اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
اعتراض نمبر4:۔
مصنف لکھتا ہے''امام بخاری کہتا ہے اللہ پاک بندے میں حلول کرکے اس کے اعضاء بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بندہ کے کان ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ بندہ میرے کانوں سے سنتا ہے میرے پاؤں سے چلتا ہے میں بندہ کی آنکھ بن جاتا ہوں اور وہ میری آنکھ سے دیکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔
امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری کتاب الرقاق 963پر بڑے جذبات کے ساتھ یہود ونصاری کے مذہب کی ترجمانی کرکے قرآن سے خود اللہ کریم سے بغاوت کی روایت ٹانک دی ہے ۔۔۔۔۔۔'' (قرآن مقدس ۔۔۔۔ص20,19)
جواب :۔
مصنف نے حسب عادت یہاں بھی انتہائی درجہ کی خیانت کی ہے حدیث کے الفاظ میں ہیر پھیر کرکے حدیث کے مفہوم کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے ۔امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب صحیح بخاری میں اس حدیث کو اس طرح ذکر فرماتے ہیں :
''قال رسول اللہ ﷺ :ان اللہ قا ل من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب۔۔۔''
(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع رقم الحدیث 6502)
''نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گامیں اس کو یہ خبر دیتا ہوں کہ میں اس سے لڑوں گا اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی عبادت مجھ کواس سے زیادہ پسند نہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے ،نماز،روزہ ،حج،زکوٰۃ )اور میرا بندہ( فرض ادا کرنے کے بعد)نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں پس جب اس سے محبت کرتا ہوںتومیں اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے وہ اگر مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں ۔۔۔۔۔الخ''
مندرجہ بالاحدیث مبارکہ میں بنیادی نکتہ ''اللہ تعالیٰ کا قرب ہے'' اگر کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں اپنے صبح وشام گزارے گا فرائض کی پابندی کرے گا تو اسے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوجائے گا ، اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہونا ،کان ہونا ،آنکھیں ہونا ،پیر ہونا ،اس سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے میں حلول کرجاتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب نیک بندہ کوئی کام کرتا ہے اور وہ اس کے لئے اپنی نگاہیں استعمال کرتا ہے تو وہ اپنی نگاہیں ایسی جگہ استعمال کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھوںکابھی ایسی جگہ استعمال کرتا ہے جہاں اللہ کی رضا ہوتی ہے وہ اپنے قدموں کو وہاں لے جاتا ہے جہاں اللہ کی خوشنودی ہوتی ہے یہی حدیث مبارکہ کا مطلب ہے ۔
دوسرا مطلب ،میدان جہاد میں جب یہ اللہ کانیک بندہ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو دشمن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنی مدد اس کے ہاتھ پاؤں ،نظروں ،کے ذریعے کرتا ہے۔
تیسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچاتا ہے اور اس کی رضا مندی کے لئے اپنے جوارح کو استعمال کرتا ہے یہی مطلب ہے نبی کریم ﷺ کی حدیث کا مثلاًاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
''فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ وَلـٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمْ وَمَا رَمَیْْتَ إِذْ رَمَیْْتَ وَلـٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی''
(الانفال 17/8)
''کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا لیکن انہیں اللہ تعالیٰ نے قتل کیا اور جب آپ نے مٹی پھینکی تو
وہ آپ ﷺنے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی ''۔
اگر کوئی شخص بدنیتی سے غلط مطلب لینا چاہے تو یقینا اس آیت مبارکہ سے بھی غلط مطلب اخذ کرسکتا ہے جس طرح موصوف نے حدیث مبارکہ سے غلط مفہوم اخذ کئے۔آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کافروں پر پھینکی کیا نعوذباللہ اللہ تعالیٰ زمین پر آگیا تھا یعنی کیا یہ آیت وحدت الوجود اور وحدت الشہود والوں کے باطل نظریے کو تقویت دیتی ہے لیکن ہم جوابا ًیہ کہیں گے کہ نبی کریم ﷺکا پھینکنا (کافروں کی طرف)اللہ تعالیٰ کا پھینکنا یوں تھا کہ پھینکا تونبی کریم ﷺ نے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف نسبت اس لئے کی کہ اس کی رمی (یعنی نبی ﷺ کے پھینکنے )میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال تھی ۔بلکہ یہی جواب ہے حدیث مبارکہ کا کہ اس بندے کا ہاتھ بننے سے مراد ہرگزیہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے میں حلول ہوگیابلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ شامل حال ہوجاتی ہے ۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئیے حافط ابن حجر کی فتح الباری جلد 11ص414تا422)