بلاوجہ میں دخل نہ دیتاہوں جیسا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ ‘‘ کہ بے شک اللہ رب العزت متقی،بے نیاز اورچھپے آدمی سے محبت کرتاہے۔(مسلم:2965،الصحیحۃ:3514)

(15) دل جوئی ویکسوئی کے ساتھ کام کرنے والوں سے اللہ محبت کرتاہے:

میرے دوستو! دین ودنیا میں کامیابی کا ایک اہم راز یہ ہے کہ جو بھی کام کیاجائے وہ دل جوئی ویکسوئی ،ذوق وشوق کے ساتھ کیا جائےیہی وجہ ہے کہ رب العزت نے اپنے کلام پاک میں جگہ جگہ پر دل جوئی ویکسوئی کے ساتھ عبادتوں کو انجام دینے کی تلقین کی ہے،اورخودآپﷺ نے بھی نمازودعاجیسی عبادتوں کو انجام دینےمیں اس بات کی تاکیدی حکم دی ہے کہ ہرعبادت کودل جوئی ویکسوئی اوراطمینان قلب کے ساتھ اداکیاجائےمگرافسوس آج کل دیکھایہ جاتاہے کہ لوگ کچھ دن خوب جی توڑ محنت ولگن سے کوئی کام کرتے ہیں اورپھر ہمت ہارجاتے ہیں نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ نہ تو ادھر کے رہتے ہیں اورنہ ہی ادھر کے رہتے ہیں اسی لئے آج آپ سب یہ بات یادرکھ کرجائیں کہ ہرچیز میں محنت ولگن کی سخت ضرورت ہوتی ہے اوراللہ بھی اس چیز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتاہے بلکہ اللہ کو یہ بات پسند ہی ہے کہ جو بھی کام کیا جائے دل جوئی ویکسوئی کے ساتھ کیا جائے جیسا کہ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ إِذَا عَمِلَ أَحَدُكُمْ عَمَلًا أَنْ يُتْقِنَهُ ‘‘ بے شک کہ اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتاہے کہ جب بھی تم میں سے کوئی ایک عمل کرے تو اس کو اچھائی اورعمدگی کے ساتھ کرے۔(الصحیحۃ:1113)ایک دوسری روایت کے اندر ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ اللهَ تَعَالٰی يُحِبُّ مِنَ الْعَامِلِ إِذَا عَمِلَ أَنْ يُحْسِنَ ‘‘ کہ بے شک کہ اللہ رب العزت اس بات کو پسندکرتاہے کہ جب کوئی انسان کوئی کام کرے تو اسے عمدگی واچھائی کے ساتھ انجام دے۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:1891،الصحیحۃ:1113)پتہ یہ چلاکہ جب اللہ رب العزت کو عمدگی واچھائی کے ساتھ کام کرنا پسند ہے توایساکرنے والابدرجہ اولی اللہ کی نظر میں محبوب ہوگا۔

(16) ایک ایساصدقہ جس کوانجام دینےوالوں سے اللہ محبت کرتاہے:

میرے دوستو!ہم انسان ہیں اورہم انسانوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے سہنے ،معاملات کو انجام دینے اوررشتے داری کو نبھانے میں کچھ اونچ نیچ ہوہی جاتی ہے،ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں کچھ نہ کچھ ناچاقی آہی جاتی ہے مگر خیروبھلائی اس میں ہے کہ اس اختلاف وانتشار وناچاقی کو جلدازجلد صلح کرکے ختم کرلیاجائے کیونکہ اللہ نے صلح میں ہی خیروبھلائی رکھاہےجیساکہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ‘‘ صلح بہت بہتر چیز ہے۔(النساء:128)ذرا فرمان الٰہی پر غورکیجئے کہ اللہ رب العزت کا یہ کہنا ہے کہ ہرکام اورہربات میں صلح ہی بہتر ہے مگرسماج ومعاشرے کے اندرآج کل کے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مردے کی طرح اکڑجاتے ہیں اورصلح کرنے کو اپنے ناک کا مسئلہ بنالیتے ہیں پھرنتیجہ یہ ہوتاہے کہ اپنی انا میں وہ خود فنا ہوکررہ جاتے ہیں اوراپنی دنیاوآخرت خوداپنی کرتوت سے بربادکرلیتے ہیں،اسی دنیوی واخروی ہلاکت وبربادی سے بچانے کےلئےتو رب العزت نے یہ حکم دیا کہ دیکھو اپنے ہرمعاملات میں صلح کوہاتھ سے جانے نہ دینا جیساکہ فرمان باری تعالی ہے ’’ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ‘‘سوتم الله سے ڈرو اوراپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو۔(الانفال:1)اسی طرح سے ایک دوسری جگہ پر رب العزت نے فرمایا کہ ’’ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‘‘ياد ركھو سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دوبھائیوں میں ملاپ کرادیاکرو،اوراللہ سے ڈرتے رہوتاکہ تم پر رحم کیاجائے۔(الحجرات:10)ذراغورکیجئے کہ رب نے لوگوں کوجوڑنے اورمیل ملاپ کرانے کا حکم دیا ہے مگر افسوس صد افسوس آج سماج ومعاشرے میں اکثر ایسے لوگ ہیں جو آگ بجھانے اورآگ میں پانی ڈالنےکے بجائے آگ لگانےبلکہ آگ میں پیٹرول ڈالنے کی ناپاک کوشش کرتے رہتے ہیں اوران کی کوشش وتگ ودویہی رہتی ہے کہ دوبھائی اوردوخاندان آپس میں لڑتے رہیں اور وہ اپناالوسیدھاکرتے رہیں تو ایسے لوگوں سے آپ ہوشیاررہیں اورایسے لوگوں کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ رب العزت تو ایسے لڑانے والوں اورآگ لگانے والوں سے نفرت کرتاہےاوران لوگوں کو پسند کرتاہے جو لوگوں کےدرمیان صلح کرانے کی فراق میں لگے رہتے ہیں،جیسا کہ سیدنا ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى صَدَقَةٍ يُحِبُّ اللَّهُ مَوْضِعَهَا ‘‘کیامیں تمہیں ایسا صدقہ نہ بتاؤں کہ اللہ اس مصرف کو بہت پسند کرتاہے؟تو وہ یہ ہے کہ ’’ تُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ يُحِبُّ اللَّهُ مَوْضِعَهَا ‘‘ تم لوگوں کے درمیان صلح کروادیاکرو کیونکہ یہ ایک ایساصدقہ ہے کہ اللہ اس مصرف کو بہت پسند کرتاہے۔ (الصحیحۃ:2644) معلوم یہ ہوا کہ جب اللہ رب العزت کو صلح کرنا اورکرانا پسند ہے تو جو مصلح یعنی صلح کرانے والا ہوگا تو وہ بھی محبوب الٰہی ہوگا،میرے دوستو!یہ صلح کرانا اورمیل ملاپ کرادینااورالفت ومحبت کے ساتھ رہنا یہ ایک ایسانیک کام ہے جسے محبوب خداﷺ نے سب سے افضل عمل قراردیتے ہوئے فرمایا کہ اے میرے صحابہ ’’ أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِدَرَجَةٍ أَفْضَلَ مِنَ الصَّلَاةِ وَالصِّيَامِ وَالصَّدَقَةِ ‘‘کیامیں تمہیں ایک ایسادرجہ نہ بتاؤں جو نماز ،روزہ اورصدقہ کرنے سے بھی افضل ہے،اورایک دوسری روایت کے اندر ہے کہ آپﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ’’ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِمَا هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنَ الصَّدَقَةِ وَالصِّيَامِ ‘‘ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہارے لئے صدقہ کرنے اورروزہ رکھنے سے بہتر ہے، تو صحابۂ کرامؓ نے کہا کہ کیوں نہیں ضروربتادیجئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ ‘‘ آپس کے تعلقات کو درست رکھنااورہاں ایک بات یادرکھنا کہ آپس کا بگاڑ یہ مونڈ دینے والی چیز ہے یعنی دین کا خاتمہ کردینے والی چیزہے۔(الادب المفرد:391،412 وقال الالبانیؒ: اسنادہ صحیح)اسی طرح سے ایک دوسرے کے درمیان صلح کرانا اورمیل ملاپ کرادینے کو تو آپﷺ نے سب سے افضل عمل قرادیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ شَيْئًا أَفْضَلَ مِنَ الصَّلَاةِ وَصَلَاحِ ذَاتِ الْبَيْنِ وَخُلُقٍ حَسَنٍ ‘‘انسان کاکوئی بھی عمل نماز ،آپس کے تعلقات کی درستی اوراچھے اخلاق سے زیادہ افضل نہیں ہے۔(الصحیحۃ:1448)ہائے افسوس! جتنایہ اعلی وارفع اورپاکیزہ وافضل عمل ہےاتنا ہی آج کا مسلمان اس سے کوسوں دور ہےاوردیکھا یہ جاتاہے کہ ہرکس وناکس ایک دوسرے کو ایک دوسرے سے جداکرنے اورلڑانے کے چکرمیں لگارہتاہے بلکہ سماج ومعاشرے کے اندر تو کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑتادیکھ کر مزہ بھی آتاہے اوروہ اندرہی اندر ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے رہتے ہیں تو جولوگ بھی اس طرح کی اوچھی اورنیچ حرکت کرتے ہیں انہیں یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ اللہ ایسے فسادیوں سے نفرت کرتاہے۔

(17) اپنے اندراخلاق حسنہ کو پیداکرو اللہ کی محبت تمہیں مل جائے گی:

میرے دینی اسلامی بھائیو اوربہنو:اخلاق حسنہ ایک ایسی چیز ہے جو اللہ اوراس کے رسولﷺ کو بے حد محبوب ہے،(الصحیحۃ:792)اوراسی اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لئےتو نبی ٔ اکرم ومکرم ﷺ کو مبعوث کیا گیا تھا،(الصحیحۃ:45)یہی وہ اخلاق حسنہ ہے جس کو اپنا کر ایک انسان اس مقام تک پہنچ جاتاہے جس کو بہت سارے روزے داراورراتوں میں قیام کرنے والے لوگ ہی حاصل کرپاتے ہیں،(الصحیحۃ:794)اخلاق حسنہ سے متصف انسان بروزقیامت حشرکے میدان میں اپنے نبی کی محفل ومجلس میں ہوگا اوربرے اخلاق والا انسان اپنے نبی سے اتناہی زیادہ دورہوگا،(الصحیحۃ:791)اخلاق حسنہ ہی وہ چیز ہے جس کو اپنانے والا اپنے نبی ﷺ کے نزدیک بھی محبوب بن جاتاہے۔(الصحیحۃ:792)اخلاق حسنہ ہی وہ چیز ہے جس سے ایک انسان کے عمرمیں اضافہ بھی ہوجاتاہے، (الصحیحۃ:519)اچھاوعمدہ اخلاق اچھے انسان کی نشانی وعلامت بھی ہے،(الصحیحۃ:286)اچھا وعمدہ اخلاق اپنانے والا کامل مومن بھی بن جاتاہے۔(الصحیحۃ:284) اخلاق حسنہ ہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے بہت زیادہ لوگ جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ (الصحیحۃ:977،ترمذی:2004)اخلاق حسنہ یہ وہ نیک عمل ہے جو بروز قیامت ترازو میں بہت وزنی ہوگا۔(ترمذی:2002) الغرض اخلاق حسنہ کی ان ساری فضیلتوں میں سب سے عظیم فضیلت یہ بھی ہے کہ اخلاق حسنہ رب العزت کو بہت پسندہے اور جن لوگوں کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں اللہ رب العزت ان لوگوں سے محبت کرتاہے جیسا کہ اسامہ بن شریکؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آپﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک کچھ لوگ آپﷺ کے پاس آئے اورسوال کیا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ ’’ مَنْ أَحَبُّ عِبَادِ اللَّهِ إِلَى اللَّهِ ‘‘ اللہ کے نزدیک اللہ کے بندوں میں سے سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا ‘‘ وہ لوگ اللہ کے نزدیک محبوب اورپسندیدہ ہوتے ہیں جن کے اخلاق بہت اچھے ہوتے ہیں۔(الصحیحۃ:432)ایک دوسری روایت کے اندر ہے کہ سیدالکونینﷺ نے فرمایا’’ إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ وَيُحِبُّ مَعَالِيَ الْأَخْلَاقِ وَيُبْغِضُ سَفْسَافَهَا ‘‘كه بے شک رب العزت مہربان ہے اورمہربانی اوراچھے اخلاق کو پسند کرتاہے اوربرے اخلاق وکردارسے رب العزت کو نفرت ہے۔ (الصحیحۃ:1378،صحیح الجامع للألبانیؒ:1889)

(18) تین خوبیوں کو اپناؤ اوراللہ کی محبت کو پالو:

میرے دوستو اورپیارے پیارے اسلامی بھائیو اوربہنو!اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ آپ سے محبت کرنے لگے تو پھر دیرکس بات کی ہے تین آسان خوبیوں کو اپنالو، اللہ اوراس کے رسول کی محبت تمہیں مفت میں مل جائے گی،خادم رسول سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ بحرین سے آئے ہوئے کچھ مہمان آپﷺ کے پاس قیام پذیرتھےکہ انہوں نے آپﷺ کووضوکرتے دیکھ کرآپ کے وضوکردہ پانی کے طرف لپکے،اس میں سے انہوں نے جو پایا اس پانی کوپی لیا اورجو اس میں سے زمین پرگرچکاتھا تو انہوں نے اسے اپنے چہروں ،سروں اوراپنے سینوں پر مل لیا،یہ دیکھ کرنبیﷺ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے ایسا کیوں کیا ؟تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے آپ کی محبت میں ایسا کیا ہے اورہوسکتاہے کہ ایسا کرنے سے ہمیں اللہ کی محبت بھی حاصل ہوجائے تو آپﷺ نے اس وقت فرمایا کہ ’’ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ أَنْ يُحِبَّكُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ فَحَافِظُوْا عَلٰی ثَلَاثِ خِصَالٍ ‘‘اگرتم پسندکرتے ہوکہ اللہ اوراس کے رسولﷺ تم سے محبت کرےتوپھر تم سب تین خوبیوں کو ہمیشہ کے لئے اپنالو! نمبر ایک ’’ صِدْقِ الْحَدِيْثِ ‘‘ہمیشہ سچ بولا کرو،نمبر دو ’’ وَأَدَاءِ الْأَمَانَة ِ ‘‘امانتوں کو اداکردیاکرو اورنمبر تین ’’ وَحُسْنِ الْجَوَارِ ‘‘ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیاکرو،(اورہاں ایک بات یادرکھنا کہ ) ’’ فَإِنَّ أَذَى الْجَارِ يَمْحُو الْحَسَنَاتِ كَمَا تَمْحُو الشَّمْسَ الْجَلِيْدَ ‘‘ پڑوسیوں کو تکلیف دینے سے نیکیاں اس طرح مٹ جاتی ہیں جس طرح سے سورج کی تپش سے برف پگھل جاتاہے۔ (الصحیحۃ:2998)۔۔ اعاذناللہ۔۔ افسوس صدافسوس جن تین خوبیوں کو اپنانے سے اللہ کی محبت حاصل ہوسکتی ہے آج ہم مسلمانوں میں وہ تین خوبیاں عنقاء ہوچکی ہیں ،آج کے دورمیں سب سے بڑاجھوٹا کون تو مسلمان!سب سے بڑا خائن کون تو مسلمان!سب سے بڑا شریر کون تو مسلمان! اسی لئے تو آج کا مسلمان رب کی رحمتوں سے کوسوں دور ہے اوردردر کی ٹھوکریں کھارہاہے۔اللہ ہم سب کو ان بری اورقبیح عادتوں سے بچائے ۔آمین۔

(19)تین عادتوں کے اپنانے پر محبت الٰہی کا حصول:

میرے دوستو!جن باتوں کی وجہ سے ایک مسلمان کو اللہ کی محبت حاصل ہوسکتی ہے ان میں سے ایک چیز صبروتحمل سے کام لیناہے یعنی کہ ہرکام کو سوچ سمجھ کر انجام دینا اورجلدبازی سے پرہیز کرنا ،افسوس صدافسوس آج ہم مسلمانوں میں یہ چیز بھی مفقود ہوچکی ہے،ہم ہرسنی سنائی ہوئی باتوں پر بغیرسوچے سمجھے فیصلہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں،اے لوگو!جلدبازی میں فیصلہ کرنے اورفیصلہ لینے سے بچو کیونکہ جلدباز انسان کبھی بھی حق اورصحیح فیصلہ نہیں لے سکتاہے ،امام خوَّاصؒ نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ ’’ أَلْعَجَلَةُ تَمْنَعُ مِنْ إِصَابَةِ الْحَقِّ ‘‘جلدبازی ہمیشہ حق بات تک پہنچنے میں رکاوٹ پیداکرتی ہے۔ (بیہقی:6477)یقینا ہم اورآپ اپنے زندگی کے ہرمعاملات میں جلدبازی سے کام لیتے ہیں اورنتیجہ یہ نکلتاہے کہ ہم خودنقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ جلدبازی توشیطانی جال اورایک شیطانی حربہ ہے جیساکہ محبوب خداﷺ نے فرمایا کہ ’’ التَّأَنِّي مِنَ اللَّهِ وَالْعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ ‘‘ نرمی اورٹھہراؤ اللہ کے طرف سے ہے اورجلدبازی شیطان کی جانب سے ہے۔(الصحیحۃ:1795،صحیح الجامع للألبانیؒ:3011)

اس لئے اے لوگو!جلدبازی سے بچاکرو ہمیشہ نقصان سے محفوظ رہوگے اورجوبھی کام کیاکروہمیشہ صبروتحمل کے ساتھ اورسوچ سمجھ کر انجام دیاکرو ،اگرایساکروگے تو تمہیں کامیابی بھی ملے گی اورساتھ میں اللہ کی محبت بھی تمہیں ملے گی جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں یہ حدیث مذکورہے کہ ایک مرتبہ آپﷺ نے سیدنا اشج ؓسے کہا کہ اے اشج ’’ إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللهُ ‘‘تمہارے پاس دوعادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ بہت پسندکرتاہے اور وہ ہے ’’ الْحِلْمُ وَالْأَنَاةُ ‘‘ نمبر ایک بردباری،یعنی عقلمندی وسمجھداری اورنمبر دو صبروتحمل کے ساتھ سوچ سمجھ کر کام کرنا اورکسی بھی چیز میں جلدی نہ کرنا۔(مسلم:17) ابن ماجہ کے اندر یہی باتیں مذکور ہیں مگراس میں اس بات کا ذکرموجود ہے کہ آپﷺ ان سے فرمایا کہ اے اشج ’’ إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ الْحِلْمَ وَالْحَيَاءَ ‘‘ تمہارے اندر دو خوبیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ کو بہت پسند ہیں نمبر ایک عقلمندی وسمجھداری اور نمبر دو شرم وحیا۔(ابن ماجہ:4188وقال الالبانیؒ: اسنادہ صحیح)پتہ یہ چلا کہ تین باتوں کو اللہ پسند کرتاہے نمبر ایک بردباری یعنی عقلمندی وسمجھداری ،نمبر دوصبروتحمل اورنمبر تین شرم وحیا،اللہ ہم سب کو ان تینوں خوبیوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

(20) حمد باری تعالی کرنے والوں سے اللہ محبت رکھتاہے:

میرے دوستو! جن خوش نصیبوں سے رب العزت محبت کرتاہے ان میں سے ایک خوش نصیب انسان وہ بھی ہے جو اللہ رب العزت کی زیادہ سے زیادہ حمد وثنابیان کرے،اللہ رب العزت کو یہ بات پسند ہے کہ اس کےبندے صرف اسی کی تعریف وتوصیف،حمدوثنا اورمدح وستائش بیان کرےجیسا کہ اسود بن سَریعؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اورعرض کیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ میں ایک شاعرہوں توکیا میں آپ کو وہ اشعارسناؤں جن میں میں نے اپنے رب کی حمدوثنابیان کی ہے ؟توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَمَا إِنَّ رَبَّكَ يُحِبُّ الْحَمْدَ ‘‘ سنو!بے شک تمہارے رب کو اس کی حمد وثنابیان کرنا بہت پسند ہے۔(صحیح الادب المفرد للألبانیؒ:859،الصحیحۃ:3179)پتہ یہ چلا کہ جب اللہ رب العزت کواس کی حمدوثنا بیان کرنا پسند ہے تو جو حامد ہوگا وہ اللہ کی نظر میں ضرورمحبوب ہوگا یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ جوآج دنیا میں بکثرت اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں تو کل بروزقیامت اللہ کے نزدیک سب سے افضل اورمقرب بندوں میں شمارکئے جائیں گے جيسا كه عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایاکہ ’’ أَفْضَلُ عِبَادِ اللهِ تَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْحَمَّادُونَ ‘‘ قیامت کے دن سب سے زیادہ افضل اوربہتر وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں بہت زیادہ اللہ تبارک وتعالی کی تعریف کیا کرتے تھے۔(الصحیحۃ:1584)

میرے دوستو!اللہ کی محبت کوپانے کے لئے جہاں آپ ایک طرف ان اعمال کو بجالائیں تو وہیں پر دوسری طرف آپ یہ خاص پیغام بھی یادرکھ لیں کہ اگرآپ اللہ کی محبت کو پاناچاہتے ہیں تو پھر آپ اللہ سے یہ دعابھی کرتے رہاکریں کہ اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتاہوں،اللہ کی محبت کوحاصل کرنے کے لئے دعائیں کرتے رہنایہ کتنی عظیم چیز ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ خودجناب محمدعربیﷺ بھی اللہ کو محبت کو پانے کے لئے دعائیں کیاکرتے تھے جیسا کہ ترمذی شریف کے اندر یہ حدیث مذکورہے کہ اللہ رب العزت نے خودآپﷺ کو یہ دعاپڑھنے کا حکم دیا اورکہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ آپ یہ دعاپڑھاکریں ’’ أللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الخَيْرَاتِ وَتَرْكَ المُنْكَرَاتِ وَحُبَّ المَسَاكِينِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً فِي قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُ إِلَى حُبِّكَ ‘‘ اے اللہ !میں تجھ سے بھلائیاں اورنیکیاں کرنے،برائیوں کو چھوڑنےاورمسکینوں سے محبت کرنے کا سوال کرتاہوں اوریہ کہ تومجھے بخش دے،مجھ پر رحم فرما اورجب تو لوگوں کو کسی فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرے تو تومجھےکسی فتنہ میں مبتلاکئے بغیر وفات دے دینااورمیں تجھ سے محبت کرنے والے کی محبت اوراس کام کی محبت کا سوال کرتاہوں جومجھے تیری محبت کے قریب کردے۔(ترمذی:3235،وقال الالبانیؒ:اسنادہ صحیح)

اب آخر میں رب العزت سے یہی دعاگوہوں کہ اے الہ العالمین تو ہم سب کو اپنی محبت سے نواز اوراپنی ناراضگی سے محفوظ رکھ۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 
Top