تو اس صورت میں پھر کیا یہ ایک طرح کی جرح نہیں ہوگی کہ جو وہ اپنے دفتر میں سے بیان کریں وہ صحیح اور جو کسی اور کے دفتر یا حافظہ سے بیان کریں وہ صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔
امام عبد الرزاق پر تین طرح کی جرح ہے ، اختلاط ، تدلیس ، تشیع ، شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ امام عبد الرزاق کی تعریف و توثیق میں اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
ان موثقین کے مقابلے میں عبدالرزاق پر درج ذیل جرح ملتی ہے :
1. اختلاط
2. تدلیس
3. تشیع
4. روایت پر جرح
اختلاط کا الزام تو ثابت ہے ۔
امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ہم عبدالرزاق کے پاس 200ھ سے پہلے گئے تھے اور ان کی نظر صحیح تھی، جس نے اُن کے نابینا ہونے کے بعد سنا ہے تو اس کا سماع ضعیف ہے۔
33
امام نسائی نے کہا: ''فیه نظر لمن کتب عنه بآخرة ''
34
''جس نے اُن سے آخری دور میں لکھا ہے اُس میں 'نظر' ہے ۔''
اختلاط کے بارے میں یہ اُصول ہے کہ جس ثقہ وصدوق راوی کی روایتیں اختلاط سے پہلے کی ہوں تو وہ صحیح ہوتی ہیں ۔
درج ذیل راویوں نے عبدالرزاق کے اختلاط سے پہلے سنا ہے:
أحمد بن حنبل، إسحق بن راهویه ،علي بن مدیني ،یحییٰ بن معین اور وکیع بن جراح وغیرہ۔
35اسی طرح اسحق بن منصور،محمود بن غیلان ،اسحق بن ابراہیم سعدی ،عبداللہ بن محمد مسندی ،محمد بن یحییٰ بن ابو عمر عدنی ،یحییٰ بن جعفر بیکندی ، یحییٰ بن موسیٰ بلخی، احمد بن یوسف سلمی ، حجاج بن یوسف الشاعر،حسن بن علی خلال ،سلمة بن شبیب ، عبدالرحمن بن بشر بن حکم ،عبدبن حمید، عمروبن محمد ناقد ،محمد بن رافع اور محمدبن مهران حمال وغیرهم کا
عبدالرزاق سے سماع اختلاط سے پہلے ہے۔ لہٰذا عبدالرزاق کی مطلق روایات پر اختلاط کی جرح کوئی جرح ہی نہیں ہے۔ والحمدللہ
تدلیس کا الزام ثابت ہے ۔36
تدلیس کے بارے میں اُصول یہ ہے کہ غیر صحیحین میں مدلس کی عَن والی روایت (معتبر متابعت یامعتبر شاہد کے بغیر) ضعیف ہوتی ہے ۔ دیکھئے، کتب ِاُصولِ حدیث اور ماہنامہ الحدیث حضرو
37 لہٰذا ثقہ راوی کی سماعت کی صراحت والی روایت پر تدلیس کی جرح کو ئی جرح ہی نہیں ہے ۔
تشیع کے سلسلے میں عرض ہے کہ عبدالرزاق کا اثنا عشری جعفر ی شیعہ یا رافضی ہونا قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ ان کا تشیع بعض اہل سنت کا تشیع ہے جو سیدنا علی کو سیدنا عثمان سے افضل سمجھتے تھے اور تمام صحابہ سے محبت کرتے تھے۔
اہل سنت کے امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ ''کیا عبدالرزاق تشیع میں اِفراط کرتے تھے ؟''اُنھوں نے فرمایا: میں نے اس سلسلے میں اُن (عبدالرزاق) سے کوئی بات نہیں سُنی ہے ۔الخ
38
امام عبدالرزاق بن ہمام فرماتے ہیں : ''میں شیخین( سیدناابوبکر وعمر ) کی فضیلت کا قائل ہوں کیونکہ (سیدنا ) علی نے اُنھیں اپنے آپ پر فضیلت دی ہے ۔الخ''
39
امام عبدالرزاق نے فرمایا:
''واﷲ ما انشرح صدري قط أن أفضّل علیًاعلیٰ أبي بکر وعمر، رحم اﷲ أبابکر ورحم اﷲ عمر،ورحم اﷲ عثمان ورحم اﷲ علیًا ومن لم یحبھم فما ھو بمؤمن فإن أوثق عملي حبي إیاھم رضوان اﷲ علیھم ورحمته أجمعین۔''
''اللہ کی قسم!میرے دل میں کبھی علی کو ابوبکر اور عمر پر فضیلت دینے پر اطمینان نہیں ہوا، اللہ ابوبکر پر رحم کرے ،اللہ عمر پر رحم کرے، اللہ عثمان پر رحم کرے ، اللہ علی پر رحم کرے اور جو اِن سب سے محبت نہیں کرتا وہ مؤمن نہیں ہے۔ میرا سب سے مضبوط عمل یہ ہے کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں ۔ اللہ ان سے راضی ہو اور ان سب پر اللہ کی رحمت ہو۔''
40
اس سنہری قول سے معلوم ہوا کہ امام عبدالرزاق شیعہ نہیں تھے بلکہ اُنھوں نے تشیع یسیر سے بھی رجوع کرلیا تھا، کیونکہ اس قول میں وہ چاروں خلفاے راشدین کی ترتیب اور اُن سے محبت کے قائل ہیں ۔ جو شخص اس سنہری قول کے باوجود عبدالرزاق کو شیعہ شیعہ کہنے کی رٹ لگاتا ہے، اس کا طرزِ فکر اور دعویٰ قابل اصلاح ہے۔
نوٹa:تشیع یسیرسے بھی عبدالرزاق کا رجوع ثابت ہے۔ ابومسلم بغدادی الحافظ (إبراهيم بن عبداللہ الکجي بصري) نے امام احمد سے نقل کیا کہ ''عبدالرزاق نے تشیع سے رجوع کرلیا تھا۔'
41
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام عبدالرزاق نے اپنی سند کے ساتھ سیدنامعاویہ سے ایک حدیث بیان کی اور فرمایا : ''وبه نأخذ''ٍ
42''اور ہم اسی کو لیتے ہیں ۔''
اُنھوں نے ایک حدیث سیدنا ابو ہریرہ سے روایت کی اور کہا:''وبه نأخذ'' اور ہم اسی کولیتے ہیں ، یعنی اسی کے قائل ہیں ۔ َ
43
سیدنا معاویہ اور سید نا ابوہریرہ کی بیان کردہ احادیث پر عمل کرنے والا شیعہ ساری دنیا میں کہیں نہیں ملے گا، چاہے چراغ کے بدلے آفتاب لے کرہی اسے تلاش کیا جائے ۔
نوٹ: جن روایات میں عبدالرزاق کا شدید تشیع مروی ہے، اُن میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہے ، مثلاً:
ایک روایت مں: آیا ہے کہ عبدالرزاق سیدنا عثمان بن عفان کی شان میں گستاخی کرتے تھے۔
44لیکن اس کا راوی ابوالفرج محمدبن جعفر صاحب المصلی ضعیف ہے۔
45'اور ابوزکریا غلام احمد بن ابی خثیمہ مجہول الحال ہے۔
ایک اور روایت سیدنا عمر کے بارے میں ''انظروا إلی الأنوك'' آیا ہے۔
46
اس میں علی بن عبد اللہ بن مبارک صنعانی نامعلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ اس حکایت کی سند میں ارسال یعنی انقطاع ہے۔
47اور منقطع روایت مردود ہوتی ہے ۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ عبدالرزاق نے سید نا معاویہ کے بارے میں کہا: ''ہماری مجلس کو ابو سفیان کے بیٹے کے ذکر سے خراب نہ کرو۔''
48 لیکن اس کی سند میں احمد بن زکیرحضرمی اور محمد بن اسحق بن یزید بصری دونوں نامعلوم ہیں ۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ امام سفیان بن عیینہ نے عبدالرزاق کو {الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا} میں سے قرار دیا۔
49 اس میں احمد بن محمود الہروی نامعلوم ہے۔ مختصر یہ کہ یہ سب روایا ت مردود اور بشرطِ صحت منسوخ ہیں ۔
امام عبد الرزاق کی روایت پر جرح دوطرح سے ہے :
اوّل: ابو حاتم رازی نے عبدالرزاق اور معمر دونوں کو کثیر الخطأ کہا۔
50
یہ جرح جمہور کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ ابو حاتم نے کہا: یکتب حدیثه ولا یحتجبه
51 اس جرح کا سقوط مخالفت ِ جمہور سے ظاہرہے
دوم : ایک روایت میں آیا ہے کہ عباس بن عبدالعظیم نے عبدالرزاق کو 'کذاب' کہا۔
52 لیکن اس روایت کا راوی محمد بن احمد بن حماد الدولابی بذاتِ خود ضعیف ہے۔ لہٰذا یہ روایت مردود ہے ۔
53
ایک روایت میں آیا ہے کہ زید بن مبارک نے کہا : ''عبدالرزاق کذاب یسرق''
54
اس روایت میں ابن عساکر کا استاد ابو عبداللہ بلخی غیر متعین ہے۔ اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو دو وجہ سے مردود ہے:
اس روایت میں عبدالرزاق سے مراد عبدالرزاق بن ہمام صنعانی نہیں بلکہ کوئی دوسرا عبدالرزاق ہے، مثلاً عبدالرزاق بن عمر ثقفی دمشقی وغیرہ ۔
یہ جرح امام یحییٰ بن معین اورامام احمد وغیرہما کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔
خلاصة التحقیق
امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی یمنی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق یعنی صحیح الحدیث وحسن الحدیث راوی ہیں بشرطیکہ وہ سماع کی تصریح کریں اور روایت اختلاط سے پہلے کی ہو۔
روایت ِحدیث میں امام عبدالرزاق صنعانی کا معتبر ہونا؟ (
محدث میگزین )