• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام بخاری پر اعتراض کا جواب درکار ہے

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ انہیں کس حکیم نے بتلایا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سولہ سال کی عمر میں اتنی احادیث ياد کیں تھیں!!
ویسے ایک بات بتلاؤں! یہ منکر حدیث بہت بدذوق قسم کے لوگ ہوتے ہیں، اگر انہیں کچھ شاعری کا ہی شوق ہوتا تو معلوم ہوتا کہ لوگوں کو کتنے کتنے اشعار زبانی یاد ہوتے ہیں!!
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عموماً محدثین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کو اتنے لاکھ احادیث یاد تھیں ۔۔۔ مثلاً :
  • امام بخاری رحمة اللہ کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں
  • امام احمد بن حنبل رحمة اللہ کو پانچ لاکھ حدیثیں یاد تھیں
  • وغیرہ
تو سننے والے یا عام افراد جن کو علمِ حدیث یا محدثین کی اصطلاحات کا علم نہیں ہوتا وہ اس بات کی اصل حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں رکھنے والے اہل علم حضرات بھی ایسا ہی کچھ عرض فرماتے ہیں کہ :

23 سالہ عہدِ نبوت میں محال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس قدر باتیں کی ہوں گی لہذا یہ تعداد ہی غلط ہے۔

دراصل معترضین مرفوع القلم ہیں اور اپنی کم علمی کی بنا پر اعتراض کرنے میں حق بجانب ہیں۔

ضروری ہے کہ اس عقدہ کو حل کیا جائے کہ کثرتِ احادیث کی کیا وجوہات ہیں؟ لہذا ذیل میں چند اہم وجوہات درج کی جا رہی ہیں۔

1۔ بلحاظ معانی "سنن" اور "احادیث" میں ایک فرق ہے۔

"سنن" کا تعلق صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی واحد ذات سے ہے۔ جبکہ احادیث کا تعلق بےشمار صحابہ اور تابعین کے اقوال و افعال سے بھی ہے۔ لہذا احادیث کی تعداد سنن رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کئی گنا زیادہ ہونا لازمی امر ہے۔

2۔ بلحاظ "اسناد" اور "طرق" بھی ایک واضح وجہ ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک معروف قول ہے :

انما الاعمال بالنیات

یعنی یہ سنتِ قولی ہے۔

یہی سنتِ قولی سات سو طریقوں سے جب علیحدہ علیحدہ طور پر روایت کی گئی تو احادیث کے لحاظ سے اس ایک سنت کا شمار "700 احادیث" کے طور پر کیا جاتا ہے۔

اسی قولِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (انما الاعمال بالنیات) کی مثال صحیح بخاری سے لیجئے۔

صحیح بخاری میں یہ قولِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) 7 طرق سے مروی ہے لہذا اسے "7 احادیث" کی حیثیت سے تعبیر کر دیا گیا حالانکہ متن یعنی الفاظِ حدیث و معانی کے اعتبار سے وہ ایک ہی حدیث ہے۔

3۔ دورِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سنت کا مدار کتابت و روایت سے زیادہ تعامل پر تھا۔ مثلاً :

صحابہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جیسے نماز پڑھتے دیکھتے ویسے ہی پڑھ لیتے۔ یا جو وفود باہر سے مدینہ آتے ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں چند دن اپنے پاس ٹھہرا کر جاتے وقت یہ وصیت کرتے کہ :

صلوا کما رایتمونی اصلی

یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا :

خذوا عنی مناسککم

پھر جب صحابہ نے نماز ، حج ، روزہ و زکوٰة اور دوسرے احکام کے کوائف و تفصیلات کو روایت و کتابت کرنا شروع کیا انہی چھوٹے چھوٹے ارشادات سے دفتر کے دفتر تیار ہو گئے۔

4۔ موضوع احادیث کا وجود بھی کثرتِ تعداد کی ایک وجہ ہے۔

بعض محدثین نے صرف صحیح احادیث جمع کیں ، بعض نے ضعیف احادیث بھی شامل کیں لیکن ان کے ضعف کی وضاحت بھی کر دی اور بعض نے تو جو کچھ ان کو ملا وہ سب کچھ درج کر دیا اور بعض نے موضوعات اور ضعیف احادیث کے بالکل الگ الگ مجموعے تیار کئے۔

اس تمام قسم کی مساعی سے یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ محدثین نے کسی بھی بات کو جو منسوب الی الرسول تھی ، ضائع نہیں کیا۔

سوال کیا جا سکتا ہے کہ ضعیف و موضوع روایات کا وجود کیونکر برقرار رکھا گیا اور کیوں انہیں ضائع نہ کر دیا گیا؟

تو اس کا صاف جواب یہ ہے کہ : اگرچہ ان کا یہ فعل بظاہر اچھا معلوم نہیں ہوتا مگر یہ محدثین کی دیانتداری کا کمال بھی ہے۔ فرض کیجئے کہ اگر کوئی موضوع یا ضعیف حدیث ضائع کر دی جاتی تو ۔۔۔۔

تو ہمارے طبقۂ صوفیاء کو یہ کہنے کا موقع میسر آ جاتا کہ :

ہماری طریقت اور خانقاہوں کے جملہ افعال و رسوم ، احادیث ہی سے لئے گئے ہیں ، مگر محدثین نے ایسی احادیث ضائع کر دی ہیں !!

یہی معاملہ دیگر باطل فرقوں کے دلائل کی صورت میں پیش آ سکتا تھا۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت ہے کہ اس نے محدثین کے ذریعے اپنے دین کو کمال تحفظ عطا فرمایا کہ : روایات میں مقبول اور مردود کو الگ الگ کر دیا مگر وجود سب کا برقرار رکھا۔

5۔ موضوع احادیث کے "اسناد" اور "طرق" بھی ایک اہم وجہ ہے۔

محدثین کا کام یہ تھا کہ موضوع احادیث کے متن کے ساتھ ساتھ ان کی اسناد کو بھی یاد رکھنا پڑتا تھا تاکہ ان سے عوام کو متنبہ رکھ سکیں۔ جس طرح سننِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) جب طرق کے لحاظ سے بیان کی جاتی ہیں تو احادیث بیسوں گنا بڑھ جاتی ہیں ، اسی طرح موضوع احادیث بھی طرق کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ شمار ہونے لگیں۔

درج بالا تمام وجوہات پر اگر انصاف سے غور و فکر کیا جائے تو ہزاروں لاکھوں احادیث کی کثرت کی اصل حقیقت سے واقف ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنا چاہئے !!

یعنی چھ لاکھ ، پانچ لاکھ ، دس بیس لاکھ وغیرہ کی تعداد باصطلاح محدثین ہے اور وہ اپنی جگہ برحق ہے۔ وما توفیقی الا باللہ۔

(باذوق/ ‏مئی 17, 2008)
 
Last edited:

cool125

مبتدی
شمولیت
جولائی 14، 2015
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
آسان سادہ جواب....

تین لاکھ احادیث سے مراد احادیث کے متن نہیں ہے بلکہ احادیث کی اسناد ہیں....
ایک حدیث کا ایک متن ہوتا ہے اور اسناد مطلب راوی زیادہ ہوتے ہیں..
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
یہ اعتراض وہی کرتا ہے جسکو اللہ کی طاقت و قدرت پر یقین نہ ہو ۔اللہ تعالی کو جس سے کام لینا ہوتا ہے اسکو بصآرت و بصیرت اور قدرت خوب عطا کرتا ہے عرب قوم کو اپنے انسانی نسب کے علاوہ اوٹوں کے نسب زبانی یاد تھے وہ قوم امی تھی اسلئے انکا سارا اعتماد قوت حفظ پر تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسان تھے لیکن پلک جھپکتے میں معراج کا واقعہ رونما ہوا انسانی عقل ششدر ہے کہ لمحہ بھر میں اتنا بڑا واقعہ کیسے رونماہوا لیکن اس پر ایمان لانے والے ایمان لاے اور شک کرنے والے شک ہی میں رہ گئے اور موت کے چنگل میں چلے گئے لیکن ایمان نصیب نہ ہوسکا۔ اسی طرح امام بخاری کا مسئلہ کوئی تعجب خیز نہیں اللہ تعالی نے انہیں زبردست قوت حفظ سے نوازا تھا ۔
 
Top