• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم اللہ کے دین میں فوج در فوج داخلہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللہ کے دین میں فوج در فوج داخلہ

جیسا کہ ہم نے عرض کیا غزوۂ فتح مکہ ایک فیصلہ کن معرکہ تھا جس نے بُت پرستی کاکام تمام کردیا۔ اور سارے عرب کے لیے حق وباطل کی پہچان ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے ان کے شبہات جاتے رہے۔ اسی لیے اس کے بعد انہوں نے بڑی تیز رفتاری سے اسلام قبول کیا۔ حضرت عَمرو بن سَلمہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک چشمے پر (آباد ) تھے ، جو لوگوں کی گذرگاہ تھا۔ ہمارے ہاں سے قافلہ گذرتے رہتے تھے۔ اور ہم ان سے پوچھتے رہتے تھے کہ لوگوں کا کیا حال ہے ؟ یہ آدمی ...یعنی نبیﷺ ... کا کیا حال ہے ؟ اور کیسا ہے ؟ لوگ کہتے : وہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اسے پیغمبر بنایا ہے۔ اس کے پاس وحی بھیجی ہے۔ اللہ نے یہ اور یہ وحی کی ہے۔ میں یہ بات یاد کرلیتا تھا۔ گویا وہ میرے سینے میں چپک جاتی تھیں۔ اور عرب حلقۂ بگوش اسلام ہونے کے لیے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے۔ کہتے تھے : اسے اور اس کی قوم کو (پنجہ آزمائی کے لیے ) چھوڑ دو۔ اگر وہ اپنی قوم پر غالب آگیا تو سچانبی ہے۔ چنانچہ جب فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا تو ہر قوم نے اپنے اسلام کے ساتھ (مدینہ کی جانب ) پیش رفت کی اور میرے والد بھی میری قوم کے اسلام کے ساتھ تشریف لے گئے۔ اور جب (خدمت ِ نبویﷺ سے ) واپس آئے تو فرمایا : میں تمہارے پاس اللہ کی قسم ایک نبی ٔ برحق کے پاس سے آرہا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز فلاں وقت پڑھو اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھو۔ اور جب نماز کا وقت آجائے توتم میں سے ایک آدمی اذان کہے ، اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ امامت کر ے۔ الحدیث۔1
اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ فتح مکہ کا واقعہ حالات کو تبدیل کرنے میں ، اسلام کو قوت بخشنے میں ، اہلِ عرب کا موقف متعین کرانے میں اور اسلام کے سامنے انہیں سپر انداز کرنے میں کتنے گہرے اور دوررس اثرات رکھتا تھا۔ یہ کیفیت غزوہ تبوک کے بعد پختہ سے پختہ تر ہوگئی۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان دوبرسوں - ۹ ھ اور ۱۰ ھ - میں مدینہ آنے والے وفود کا تانتا بندھا ہواتھا اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہورہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ اسلامی لشکر جو فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار سپاہ پر مشتمل تھا اس کی تعداد غزوۂ تبوک میں (جبکہ ابھی فتح مکہ پر پورا ایک سال بھی نہیں گذرا تھا ) اتنی بڑھ گئی کہ وہ تیس ہزار فوجیوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں تبدیل ہوگیا۔ پھر ہم حجۃ الوداع میں دیکھتے ہیں کہ ایک لاکھ ۲۴ ہزار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار اہلِ اسلام کا سیلاب امنڈ پڑا ہے ، جو رسول اللہﷺ کے گرد اگرد اس طرح لبیک پکارتا ، تکبیر کہتا اور حمد وتسبیح کے نغمے گنگناتا ہے کہ آفاق گونج اٹھتے ہیں۔ اور وادی وکو ہسار نغمۂ توحید سے معمور ہو جاتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۶۱۵، ۶۱۶
 
Top