انصار عباسی صاحب نے جس بات کا ذکر کالم میں کیا ہے واقعتا وہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ۔
1۔ان مسائل کو مساجد و مدارس کے متولیان اور ائمہ کرام ہی آپس میں مل کر حل کرسکتے ہیں ۔
(×) مگر کیسے ؟
2۔حکومت کے بس کا روگ نہیں ۔ حکومت کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ ان کو پورا نہیں کرسکتی تو مولویوں کو کس منہ سے سمجھا سکتی ہے ؟
(×) بالکل درست فرمایا۔
3۔مساجد و مدارس حکومت کے پیسے پر نہیں ’’ مولوی ‘‘ کی ’’ بھیک ‘‘ پر چلتے ہیں تو ظاہر ہے یہاں قانون بھی مولوی کا چلے گا ۔
(×) شاید آپ کا مطلب ”مولوی کی عوام سے مانگی ہوئی بھیک سے ہے۔“ ویسے بات تو درست ہی ہے۔ مساجد و مدارس پر قانون حکومت کا نہیں بلکہ مولوی ہی کا چلے گا۔ لیکن کاش مولوی حضرات اس ”بھیک“ کو اپنا ذریعہ معاش نہ بناتے۔ وہ دین کے نام پر جمع کی گئی رقم کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اوپر خرچ نہ کرتے بلکہ اپنا کوئی اور ”متبادل انتظام“ کرتے۔ تو ان میں مروجہ برائیاں پیدا نہ ہوتیں۔ نہ ہی مساجد و مدرسہ پر قبضہ کی جنگ ہوتی اور نہ ہی کوئی مولی کسی مدرسہ و مسجد کو ”اپنی جاگیر“ سمجھتا۔
4۔ہم مولویوں سے ’’ فرائض کی ادائیگی ‘‘ کا شکوہ تو کرتے ہیں لیکن ’’ مولویوں ‘‘ کے حقوق پر بھی تو توجہ کرنی چاہیے۔
(×) سر جی! ذرا وضاحت سے لکھئے کہ مولویوں کے حقوق کیا ہیں اور یہ کن پر فرض ہیں۔