بعض اہل علم نے اس روایت کی تحسین کی ہے ۔ دیکھیے ( مسند ابی یعلی الموصلی ج 1 ص 298 حدیث نمبر 363 ، تحقیق : حسین سلیم اسد ) ، اسی طرح شیخ احمد شاکر نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے ، جیساکہ اوپر سکین میں موجود ہے ۔
لیکن طبعۃ الرسالۃ کے محققین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ، اور علت نجی اور اس کے بیٹے کا حال ہے ۔ لکھتے ہیں :
إسناد. ضعيف، عبد الله بن نجي مختلف فيه، وأبوه نجي لم يروعنه غير ابنه، ولم يوثقه غير ابن حبان، وقال: لا يعجبني الاحتجاج بخبره إذا انفرد.
عبد اللہ بن نجی مختلف فیہ راوی ہے ، جبکہ اس کے باپ نجی کی ابن حبان کے علاوہ کسی سے توثیق نہیں ملتی ، خود ابن حبان کہتے ہیں : جب یہ اکیلا روایت کرے تو اس کی روایت کو قابل حجت سمجھنا مناسب نہیں ۔ واللہ اعلم ۔