• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کی قضا وتقدیر کے بعد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم @اسحاق سلفی بھائی!
ایک محترم دوست نے سوال کیا ہے۔
انڈر لائین کی گئی حدیث کی تشریح درکار ہے ، "اللہ کی قضا وتقدیر کے بعد" سے کیا مراد ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
upload_2015-4-21_12-31-39.png

کتاب جادو کا علاج: وحید بن عبدالسلام بالی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
حدیث کی تشریح درکار ہے ، "اللہ کی قضا وتقدیر کے بعد" سے کیا مراد ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
آپ نے جس حدیث کے متعلق سوال کیا ہے ،اسے الالبانی رحمہ اللہ نے (صحيح الجامع الصغير وزياداته ،) میں نقل کیا ہے ؛اور اس پر ’’ حسن ‘‘ کا حکم لگایا ہے ،
1206 - «أكثر من يموت من أمتي بعد قضاء الله وقدره بالعين» .میری امت میں اکثر اموات تقدیر اوراسکے بعد نظر لگنے سے ہونگی ‘‘
(حسن) ... [الطيالسي تخ الحكيم البزار الضياء] عن جابر. الصحيحة 747
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بات تو ملحوظ رہے کہ آپ کے پیش کردہ سکین میں نمبر( 7) ،اور نمبر (8) میں جو دو حدیثیں بتائی گئیں ہیں یہ اصل میں ایک ہی حدیث ہے جو دو مختلف سندوں سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ۔سے روایت کی گئی ہے :اور دونوں اسناد سے ضعیف ہے ، تفصیل درج ذیل ہے ؛
أخرج الطيالسي في مسنده (3/317):
حَدَّثَنَا طَالب بن حبيب ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، رَضِيَ الله عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم قَالَ : جُلُّ مَنْ يَمُوتُ مِنْ أُمَّتِي بَعْدَ قَضَاءِ الله عَزَّ وَجَلَّ ، وَكِتَابِهِ ، وَقَدَرِهِ بِالأَنْفُسِ , يَعْنِي بِالْعَيْنِ.‘‘ میری امت میں اکثر اموات تقدیر کے بعد نظر لگنے سے ہونگی ‘‘
وفي إسناده طالب بن حبيب قال فيه البخاري في التاريخ فيه نظر (4/90) .
قال الذهبي في الميزان: وقد قال البخاري: فيه نظر، ولا يقول هذا إلا فيمن يتهمه غالبا.
وهي من أردى عبارات التجريح كما قال الشيخ مقبل رحمه الله في تعليقه على المستدرك(1/744).
وقال الشيخ الألباني رحمه الله فيه في ضعيف ابي داود :
مختلف فيه قال فيه البخاري فيه نظر : وهذا معناه أنه شديد الضعف عنده.
یعنی امام بخاری ؒ ’’تاریخ ‘‘ میں ۔۔اور علامہ الذہبی ’‘ میزان الاعتدال ‘‘ میں اس کے راوی ۔۔طالب بن حبيب۔۔کو بہت ضعیف کہتے ہیں،
اور الالبانی ؒ نے بھی ’’ ضعيف ابي داود ‘‘ اس ضعیف ‘‘ ہونے کو تسلیم کیا ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
اور اسی روایت کو ابن عدی نے ’’ الکامل ‘‘ میں ۔۔اور ابو نعیم نے ’’ حلیۃ الاولیاء ‘‘ میں دوسری سند سے یوں نقل کیا ہے ::
قال ابن عدي في الكامل (6/316):
حدثنا عبد الله بن محمد بن نصر الرملي ثنا دحيم ثنا بن أبي فديك أخبرني علي بن أبي علي الهاشمي عن محمد بن المنكدر عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال( إن العين لتورد المرء القبر والجمل القدر وإن أكثر هلاك أمتي في العين أو النفس)
وقال عقب ذلك :كلها غير محفوظة.
’’ فرمایا کہ نظر انسان کو قبر میں ،اور اونٹ کو ہانڈی میں پہنچا دیتی ہے ،اور میری امت کی اکثر ہلاکتیں نظر لگنے ہی سے ہونگی ‘‘
امام ابن عدی اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :یہ سب غیر محفوظ ہیں ‘‘
اور دور حاضر کے مشہور محقق ’’ أبو إسحاق الحويني: (قلت :
و من الوجه الأول أخرجه ابن عدي في " الكامل " (5/1831) و من طريق دحيم ، ثنا ابن أبي فديك ، عن علي بن أبي علي بسنده سواء و قال : " غير محفوظ ".
و من الوجه الثاني أخرجه ابن عدي (6/2403) أبو نعيم في " الحلية " (7 /90) ، و الخطيب في " تاريخه" (9/244) من طريق شعيب بن أيوب بسنده سواء و لم يذكر فيه محل الشاهد. و نقل الخطيب عن أبي نعيم بن عدي قال : " و حديث سفيان هذا عن محمد بن المنكدر يقال : انه غلط ، و إنما هو عن معاوية عن علي بن أبي علي ، عن أبن المنكدر ، عن جابر ، أ.ه. و قال ابن عدي : " لم يحدث عن ابن محمد المنكدر من حديث الثوري عنه إلا معاوية " و قال الذهبي في "الميزان" (2\275) : " حديث منكر ". و ظاهر صنيع السخاوي في لمقاصد" (ص294) أنه ضعفه و الله أعلم )أهـ.(تنبيه الهاجد إلي ما وقع من النظر في كتب الأماجد ۲۔۱۹ )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس باب میں صحیح حدیث وہ ہے ، جو سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ،جو سیدہ ام المومنین میمونہ کی بہن ،اور (جَعْفَرٌ الطَّيَّارُ ) کی زوجہ تھیں۔
نے نقل کی
،
عن أسماء بنت عميس أنها قالت : " يا رسول الله، إن بني جعفر تصيبهم العين، أفنسترقي لهم؟، قال: نعم، فلو كان شيء سابق القدر لسبقته العين. "
أخرج الإمام أحمد والترمذي وصححه

اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : اللہ کے رسول! جعفر کے بیٹوں( یعنی میرے بیٹوں ) کو نظر بد لگ جاتی ہے، کیا میں ان کے لیے دم کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اگر کوئی چیز لکھی ہوئی تقدیر پر سبقت لے جاتی تو نظر بد لے جاتی“ امام ترمذی نے اسے صحیح کہا
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطب ۱۷ (۲۰۵۹)، (تحفة الأشراف : ۱۵۷۵۸)، وقد أخرجہ : مسند احمد (۶/۴۳۸) (صحیح)

اور اس کا معنی واضح ہے ،جیسا کہ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں
:
قال ابن حجر في كلامه عن حديث ( العين حق)
(وَحَاصِله لَوْ فُرِضَ أَنَّ شَيْئًا لَهُ قُوَّة بِحَيْثُ يَسْبِق الْقَدَر لَكَانَ الْعَيْن . لَكِنَّهَا لَا تُسْبَق ،‘‘کہ اگر کسی چیز میں اتنی قوت ہوتی
کہ وہ تقدیر کو بھی پیچھے چھوڑدیتی،تو یقیناً۔۔ نظر ۔۔ہوتی ،لیکن وہ بھی تقدیر سے سبقت نہیں لے سکتی ‘‘اھ
جلدی میں یہ چند سطور پیش ہیں۔۔ اور
یہ میری معلومات کے مطابق ہے ،اگر صحیح ہو ،تو بندہ کیلئے دعاء ضرور کردیجئے گا
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
«أكثر من يموت من أمتي بعد قضاء الله وقدره بالعين» .میری امت میں اکثر اموات تقدیر اوراسکے بعد نظر لگنے سے ہونگی ‘‘
اس حديث كا جو ترجمہ کیا گیا ہے ، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ’’ نظر لگنا ‘‘ بھی ’’ قضاء و قدر ‘‘ کی طرح کوئی سبب ہے ۔
میری نظر میں یہ درست نہیں ، کیونکہ ’’ نظر لگنے ‘‘ کو ’’ قضاء قدر ‘‘ کے ساتھ اس انداز نہیں جوڑا جا سکتا ، کیونکہ دنیا میں جتنے بھی ظاہری اسباب ہیں جن کی وجہ سے موت واقع ہوتی ہے ، مثلا بیماری ، حادثہ ، قتل وغیرہ وغیرہ ، یہ سب اسی وقت موت کا سبب بنتے ہیں جب اللہ کی طرف سے ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ہے ۔
اعتراف :
کافی کوشش کی ہے کہ اس حدیث کا ایسا ترجمہ کیا جائے ، جس میں کوئی اضافی تشریح کی ضرورت نہیں رہے ، لیکن کسی پر دل مطمئن نہیں ہوا ،
شاید درج ذیل ترجمہ قریب تر رہے گا :
’’ قضائے الہی کے ساتھ سب سے زیادہ اموات نظر لگنے کی وجہ سے ہوتی ہیں ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ایک اور سعودی عالم کا فتوی سامنے آیا ہے ،جو ہماری تحریر کی تائید کرتاہے ،
یہ عالم ہیں

سلمان بن فهد بن عبد الله العودة,
جو اپنے وقت بڑے اور مشہور علماء جیسے عبد العزيز بن باز, ومحمد بن صالح العثيمين, وعبد الله بن جبرين ،کے شاگرد ہیں ،اور تقریباً ساٹھ کتب و رسائل کے مصنف ہیں
ان کا اس حدیث کے بارے فتوی درج ذیل ہے :

ما صحة حديث (أكثر من يموت من أمتي بالعين) .
المجيب : د. سلمان بن فهد العودة
التاريخ : الاربعاء 20 ذو القعدة 1421 الموافق 14 فبراير 2001

السؤال
ما صحة حديث : " أكثر من يموت من أمتي بالعين " ؟

الجواب
جاء الحديث عن طالب بن حبيب بن سهل، عن عبد الرحمن بن جابر بن عبد الله، عن جابر بن عبد الله – رضي الله عنهما - مرفوعاً :
" أكثر من يموت من أمتي – بعد كتاب الله وقضائه وقدره – بالأنفس " يعني: العين .
أخرجه ابن أبي عاصم في ( السنة 1/126)، والبزار
(3052)، والطحاوي في (شرح المشكل 7/338 ح 2900)، وابن عدي في (الكامل 4/119، 120)
من طرق عن أبي داود الطيالسي في مسنده (1760) . والبخاري في (الكبير 4/360)، و
العقيلي في (الضعفاء الكبير 2/231) من طريق موسى بن إسماعيل، كلاهما ( الطيالسي ، وموسى ) عن طالب بن حبيب به بنحوه، إلا أن في رواية ابن عدي الثانية إبدال عبد الرحمن بن جابر بأخيه محمد بن جابر . هذا الحديث قد تفرد به طالب بن حبيب ، كما قال البزار : لا نعلمه يروى عن جابر إلا بهذا الإسناد ، " أ . هـ
وطالب هذا متكلم فيه ، فقد قال البخاري : فيه نظر . ووصفه ابن حجر في (التقريب) بأنه صدوق يهم . انتهى . لا سيما وقد اختلف عليه في إسناده ، هل هو عن عبد الرحمن بن جابر أو عن أخيه محمد بن جابر۔ مما يدل على عدم ضبطه .
ولهذا أشار البخاري إلى إعلاله ، وكذا العقيلي حيث ساقه في ضعفائه (2/232) ،
ثم قال :وفي العين عن النبي - صلى الله عليه وسلم - رواية من غير هذا الوجه
بأسانيد جياد، فكأن العقيلي - رحمه الله - يشير إلى أن هذا الحديث ليس بجيد ولا يصح بهذا
اللفظ، ولذا نقل كلام الإمام البخاري تضعيف رواية طالب بن حبيب ،
وأما الأحاديث التي في مطلق تأثير العين على المعين كحديث " العين حق " في الصحيحين أخرجه البخاري (5740)، ومسلم (2187) من حديث أبي هريرة – رضي الله عنه -، فقد جاءت بأسانيد جياد أي صحيحة ، هذا ما يظهر من كلامه ،والله أعلم . وكذا أعله ابن الجوزي ، حيث ذكره في (العلل المتناهية 2/389) .
وعلى هذا يتبين إعلال هذا الحديث ، وأن طالب بن حبيب ممن لا يحتمل تفرده ، بمثل هذا المعنى العظيم ، وهو أن أكثر المتوفين من هذه الأمة بسبب العين ، وأن من صححه لم يصب ، كالهيثمي في (مجمع الزوائد 5/106)،

وقول ابن حجر في (الفتح 10/204) :" سنده حسن "، وكذا تصحيح الألباني في (السنة 1/136) لابن أبي عاصم،

وصحيح الجامع (1206)، والله - تعالى - أعلم .
http://www.islamtoday.net/salman/quesshow-23-3279.htm
 
Top