• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے گھر یا فرقہ وارانہ مراکز

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کہا کرتے تھے ہم نے مولویت کو پیشہ بنا دیا ہے اور ہر پیشے میں خرابیاں تو ہوتی ہی ہیں۔ میں نے آج مختلف مکاتب فکر کے فورمز وزٹ کیے کہ شاید کہیں سے کام کی بات مل جائے لیکن ہر جگہ دوسرے کے رد پر زور ہے، رد بھی ایسا جس میں اخلاقیات کا نام و نشان نہیں۔ علمی بد دیانتی، بہتان تراشی، گالیاں کونسا ایسا کام ہے جو دین کے نام لیواؤں نے چھوڑا ہو؟ مسلکی اور فقہی اختلاف ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا لیکن اس کو کفر اسلام کا مسئلہ بنتے دیکھ کر طبیعت بہت مکدر ہوئی۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن دینی طبقے نے اپنی روش نہ بدلی تو آنے والے وقت میں یہاں بھی وہی کچھ ہونے جا رہا ہے جو یورپ میں عیسائیت کے ساتھ ہوا تھا۔
والسلام علیکم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
امت کو فرقوں میں بٹا ہوا دیکھ کر، اور ان فرقوں کا آپس میں الجھنا اور تکفیر کرنا دیکھ کر امت کے اتحاد کی خواہش رکھنے والے شخص کو درد ضرور ہوتا ہے، لیکن اس کے حل کی طرف بھی کوئی توجہ کر لیا کریں، اور ذرا یہ بھی دیکھ لیا کریں کہ اس کا ذمہ وار کون ہے؟ ذرا تھوڑی سی اس پر نظر ڈالتے ہیں:

بریلوی جماعت کا عالم دین الیاس قادری سینکڑوں لوگوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
"آپ جس کو دیکھیں کہ وہ ابوحنیفہ یا احمد رضا خان بریلوی سے اختلاف کر رہا ہے ، تو اپنے کان پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ میں بہرہ ہوں"

اب محمد ارسلان ملک ایک بریلوی کے پاس جا کر اس کو بتلاتا ہے کہ جناب دیکھیں ، آپ کے امام احمد رضا خاں بریلوی کی فلاں بات کتاب و سنت کے خلاف ہے، آپ اس کو چھوڑ دیں تاکہ کتاب و سنت کے منہج پر ہم دونوں اکٹھا ہو سکیں، وہ جھٹ سے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیتا ہے کہ ارسلان صاحب جائیں یہاں سے، میں بہرہ ہوں، یہ باتیں سننے کے لئے میری سماعت مفلوج ہے، تب کیسے فرقہ واریت ختم ہو گی؟


دیوبندی جماعت کا ایک عالم لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ:
" ہم اپنے اکابر علماء کی باتوں کو ہر صورت مانیں گے، سمجھ آئی تب بھی مانیں گے ، نہ سمجھ آئی تب بھی مانیں گے"

اب محمد ارسلان ملک ایک دیوبندی کے پاس جاتا ہے اور اس کے کہتا ہے کہ جناب یہ دیکھیں ، آپ کے فلاں عالم صاحب کی بات کتاب و سنت کے خلاف ہے، تو وہ جھٹ سے کہہ دیتا ہے کہ ارسلان صاحب چلے جائیں، ہم اپنے علماء کی بات کو ہی ہر صورت مانیں گے، سمجھ آئے گی تب بھی مانیں گے، نہ سمجھ آئے گی، تب بھی مانیں گے، تو مجھے بتائیں فرقہ واریت کیسے ختم ہو گی؟

اصل بات یہ ہے کہ فرقہ واریت کے ذمہ داروں کو بھی پہچانیں اوراُمت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اپنے مفادات حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف لوگوں کے رد کے لئے بھی کچھ کریں ناکہ صرف امت کے فرقوں میں بٹا ہونے کا رونا روتے رہیں۔
اللہ ہدایت عطا فرمائے آمین
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
واقعی ہی مسئلہ جوں کا توں ہی ہے ہم ایک دوسرے کو گالی گلوچ کرنے پر تلے ہیں امت مسلمہ کےشدید مسائل زور پر ہیں اب یہاں سے ہی اندازہ کر لیں کہ غزہ میں کیا حال ہے صیہونی جانتے ہیں کہ یہ لوگ تو آپس میں الجھ رہے ہیں اپنے کام پر لگے رہو،بلکہ اوریا مقبول جان کا ایک کالم اسی سلسلہ میں نظر سے گزراجس میں ان کی اس سازش کی وجہ بتائی گئی اور شائد حقائق بھی۔
بہرحال اللہ اور ا س کے رسول کی اطاعت ہی واحد نجات کا راستہ ہے،لیکن لوگ مسلکی تعصب میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ کوئی حق ماننا تو دور کی بات سننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔مثال کے طور پر پہلے عید میلاد عقید ت سے ہوتا تھا اور اب تعصب سے اس کا مشاہدہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سب سے زیادہ عقیدت مند وہ نظر آے گا جو عید کی نماز بھی بھاگ کر پڑھتا ہوگا،
بہرحال یہ باتیں موضوع بحث تو نہیں ہیں لیکن اکا دکا مثالیں دی ہیں۔
اللہ ہم پر اپنا رحم کر دیں اور ہمیں صحیح قرآن و سنت کو سمجھنے کی توفیق دیں اور ایک دوسرے کو کافر کافر کہنے سے محفوظ ہی رکھیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
انصار عباسی صاحب نے جس بات کا ذکر کالم میں کیا ہے واقعتا وہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ۔ان مسائل کو مساجد و مدارس کے متولیان اور ائمہ کرام ہی آپس میں مل کر حل کرسکتے ہیں ۔
حکومت کے بس کا روگ نہیں ۔ حکومت کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ ان کو پورا نہیں کرسکتی تو مولویوں کو کس منہ سے سمجھا سکتی ہے ؟
مساجد و مدارس حکومت کے پیسے پر نہیں ’’ مولوی ‘‘ کی ’’ بھیک ‘‘ پر چلتے ہیں تو ظاہر ہے یہاں قانون بھی مولوی کا چلے گا ۔
ہم مولویوں سے ’’ فرائض کی ادائیگی ‘‘ کا شکوہ تو کرتے ہیں لیکن ’’ مولویوں ‘‘ کے حقوق پر بھی تو توجہ کرنی چاہیے ۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
تعصب کی ایک ہلکی سی جھلک۔

شعبہ دندان کے ایک مصری ڈاکٹر کا انتقال ھوا تو جنازہ کی ادائیگی حرم مکی شریف

میں نماز عصر کے بعد تھی۔جب ہم حرم مکی شریف پہنچے تو عصر کی نماز پڑھائی

جا رہی تھی۔ہم میں سے ایک صاحب نے نماز میں شمولیت نھیں کی جبکہ نماز جنازہ

ادا کر لی ۔پوچھنے پر کہنے لگے ۔میری فقہ کے مطابق ابھی عصر کا وقت نھیں ھوا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
۔ان مسائل کو مساجد و مدارس کے متولیان اور ائمہ کرام ہی آپس میں مل کر حل کرسکتے ہیں ۔
وہ متولیان اور ائمہ کرام اور تنظیموں کے سربراہ، جو کیپیٹل ٹاک، یا کوئی دیگر ٹی وی چینل شو میں تو ایک دوسرے کے ساتھ ایسے بیٹھے ہوتے ہیں، جیسے پورے پاکستان میں فرقہ واریت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، سب لوگ ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں، ایک دوسرے سے بھائی چارہ کی بڑی مثالیں قائم ہیں، لیکن جب اپنے اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو پھر تکفیر کرتے ہیں۔ بلکہ کچھ تو دوسرے مسالک والوں کی مساجد کو بھی گرا دیتے ہیں۔

اور پاکستان میں منافقت کی بھی وافر مقدار موجود ہے، سپاہ صحابہ تنظیم کا سربراہ احمد لدھیانوی اپنے جلسے میں زور و شور سے تقریر کرتے ہوئے شیعہ کو کافر کہہ رہا تھا
لیکن جونہی ایک ٹاک شو میں شیعہ کے عالم کی موجودگی میں آیا تو کہتا ہے:
"ویسے آج تک سپاہ صحابہ نے کبھی کسی شیعہ کو کافر نہیں کہا"
"واہ مولوی صاحب واہ"
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
انصار عباسی صاحب نے جس بات کا ذکر کالم میں کیا ہے واقعتا وہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ۔
1۔ان مسائل کو مساجد و مدارس کے متولیان اور ائمہ کرام ہی آپس میں مل کر حل کرسکتے ہیں ۔
(×) مگر کیسے ؟

2۔حکومت کے بس کا روگ نہیں ۔ حکومت کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ ان کو پورا نہیں کرسکتی تو مولویوں کو کس منہ سے سمجھا سکتی ہے ؟
(×) بالکل درست فرمایا۔

3۔مساجد و مدارس حکومت کے پیسے پر نہیں ’’ مولوی ‘‘ کی ’’ بھیک ‘‘ پر چلتے ہیں تو ظاہر ہے یہاں قانون بھی مولوی کا چلے گا ۔
(×) شاید آپ کا مطلب ”مولوی کی عوام سے مانگی ہوئی بھیک سے ہے۔“ ویسے بات تو درست ہی ہے۔ مساجد و مدارس پر قانون حکومت کا نہیں بلکہ مولوی ہی کا چلے گا۔ لیکن کاش مولوی حضرات اس ”بھیک“ کو اپنا ذریعہ معاش نہ بناتے۔ وہ دین کے نام پر جمع کی گئی رقم کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اوپر خرچ نہ کرتے بلکہ اپنا کوئی اور ”متبادل انتظام“ کرتے۔ تو ان میں مروجہ برائیاں پیدا نہ ہوتیں۔ نہ ہی مساجد و مدرسہ پر قبضہ کی جنگ ہوتی اور نہ ہی کوئی مولی کسی مدرسہ و مسجد کو ”اپنی جاگیر“ سمجھتا۔

4۔ہم مولویوں سے ’’ فرائض کی ادائیگی ‘‘ کا شکوہ تو کرتے ہیں لیکن ’’ مولویوں ‘‘ کے حقوق پر بھی تو توجہ کرنی چاہیے۔
(×) سر جی! ذرا وضاحت سے لکھئے کہ مولویوں کے حقوق کیا ہیں اور یہ کن پر فرض ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2014
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
60
پوائنٹ
75
يوںتو سيد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو ۔۔۔۔۔۔۔ تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
1۔ان مسائل کو مساجد و مدارس کے متولیان اور ائمہ کرام ہی آپس میں مل کر حل کرسکتے ہیں ۔
(×) مگر کیسے ؟
مل بیٹھیں تو حل نکل ہی آتا ہے ۔
1
3۔مساجد و مدارس حکومت کے پیسے پر نہیں ’’ مولوی ‘‘ کی ’’ بھیک ‘‘ پر چلتے ہیں تو ظاہر ہے یہاں قانون بھی مولوی کا چلے گا ۔
(×) شاید آپ کا مطلب ”مولوی کی عوام سے مانگی ہوئی بھیک سے ہے۔“ ویسے بات تو درست ہی ہے۔ مساجد و مدارس پر قانون حکومت کا نہیں بلکہ مولوی ہی کا چلے گا۔ لیکن کاش مولوی حضرات اس ”بھیک“ کو اپنا ذریعہ معاش نہ بناتے۔ وہ دین کے نام پر جمع کی گئی رقم کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اوپر خرچ نہ کرتے بلکہ اپنا کوئی اور ”متبادل انتظام“ کرتے۔ تو ان میں مروجہ برائیاں پیدا نہ ہوتیں۔ نہ ہی مساجد و مدرسہ پر قبضہ کی جنگ ہوتی اور نہ ہی کوئی مولی کسی مدرسہ و مسجد کو ”اپنی جاگیر“ سمجھتا۔
مولوی متبادل نظام کرے تو اچھا ہے لیکن ضروری نہیں ہے ۔ بعض دفعہ مولوی صاحب کی اتنی مصروفیات ہوتی ہیں کہ کوئی اور کام کرنے کے لیے وقت یا طاقت نہیں ہوتی ۔
مسجد کے باقی سب کام پیسے دے کر ہوتے ہیں ، مثلا مسجد کی تعمیر ، بجلی کا کام ، پانی کام وغیرہ وغیرہ ، آخر مولوی صاحب بھی جسمانی و معاشرتی ضروریات وہی رکھتے ہیں جو ایک بجلی ، پانی ، تعمیر کا کام کرنے والا رکھتا ہے ، پھر مولوی سے یہ امتیازی (!)سلوک کیوں ؟
1
4۔ہم مولویوں سے ’’ فرائض کی ادائیگی ‘‘ کا شکوہ تو کرتے ہیں لیکن ’’ مولویوں ‘‘ کے حقوق پر بھی تو توجہ کرنی چاہیے۔
(×) سر جی! ذرا وضاحت سے لکھئے کہ مولویوں کے حقوق کیا ہیں اور یہ کن پر فرض ہیں۔
بیت المال پر فرض ہیں ۔ مسجد کی انتظامیہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ باقی حقوق کیا ہیں اگر ان کو ’’ ضروریات ‘‘ سے تعبیر کیا جائے تو شاید وضاحت کی ضرورت نہیں رہے گی ۔
 
Top