- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
تب وہ پہاڑوں سے اترا
جہاز سے نہیں‘
کہتے ہیں‘ اس کے ایک ہاتھ میں سانپ تھا کاندھے پر باز تھا۔
ہمارا شہباز نہیں۔
اس نے کہا‘ لوگو سن لو خدا مر چکا ہے۔ میں تمہیں بتانے آیا ہوں سپرمین کیا ہوتاہے۔
سپر مین کہا تھا ‘اس نے مرد کامل نہیں کہا تھا۔
مجھے افتخار فیروز یاد آئے۔ ہمارا یار طرح دار کس غضب کا مقرر تھا۔ جانے کہاں غائب ہے۔
اس نے نیو کیمپس کے کیفے ٹیریا کے سامنے اعلان کیا: افلاطون نے کہا‘ لوگو‘ آﺅ میں تمہیں عقل سکھانے آیا ہوں۔
لوگ کیفے ٹیریا سے نکلے کہ جلسے کو تلپٹ کریں گے۔
یہ لیفٹ رائٹ کی لڑائی کا عروج تھا۔ اور اس دن ہم دائیں والے ٹیپو سلطان کا دن منا رہے تھے۔
میں پہاڑ سے اترنے والے کی بات کر رہا ہوں۔
ایک دنیا نے اس کی بات سنی اور اس کی باتوں میں لگ گئے۔
ہمارا اقبال نہ مانا‘ اس نے کہا!
وہ کہتا ہے‘ میں انتخاب خود کراﺅں‘ میں خودنگرانی کروں گا۔ وہ کہتا ہے‘ میں اعلان کرتا تومیرے لوگ ایئرپورٹ پر قبضہ کر لیتے۔ میں بدلہ لوں گا۔ اب میرا مقابلہ شہباز شریف سے ہے۔
آپ نے دیکھا جب اس نے رائے ونڈ پر سینکڑو ں ایکڑ پر پھیلے محلات کا ذکر کیا‘ تو اس کی آنکھیں کیسے پھیل کر ساکت ہوگئی تھیں۔ افسوس‘ ہمارے ہاں بدن بولی کا ذکر کرنے والے ان آنکھوں میں نہ جھانک سکے جو ایک لمحے کے لئے پتھر ہوگئی تھیں۔ پھر اس نے سوچا کہ دل کی بات آنکھوں سے زبان پر نہ آجائے‘ اس نے لہجہ بدلا کہ میں اس پر غریبوں کے لئے ہزاروں گھر بناﺅں گا۔
وہ سوچ کچھ اور رہا تھا‘ کہہ کچھ اور رہا تھا۔ کوئی ذرا اس فوٹیج کو نکال کر اس کا جائزہ لے۔ اس نے ان کے ساتھ کام کیا ہے‘ ایک چہیتے ملازم کے طور پر۔ اس نے سوچا اس سب میں تیرا حصہ بھی ہو سکتا تھا۔ کیوں نہیں ہے ؟کیامیں نے چانس مس کیا‘ انہیں چھوڑ دیا۔ میں اسے چھین سکتا ہوں؟ اس نے اپنی طاقت کا دوبارہ جائزہ لیا۔ یہ آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں یا حرص سے۔ اس نے سوچا اسے انقلاب کا نام دے لیتے ہیں۔ بہت چالاک آدمی ہے۔
زرتشت بھی دس سال اپنے لوگوں سے کٹا آ رہا تھا۔ واپس آیا تواس نے خدا کی موت کی نوید سنائی ہے وہ پہاڑوں پر گیا تھا‘ یہ بھی گویا پہاڑوں پر گیا تھا۔ مگر کینیڈا سے وہ اتنے ہی عرصے کے لئے آیا ہے تو اس نے نظام کی تباہی کا اعلان کر دیا ہے۔لگتا ہے‘ وہ بتا رہا ہے‘ میں ہی مسیحا ہوں‘ میں ہی نجات دہندہ ہوں۔ میرے علاوہ اور کوئی نہیں جس نے آنا ہے میرے جھنڈے تلے آجائے۔ اب یہاں کوئی آئین و قانون نہیں۔ کوئی حکومت نہیں۔ اس نے کہا یاد رکھو‘ میں ہی سب کچھ ہوں۔ اس نے متحدہ عرب امارات سے 2ارب کا ہرجانہ مانگ لیا ہے۔ ذرا ان کی سرزمین پر دوبارہ قدم رکھ کر تودیکھو۔ اس کے غنڈوں نے کس طرح طیارے کے دروازوں پر کھڑے ہو کر مسافروں کو باہر جانے سے روکا تھا۔ اس نے جہاز ہائی جیک کر لیا تھا۔ اس کے سارے بیانات‘ سارے مطالبات پڑھئے۔ ایک سے ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
پھر مگر وہ ڈر گیا۔ اس نے کہا کور کمانڈر کو بلواﺅ‘ میں صرف فوج کی نگرانی میں واپس جاﺅں گا۔ وہ فون بھی گھماتا رہا۔ یہی تاثر دیتا رہا کہ پوری کائنات اس کے اشاروں پر چل رہی ہے۔ پھر اس نے کہا چلو گورنر کو بلا دو۔ وہ مجھے گھر چھوڑ کر آئیں (مجھے ڈر لگتا ہے ) چوہدری پرویز الٰہی کہاں ہیں؟ ارے بھئی کوئی تو آئے اور مجھے اس عذاب سے نجات دلائے۔ اس نے اسلام آباد کی کنٹینر ریلی میں بھی یہی کیا تھا کہ حکومت آئے اور مجھے نجات دلائے۔ حکومت نے وفد بھیج دیا جو ہنس ہنس کر اس سارے تماشے کا مذاق اڑا رہا تھا اور شرائط پہ شرائط مانتے جا رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا یہ ڈرا ہوا ہے‘ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا چاہئے ‘ اس کی خواہش رہی ہے کہ عزت رہ جائے۔ یہ کہا جا سکے اہم لوگ آئے تھے‘ اس لئے میں نے بات مان لی۔
بہادر شاہ ظفر یاد آئے کہ جب انگریز سپاہ نے گھیرا تنگ کر دیا اور ساتھی بھاگنے لگے تو ہماری تاریخ کے اس مظلوم شہنشاہ نے کہا: کوئی ہے جو ہمیں پاپوش پہنا دے تاکہ ہم بھی بھاگ سکیں اوران کو پاپوش پہنانے اس بار گورنر صاحب خود چلے آئے۔
سوال یہ ہے کہ میں نے یہ نٹشے والی مثال کیوں دی۔ مجھے اس وقت اور کوئی مضحکہ اڑانے والی مثال نہیں مل رہی۔ کیا میں مہدی آخر الزماں کی مثال دوں۔ نعوذ باللہ۔ ہماری تاریخ میں بہت سوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان میں اس کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ مہدی سے پہلے بھی کسی نے آنا ہے۔ میں اتنی گستاخی نہیں کر سکتا۔ اس لئے نہیں کہ ان کا احترام واجب ہے۔ صرف اس لئے کہ ان کے ماننے والوں کادل نہ دکھے۔
ماننے والوں کا کیا ہے۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے‘ ماننے والے تو اس نے مرزا غلام احمد کو بھی دے رکھے تھے۔ کسی نے اس جھوٹی نبوت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ نے بیوقوف سے بیوقوف آدمی کے حصے کے ….پیدا کر رکھے ہیں‘ یہ نقطے آپ خود پر کر لیجئے ۔ مجھ سے گستاخی نہ کرائیے۔ پیروکاروں کا ہونا کسی شخص کے سچے ہونے کی نشانی نہیں‘ نہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ قیادت کی اہلیت رکھتا ہے۔
ایک مثال امام خمینی کی دی جاتی ہے۔ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ میں عقیدے کے لحاظ سے موصوف کے قریب ہوں۔ اور امام خمینی سے دور‘ مگر اتنا بڑا جھوٹ مجھ سے نہیں بولا جا سکتا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں انقلاب کے نام پر جعلی لیڈر ملتے ہیں۔ ایک صاحب نے اس بات پر بھٹو کی مثال دی۔ عرض کیا تھا‘ بھٹو ایک لیڈر تھا۔ ایک وژن رکھتا تھا‘ دنیا کو سمجھتا تھا‘ فتنہ پروازوں کے جھانسے میں نہ آیا۔ اس کی مثال اس کے ساتھ دینا ہی ایک لغویات ہے۔ انقلاب جیسے ان کے گھر کی لونڈی ہے کہ تالی بجاتے چلی آئے گی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ آدمی غلط ہے‘ مگر کہتا سچ ہے‘ وہ بھی جان لیں کہ غلط آدمی‘ درست بات بھی کرے گا تو اس کے نتائج غلط ہی نکلیں گے۔ اس کو بیسیوں مثالوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے پلے باندھ لینا چاہئے۔ اس لئے کہ غلط آدمی کی نیت ہی غلط ہوتی ہے‘ اس کی شخصیت میں وہ جو ہر ہی نہیں ہوتا جو اسے درست راستے پر لے جا سکے۔ جو لوگ سب کچھ بدلنے آتے ہیں‘ ان کی نشانیاں اور ہوا کرتی ہیں۔ انہیں تو خراسان سے آنے والے لشکروں کے منتظر تک بھی نہیں مان رہے۔ جو اپنے مزاج کے لحاظ سے کسی نجات دہندہ کے منتظر ہیں۔
یہ ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ خدا نے آج تک ہر گمراہی سے بچائے رکھا۔ خاص کر اس گمراہی سے جو مقبولیت کے کندھوں پر بیٹھ کر آتی ہے۔ اس میں تو اتنی بھی جان نہیں‘یہ تو صرف ساتھیوں کے کندھوں کے سہارے نازل ہوئی ہے۔ اس گمراہی کے تو پاﺅں بھی لکڑی کے ہیں۔ جھوٹ کے بھی پاﺅں نہیں ہوتے‘ اس نے صرف لکڑی کے پاﺅں لگا رکھے ہیں۔
یہ باتیں میں طیش میں نہیں لکھ رہا۔ صرف اس بات کے اظہار کے لئے لکھ رہا ہوں کہ ملک بچانا ہے تو ہر قسم کی گمراہی سے بچنا ہوگا ۔ہر جھوٹ سے اللہ کی پناہ مانگی جائے ۔
میرا خدا‘ میرا رب‘ ”ابھی “ زندہ ہے۔ وہ زندہ جاوید ہے !جن کا خدا مر چکا وہ رو دھولیں۔میں تو اپنے رب کی پناہ میں جاتا ہوں۔ خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔
جہاز سے نہیں‘
کہتے ہیں‘ اس کے ایک ہاتھ میں سانپ تھا کاندھے پر باز تھا۔
ہمارا شہباز نہیں۔
اس نے کہا‘ لوگو سن لو خدا مر چکا ہے۔ میں تمہیں بتانے آیا ہوں سپرمین کیا ہوتاہے۔
سپر مین کہا تھا ‘اس نے مرد کامل نہیں کہا تھا۔
مجھے افتخار فیروز یاد آئے۔ ہمارا یار طرح دار کس غضب کا مقرر تھا۔ جانے کہاں غائب ہے۔
اس نے نیو کیمپس کے کیفے ٹیریا کے سامنے اعلان کیا: افلاطون نے کہا‘ لوگو‘ آﺅ میں تمہیں عقل سکھانے آیا ہوں۔
لوگ کیفے ٹیریا سے نکلے کہ جلسے کو تلپٹ کریں گے۔
یہ لیفٹ رائٹ کی لڑائی کا عروج تھا۔ اور اس دن ہم دائیں والے ٹیپو سلطان کا دن منا رہے تھے۔
میں پہاڑ سے اترنے والے کی بات کر رہا ہوں۔
ایک دنیا نے اس کی بات سنی اور اس کی باتوں میں لگ گئے۔
ہمارا اقبال نہ مانا‘ اس نے کہا!
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے
اور اقبال آج کے زمانے میں ہوتا تو کیا وہ سمجھا سکتا کہ انقلاب کیا ہے‘ آئین کیا ہے‘ جمہوریت کیا ہے اور آئین کسے کہتے ہیں۔ یہ تو کہتا ہے سب ڈھانچہ ہی غلط ہے۔ سارا نظام ہی غلط ہے۔ میں آیا ہوں قوم کو بتانے کہ انتخاب کیسے ہوتے ہیں‘ الیکشن کمشنر کیسے مقرر کئے جاتے ہیں اور انقلاب کا نقارہ کیسے بجایا جاتا ہے۔تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے
وہ کہتا ہے‘ میں انتخاب خود کراﺅں‘ میں خودنگرانی کروں گا۔ وہ کہتا ہے‘ میں اعلان کرتا تومیرے لوگ ایئرپورٹ پر قبضہ کر لیتے۔ میں بدلہ لوں گا۔ اب میرا مقابلہ شہباز شریف سے ہے۔
آپ نے دیکھا جب اس نے رائے ونڈ پر سینکڑو ں ایکڑ پر پھیلے محلات کا ذکر کیا‘ تو اس کی آنکھیں کیسے پھیل کر ساکت ہوگئی تھیں۔ افسوس‘ ہمارے ہاں بدن بولی کا ذکر کرنے والے ان آنکھوں میں نہ جھانک سکے جو ایک لمحے کے لئے پتھر ہوگئی تھیں۔ پھر اس نے سوچا کہ دل کی بات آنکھوں سے زبان پر نہ آجائے‘ اس نے لہجہ بدلا کہ میں اس پر غریبوں کے لئے ہزاروں گھر بناﺅں گا۔
وہ سوچ کچھ اور رہا تھا‘ کہہ کچھ اور رہا تھا۔ کوئی ذرا اس فوٹیج کو نکال کر اس کا جائزہ لے۔ اس نے ان کے ساتھ کام کیا ہے‘ ایک چہیتے ملازم کے طور پر۔ اس نے سوچا اس سب میں تیرا حصہ بھی ہو سکتا تھا۔ کیوں نہیں ہے ؟کیامیں نے چانس مس کیا‘ انہیں چھوڑ دیا۔ میں اسے چھین سکتا ہوں؟ اس نے اپنی طاقت کا دوبارہ جائزہ لیا۔ یہ آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں یا حرص سے۔ اس نے سوچا اسے انقلاب کا نام دے لیتے ہیں۔ بہت چالاک آدمی ہے۔
زرتشت بھی دس سال اپنے لوگوں سے کٹا آ رہا تھا۔ واپس آیا تواس نے خدا کی موت کی نوید سنائی ہے وہ پہاڑوں پر گیا تھا‘ یہ بھی گویا پہاڑوں پر گیا تھا۔ مگر کینیڈا سے وہ اتنے ہی عرصے کے لئے آیا ہے تو اس نے نظام کی تباہی کا اعلان کر دیا ہے۔لگتا ہے‘ وہ بتا رہا ہے‘ میں ہی مسیحا ہوں‘ میں ہی نجات دہندہ ہوں۔ میرے علاوہ اور کوئی نہیں جس نے آنا ہے میرے جھنڈے تلے آجائے۔ اب یہاں کوئی آئین و قانون نہیں۔ کوئی حکومت نہیں۔ اس نے کہا یاد رکھو‘ میں ہی سب کچھ ہوں۔ اس نے متحدہ عرب امارات سے 2ارب کا ہرجانہ مانگ لیا ہے۔ ذرا ان کی سرزمین پر دوبارہ قدم رکھ کر تودیکھو۔ اس کے غنڈوں نے کس طرح طیارے کے دروازوں پر کھڑے ہو کر مسافروں کو باہر جانے سے روکا تھا۔ اس نے جہاز ہائی جیک کر لیا تھا۔ اس کے سارے بیانات‘ سارے مطالبات پڑھئے۔ ایک سے ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
پھر مگر وہ ڈر گیا۔ اس نے کہا کور کمانڈر کو بلواﺅ‘ میں صرف فوج کی نگرانی میں واپس جاﺅں گا۔ وہ فون بھی گھماتا رہا۔ یہی تاثر دیتا رہا کہ پوری کائنات اس کے اشاروں پر چل رہی ہے۔ پھر اس نے کہا چلو گورنر کو بلا دو۔ وہ مجھے گھر چھوڑ کر آئیں (مجھے ڈر لگتا ہے ) چوہدری پرویز الٰہی کہاں ہیں؟ ارے بھئی کوئی تو آئے اور مجھے اس عذاب سے نجات دلائے۔ اس نے اسلام آباد کی کنٹینر ریلی میں بھی یہی کیا تھا کہ حکومت آئے اور مجھے نجات دلائے۔ حکومت نے وفد بھیج دیا جو ہنس ہنس کر اس سارے تماشے کا مذاق اڑا رہا تھا اور شرائط پہ شرائط مانتے جا رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا یہ ڈرا ہوا ہے‘ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا چاہئے ‘ اس کی خواہش رہی ہے کہ عزت رہ جائے۔ یہ کہا جا سکے اہم لوگ آئے تھے‘ اس لئے میں نے بات مان لی۔
بہادر شاہ ظفر یاد آئے کہ جب انگریز سپاہ نے گھیرا تنگ کر دیا اور ساتھی بھاگنے لگے تو ہماری تاریخ کے اس مظلوم شہنشاہ نے کہا: کوئی ہے جو ہمیں پاپوش پہنا دے تاکہ ہم بھی بھاگ سکیں اوران کو پاپوش پہنانے اس بار گورنر صاحب خود چلے آئے۔
سوال یہ ہے کہ میں نے یہ نٹشے والی مثال کیوں دی۔ مجھے اس وقت اور کوئی مضحکہ اڑانے والی مثال نہیں مل رہی۔ کیا میں مہدی آخر الزماں کی مثال دوں۔ نعوذ باللہ۔ ہماری تاریخ میں بہت سوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان میں اس کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ مہدی سے پہلے بھی کسی نے آنا ہے۔ میں اتنی گستاخی نہیں کر سکتا۔ اس لئے نہیں کہ ان کا احترام واجب ہے۔ صرف اس لئے کہ ان کے ماننے والوں کادل نہ دکھے۔
ماننے والوں کا کیا ہے۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے‘ ماننے والے تو اس نے مرزا غلام احمد کو بھی دے رکھے تھے۔ کسی نے اس جھوٹی نبوت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ نے بیوقوف سے بیوقوف آدمی کے حصے کے ….پیدا کر رکھے ہیں‘ یہ نقطے آپ خود پر کر لیجئے ۔ مجھ سے گستاخی نہ کرائیے۔ پیروکاروں کا ہونا کسی شخص کے سچے ہونے کی نشانی نہیں‘ نہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ قیادت کی اہلیت رکھتا ہے۔
ایک مثال امام خمینی کی دی جاتی ہے۔ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ میں عقیدے کے لحاظ سے موصوف کے قریب ہوں۔ اور امام خمینی سے دور‘ مگر اتنا بڑا جھوٹ مجھ سے نہیں بولا جا سکتا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں انقلاب کے نام پر جعلی لیڈر ملتے ہیں۔ ایک صاحب نے اس بات پر بھٹو کی مثال دی۔ عرض کیا تھا‘ بھٹو ایک لیڈر تھا۔ ایک وژن رکھتا تھا‘ دنیا کو سمجھتا تھا‘ فتنہ پروازوں کے جھانسے میں نہ آیا۔ اس کی مثال اس کے ساتھ دینا ہی ایک لغویات ہے۔ انقلاب جیسے ان کے گھر کی لونڈی ہے کہ تالی بجاتے چلی آئے گی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ آدمی غلط ہے‘ مگر کہتا سچ ہے‘ وہ بھی جان لیں کہ غلط آدمی‘ درست بات بھی کرے گا تو اس کے نتائج غلط ہی نکلیں گے۔ اس کو بیسیوں مثالوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے پلے باندھ لینا چاہئے۔ اس لئے کہ غلط آدمی کی نیت ہی غلط ہوتی ہے‘ اس کی شخصیت میں وہ جو ہر ہی نہیں ہوتا جو اسے درست راستے پر لے جا سکے۔ جو لوگ سب کچھ بدلنے آتے ہیں‘ ان کی نشانیاں اور ہوا کرتی ہیں۔ انہیں تو خراسان سے آنے والے لشکروں کے منتظر تک بھی نہیں مان رہے۔ جو اپنے مزاج کے لحاظ سے کسی نجات دہندہ کے منتظر ہیں۔
یہ ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ خدا نے آج تک ہر گمراہی سے بچائے رکھا۔ خاص کر اس گمراہی سے جو مقبولیت کے کندھوں پر بیٹھ کر آتی ہے۔ اس میں تو اتنی بھی جان نہیں‘یہ تو صرف ساتھیوں کے کندھوں کے سہارے نازل ہوئی ہے۔ اس گمراہی کے تو پاﺅں بھی لکڑی کے ہیں۔ جھوٹ کے بھی پاﺅں نہیں ہوتے‘ اس نے صرف لکڑی کے پاﺅں لگا رکھے ہیں۔
یہ باتیں میں طیش میں نہیں لکھ رہا۔ صرف اس بات کے اظہار کے لئے لکھ رہا ہوں کہ ملک بچانا ہے تو ہر قسم کی گمراہی سے بچنا ہوگا ۔ہر جھوٹ سے اللہ کی پناہ مانگی جائے ۔
میرا خدا‘ میرا رب‘ ”ابھی “ زندہ ہے۔ وہ زندہ جاوید ہے !جن کا خدا مر چکا وہ رو دھولیں۔میں تو اپنے رب کی پناہ میں جاتا ہوں۔ خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔