• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کی پناہ

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
تب وہ پہاڑوں سے اترا
جہاز سے نہیں‘
کہتے ہیں‘ اس کے ایک ہاتھ میں سانپ تھا کاندھے پر باز تھا۔
ہمارا شہباز نہیں۔
اس نے کہا‘ لوگو سن لو خدا مر چکا ہے۔ میں تمہیں بتانے آیا ہوں سپرمین کیا ہوتاہے۔
سپر مین کہا تھا ‘اس نے مرد کامل نہیں کہا تھا۔
مجھے افتخار فیروز یاد آئے۔ ہمارا یار طرح دار کس غضب کا مقرر تھا۔ جانے کہاں غائب ہے۔
اس نے نیو کیمپس کے کیفے ٹیریا کے سامنے اعلان کیا: افلاطون نے کہا‘ لوگو‘ آﺅ میں تمہیں عقل سکھانے آیا ہوں۔
لوگ کیفے ٹیریا سے نکلے کہ جلسے کو تلپٹ کریں گے۔
یہ لیفٹ رائٹ کی لڑائی کا عروج تھا۔ اور اس دن ہم دائیں والے ٹیپو سلطان کا دن منا رہے تھے۔
میں پہاڑ سے اترنے والے کی بات کر رہا ہوں۔
ایک دنیا نے اس کی بات سنی اور اس کی باتوں میں لگ گئے۔
ہمارا اقبال نہ مانا‘ اس نے کہا!

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے
اور اقبال آج کے زمانے میں ہوتا تو کیا وہ سمجھا سکتا کہ انقلاب کیا ہے‘ آئین کیا ہے‘ جمہوریت کیا ہے اور آئین کسے کہتے ہیں۔ یہ تو کہتا ہے سب ڈھانچہ ہی غلط ہے۔ سارا نظام ہی غلط ہے۔ میں آیا ہوں قوم کو بتانے کہ انتخاب کیسے ہوتے ہیں‘ الیکشن کمشنر کیسے مقرر کئے جاتے ہیں اور انقلاب کا نقارہ کیسے بجایا جاتا ہے۔
وہ کہتا ہے‘ میں انتخاب خود کراﺅں‘ میں خودنگرانی کروں گا۔ وہ کہتا ہے‘ میں اعلان کرتا تومیرے لوگ ایئرپورٹ پر قبضہ کر لیتے۔ میں بدلہ لوں گا۔ اب میرا مقابلہ شہباز شریف سے ہے۔

آپ نے دیکھا جب اس نے رائے ونڈ پر سینکڑو ں ایکڑ پر پھیلے محلات کا ذکر کیا‘ تو اس کی آنکھیں کیسے پھیل کر ساکت ہوگئی تھیں۔ افسوس‘ ہمارے ہاں بدن بولی کا ذکر کرنے والے ان آنکھوں میں نہ جھانک سکے جو ایک لمحے کے لئے پتھر ہوگئی تھیں۔ پھر اس نے سوچا کہ دل کی بات آنکھوں سے زبان پر نہ آجائے‘ اس نے لہجہ بدلا کہ میں اس پر غریبوں کے لئے ہزاروں گھر بناﺅں گا۔

وہ سوچ کچھ اور رہا تھا‘ کہہ کچھ اور رہا تھا۔ کوئی ذرا اس فوٹیج کو نکال کر اس کا جائزہ لے۔ اس نے ان کے ساتھ کام کیا ہے‘ ایک چہیتے ملازم کے طور پر۔ اس نے سوچا اس سب میں تیرا حصہ بھی ہو سکتا تھا۔ کیوں نہیں ہے ؟کیامیں نے چانس مس کیا‘ انہیں چھوڑ دیا۔ میں اسے چھین سکتا ہوں؟ اس نے اپنی طاقت کا دوبارہ جائزہ لیا۔ یہ آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں یا حرص سے۔ اس نے سوچا اسے انقلاب کا نام دے لیتے ہیں۔ بہت چالاک آدمی ہے۔
زرتشت بھی دس سال اپنے لوگوں سے کٹا آ رہا تھا۔ واپس آیا تواس نے خدا کی موت کی نوید سنائی ہے وہ پہاڑوں پر گیا تھا‘ یہ بھی گویا پہاڑوں پر گیا تھا۔ مگر کینیڈا سے وہ اتنے ہی عرصے کے لئے آیا ہے تو اس نے نظام کی تباہی کا اعلان کر دیا ہے۔لگتا ہے‘ وہ بتا رہا ہے‘ میں ہی مسیحا ہوں‘ میں ہی نجات دہندہ ہوں۔ میرے علاوہ اور کوئی نہیں جس نے آنا ہے میرے جھنڈے تلے آجائے۔ اب یہاں کوئی آئین و قانون نہیں۔ کوئی حکومت نہیں۔ اس نے کہا یاد رکھو‘ میں ہی سب کچھ ہوں۔ اس نے متحدہ عرب امارات سے 2ارب کا ہرجانہ مانگ لیا ہے۔ ذرا ان کی سرزمین پر دوبارہ قدم رکھ کر تودیکھو۔ اس کے غنڈوں نے کس طرح طیارے کے دروازوں پر کھڑے ہو کر مسافروں کو باہر جانے سے روکا تھا۔ اس نے جہاز ہائی جیک کر لیا تھا۔ اس کے سارے بیانات‘ سارے مطالبات پڑھئے۔ ایک سے ایک مضحکہ خیز بات ہے۔

پھر مگر وہ ڈر گیا۔ اس نے کہا کور کمانڈر کو بلواﺅ‘ میں صرف فوج کی نگرانی میں واپس جاﺅں گا۔ وہ فون بھی گھماتا رہا۔ یہی تاثر دیتا رہا کہ پوری کائنات اس کے اشاروں پر چل رہی ہے۔ پھر اس نے کہا چلو گورنر کو بلا دو۔ وہ مجھے گھر چھوڑ کر آئیں (مجھے ڈر لگتا ہے ) چوہدری پرویز الٰہی کہاں ہیں؟ ارے بھئی کوئی تو آئے اور مجھے اس عذاب سے نجات دلائے۔ اس نے اسلام آباد کی کنٹینر ریلی میں بھی یہی کیا تھا کہ حکومت آئے اور مجھے نجات دلائے۔ حکومت نے وفد بھیج دیا جو ہنس ہنس کر اس سارے تماشے کا مذاق اڑا رہا تھا اور شرائط پہ شرائط مانتے جا رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا یہ ڈرا ہوا ہے‘ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا چاہئے ‘ اس کی خواہش رہی ہے کہ عزت رہ جائے۔ یہ کہا جا سکے اہم لوگ آئے تھے‘ اس لئے میں نے بات مان لی۔

بہادر شاہ ظفر یاد آئے کہ جب انگریز سپاہ نے گھیرا تنگ کر دیا اور ساتھی بھاگنے لگے تو ہماری تاریخ کے اس مظلوم شہنشاہ نے کہا: کوئی ہے جو ہمیں پاپوش پہنا دے تاکہ ہم بھی بھاگ سکیں اوران کو پاپوش پہنانے اس بار گورنر صاحب خود چلے آئے۔

سوال یہ ہے کہ میں نے یہ نٹشے والی مثال کیوں دی۔ مجھے اس وقت اور کوئی مضحکہ اڑانے والی مثال نہیں مل رہی۔ کیا میں مہدی آخر الزماں کی مثال دوں۔ نعوذ باللہ۔ ہماری تاریخ میں بہت سوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان میں اس کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ مہدی سے پہلے بھی کسی نے آنا ہے۔ میں اتنی گستاخی نہیں کر سکتا۔ اس لئے نہیں کہ ان کا احترام واجب ہے۔ صرف اس لئے کہ ان کے ماننے والوں کادل نہ دکھے۔

ماننے والوں کا کیا ہے۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے‘ ماننے والے تو اس نے مرزا غلام احمد کو بھی دے رکھے تھے۔ کسی نے اس جھوٹی نبوت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ نے بیوقوف سے بیوقوف آدمی کے حصے کے ….پیدا کر رکھے ہیں‘ یہ نقطے آپ خود پر کر لیجئے ۔ مجھ سے گستاخی نہ کرائیے۔ پیروکاروں کا ہونا کسی شخص کے سچے ہونے کی نشانی نہیں‘ نہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ قیادت کی اہلیت رکھتا ہے۔

ایک مثال امام خمینی کی دی جاتی ہے۔ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ میں عقیدے کے لحاظ سے موصوف کے قریب ہوں۔ اور امام خمینی سے دور‘ مگر اتنا بڑا جھوٹ مجھ سے نہیں بولا جا سکتا۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں انقلاب کے نام پر جعلی لیڈر ملتے ہیں۔ ایک صاحب نے اس بات پر بھٹو کی مثال دی۔ عرض کیا تھا‘ بھٹو ایک لیڈر تھا۔ ایک وژن رکھتا تھا‘ دنیا کو سمجھتا تھا‘ فتنہ پروازوں کے جھانسے میں نہ آیا۔ اس کی مثال اس کے ساتھ دینا ہی ایک لغویات ہے۔ انقلاب جیسے ان کے گھر کی لونڈی ہے کہ تالی بجاتے چلی آئے گی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ آدمی غلط ہے‘ مگر کہتا سچ ہے‘ وہ بھی جان لیں کہ غلط آدمی‘ درست بات بھی کرے گا تو اس کے نتائج غلط ہی نکلیں گے۔ اس کو بیسیوں مثالوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے پلے باندھ لینا چاہئے۔ اس لئے کہ غلط آدمی کی نیت ہی غلط ہوتی ہے‘ اس کی شخصیت میں وہ جو ہر ہی نہیں ہوتا جو اسے درست راستے پر لے جا سکے۔ جو لوگ سب کچھ بدلنے آتے ہیں‘ ان کی نشانیاں اور ہوا کرتی ہیں۔ انہیں تو خراسان سے آنے والے لشکروں کے منتظر تک بھی نہیں مان رہے۔ جو اپنے مزاج کے لحاظ سے کسی نجات دہندہ کے منتظر ہیں۔

یہ ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ خدا نے آج تک ہر گمراہی سے بچائے رکھا۔ خاص کر اس گمراہی سے جو مقبولیت کے کندھوں پر بیٹھ کر آتی ہے۔ اس میں تو اتنی بھی جان نہیں‘یہ تو صرف ساتھیوں کے کندھوں کے سہارے نازل ہوئی ہے۔ اس گمراہی کے تو پاﺅں بھی لکڑی کے ہیں۔ جھوٹ کے بھی پاﺅں نہیں ہوتے‘ اس نے صرف لکڑی کے پاﺅں لگا رکھے ہیں۔
یہ باتیں میں طیش میں نہیں لکھ رہا۔ صرف اس بات کے اظہار کے لئے لکھ رہا ہوں کہ ملک بچانا ہے تو ہر قسم کی گمراہی سے بچنا ہوگا ۔ہر جھوٹ سے اللہ کی پناہ مانگی جائے ۔

میرا خدا‘ میرا رب‘ ”ابھی “ زندہ ہے۔ وہ زندہ جاوید ہے !جن کا خدا مر چکا وہ رو دھولیں۔میں تو اپنے رب کی پناہ میں جاتا ہوں۔ خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
میرے مرشد پاک (گل نوخیز اختر)​
میرے مرشد پاک’’ شیخ الاسلام آباد‘‘ کے بارے میں جو لوگ نازیبا کلمات استعمال کرتے ہوئے ان کا تمسخر اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں میں ان سب کو تنبیہہ کرنا چاہتا ہوں کہ باز آجائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ کسی دن سو کر اٹھیں تو شکلیں ہی بدلی ہوئی ہوں۔گذشتہ دنوں میرے مرشد پاک ایمریٹس کی پرواز سے پاکستان تشریف لائے تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے‘ مرشد کو چونکہ بشارت ہوچکی تھی لہذا انہوں نے پانچ گھنٹے طیارے میں ہی قیام کا فیصلہ کیا اور انقلابِ عظیم کی خاطر عصر اور مغرب کی نمازیں بھی موخر کردیں۔مرشد چاہتے تو انہیں طیارے میں آنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی‘ وہ چند کلمات پڑھ کر طیارے سے بھی زیادہ تیز سپیڈ سے پرواز کرتے ہوئے پاکستان میں آسکتے تھے لیکن انہوں نے قانونی راستہ اختیار کیا ۔کئی بدخواہ اور گنہگار یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ میرے مرشد ‘اعلیٰ اداروں کو فون ملاتے رہے لیکن ’’اُدھر‘‘ سے Not responding کی آواز آتی رہی ‘ یہ بھی جھوٹ ہے‘ اصل میں مرشد کینڈا سے پرواز کرنے سے قبل اپنے موبائل میں ایزی لوڈ کرانا بھول گئے تھے لہذا بیلنس کی کمی آڑے آگئی۔اتنی سی بات تھی۔۔۔!!!

میں اپنے مرشد کی کیا کیا خوبیاں بیان کروں‘ انہوں نے تو میری زندگی ہی بدل دی‘مجھے یاد ہے آج سے دس سال پہلے میں ایک بہت برا انسان تھا‘ پینٹ شرٹ پہنتا تھا‘ گانے سنتا تھا‘ بالوں میں جیل لگاتا تھا‘ گاڑی چلاتے ہوئے گنگنایا کرتا تھا۔۔۔اور تو اور کئی دفعہ انڈیا کی کوئی فلم بھی دیکھ لیا کرتا تھا۔ لیکن پھر میری مرشد پاک سے ملاقات ہوئی اور مجھ میں انقلاب آگیا۔ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ زندگی میں کامیابی کے لیے کسی کا مرید ہونا بہت ضروری ہے‘ میں نے ان کی بات پر فوراً عمل کیا اور ’’رن مرید‘‘ ہوگیا۔ اِس پر مرشد پاک نے انتہائی ملائم لہجے میں مجھے سمجھایا کہ ’’ڈنگر انسان! رن مرید ی کے آگے جہاں اور بھی ہیں۔۔۔‘‘ تب میں نے پہلی مریدی سے استعفیٰ دے کر مرشد پاک کی مریدی اختیار کی اوران کی نگاہِ روشن سے وہ اعلیٰ و ارفع مقام پایا کہ آج میں جدھر سے بھی گزرتاہوں انگلیاں سرو اٹھاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں۔

میرے مرشد پاک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ خواب میں مجھے نبی پاکﷺ کا دیدار ہوا اور انہوں نے مجھے میزبانی کا شرف بخشتے ہوئے فرمایا کہ ’’طاہر میں اس شرط پر پاکستان رکوں گا کہ میرے کھانے پینے اور ٹکٹ کے اخراجات تم افورڈ کرو‘‘۔سبحان اللہ! ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ میں نے 15سال ایک مقدس ہستی سے خواب میں تعلیم حاصل کی‘ اسی خواب کا ذکر ایک اور محفل میں کرتے ہوئے مرشد پاک نے 6 سال کم کردیے اور ربِ کعبہ کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ ’’میں نے 9 سال تک اُس مقدس ہستی سے خواب میں تعلیم حاصل کی ہے۔‘‘ حریفوں نے سوال اٹھایا کہ ایک ہی خواب کا بیان کرتے ہوئے 6 سالوں کا یہ فرق کیوں؟؟؟ کوئی اِن جاہلوں کو بتائے کہ مرشد پاک اِس تعلیمی سلسلے کے دوران ہفتہ اتوار کی چھٹی بھی تو کرتے رہے ہیں‘ چھوٹی بڑی عید‘ شب برات‘ 23 مارچ ‘ 14 اگست اور 25 دسمبر سمیت گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں اس کے علاوہ تھیں‘ وہ سب نکال کے باقی 9 سال ہی تو بچتے ہیں۔اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ عام طور پر ہم یہی کہتے ہیں کہ ایک طالبعلم نے دس سال سکول میں تعلیم حاصل کرکے میٹرک کیا‘ لیکن جب تفصیل میں جائیں گے تو دس سال کی چھٹیاں منہا کر دی جائیں گی۔یہی کچھ میرے مرشد نے بھی کہا۔۔۔کچھ غلط کہا؟؟؟

بحکمِ خدا۔۔۔میرے مرشد پاک انقلاب لانے کے لیے تشریف لاچکے ہیں‘ دو سال پہلے بھی وہ اسی سلسلے میں تشریف لائے تھے لیکن انقلابی زیادہ تھے اور ہیٹر ایک۔۔۔لہذا مرشد نے طے کیا کہ ہزاروں ہیٹر لگانے کی بجائے کیوں نہ انقلاب کا سیزن ہی بدل دیا جائے لہذا اب کی بار وہ گرمیوں میں تشریف لائے ہیں۔ سرکار نے ان کی آمد سے خوفزدہ ہوکر جہاز کا رخ اسلام آباد کی بجائے لاہور کی طرف موڑ دیا لیکن مرشد بھی دھن کے پکے تھے‘جہازہی میں نیت باندھ لی کہ وہ کسی حکومتی بندے کے ساتھ جہاز سے نہیں اتریں گے بلکہ صرف کسی فوجی جوان کے ساتھ ہی باہر تشریف لائیں گے لیکن سندھ کے گورنر نے جب انہیں فون پر یہ بتایا کہ غیر ملکی ائیر لائن والے ان پر تاحیات پابندی کا سوچ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پندرہ منٹ بعد وہ جہاز کا انجن آف کرکے اے سی وغیرہ بند کردیں گے تو مرشد پاک کو یہ سنتے ہی حالت مراقبہ میں چلے گئے اور ’’کرامت‘‘ یہ ہوئی کہ مرشد کے دوست گورنر پنجاب (جو یقیناًحکومت کا حصہ نہیں)نے فون کر دیا ورنہ مرشد آنے والی گرمی کے تصور سے ہی حواس باختہ ہورہے تھے‘ ۔اصل میں میرے مرشد کی پرابلم ہے کہ گرمی میں ان کا ذہنی توازن پونے تین سینٹی گریڈ نیچے آجاتاہے‘ ایک دفعہ سخت گرمی کے عالم میں مرشد کو نماز جنازہ پڑھانا پڑ گئی تھی‘ نماز ختم ہوئی تو مرشد لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر بھول گئے کہ وہ کہاں ہیں لہذا پوری قوت سے چلائے۔۔۔’’مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو‘‘

الحمدللہ !آج میرے مرشد واپس آچکے ہیں اور انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ اگلا الیکشن وہ خود کرائیں گے۔یقیناًاگلا الیکشن کرانے کا اختیار اب کسی حکومت‘ عدالت یا الیکشن کمیشن کا نہیں بلکہ میرے مرشد کا ہوگا اوروہ جسے چاہیں گے مسندِ اقتدار پر بٹھائیں گے کیونکہ اٹھارہ کروڑ عوام نہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ ہے‘ نہ کسی مذہبی جماعت کے ساتھ بلکہ سو فیصد میرے مرشد کے ساتھ ہے۔ اس کے باوجود مرشد پاک ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آنے کو حرام سمجھتے ہیں۔انہیں یقین ہے کہ کم ازکم ان کا اقتدار ووٹ کا محتاج نہیں۔۔میں چونکہ اپنے مرشد کا چہیتا ہوں لہذا مجھے امید ہے میرے مرشد پاک مجھے چیئرمین واپڈا یا وفاقی وزیر ضرور بنائیں گے۔مرشد پاک چاہتے ہیں کہ اس ملک میں سب کو یکساں حقوق ملیں‘ کوئی گرم کنٹینر میں بیٹھ کر سرد عوام سے خطاب نہ کرے‘ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی بلٹ پروف گاڑی ہو‘ ہر بندہ چارٹر طیارے کے پیسے افورڈ کر سکے‘ ہر پاکستانی شہری کو کینیڈا کی نیشنیلٹی دلائی جائے۔ میرے مرشد تو برابری کے اس حد تک قائل ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کے ہر مرید کو سکول کالج جانے کی بجائے خواب میں مقدس ہستیوں سے تعلیم دلائی جائے‘ اس مقصد کے لیے مرشد ’’کے سی ٹی‘‘(خواب کالج آف ٹیکنالوجی) کے منصوبے پر بھی غور فرما رہے ہیں ‘ انہوں نے اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں میرا نام بھی شامل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔میں اپنے مرشد کا نہایت شکر گذار ہوں کہ ان کی نظر کرم سے میری بگڑی مسلسل سنورتی جارہی ہے‘ جب سے میں نے مرشد کے نام کا ورد شروع کیا ہے میری گاڑی کا پٹرول چھ کلومیٹر زیادہ ایوریج دینے لگا ہے‘ اے سی ٹرپ ہونا بند ہوگیا ہے‘ گھر کے یو پی ایس کی بیٹری بھی اچانک سے ڈیڑھ گھنٹہ نکالنے لگ گئی ہے‘ شاور کے جن سوراخوں میں سے پانی آنا بند ہوگیا تھا وہ بھی’’ موسلادھار‘‘پرفارمنس دینے لگے ہیں۔۔۔اور تو اور میں کچھ دنوں سے نوٹ کر رہا ہوں کہ میں جتنے مرضی سگریٹ پیتا جاؤں‘ میری ڈبی ختم نہیں ہوتی۔آئیے سب مل کر مرشد پاک کے انقلاب کی دعا کریں تاکہ ملک سے منحوس جمہوریت کا تصور تو ختم ہو۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
شر اور ڈر (توفیق بٹ)​
دو نمبر مولوی کے غبارے سے ہوا نہیں نکلی غبارہ ہی پھٹ گیاہے۔ یہ غبارہ ہوا میں پھٹتا تو اور اچھا تھا۔ حکمرانوں کا تختہ اُلٹانے کی بات وہ کرتا ہے فی الحال اُس کا اپنا ہی دھڑن تختہ ہوگیا ہے۔ اِس میں قصور کسی اور کا نہیں اُس کا اپنا ہے۔ پچھلی بار جب پاکستان کا اُسے دورہ پڑا تو اپنے تحفظ کی ضمانت اُس نے عدلیہ سے مانگی تھی۔ عدلیہ نے اُس وقت ”ضمانت“ کسی اور کو دی ہوئی تھی اور اِس بات سے وہ شاید بے خبر تھا۔ جیسے اِس بات سے عوام بھی بے خبر تھے۔ اُس وقت کے وزیراعظم کو سپریم کورٹ نے گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا تو دو نمبر مولوی جو اسلام آباد میں اُس روز سخت سردی میں گرما گرم کنٹینر میں ”دھرنا“ دیئے بیٹھا تھا نے اچانک ”مبارک ہو‘ مبارک ہوکی آوازیں بلند کرنا شروع کر دیں۔ تاثر یہ دیا جیسے عدلیہ نے یہ حکم اُس کی خواہش پر یا اُس کے دھرنے کے نتیجے میں دیا ہے۔ اُسی عدلیہ نے بعد میں ڈنڈا دیا تو اُس کے خلاف ہوگیا۔ اب کے بار ایک غیر ملکی جہاز کو اُس نے ”کنٹینر“ بنا لیا۔ پانچ گھنٹے آرام دہ سیٹ پر بیٹھ کر ”دھرنا“ دیا اور پانچ مو¿قف بدلے۔ پہلے کہا”جب تک فوج تحفظ کی ضمانت نہیں دیتی باہر نہیں آﺅں گا“۔ تحفظ کی ضمانت تو کیا ایک بیان تک فوج نے اُس کے حق میں نہیں دیا۔ اور یہ بات سب سے زیادہ حیرانی و پریشانی کا باعث ایم کیو ایم اور چوہدری برادران کے لئے بنی جو دو نمبر مولوی کے اِس وقت کاندھے بنے ہوئے ہیں‘ چوہدری پرویز الٰہی کو اُن کے بعض اچھے کاموں کی وجہ سے لوگ یاد کر رہے تھے‘ اللہ جانے اچانک اُنہیں کیا ہوا انتہائی دو نمبر مولوی کے قدموں میں جا کر بیٹھ گئے اور اپنی سیاسی پوزیشن ایک بارپھر خراب کر بیٹھے دوسرا مو¿قف ”مولانا کینیڈی“ نے یہ اپنایا گورنر پنجاب چوہدری سرور آئیں گے تو اُن کے ساتھ جاﺅں گا….گورنر سرور شاید اِسی انتظار میں تھے کب کسی ”ڈیل“ کے مطابق اُنہیں پکارا جائے اور وہ بھاگ کر ایئرپورٹ پہنچ جائیں۔ بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق وہ ایئرپورٹ کے آس پاس ہی کہیں موجود تھے۔ جیسے ہی ”مولانا کینیڈی “ نے اُنہیں پکارا اُنہوں نے شکر ادا کیا ورنہ وہ یقینا سوچ رہے تھے مولانا اُنہیں شاید بھول ہی گئے ہیں۔ اُس ”عورت“ کی طرح جس نے محلے کی مسجد کے مولوی صاحب کو پیغام بھجوایا کل دو بجے مسجد میں وہ اُن سے ملنے آئے گی۔ مسجد میں ظہر کی جماعت دو بجے ہوتی تھی جو مولوی صاحب نے اُس روز ڈیڑھ بجے ہی کروا دی۔ بچوں کو بھی چھٹی دے دی جو بعد از نماز سپارہ پڑھنے آتے تھے۔ پھر ”خالی مسجد“ میں بیٹھ کر عورت کا انتظار کرنے لگے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا مولوی صاحب کی بے چینی بڑھتی چلی گئی۔ تین بجے تک عورت نہ آئی اور مولوی صاحب کو پیغام بھجوانے کے لئے کوئی ذریعہ بھی میسر نہ آیا تو مسجد کے لاﺅڈ سپیکر پر اعلان فرمانے لگے ”حضرات ایک ضروری اعلان سنئے….”دو کب کے بج چکے ہیں….اعلان ختم ہوا“….عورت پھر بھی نہ آئی۔ چند روز بعد مولوی صاحب کو ملی تو معذرت کرتے ہوئے بولی ”میں بھول گئی تھی “….”مولانا کینیڈی“ نے معذرت کی نوبت نہیں آنے دی اور گورنر سرور کو بروقت یاد کر لیا۔ وہ ایئر پورٹ پہنچے تو فرمایا ”میں اُن کی گاڑی میں نہیں جاﺅں گا‘ کیونکہ میں سرکاری گاڑی میں سفر نہیں کرنا چاہتا“۔ گورنر سرور نے یقینا اُن سے گلہ کیا ہوگا یہ بات وہ پہلے بتا دیتے تو ایک عدد پرائیویٹ گاڑی بھی وہ ساتھ لے آتے۔ چوتھی فرمائش دو نمبر مولوی نے یہ کی اپنی ذاتی گاڑی میں ذاتی محافظوں کے ساتھ جاﺅں گا۔ذاتی گاڑی اور محافظ ایئرپورٹ پر موجود تھے مگر وہ اُن کے ساتھ بھی نہیں گیا۔ اور پانچویں و آخری فرمائش یہ کی ”چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ جاﺅں گا“….چوہدری صاحب گجرات میں اُس کے استقبال کے لئے اپنی دکان سجا کے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ فوراً وہاں سے نکلے اور ٹھیک دو بجے کے بعد ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ اِس سے پہلے دو گھنٹے تک جہاز میں گورنر سرور کے ساتھ مولوی دو نمبر کی ”کانا پھوسی“ جاری رہی۔ جو بات میڈیا سے ذرا خفیہ رکھنا ہوتی آہستہ سے گورنر کے کان میں کہہ دیتا اور جسے خبر بنانا ہوتا اُونچی آواز میں بولنا شروع کر دیتا۔ شریف برادران کو اِس دوران بار بار وہ ”قاتل“ کہتا رہا۔ ”قاتلوں کا نمائندہ “ اُس وقت اُس کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ جس کے بارے میں اُس نے فرمایا ”وہ میرا ذاتی دوست ہے اور اُسے اِسی حیثیت میں یہاں بلایا ہے “….چوہدری سرور جیسے لوگ جس کے ذاتی دوست ہوں وہ کیا ”انقلاب“ لائے گا؟ اِس کا اندازہ لوگ اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ اِسی لئے تو لوگ اُس کے ساتھ نہیں ہیں۔ چالیس پچاس ہزار مریدوں کو استعمال کرکے انقلاب تو وہ لا نہیں سکتا چوتھے دِن عذاب ضرور لے آتا ہے۔ یہ مرید ین بے چارے بھی بڑے ہی بھولے ہوتے ہیں۔ اپنی ضرورت کے مطابق اُنہیں استعمال کرنے کا جتنا فن دو نمبر مولوی کو آتا ہے شاید ہی کسی اور کو آتا ہوگا۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں بھی مریدین ہی مارے گئے۔ اب جناح ہسپتال میں مریدوں کی عیادت کرتے ہوئے وہ آنسو بہا رہا تھا۔ اِسے ہم مگرمچھ کے آنسو بھی نہیں کہہ سکتے کہ مگرمچھ اِس کا کہیں بُرا ہی نہ منا جائیں۔ اتنی ہمدردی مریدوں سے اُسے ہوتی تو سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں مریدین جب گولیاں کھا رہے تھے گھر میں چھپ کر بیٹھے ہوئے اپنے بیٹے سے کہتا باہر نکلو اور مریدوں کے ساتھ مل کر مقابلہ کرو۔ باہر مرید مر رہے تھے اور صاحبزادہ اندر ”مریدکے کی لیچیاں“ کھا رہا تھا۔ جو شاید گورنر سرور نے ہی اُسے بھجوائی ہوں گی۔ جناح ہسپتال میں اپنے مریدوں کی عیادت کے بعد ماڈل ٹاﺅن اپنی رہائش گاہ پر وہ پہنچا تو ایک بار پھر گرجنے لگا ” میں حکمرانوں سے بدلہ لوں گا“….حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں جاں بحق ہونے والے اُس کے مریدوں کے لئے تیس تیس لاکھ روپے کا اعلان کیا ہے ‘میری معلومات کے مطابق یہ ”اعلان“ اُن کے لواحقین نے صدقِ دل سے قبول بھی کر لیا ہے۔ اب ایسی صورت میں مولانا کینیڈی بدلہ حکمرانوں سے اللہ جانے کس بات کا لے گا؟ ممکن ہے بدلہ اِس بات کا لے اُس کی اجازت کے بغیر تیس تیس لاکھ کا اعلان کیوں کیا گیا؟ یا اِ س بات کا کہ مرنے والوں کو تو تیس تیس لاکھ دیئے جا رہے ہیں اور ”زندوں“ کو پوچھا تک نہیں جا رہا۔ البتہ ایک حوالے سے ”مولوی کینیڈی“ کو بہت پسند کیا جا رہا ہے کہ ” متکبر حکمرانوں“ کو اُس نے نتھ ڈال کر رکھ دی ہے۔ اگلے روز ”نکے وزیراعظم“ سے کسی نے اُس کے بارے میں پوچھا تو غصے سے اُن کا چہرہ لال ہوگیا۔ فرمانے لگے ”کون قادری؟ ….یہاں لاکھوں قادری ہیں میں کسی قادری کو نہیں جانتا“….ابھی تو ایک قادری اُن سے سنبھالا نہیں جا رہا ”لاکھوں قادری “ ہوں تو میرے خیال میں ویسے ہی پاکستان چھوڑ کر اپنے کسی پسندیدہ ملک میں وہ چلے جائیں۔ ویسے یہ ”قادری شریف “ اُن کا اپنا ہی لگایا ہوا ”پودا“ ہے جو پوری کوشش کے باوجود اب اُن سے اُکھاڑا نہیں جا رہا۔ وہ مطمئن تھے کہ پنجاب میں دہشت گردی نہیں ہو رہی۔ اب اِس سے بھی بڑا ”عذاب“ آکر پنجاب میں بیٹھ گیا ہے۔ ابھی تو وہ آیا بھی نہیں تھا کہ پنجاب کابینہ کے اہم ترین رُکن اور پنجاب کے چیف سیکرٹری سے بھی تگڑے سیکرٹری ٹو سی ایم کو لے بیٹھا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بلکہ کیا کیا؟؟؟ اور اگر اُن کے نزدیک قادری کی کوئی حیثیت نہیں تو گورنر سرور کو اُس سے ”مذاکرات“ کرنے کے لئے ایئرپورٹ کی اجازت کیوں دی گئی تھی؟ اور اب اُس کی خواہش بلکہ ”حکم“ پر اُس کے گرفتار کارکنوں کو رہا کیوں کیا جا رہا ہے؟ اور قصور وار پولیس افسروں کو گرفتار کرنے کا کیوں سوچا جا رہا ہے؟ کچھ لوگوں کے لئے تو اتنا ”انقلاب “ ہی کافی ہے کہ متکبر حکمران دو قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ابھی مکمل طور پر اُنہیں پیچھے ہٹنا ہے۔ ”مکمل انقلاب“ صرف اِسی صورت میں آسکتا ہے!
 
Top