ناصر نواز خان
رکن
- شمولیت
- ستمبر 07، 2020
- پیغامات
- 111
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 54
الله پاک کہاں ھے؟
صحابہ اکرام کا عقیدہ:
سیدنا ابو بکر صدیق
نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی وفات ہوئی، تو سیدنا ابو بکر صدیق نے فرمایا:
مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ فِي السَّمَاءِ حَيٌّ ، لَا يَمُوت".
ترجمه:
جو محمد صلى الله عليه وآله وسلم کی عبادت کرتا تھا، وہ جان لے کہ محمد صلى الله عليه وآله وسلم کو موت آچکی ہے اور جو الله تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا، تو الله آسمانوں کے اوپر زندہ ہے۔ اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔“
[التاريخ الكبير للبخاري: 202/1، مسند البزار: 103، الرد على المريسي للدارمي : 518/1-519 ، وسنده صحيح]
حافظ هيشمی رحمه الله لکھتے ہیں: رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرُ عَلِيِّ بْنِ الْمُنْذِرِ، وَهُوَ ثقة.
یعنی: اسے امام ہزار اٹھانے نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں ، سوائے علی بن منذر کے اور وہ ثقہ ہیں۔ [مجمع الزوائد: 332/8]
امام ذھبی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [کتاب العرش: 159/2]
سیدنا عمر بن خطاب
وَيْلٌ لَدَّيَّانِ الْأَرْضِ مِنْ دَيَّانِ السَّمَاءِ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِالْعَدْلِ، فَقَضَى بِالْحَقِّ وَلَمْ يَقْضِ عَلَى هَوَى وَلَا عَلَى قَرَابَةٍ وَلَا عَلَى رَغْبَةٍ وَلَا حُبّ، وَجَعَلَ كِتَابَ اللَّهِ مِرْأَةٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ.
ترجمه:
روز قیامت زمین کے قاضی کے لیے آسمان کے قاضی (اللہ تعالیٰ) کی طرف سے ہلاکت ہے، سوائے اس قاضی کے، جو عدل کا حکم دیتا ہے اور حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، خواہش نفس، رشتہ داری، رغبت اور محبت کی بنا پر فیصلہ نہیں کرتا ، بلکہ ہر چیز کو کتاب اللہ کی روشنی میں حل کرتا ہے ۔
[الرد على المريسي للدارمي : 515/1-616 ، العلو للذهبي، ص 78، وسنده صحيح]
.
سیدنا عبد اللہ بن مسعود
مَا بَيْنَ كُلِّ سَمَاءٍ إِلَى أُخْرَى مَسِيرَةُ خَمْسِمِأَةِ عَامٍ، وَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ مَسِيرَةُ خَمْسِمِاةِ عَامٍ، وَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ إِلَى الْكُرْسِيِّ مَسِيرَةُ خَمْسِمِأَةِ عَامٍ، وَمَا بَيْنَ الْكُرْسِيِّ إِلَى الْمَاء مَسِيرَةُ خَمْسِمِأَةِ عَامٍ، وَالْعَرْشُ عَلَى الْمَاءِ، وَاللَّهُ عَلَى الْعَرْشِ وَيَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ.
ترجمه:
ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ زمین اور آسمان دنیا کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ ساتویں آسمان سے کرسی تک پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور کرسی اور پانی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ عرش پانی پر ہے اور اللہ عرش پر ہے اور تمھارے اعمال کو جانتا ہے۔“
[كتاب التوحيد لابن خزيمة : 242/1-243، ح 149، الرد على الجهمية للدارمي: 81، الرد على المريسي للدارمي: 422/1، المعجم الكبير للطبراني: 139/7 :202/9، العظمة لأبي الشيخ: 888/2-889، التمهيد لابن عبد البر، الأسماء والصفات للبيهقي: 851 ، وسنده حسن]
حافظ هيثمی فرماتے ہیں:
رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيح . ” اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں ۔“ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: 86/1)
امام ذهبی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (العلو، ص 64)
.
سیدنا عبد الله بن عباس
سید نا عبد الله بن عباس نے سیدہ عائشہ سے فرمایا:
أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاتَكِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ.
الله نے آپ کی براءت سات آسمانوں کے اوپر سے نازل کی ہے۔“
[مسند الإمام أحمد : 276/1، 349، الرد على الجهمية للدارمي ص 57، المستدرك على الصحيحين للحاكم: 8/4، وسنده حسن]
.
اس روایت کو امام حاکم رحمه الله نے صحیح کہا ہے اور حافظ ذهبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
نَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ.
آپ کی برات آسمانوں کے اوپر سے اُتری ہے۔“
(صحيح البخاري: 4753)
.
سیدنا عبد الله بن عمر
امام نافع بیان کرتے ہیں:
خَرَجَ ابْنُ عُمَرَ فِي بَعْضِ نَوَاحِي الْمَدِينَةِ وَمَعَهُ أَصْحَابٌ لَّهُ، وَوَضَعُوا سُفْرَةٌ لَّهُ، فَمَرَّ بِهِمْ رَاعِي غَنَمٍ، قَالَ: فَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: هَلُمَّ يَا رَاعِي، هَلُمَّ ، فَأَصِبْ مِنْ هَذِهِ السُّفْرَةِ، فَقَالَ لَهُ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَتَصُومُ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ الْحَارُ شَدِيدٍ سُمُومُهُ وَأَنْتَ فِي هَذِهِ الْجِبَالِ تَرْعَى هَذَا الْغَنَمَ؟، فَقَالَ لَهُ: أَيْ وَاللَّهِ أُبَادِرُ أَيَّامِي الْخَالِيَةَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ وَهُوَ يُرِيدُ يَخْتَبِرُ وَرَعَهُ: فَهَلْ لَكَ أَنْ تَبِيعَنَا شَاةٌ مِّنْ غَنَمِكَ هَذِهِ فَنُعْطِيَكَ ثَمَنَهَا وَنُعْطِيَكَ مِنْ لَّحْمِهَا فَتُفْطِرَ عَلَيْهِ؟، فَقَالَ: إِنَّهَا لَيْسَتْ لِي بِغَنَم إِنَّهَا غَنَمُ سَيِّدِي، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: فَمَا عَسَى سَيِّدُكَ فَاعِلًا إِذَا فَقَدَهَا، فَقُلْتَ: أَكْلَهَا الذِّئْبُ، فَوَلَّى الرَّاعِي عَنْهُ وَهُوَ رَافِعٌ أَصْبُعَهُ إلَى السَّمَاءِ وَهُوَ يَقُولُ: أَيْنَ اللَّهُ؟ قَالَ: فَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ يُرَدِّدُ قَوْلَ الرَّاعِي وَهُوَ يَقُولُ: قَالَ الرَّاعِي فَأَيْنَ اللَّهُ؟ قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ بَعَثَ إِلَى مَوْلَاهُ فَاشْتَرَى مِنْهُ الْغَنَمَ وَالرَّاعِيَ فَأَعْتَقَ الرَّاعِيَ وَوَهَبَ لَهُ الْغَنَمَ.
ترجمه:
سیدنا عبد اللہ بن عمر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ کے مضافات میں تشریف لے گئے۔ ساتھیوں نے دسترخوان بچھایا، وہاں سے بکریوں کے چرواہے کا گزر ہوا، تو اس نے سلام کہا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر بھی سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا آیئے، ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیں۔ چرواہا کہنے لگا: مجھے روزہ ہے۔ فرمایا: اتنے سخت اور گرم لو والے دن روزہ! پھر ان پہاڑوں میں بکریاں چرا رہے ہو! کہنے لگا: بخدا! میں تو آخرت ٹھنڈی کر رہا ہوں ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ہی الجھا نے اس کے تقوی و ورع جانچنے کو پوچھا: ایک بکری ہمیں بیچ دیجیے، قیمت بھی وصول کر لیجیے اور افطاری کے لیے ہم آپ کو گوشت بھی دے دیں گے؟ کہنے لگا: ان میں میری بکری کوئی بھی نہیں ہے، سب میرے مالک کی ہیں۔ فرمایا: مالک سے کہہ دیجیے کہ بھیڑیا ایک بکری کو نگل گیا، فاین اللہ ؟ تو اللہ کہاں ہے؟ چرواہے نے انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے چل دیا۔ اب کیا ہوا، سیدنا عبد اللہ بن عمر اس کی بات دہراتے جارہے ہیں، فرماتے: چرواہا کہتا ہے، تو اللہ کہاں ہے؟ آپ مدینہ آئے، تو اس کے مالک کو پیغام بھیجا، وہ چرواہا اور تمام بکریاں اس سے خرید لیں، پھر چرواہے کو آزاد کر دیا اور بکریاں اسے ہبہ کر دیں۔“
[شعب الإيمان للبيهقي: 4908 ، وسنده حسن]
.
سید نا ابو ذر غفاری
سیدنا عبد الله بن عباس بیان کرتے ہیں:
بَلَغَ أَبَا ذَرٍ مَبْعَثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَخِيهِ: إِعْلَمْ لِي عِلْمَ هُذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ.
ترجمه:
سیدنا ابو ذر نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی بعثت کی اطلاع ملی، تو انھوں نے اپنے بھائی سے کہا: اس بندے کے احوال معلوم کیجیے، جو یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کے پاس آسمانوں سے وحی آتی ہے۔“
[صحيح البخاري: 3522 ، صحیح مسلم: 2474]
.
سیدہ عائشہ
امی جان فرماتی ہیں:
وَأَيْمُ اللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَى لَوْ كُنْتُ أُحِبُّ قَتْلَهُ لَقُتِلْتُ تَعْنِي عُثْمَانَ وَلَكِنْ عَلِمَ اللهُ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ أَنِّي لَمْ أُحِبَّ قَتْلَهُ.
ترجمه:
الله کی قسم ! اگر میں سیدنا عثمان بن عفان کے قتل کو پسند کرتی ، تو خطرہ تھا کہ میں ماری جاتی، لیکن عرش کے اوپر اللہ جانتا ہے کہ میں آپ کے قتل کو پسند نہیں کرتی تھی ۔“
[الرد على الجهمية للدارمي: 83، وسنده صحيح]
.
سیده ام ایمن
سیدنا انس بن مالک یہ بیان کرتے ہیں:
قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ، نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ، فَقَالَا: مَا يُبْكِيكِ؟ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا أَبْكِي أَن لَّا أَكُونَ أَعْلَمَ أَنَّ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِّرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ، فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ ، فَجَعَلَا يَبْكِيَان مَعًا.
ترجمه:
اللہ کے رسول کی وفات کے بعد سیدنا ابو بکر نے سیدنا عمر ہی سے کہا: عمر ! آیئے رسول اللہ کی طرح ام ایمن سے ملاقات کو چلتے ہیں، جب ہم ام ایمن کے پاس پہنچے، تو ہ رونے لگیں، شیخین نے عرض کی: کی آپ کیوں رو رہی ہیں؟ اللہ کے پاس اپنے رسول کے لیے خیر ہے۔ کہا: جانتی ہوں، اللہ کے پاس جو اپنے رسول کے لیے ہے، وہ بہتر ہے، لیکن میں اس لیے نہیں رو رہی، میں تو اس لیے روتی ہوں کہ آسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ یہ سنا تو شیخین کی آنکھیں بھی بہہ پڑیں۔
[صحیح مسلم:2454]
.
صحابہ اکرام کا عقیدہ:
سیدنا ابو بکر صدیق
نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی وفات ہوئی، تو سیدنا ابو بکر صدیق نے فرمایا:
مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ فِي السَّمَاءِ حَيٌّ ، لَا يَمُوت".
ترجمه:
جو محمد صلى الله عليه وآله وسلم کی عبادت کرتا تھا، وہ جان لے کہ محمد صلى الله عليه وآله وسلم کو موت آچکی ہے اور جو الله تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا، تو الله آسمانوں کے اوپر زندہ ہے۔ اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔“
[التاريخ الكبير للبخاري: 202/1، مسند البزار: 103، الرد على المريسي للدارمي : 518/1-519 ، وسنده صحيح]
حافظ هيشمی رحمه الله لکھتے ہیں: رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرُ عَلِيِّ بْنِ الْمُنْذِرِ، وَهُوَ ثقة.
یعنی: اسے امام ہزار اٹھانے نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں ، سوائے علی بن منذر کے اور وہ ثقہ ہیں۔ [مجمع الزوائد: 332/8]
امام ذھبی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [کتاب العرش: 159/2]
سیدنا عمر بن خطاب
وَيْلٌ لَدَّيَّانِ الْأَرْضِ مِنْ دَيَّانِ السَّمَاءِ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِالْعَدْلِ، فَقَضَى بِالْحَقِّ وَلَمْ يَقْضِ عَلَى هَوَى وَلَا عَلَى قَرَابَةٍ وَلَا عَلَى رَغْبَةٍ وَلَا حُبّ، وَجَعَلَ كِتَابَ اللَّهِ مِرْأَةٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ.
ترجمه:
روز قیامت زمین کے قاضی کے لیے آسمان کے قاضی (اللہ تعالیٰ) کی طرف سے ہلاکت ہے، سوائے اس قاضی کے، جو عدل کا حکم دیتا ہے اور حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، خواہش نفس، رشتہ داری، رغبت اور محبت کی بنا پر فیصلہ نہیں کرتا ، بلکہ ہر چیز کو کتاب اللہ کی روشنی میں حل کرتا ہے ۔
[الرد على المريسي للدارمي : 515/1-616 ، العلو للذهبي، ص 78، وسنده صحيح]
.
سیدنا عبد اللہ بن مسعود
مَا بَيْنَ كُلِّ سَمَاءٍ إِلَى أُخْرَى مَسِيرَةُ خَمْسِمِأَةِ عَامٍ، وَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ مَسِيرَةُ خَمْسِمِاةِ عَامٍ، وَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ إِلَى الْكُرْسِيِّ مَسِيرَةُ خَمْسِمِأَةِ عَامٍ، وَمَا بَيْنَ الْكُرْسِيِّ إِلَى الْمَاء مَسِيرَةُ خَمْسِمِأَةِ عَامٍ، وَالْعَرْشُ عَلَى الْمَاءِ، وَاللَّهُ عَلَى الْعَرْشِ وَيَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ.
ترجمه:
ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ زمین اور آسمان دنیا کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ ساتویں آسمان سے کرسی تک پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور کرسی اور پانی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ عرش پانی پر ہے اور اللہ عرش پر ہے اور تمھارے اعمال کو جانتا ہے۔“
[كتاب التوحيد لابن خزيمة : 242/1-243، ح 149، الرد على الجهمية للدارمي: 81، الرد على المريسي للدارمي: 422/1، المعجم الكبير للطبراني: 139/7 :202/9، العظمة لأبي الشيخ: 888/2-889، التمهيد لابن عبد البر، الأسماء والصفات للبيهقي: 851 ، وسنده حسن]
حافظ هيثمی فرماتے ہیں:
رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيح . ” اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں ۔“ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: 86/1)
امام ذهبی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (العلو، ص 64)
.
سیدنا عبد الله بن عباس
سید نا عبد الله بن عباس نے سیدہ عائشہ سے فرمایا:
أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاتَكِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ.
الله نے آپ کی براءت سات آسمانوں کے اوپر سے نازل کی ہے۔“
[مسند الإمام أحمد : 276/1، 349، الرد على الجهمية للدارمي ص 57، المستدرك على الصحيحين للحاكم: 8/4، وسنده حسن]
.
اس روایت کو امام حاکم رحمه الله نے صحیح کہا ہے اور حافظ ذهبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
نَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ.
آپ کی برات آسمانوں کے اوپر سے اُتری ہے۔“
(صحيح البخاري: 4753)
.
سیدنا عبد الله بن عمر
امام نافع بیان کرتے ہیں:
خَرَجَ ابْنُ عُمَرَ فِي بَعْضِ نَوَاحِي الْمَدِينَةِ وَمَعَهُ أَصْحَابٌ لَّهُ، وَوَضَعُوا سُفْرَةٌ لَّهُ، فَمَرَّ بِهِمْ رَاعِي غَنَمٍ، قَالَ: فَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: هَلُمَّ يَا رَاعِي، هَلُمَّ ، فَأَصِبْ مِنْ هَذِهِ السُّفْرَةِ، فَقَالَ لَهُ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَتَصُومُ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ الْحَارُ شَدِيدٍ سُمُومُهُ وَأَنْتَ فِي هَذِهِ الْجِبَالِ تَرْعَى هَذَا الْغَنَمَ؟، فَقَالَ لَهُ: أَيْ وَاللَّهِ أُبَادِرُ أَيَّامِي الْخَالِيَةَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ وَهُوَ يُرِيدُ يَخْتَبِرُ وَرَعَهُ: فَهَلْ لَكَ أَنْ تَبِيعَنَا شَاةٌ مِّنْ غَنَمِكَ هَذِهِ فَنُعْطِيَكَ ثَمَنَهَا وَنُعْطِيَكَ مِنْ لَّحْمِهَا فَتُفْطِرَ عَلَيْهِ؟، فَقَالَ: إِنَّهَا لَيْسَتْ لِي بِغَنَم إِنَّهَا غَنَمُ سَيِّدِي، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: فَمَا عَسَى سَيِّدُكَ فَاعِلًا إِذَا فَقَدَهَا، فَقُلْتَ: أَكْلَهَا الذِّئْبُ، فَوَلَّى الرَّاعِي عَنْهُ وَهُوَ رَافِعٌ أَصْبُعَهُ إلَى السَّمَاءِ وَهُوَ يَقُولُ: أَيْنَ اللَّهُ؟ قَالَ: فَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ يُرَدِّدُ قَوْلَ الرَّاعِي وَهُوَ يَقُولُ: قَالَ الرَّاعِي فَأَيْنَ اللَّهُ؟ قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ بَعَثَ إِلَى مَوْلَاهُ فَاشْتَرَى مِنْهُ الْغَنَمَ وَالرَّاعِيَ فَأَعْتَقَ الرَّاعِيَ وَوَهَبَ لَهُ الْغَنَمَ.
ترجمه:
سیدنا عبد اللہ بن عمر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ کے مضافات میں تشریف لے گئے۔ ساتھیوں نے دسترخوان بچھایا، وہاں سے بکریوں کے چرواہے کا گزر ہوا، تو اس نے سلام کہا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر بھی سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا آیئے، ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیں۔ چرواہا کہنے لگا: مجھے روزہ ہے۔ فرمایا: اتنے سخت اور گرم لو والے دن روزہ! پھر ان پہاڑوں میں بکریاں چرا رہے ہو! کہنے لگا: بخدا! میں تو آخرت ٹھنڈی کر رہا ہوں ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ہی الجھا نے اس کے تقوی و ورع جانچنے کو پوچھا: ایک بکری ہمیں بیچ دیجیے، قیمت بھی وصول کر لیجیے اور افطاری کے لیے ہم آپ کو گوشت بھی دے دیں گے؟ کہنے لگا: ان میں میری بکری کوئی بھی نہیں ہے، سب میرے مالک کی ہیں۔ فرمایا: مالک سے کہہ دیجیے کہ بھیڑیا ایک بکری کو نگل گیا، فاین اللہ ؟ تو اللہ کہاں ہے؟ چرواہے نے انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے چل دیا۔ اب کیا ہوا، سیدنا عبد اللہ بن عمر اس کی بات دہراتے جارہے ہیں، فرماتے: چرواہا کہتا ہے، تو اللہ کہاں ہے؟ آپ مدینہ آئے، تو اس کے مالک کو پیغام بھیجا، وہ چرواہا اور تمام بکریاں اس سے خرید لیں، پھر چرواہے کو آزاد کر دیا اور بکریاں اسے ہبہ کر دیں۔“
[شعب الإيمان للبيهقي: 4908 ، وسنده حسن]
.
سید نا ابو ذر غفاری
سیدنا عبد الله بن عباس بیان کرتے ہیں:
بَلَغَ أَبَا ذَرٍ مَبْعَثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَخِيهِ: إِعْلَمْ لِي عِلْمَ هُذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ.
ترجمه:
سیدنا ابو ذر نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی بعثت کی اطلاع ملی، تو انھوں نے اپنے بھائی سے کہا: اس بندے کے احوال معلوم کیجیے، جو یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کے پاس آسمانوں سے وحی آتی ہے۔“
[صحيح البخاري: 3522 ، صحیح مسلم: 2474]
.
سیدہ عائشہ
امی جان فرماتی ہیں:
وَأَيْمُ اللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَى لَوْ كُنْتُ أُحِبُّ قَتْلَهُ لَقُتِلْتُ تَعْنِي عُثْمَانَ وَلَكِنْ عَلِمَ اللهُ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ أَنِّي لَمْ أُحِبَّ قَتْلَهُ.
ترجمه:
الله کی قسم ! اگر میں سیدنا عثمان بن عفان کے قتل کو پسند کرتی ، تو خطرہ تھا کہ میں ماری جاتی، لیکن عرش کے اوپر اللہ جانتا ہے کہ میں آپ کے قتل کو پسند نہیں کرتی تھی ۔“
[الرد على الجهمية للدارمي: 83، وسنده صحيح]
.
سیده ام ایمن
سیدنا انس بن مالک یہ بیان کرتے ہیں:
قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ، نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ، فَقَالَا: مَا يُبْكِيكِ؟ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا أَبْكِي أَن لَّا أَكُونَ أَعْلَمَ أَنَّ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِّرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ، فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ ، فَجَعَلَا يَبْكِيَان مَعًا.
ترجمه:
اللہ کے رسول کی وفات کے بعد سیدنا ابو بکر نے سیدنا عمر ہی سے کہا: عمر ! آیئے رسول اللہ کی طرح ام ایمن سے ملاقات کو چلتے ہیں، جب ہم ام ایمن کے پاس پہنچے، تو ہ رونے لگیں، شیخین نے عرض کی: کی آپ کیوں رو رہی ہیں؟ اللہ کے پاس اپنے رسول کے لیے خیر ہے۔ کہا: جانتی ہوں، اللہ کے پاس جو اپنے رسول کے لیے ہے، وہ بہتر ہے، لیکن میں اس لیے نہیں رو رہی، میں تو اس لیے روتی ہوں کہ آسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ یہ سنا تو شیخین کی آنکھیں بھی بہہ پڑیں۔
[صحیح مسلم:2454]
.