• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے نزدیک سب سے بڑی امانت

شمولیت
جنوری 13، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
64
" اللہ کے نزدیک سب سے بڑی امانت "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی

اسلام میں میاں بیوی کے پوشیدہ اعمال کو راز میں رکھنے کی سختی سے تلقین ہے، اسے افشا کرنے اور پھیلانے کی بڑی مذمت وارد ہوئی ہے، اور اس راز کی حفاظت کرنے والے بڑی فضیلت کے مستحق ہیں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "[صحیح مسلم: 2699] اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے عیب کو چھپائے دے گا۔
میاں بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے محفوظ قلعہ کی طرح رہیں ، آپس کی ساری باتیں انہیں تک محدود ہوکر رہ جائیں ، یہی اس رشتہ کی بنیادی ذمہ داری ہے، اس سے ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ مضبوط سے مضبوط تر ہو جاتا ہے ۔ آپس کی باتیں اور معاملات راز کہلاتے ہیں لہذا اس کی پوری طرح حفاظت کرنی چاہئے ، یہ بہت بڑی امانت ہے ، اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ " [ صحيح الترمذي : 1959 البانی نے حسن قرار دیا ہے ] ”جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑ کر دیکھے (کہ کوئی سن تو نہیں رہا) تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے۔
صحابہ کرام راز کی باتوں کو کس طرح راز ہی میں رہنے دیتے تھے اس کی ایک مثال پیش ہے: انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا پھر مجھے کسی کام کے لئے بھیجا ، میں اپنی والدہ کے پاس دیر سے گیا جب میں ان کے پاس پہنچا تو اس نے کہا تم نے آنے میں تاخیر کیوں کی؟ میں نے کہا مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کسی کام کے لئے بھیج دیا تھا انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا کام تھا میں نے کہا وہ راز کی بات ہے ، سو ان کی ماں نے کہا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو کسی سے بھی بیان نہ کرنا، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم اگر میں وہ بات کسی سے بیان کرتا تو اے ثابت! تجھ سے بیان کر دیتا۔ [صحیح مسلم:2482]
موجودہ دور میں شادی کے بندھن میں بندھے نئی نسل کے نوجوان جوڑوں میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ وہ دوستوں میں میاں بیوی کے آپسی تعلقات کی باتیں بڑی دلچسپی کے ساتھ سنتے اور بیان کرتے ہیں۔ کبھی دوستوں کی فرمائش ہوتی یے، تو کبھی اپنی برتری ظاہر کرکے دوسروں کو مغلوب کرنا ہوتا ہے، چونکہ اس طرح کی باتوں سے ہر کوئی لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اور انجانے میں آنجناب بھی سب بیان کئے جاتے ہیں ۔۔
انسان کس قدر دیوث اور بے شرم ہوچکا ہے کہ اسے دوستوں میں اس طرح کے راز افشاء کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی ، بلکہ (نعوذ بالله) اسے باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔

⭕ انبیاء علیہم السلام نے سچ کہا ہے : "إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ" [صحیح بخاری:3483 ] جب شرم و حیا باقی نہ رہے تو جو مرضی ہو کرو ۔ کیونکہ بے حیا کو کس کی پرواہ؟ سو جو چاہے کرے۔
اسلام نے حیا کو نصف (آدھا) ایمان قرار دیا ہے ، جن کے یہاں حیا ہوتی ہے اسے معزز اور شریف سمجھا جاتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے ، بے حیائی ہر مہذب سماج اور معمولی عقل رکھنے والوں کے یہاں مذموم رہی ہے۔
اللہ تعالی نے ہمیں شادی کی شکل میں جو میاں بیوی کا رشتہ دیا ہے وہ اپنے نفس ، سماج اور ماحول سے بے حیائی کو ختم کرنے کا بہت بنیادی حصہ ہے۔ لیکن کم عقل سمجھ نہیں پاتے۔
شادی شدہ میاں بیوی جب دوستوں سے آپسی راز کا افشا کریں تو ان نے بڑھ کر خبیث کون ہوسکتا ہے؟ جس بے حیائی سے بچنے کے لئے شادی کا حسین جوڑا بیوی یا شوہر کی شکل میں دیا گیا تھا دیا گیا تھا اس کی عزت خو اپنے ہاتھوں نیلام کرنے والوں کا انجام کیا ہوسکتا یے؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ، وَتُفْضِي إِلَيْهِ، ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا [صحیح مسلم: 1437] "قیامت کے دن، اللہ کے ہاں لوگوں میں مرتبے کے اعتبار سے بدترین وہ آدمی ہو گا جو اپنی بیوی کے پاس خلوت میں جاتا ہے اور وہ اس کے پاس خلوت میں آتی ہے پھر وہ (آدمی) اس کا راز افشا کر دیتا ہے۔
ایسا شخص جو آپسی تعلقات کے راز کو بیان کرتا ہو وہ اس بے غیرت کے مانند ہے جو سر عام یہ فعل انجام دے رہا ہو۔ ایسے شخص کا وقتی طور پردہ میں رہنے کا کیا فائدہ جسے لوگوں میں بیان کیا جائے ؟ وہ پردہ ہی کیا کہ جس کی الفاظ نے عکاسی کردی ہو، وہ راز کہاں رہا جسے افشا کردیا گیا ہو۔
اسی لئے حدیث میں ایسے لوگوں کی مثال اس شیطان کی طرح بیان کی گئی ہے جو سرے عام زنا کرتا ہے اور لوگ اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں ۔ دیگر مرد خواتین بھی موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’کوئی مرد ایسا بھی ہے جو اپنی بیوی کے پاس آتا ہے دروازہ بند کرکے پردہ گرا کر اس سے صحبت کرتا یے پھر اس کو لوگوں میں بیان کرتا ہو، اور کوئی عورت ایسی بھی ہے جو اپنے خاوند کے پاس آئے دروازہ بند کرکے پردہ گرا کر صحبت کرے پھر اسے سہیلیوں میں اس بات کو ظاہر کرے ۔‘‘ یہ سن کر لوگوں پر خاموشی چھا گئی۔ (آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ) میں نے عرض کی: ’’ اے اللہ کے رسول بالکل ایسا ہی یے، مرد بھی ایسا کرتے ہیں اور عورتیں بھی ایسا کرتیں ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا ہرگز نہ کرو ، کیونکہ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ شیطان اپنے ہم جنس مادہ سے راستہ میں ملتا یے اور وہیں اسے دپوچ کر زنا کرنے لگتا ہے جبکہ لوگ یہ منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ " [صحيح الترغيب :2023 ] . نعوذ باللہ راز افشاء کرنے والے شخص کی مثال اس سے بری اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اس شیطان کے مانند ہے جو سرے عام زنا کرتا ہے ؟
عزیز قارئین! میاں بیوی کے آپسی تعلقات کی ساری باتیں راز میں رکھی جانے والی ہیں ، یہ بہت بڑی امانت ہے ، یہ میاں، بیوی کی عزت ہے، جسے پوری امانت کے ساتھ حفاظت کرنا واجب ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْأَمَانَةِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ، وَتُفْضِي إِلَيْهِ، ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا» [ صحیح مسلم: 1437] بروزِ قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک سب سے بڑی امانت یہ ہو گی کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ خلوت اختیار کریں پھر شوہر اپنی بیوی کی راز کی باتیں پھیلا ئے۔ ( یا بیوی اپنے شوہر کی بات پھیلائے)۔
امام سفارینی کہتے ہیں: میاں بیوی کا آپسی باتوں کو دوسروں سے بیان کرنا ناپسندیدہ عمل ہے ، اگرچہ یہ باتیں اپنی سوکن سے ہی کیوں نہ بیان کی جائے، کیونکہ یہ راز ہے اور راز کا افشاء کرنا حرام ہے۔ [غذاء الألباب:1/118]
اللہ تعالی نے ایسے عورتوں کی تعریف کی یے جو اپنے آپ کو فحش برائی سے دور رکھتی ہیں اپنے شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں ، ساتھ ساتھ آپسی تعلقات اور راز کے باتوں کی بھی حفاظت کرتی ہیں ۔ فرمایا: {فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ} [النساء: 34] نیک فرما بردار عورتیں (وہ ہیں جو) خاوند کی عدم موجودگی میں بحفاظت الہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں۔
میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے بہترین راز دان ہونے چاہئے ، راز کی بات کہی جائے تو اسے کسی صورت افشا نہ کرے، آپس کے گھریلو معاملات کو بھی دوستوں میں شیئر نہ کرے، رازداری کے تعلقات( ہم بستری) وغیرہ کا راز صرف اپنے سینہ میں محفوظ رکھے ۔ کیونکہ ایسے راز کا افشاء کرنا گناہ کبیرہ میں سے ہے۔
علامہ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ : عورتوں میں یہ عام رواج ہے کہ وہ اپنے گھریلو معمولات اور ازدواجی زندگی کے اسرار اور راز کی باتیں اپنے قریبی رشتہ داروں اور سہیلیوں کو بتاتی پھرتی ہیں۔ جبکہ شوہر اس چیز کو نا پسند کرتے ہیں۔ سو ان عورتوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب : عورتوں کا گھریلو معمولات کے راز یا ازدواجی تعلقات کے اسرار کو قریبی رشتہ داروں اور سہیلیوں کو بتانا حرام ہے ۔ کسی عورت کے لئے گھر کی باتیں دوسروں میں بیان کرنا جائز نہیں یے،اور نہ شوہر کے ساتھ بتائے گئے لمحات کو بیان کرنا کسی سے جائز یے، ۔۔۔۔ [ فتاوی اسلامیہ : 3/ 211- 212 ]
ایک اور جگہ لکھتے ہیں: اس مسئلہ میں درست بات یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کی راز کو کسی سے بیان کرنا حرام ہے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نا ہوگا کہ یہ گناہ کبیرہ میں سے ہے ۔ کیونکہ یہی بات نصوص شرعیہ کے زیادہ قریب یے۔ [الشرح الممتع : 12 / 419 ]
کسی سلف کے بارے میں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتے تھے، ان سے طلاق دینے کی وجہ پوچھی گئی ؟ انہوں جواب میں کہا: عقل مند شخص اپنی بیوی کے راز کو بیان کرکے اس کو رسوا نہیں کرتا۔ جب انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی ، پھر لوگوں نے پوچھا : طلاق دینے کی وجہ کیا تھی؟ انہوں نے کہا: "ما لی ولامرۃ غیری" مجھے دوسرے کی بیوی سے کیا سروکار ہے۔ (یعنی دوسرے کی بیوی سے میرا کیا مطلب) [إحياء علوم الدين للغزالي :2/56]
گھریلو معمولات کے راز کو دوستوں میں بیان کرنے کی کتنی بڑی سزا ہے اس کا اندازہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے واضح طور پر عیاں ہوجاتا ہے۔
ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ اور حفصہ سے کچھ راز کی بات کی تھی ، وہ بات یہ تھی کہ اب میں شہد نہیں پیوں گا ، اسے اپنے اوپر حرام کر لی ہے ، یا ماریہ قبطیہ کے پاس نہیں جانا یے،( لیکن اللہ تعالی نے بیویوں کو خوش کرنے کے لئے جائز چیز حرام کرنے سے آپ کو منع کردیا ) خیر یہ راز کی بات آپ نے عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کو بتائی۔ اور اس بات کو کسی دوسرے سے بیان نہ کرنے کو امانت قرار دیا تھا، لیکن ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز ظاہر کردیئے، اس پر اللہ نے انہیں سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: {وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ } [التحريم: 3] اور جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک راز کی بات کہی ، مگر جب انہوں نے وہ بات دوسروں کو خبر کردی اور اللہ نے یہ بات اپنے نبی کو بتلا دی تو نبی نے تھوڑی سی بات تو بتا دی اور تھوڑی سے ڈال گئے، پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی ؟ کہا سب جاننے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلایا ہے۔
پھر کہا : { إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ} [التحريم: 4] اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو ( تو بہت بہتر ہے) ، یقینا تمہارے دل جھک پڑے ہیں، اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس اللہ یقینا اس کا کار ساز ہے اور جبریل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مددر کرنے والے ہیں۔
بس ہونا کیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ تک ان سے بالکیہ الگ ہوگئے ، جرم کیا تھا بس اتنا کہ انہوں نے آپ کا راز افشاء کردیں تھیں۔ [صحیح بخاري :5191]
امام ابن حجر اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: اس حدیث میں راز افشا کرنے والوں کی مناسب سزا بیان کی گئی ہے۔
لہذا آپسی تعلقات یا گھریلو معمولات کی وہ باتیں دوسروں سے ہر گز نہ بیان کریں جسے میاں بیوی نا پسند کرتے ہوں اور اس میں کوئی شرعی مصلحت بھی نا ہو ، کیونکہ ایسا کرنے سے آپسی اعتماد اور بھروسہ کمزور پڑ جائے گا ، اور خوشگوار زندگی اجیرن بن کے رہ جائے گی، حتی کہ بسا اوقات اس کی وجہ سے طلاق کی نوبت بھی آجاتی ہے ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت کی توفیق دے۔ آمین
 
Last edited:
Top