لا الٰہ الا اللہ
حامد کمال الدین
کلمۂ لا الٰہ الا اللہ میں لفظِ ”الٰہ“ کی خاص دلالت کیا ہے؟
نفی واثبات کے مسئلہ کے بعد دوسری اہم بات خود مسئلۂ الوہیت ہے....
یہ ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ اس کلمہ کے اندر اہل توحید اور اہل شرک کے مابین مسئلۂ باعثِ نزاع ’الوہیت‘ ہے نہ کہ ’ربوبیت‘۔ ہر آدمی دیکھ سکتا ہے کلمہ میں ”لا الٰہ“ کے لفظ آتے ہیں نہ کہ ”لا رب“ کے لفظ، یعنی غیر اللہ سے ”الٰہ“ ہونے کی نفی ہی اس کلمہ میں فرض ٹھہرا دی گئی ہے (غیر اللہ سے ”الوہیت“ کی نفی ہو تو غیر اللہ سے ”ربوبیت“ کی نفی آپ سے آپ ہو جاتی ہے)۔ ”ربوبیت“ کا مطلب ہے خدائی طاقتوں کا مالک ہونا اور ”الوہیت“ کا مطلب ہے افعالِ بندگی کا حقدار ہونا۔ یوں لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کہتے ہوئے آدمی کو غیر اللہ سے ”الوہیت“ ہی کی نفی کرنا ہوتی ہے۔ ”الٰہ“ کا مطلب ہے ”لائقِ عبادت ہونا“ جبکہ ”عبادت“ ہے کسی ذات کو پوجنا، اس کو سجدہ و رکوع کرنا، اس سے دعاءو فریاد کرنا، اس کے در کا طواف کرنا، اس کے آگے نیاز بجا لانا اور اس کے فرمائے کو دستور جاننا، وغیرہ۔ بنا بریں.... غیر اللہ کیلئے عبادت کے جتنے مظاہر پائے جاتے ہیں ان سب کی نفی کر دینے کے بعد ہی ”لا الٰہ“ کا معنیٰ متحقق ہوتا ہے، جو کہ ”الا اللہ“ سے پہلے ہے۔ جس ہستی کیلئے آدمی سے پرستش کے افعال سرزد ہوں وہ ہستی اس کا ”الٰہ“ ہوتی ہے خواہ اُس میں تخلیق کی قدرت اُس نے مانی یا نہیں مانی۔ آدمی اپنے ان افعال سے جو ”بندگی“ کے زمرے میں آتے ہوں کسی بھی ہستی کو اپنا ”الٰہ“ بنا لیتا ہے چاہے اُس ہستی میں خدائی طاقتیں اور خدائی افعال کی صلاحیت (یعنی ربوبیت) اس نے تسلیم کی یا نہیں کی۔
اور یہ تو اظہر من الشمس ہے، اور خود ”کلمہ“ کے لفظ ہی شاہد ہیں کہ کلمہ کو ماننے اور نہ ماننے والوں کے مابین جھگڑا ”الوہیت“ کا رہا ہے؛ نفی بھی غیر اللہ کے لائقِ عبادت ہونے کی رہی ہے اور تنازعہ بھی غیر اللہ کی پرستش اور بندگی کا ہی رہا ہے۔
سب جانتے ہیں لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ ہر نبی کی دعوت کا عنوان رہا ہے۔ گویا کرۂ ارض پر رہنے والا ہر انسان ہر زمانے میں اس کلمہ پر ایمان لانے اور اس کو اپنے وجود کا عنوان بنانے کا پابند رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ضرور اس کلمہ کا ایک ایک لفظ پھر غور طلب ہے۔ اور یہ گنتی کے چار ہی تو لفظ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کے حق کا اثبات اور غیر اللہ کے حق کا انکار کرانا اس کلمہ کا مقصد تھا __ اور یقینا تھا اور ہے __ تو اس کیلئے یہاں لفظ ’الٰہ‘ کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا اور اسی کو دوسرے ہر لفظ کی نسبت موزوں تر کیوں جانا گیا؟ خالق، مالک، رازق، رب .... اور بھی تو کتنے الفاظ ہیں جو صرف اللہ وحدہ لاشریک کیلئے ہی درحقیقت سزاوار ہیں۔ کلمہ میں ’خالق‘، ’مالک‘، ’رازق‘ یا ’رب‘ ایسے لفظ بھی تو ’الٰہ‘ کی جگہ استعمال ہو سکتے تھے، مگر انبیاءنے جن چار مختصر ترین الفاظ میں اپنا پورا مُدعا بیان کیا ان میں لفظ ’الٰہ‘ کی کیا خاص اہمیت اور معنویت ہے؟(1)
اس قدر واضح ہونے کے باوجود کہ انبیاءاور ان کے مخالفین کے مابین تنازعہ دراصل عبادت اور الوہیت کا تھا لوگوں نے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے مفہوم میں بھی زیادہ تر ربوبیت ہی بیان کی نہ کہ الوہیت!
یہ بات کہ سب کچھ کرنے والا خدا ہے ربوبیت ہے نہ کہ الوہیت۔ خدا سے سب کچھ ہونے کا یقین خدا کو ’تنہا رب‘ ماننا ہے جو بلاشبہ اور حددرجہ مطلوب ہے۔ البتہ خدا کو ’تنہاالٰہ‘ ماننا اس سے بڑھ کر کچھ ہے۔ ’خدا کے علاوہ کوئی کچھ کرنے والا نہیں‘ .... یہ توحیدِ ربوبیت ہے۔ توحیدِ الوہیت یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی پوجا وپرستش اور بندگی و انقیاد کے لائق نہیں اور یہ کہ پرستش اور بندگی کا کوئی فعل اگر کسی اور کیلئے روا رکھا جاتا ہے تو وہ سراسر غلط اور باطل ہے اور یہ کہ بندگی و عبادت مثلاً دُعا والتجا، ذبیحہ وطواف، نیاز وانقیاد اور اطاعتِ قانون صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کیلئے لائق ولازم ہے۔
الوہیت میں ربوبیت خودبخود آجاتی ہے۔ ربوبیت پر ایمان پختہ کرانے پر بھی بہت محنت ہونی چاہیے۔ مگر اسلام کا عنوان مسئلۂ الوہیت ہی کو رہنا ہے کیونکہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے اندر باعثِ نزاع در اصل مسئلۂ توحیدِ الوہیت ہی کو ٹھہرایا گیا ہے۔
ربوبیت کا بیان قرآن میں بھی بہت ہوا ہے مگر یہ بھی دراصل الوہیت کے مسئلہ کو پختہ کرنے کیلئے ہے۔ چنانچہ قرآن نے ربوبیت پر ایمان کے معتبر ہونے کو توحیدِ الوہیت پر ہی موقوف رکھا اور ربوبیت کے مکرر و مؤثر بیان سے دراصل بندگی اور پرستش کی توحید ہی کو بار بار ثابت کیا۔ قرآن میں آپ دیکھتے ہیں خدا کی قدرتوں کا ذکر ہمیشہ بندگی ونیاز میں اس کی توحید منوانے پر ہی جا کر ختم ہوتا ہے۔ جنت اور جہنم کے تذکرے توحیدِ عبادت کے ساتھ ہی جڑے ہوئے ملتے ہیں۔
چنانچہ ربوبیت (یعنی خدا سے سب کچھ ہونے کا یقین ہونا) اگرچہ بنیاد ہے الوہیت (خدا کا تنہا اور بلا شرکت غیرے عبادت کے لائق ہونا) کی اور اس کو قرآن باقاعدہ انداز میں پختہ بھی ضرور کرتا ہے پھر بھی بات ہمیشہ توحیدِ عبادت پر ہی لے جا کر ختم کرتا ہے۔ بلکہ بات شروع بھی توحید عبادت سے کرتا ہے اور ختم بھی اسی پر کرتا ہے، ربوبیت کو توحیدِ عبادت کی دلیل کے طور پر درمیان میں لاتا ہے۔ چنانچہ ربوبیت (خدا کی قدرت اور فاعلیت) کا جتنا بھی بیان قرآن میں آپ دیکھتے ہیں وہ توحیدِ بندگی کی دلیل اور بنیاد کے طور پر ہی دیکھتے ہیں اور گو مسئلۂ ربوبیت (خدا کی قدرت اور فاعلیت) قرآن کا ایک بڑا موضوع ہے مگر قرآن میں اس کی حیثیت ہے بہرحال فریقین (انبیاءاور ان کے مخالفین) کے مابین ایک طے شدہ مسئلہ کی .... جس کو قرآن ایک طرف مزید پختہ کرتا ہے تو دوسری طرف اِس سے عین اُس مسئلہ کو ثابت کرتا اور منواتا ہے جو فریقین کے مابین سرے سے باعث نزاع ہے یعنی توحیدِ عبادت۔
بنا بریں الوہیت اگر ربوبیت پر سہارا کرتی بھی ہے، تو بھی الوہیت ہی اسلام کا واجہہ Face اور اسلام کا دروازہ رہے گا کیونکہ کلمۂلَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی بنیاد اسی لفظ (الٰہ) کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ لہٰذا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی تعلیم اور اس کی تفہیم وتوضیح میں اصل زور مسئلہ الوہیت پر ہی دیا جائے گا نہ کہ مسئلہ ربوبیت پر۔
آدمی کے ”اسلام“ میں داخل مانا جانے کی بنیاد ”ربوبیت“ (یعنی خدا سے سب کچھ ہونے کا یقین) نہیں بلکہ ”الوہیت“ (یعنی خدا کے سوا کسی کی بندگی اور پرستش نہیں) ہی رہے گا۔ ”نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ“ ہی ”اسلام“ کا دروازہ رہے گا۔ آدمی ”اسلام“ میں داخل ہو گا تو اِس سے گزر کر داخل ہو گا۔ ”اسلام“ سے خارج ہو گا تو اِس سے نکلنے کے باعث خارج ہو گا۔ ”ربوبیت“ (یعنی خدا کی قدرت اور فاعلیت) پر بے شک آدمی کا ایمان ہو، مگر ”الوہیت“ (یعنی لائقِ بندگی و پرستش ہونے) میں غیر اللہ کے حق کا انکار کر کے اگر وہ نہیں آیا تو اُس کا ”اسلام“ لانا غیر معتبر ہی رہے گا۔ ”الوہیت“ (یعنی بندگی اور پرستش) میں اُس نے خدا کے ساتھ کسی کو شریک کر دیا ہے تو ”ربوبیت“ (یعنی قدرت اور فاعلیت) میں خدا کی وحدانیت کا وہ بے شک قائل رہے، ”اسلام“ کے احاطہ سے وہ یقینا نکل جاتا ہے۔ پس یہیں سے آپ ”اسلام“ میں آتے ہیں اور یہیں سے ”اسلام“ سے نکلتے ہیں۔ ”کلمہ“ میں لفظِ ”الٰہ“ کا مذکور کر دیا جانا اور اسی چیز کو ہر رسالت کا عنوان ٹھہرا دیا جانا یہی مفہوم رکھتا ہے۔ ورنہ ”الٰہ“ کے سوا اور کتنے ہی لفظ ہیں جو اگر اس کلمہ میں بولے جاتے تو ان سے بھی خدا کی وحدانیت ہی ثابت ہوتی۔
اصل غور طلب بات یہی ہے کہ ”لا“ کے متصل بعد لفظِ ”الٰہ“ بول کر خدا کی وحدانیت کا کونسا پہلو مراد لیا گیا ہے جو کہ انبیاءاور ان کی قوموں کے مابین اصل باعثِ نزاع مسئلہ رہا ہے اور جس پر داعیانِ اسلام کا پورا زور صرف کرا دیا جانا سب سے زیادہ ضروری رہا اور ہر رسالت ہر نبوت کے اندر ضروری رہا اور جس کو ”اسلام“ کا اصل پھاٹک بنا کر رکھا گیا اور قیامت تک اِس کی یہی حیثیت رہے گی۔ خدا کی وحدانیت کا یہ خاص پہلو (الوہیت) جو کہ رسولوں اور ان کے مخالفوں کے مابین اصل وجہِ نزاع رہا.. خدا کی وحدانیت کے اِس خاص پہلو سے صرفِ نظر کر رکھنا توحید کا ایک ناقص مفہوم ہوگا خواہ ’خدا کی فاعلیت‘ اور ’خدا سے سب کچھ ہونے کے یقین‘ پر کتنی ہی بات کر لی جائے۔ پس یہ توحید کا ایک ناقص مفہوم ہے، کجا یہ کہ ’کلمہ‘ کا معنیٰ ہی اِس ناقص مفہوم میں محصور کر دیا جائے اور جب بھی ’کلمہ‘ کا بیان شروع ہو بس یہی ناقص مفہوم بیان کر کر کے امت کو دیا جاتا رہے اور ’کلمہ‘ پر جتنی بھی محنت ہو بس اِسی ناقص مفہوم پر کرائی جاتی رہے۔ پس کلمۂ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ میں لفظِ ”الٰہ“ کی معنویت کو جاننا اور اس پر غور کرنا کہ کیوں خاص یہی لفظ کلمہ میں استعمال ہوا اور خدا کی وحدانیت کا اعلان کرواتے وقت کیوں خاص یہی لفظ ہر رسالت کے عنوان کا جزوِ لا ینفک بنا، نہایت اہم ہے۔
منہجِ انبیاءکو سمجھنے کیلئے یہ بات ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
بسا اوقات یہاں ایک شبہ بھی اذہان میں آتا ہے اور وہ یہ کہ:
جب ہم مانتے ہیں کہ خدا کی الوہیت کو منوانا خدا کی ربوبیت کے مسلَّم ہونے پر ہی سہارا کرتا ہے اور یہ کہ انبیاءنے اپنی قوموں کے ساتھ اس مسلَّمہ کو بنیاد بناتے ہوئے کہ پیدا کرنے اور مارنے اور جلانے والا اور سب قوتوں کا مالک جب اللہ ہے (توحیدِ ربوبیت)، یہی تنازعہ اٹھایا کہ ”پھر پرستش اور پوجا اور بندگی اور اطاعت بھی صرف ایک اُسی کی ہو گی“ (توحیدِ الوہیت).... یوں ’ربوبیت‘ کو ’الوہیت‘ کی بنیاد بنایا.. تو اصل زور پھر ربوبیت پر ہی دیا جانا چاہیے!
تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
ربوبیت پر زور دینے کی بلاشبہ ضرورت ہے اور مخاطبین کی ضرورت کے بقدر اس پر بھی ضرور محنت ہونی چاہیے مگر یہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا ایک ”مقدمہ“ ہوگا نہ کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا ”مطلب اورمفہوم“۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا مطلب اور مفہوم بہرحال یہی ہے کہ اللہ کے سوا ہر ہستی کو پوجنا باطل ہے اور بندگی صرف اللہ وحدہ لاشریک کیلئے واجب ہے۔
”مقدمہ“ (یعنی توحیدِ ربوبیت) کا بیان خواہ آپ کتنا ہی طویل کر لیں، ”اصل مدعا“ پر آئے بغیر بہر حال مفر نہیں۔ اور یہ ”اصل مدعا“ یہی ہے کہ اللہ کے سوا ہر کسی کی پرستش باطل ہے اور بندگی ایک اللہ کی ہے، یعنی ”توحیدِ الوہیت“۔
مزید دیکھئے۔ الوہیت اگر ربوبیت پر سہارا کرتی ہے تو ربوبیت خدا کے وجود (یعنی خدا کو موجود ماننے) پر سہارا کرتی ہے۔ تو پھر کیا خدا کے موجود ہونے کا بیان خدا کے رب ہونے کے بیان سے کفایت کرے گا؟ اب جس طرح خدا کے رب ہونے میں خدا کا موجود ہونا خودبخود آجاتا ہے اسی طرح خدا کے الٰہ ہونے میں خدا کا رب ہونا خودبخود آجاتا ہے۔ یقینا کچھ مخاطبین کیلئے خدا کے وجود پر بھی بہت کچھ بات کرنے کی ضرورت پائی جا سکتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کے وجود کا بیان خدا کی ربوبیت کے بیان سے کفایت کر جائے گا۔
بعینہ اسی طرح خدا کی ربوبیت (یعنی خدا کے فاعل حقیقی ہونے) کا بیان بھی اشد ضروری ہے مگر یہ توحیدِ الوہیت (توحیدِ عبادت و پرستش) کے بیان سے کفایت نہیں کرتا خصوصاً اسے کلمۂ توحید (لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ) کی تفسیر تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔
غرض خدا کی ذات (وجودِ باری تعالیٰ) کا اثبات اور خدا کی ربوبیت (خدا سے سب کچھ ہونے کا یقین) کا بیان ایک تمہید ہے اس بات کیلئے کہ پورا زور خدا کے واحد اور تنہا اور بلاشرکت غیرے لائق بندگی ہونے پر دے دیا جائے اور عبادت وپرستش کے معاملے میںنفی اور اثبات کی وہ ترتیب جو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ میں بیان ہوئی (یعنی نفی کا لازماً اثبات سے پہلے لایا جانا) جلی سے جلی تر کر دیا جائے۔
یہ دو باتیں (نفی کا اثبات پر مقدم ہونا، اور خاص لفظ الٰہ کا ہی کلمہ میں استعمال ہونا) داعیوں کیلئے نہایت اہم ہیں۔ لوگوں کو ”کلمہ کا علم“ دلواتے ہوئے (جوکہ کلمہ کی شرطِ اول ہے) یہ دونوں باتیں داعیوں اور مربیوں کے مد نظر رہنا آج بے حد ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔