• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امامت کا حق دان کون ہے؟

شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
864
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
69
امامت کا حق دار کون؟

سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:

((يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا وفي رواية فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا)). (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة: 673).

’’لوگوں کو امامت وہ کروائے گا جو ان میں سے زیادہ قرآن کا حافظ ہو گا، اگر تمام لوگ قرآن مجید کے حفظ میں برابر ہوں، تو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا زیادہ علم رکھتا ہو (اس کو امامت کی ذمے داری جائے گی)، اگر وہ سنت رسول کے علم میں برابر ہوں، تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو (اس کو امامت کی ذمے داری جائے گی)، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں، تو جس نے پہلے اسلام قبول کیا ہو (اس کو امامت کی ذمے داری جائے گی)، اور ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں: کہ جو عمر میں بڑا ہو‘‘۔

سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کر کے واپس آئے تو کہنے لگے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((صَلُّوا صَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، وَصَلُّوا صَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا». فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي، لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنَ الرُّكْبَانِ، فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ، وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ)). (صحيح البخاري، المغازي: 4302).

تم فلاں نماز اس وقت اور فلاں نماز اس وقت ادا کرو، جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہےاور جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو وہ امامت کروائے، (عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میری قوم والوں نے سوچ بچار کیا، ان میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ قرآن کا حافظ نہیں تھا، کیوں کہ میں جو قافلے گزرتے تھےان سے قرآن سیکھا کرتا تھا، میری قوم نے مجھے نماز کے لیے امام بنا دیا اور میری اس وقت عمر چھ یا سات سال تھی۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ)). (سنن ترمذي، المناقب: 3790) (صحيح).

’’میری امت میں سب سے زیادہ خوبصورت، ترتیل کے ساتھ پڑھنے والا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہے‘‘۔

ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے امامت کرواتے ہوئے قبلہ کی طرف تھوکا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امامت سے روک کر دیا او رفرمایا:

((إنَّك آذَيتَ اللهَ ورسولَه)). (سنن أبي داود، الصلاة: 481) (صحيح).

’’تو نے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی ہے‘‘۔

مذکورہ بالا احادیث سے ہمیں آگاہی ملتی ہے کہ جو شخص قرآن کا زیادہ حافظ ہو، اس کی آواز خوبصورت ہو، قواعد تجوید سے آگاہ ہو، سنت رسول اور خاص طور پر نماز کے مسائل کو تفصیل کے ساتھ جانتا ہو، متقی ، پرہیزگار ہو ، وہ امامت کا زیادہ حق دار ہے۔

نابینے آدمی کی امامت صحیح ہے۔


سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ يَؤُمُّ النَّاسَ وَهُوَ أَعْمَى (سنن أبي داود، الصلاة: 595) (صحيح)

’’نبی کریم ﷺ نے (اپنے سفر غزوہ کے موقع پر) سیدنا عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین بنایا تھا اور یہی لوگوں کو امامت کراتے تھے اور یہ نابینا تھے۔‘‘

سمجھ بوجھ رکھنے والے بچے کو امام بنانا جائز ہے اگر وہ نماز کے احکامات جانتا ہو۔


صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عمرو بن سلمہ کو امام بنایا تھا، حالانکہ، وہ اس وقت چھ سات برس کا تھے۔ (صحیح بخاری: 4302)

فاسق و فاجر آدمی کی امامت صحیح ہے ، لیکن اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر کسی عادل اور متقی امام کے پیچھے نمام پڑھنا ممکن ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے گی، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے حجاج بن یوسف کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ (صحیح بخاری: 1660)

اگر امام کے علاوہ صرف ایک آدمی ہو تو وہ امام کے دائیں جانب بالکل امام کے برابر کھڑا ہو گا۔ اگر امام کے علاوہ دو آدمی یا اس سے زیادہ ہوں تو وہ امام کے پیچھے کھڑے ہو ں گے۔

اگر مسجد میں بالکل جگہ نہ ہو ، ساری صفیں مکمل ہو چکی ہوں تو امام کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا جائز ہے۔

عورت چاہے ایک ہو یا ایک سے زائد ہوں ہر دو صورتوں میں اپنی الگ صف میں کھڑی ہو گی، اگر مرد موجود ہوں تو مردوں کے پیچھے اور اگر اکیلی عورت ہو یا زیادہ عورتیں ہوں تو امام کے پیچھے کھڑی ہو گی۔
 
Top