• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امتیاز عالم کا غیر مہذب بیانیہ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
امتیاز عالم کا غیر مہذب بیانیہ
تحریر: ڈاکٹر رانا تنویر قاسم
15 جنوری 2017

آج کے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں امتیازعالم صاحب فرماتے ہیں کہ "جرات تحقیق، پاک سرزمین پر سراٹھانے والوں، تکفیری دہشت گردوں کو ملامت کرنے والوں کو دن دیہاڑے دارلحکومت سے اٹھا لیا گیا، ریاست اور شدت پسند گروہ، قانون ہاتھ میں لینے والے خود جلاد بننے نکل کھڑے ہوئے ہیں، تکفیر اور توہین گھڑنے کی فیکٹریاں اب بند کر دینی چاہیے۔ قلمی تکفیر کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور حضور ﷺ نے کبھی کسی خارجی اور گستاخ کے ساتھ ایسا نہیں کیا تھا"

جناب امتیاز عالم صاحب ! کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ نے سلمان حیدر اور اسکے ساتھیوں کی "حرکات" کی تحقیق کر لی ہے اور کیا سوشل میڈیا پر "بھینسا اور روشنی" جیسے پیجز وغیرہ کو وہ نہیں چلا رہے تھے؟
آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ وہ بالکل پاک صاف ہیں؟
اب تک کی رپورٹس کے مطابق متنازعہ اور توہین آمیز مواد تو انہیں پیجز سے برآمد ہو رہا ہے۔ آپ نے انہیں جرات مند اور پاک سرزمین پر سر اٹھانے والا کیسے قرار دے دیا؟
آپ ایک سینئر صحافی ہیں، بجائے اس کے کہ آپ کہتے کہ معاملہ کی تحقیقات ہونی چاہیے، انہیں بازیاب کرایا جائے اور اگر وہ اس طرح کی سرگرمی میں ملوث ہوں تو قانون کے مطابق انہیں سزا دی جائے۔ آپ نے تصویر کا ایک رخ پیش کر کے دراصل انکے نظریات وخیالات کی حمایت کی اور جو لوگ ان کی اہانت آمیز حرکات پر بول یا لکھ رہے ہیں ان کو آپ برا بھلا کہہ رہے ہیں، کیا آپ کا یہ بیانیہ خود تعصب پر مبنی نہیں؟
میرے نزدیک آپ کا مجوزہ "مہذب بیانیہ" مہذب نہیں بلکہ غیرمہذب ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ صرف ہم ہی اس ملک میں امن اور ترقی کے داعی ہیں اور باقی سب فسادی اور جاہل ہیں۔۔۔

پیغمبر اسلام ﷺ کی ازدواجی زندگی کا مذاق اڑانے کو آپ جرات تحقیق قراردیتے ہیں؟؟؟
امتیاز عالم صاحب ! کسی کو بغیر تحقیق کے تکفیری دہشت قرار دینا کون سی صحافتی اخلاقیات ہیں؟
تکفیر اور توہین گھڑنے کی فیکٹریاں واقعتا بند ہونی چاہییں، قانون ہاتھ میں لینا چاہیے اور نہ ہی کسی کو جلاد بننے کی اجازت ہو نی چاہیے۔ بالکل درست! کاش آپ "بھینسا گروپ" کی ہرزہ سرائیوں کا بھی ذکر فرما دیتے تا کہ توازن برقرار رہتا۔ بدقسمتی سے شدت پسندی پر مبنی چند افراد کے انفرادی فعل کی آڑ میں پاکستان میں "دانش وروں" کا ایک غول اسلام اور بانی اسلام ﷺ پر بڑے مخصوص انداز سے حملہ آور ہے ، ان کی اکثریت قرآن وسنت کے علم سے بالکل بے بہرہ ہے، اسلام کا مطالعہ بھی وہ شائد "مولوی دشمنی" کی بنیاد پر کرنا پسند نہیں کرتے، وہ ایمانیات اور عقائد کو نشانہ بنانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، ان کا استدلال عقلی اور منطقی ہر لحاظ سے ناقابل فہم ہے۔

آزاد خیالی اور ترقی پسندانہ سوچ ظاہراََ بڑی پرکشش نظر آتی ہے مگر اس طبقہ کے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ نظریاتی تنگ نظری اور انتہاپسندی کے دائروں نے انہیں بھی جکڑ رکھا ہے۔ ایک کم علم اور کج فہم انسان سے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھری اور ضد کی بنا پر دلیل کی بجائے گالی کو ترجیح دیتا ہے مگر ایک دانشور اور صاحب علم تنگنائیوں میں مبتلا ہو جائے تو اس سے بڑھ کر علمی زوال کی اور کیا نشانی ہو سکتی ہے؟؟

امتیاز عالم نے بھی اسی تشویش کا اظہار کیا جو کل امریکہ اور برطانیہ نے کیا کہ سلمان حیدر اور اسکے ساتھیوں کو کچھ نہ کہا جائے، انہوں نے تو دو ہاتھ آگے بڑھ کر ملحدانہ اور سرکش خیالات کے حامل سوشل ایکٹویسٹ کی وکالت کا حق ادا کیا۔ اظہار رائے کا ان کے پاس حق ہے وہ ہم چھین نہیں سکتے مگر جس طرح انہوں نے سلمان حیدر وغیرہ کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو تکفیری قرار دیا یہ مفروضہ بھی بڑے فتویانہ انداز میں پیش کیا کہ آنحضور ﷺ نے اپنے مخالفین اور خارجیوں پر کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا تھا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انسانی ہمدردی اور قانون کی بالادستی کا حقیقی تقاضا ہے کہ ہر شہری کو قانون وانصاف کا برابر موقع ملنا چاہیے، غائب افراد کو حاضر کر کے ثبوتوں کے ساتھ انکے خلاف مقدمات درج کر کے قانون کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ ترقی یافتہ معاشرے جب روشن خیال آئیڈیالوجی کی بنیاد پر مظلوم اقوام کے لوگوں یا اپنے ہی ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا قتال کراتی ہیں تو وہ بھی قابل مذمت ہیں، معصوم لوگوں کا محض خود سے مخالف نظریات رکھنے کی پاداش میں قتل عام خواہ کسی مذہبی رجعت پسند کے ہاتھوں سے ہو یا آزاد اورروشن خیالی کے مبلغ کی دہشت پسند طبع کا نتیجہ ہو؟ ایک ہی جیسے قابل مذمت ہیں۔

امریکا، برطانیہ اور مغرب میں لاتعداد ملحد صرف ملاؤں، پادریوں اور راہبوں کے ردِ عمل میں پیدا ہوئے ہیں، انھیں سرمایہ داری نظام کے بطن میں تضادات کی نوعیت اور شدت سے کوئی غرض نہیں ہے، نہ ہی انھیں اس نظام کی انسانوں پر برپا کی جانیوالی دہشت و بربریت سے ہی کچھ لینا دینا ہے، سماج کو طبقاتی یعنی سائنسی بنیادوں پر بھی وہ سمجھنا نہیں چاہتے ہیں، وہ عہد حاضر میں برپا کی گئی ہر قسم کی دہشت پسندی کو قومی سطح پر طبقاتی تقسیم اور قومی اور بین الاقوامی کے مابین تضاد کی بنیاد پر سمجھنے کی بجائے صرف مذہب کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ توہین رسالت کی سزا کی بات ہوتی ہے تو لبرل یا سیکولریہ کہتے ہیں آپ ﷺ کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو معاف کر دیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ پر بہت طعنہ زنی کی جاتی رہی، آپ ﷺ کو ایذا دی گئی اور طائف کی وادی میں آپ ﷺ پر پتھراؤ تک کیا گیا، حتیٰ کہ خونِ مبارک آپ ﷺ کے جوتوں میں جم گیا، آپ ﷺ نے تب بھی کسی کو سزا نہ دی تو پھر ایسے رحمت للعالمین اور محسن انسانیت ﷺ کی توہین پر قتل کی سزا کی ٹھیک نہیں۔ امتیاز عالم صاحب نے بھی کچھ اسی طرح کی بات کی ہے۔

آپ ﷺ کی سیرت مطہرہ کا رحمت اور درگزر کا پہلو بڑا ہی واضح ہے جس کا اعتراف مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں نے بھی کیا ہے، تاہم قرآن وسنت کی نصوص اور صحابہؓ کرام کے واقعات سے یہ امر ایک مسلمہ اْصول کے طورپر ثابت شدہ ہے کہ نہ صرف شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی کی سزا قتل ہی ہے، نبی کریمﷺ نے خود مدینہ منورہ میں اپنے بہت سے گستاخان کو قتل کرنے کا براہِ راست حکم صادر فرمایا اور صحابہؓ کرام کی مجلس میں اس دشنام طرازی کے جواب میں اْن کو قتل کرنے کی دعوت عام دی، ایسے جانثار صحابہؓ کی آپ نے حوصلہ افزائی کی اور اْن کی مدد کے لئے دعا بھی فرمائی جیسا کہ خالد بن ولیدؓ ، حضرت زبیرؓ ، عمیر بن عدیؓ اور محمد بن مسلمہؓ کے واقعات احادیث میں موجود ہیں کہ اِن کے ہاتھوں قتل ہونے والے گستاخانِ رسول کو قتل کرنے کے لئے آپ ﷺ نے کھلی دعوت دی تھی۔
محمد بن مسلمہؓ کو آپﷺ نے خود کعب بن اشرف کے قتل کی مہم پر بھیجتے ہوئے اْن کے لیے اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا فرمائی، ایسے ہی حضرت حسان بن ثابتؓ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ’’روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرما! "دین کا ابتدائی دور ہے اور اس دور میں آپ ﷺ کے پاس کوئی بھی قوت موجود نہ تھی اسلئے اللہ کے رسول ﷺ نے درگزر سے کام لیا ایسے تمام واقعات مکے کے ابتدائی دور سے متعلق ہیں.
دوسری وہ کیفیت ہے جب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ چکا اور شریعت کا قانون نافذ ہوگئی اس کیفیت میں ریاست کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ریاست کے اور مسلمانوں کے حکمران اور ان کے مذہبی پیشوا کی ناموس کی حفاظت قوت کے ساتھ کرے، بعض آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مسلمان اس وقت خود ایسے شاتمانِ رسالت کی سرکوبی کی قوت نہ رکھتے تھے، حتیٰ کہ بیت اللہ میں نماز سرعام پڑھنے سے بھی بعض اوقات گریز کرنا پڑتا تھا، سو اْس دور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس اذیت پر صبر وتحمل کی تلقین کی اور نبی کریمﷺ کو خود دلاسہ دیا کہ آپ ﷺ کی شان میں دریدہ دہنی کرنے والے دراصل اللہ کی تکذیب کرتے ہیں جنہیں اللہ ہی خوب کافی ہے، عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب پتہ چل جائے گا کہ کون مجنوں اور دیوانہ ہے؟ چنانچہ مکہ مکرمہ اور مدینہ کے ابتدائی سالوں میں دشنام طرازی کرنے والے مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے خود نشانِ عبرت بنا کر موت سے ہمکنار کیا، قرآن کریم میں صحابہؓ کو ایسے وقت صبر وتحمل کی ہدایت کی گئی۔۔۔

البتہ ضرور تم اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں آزمائے جاؤ گے اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے اذیت کی بہت سی باتیں سنو گے۔ اگر تم صبر کرو او راللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے
(آل عمران 186)

سیدنا اْسامہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ ’نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر ان کے بارے میں درگذر سے کام لیتے تھے حتیٰ کہ اللہ نے آپ ﷺ کو ان کے بارے اجازت دے دی، پھر جب آپ ﷺ نے غزوہ بدر لڑا اور اللہ تعالیٰ نے اس غزوے میں قریش کے جن کافر سرداروں کو قتل کرنا تھا، قتل کرا دیا۔
(صحیح بخاری: رقم 5739)

گستاخانِ رسول کو نظرانداز کرنے کا دور مدینہ منورہ کے ابتدائی سالوں تک رہا، اس دور کے بہت سے واقعات جن میں آپ کو رَاعِنَا وغیرہ کہنا بھی شامل ہیں،

یہ وساوس پیدا کرنے والے یہی مغالطہ دیتے ہیں، مکے کے ابتدائی دور کے واقعات کی مثالیں دیتے ہیں اور اسلامی ریاست کے قیام عمل میں آنے کے بعد کے واقعات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مسلمانوں کو قوت مل جانے کے بعد کے ایسے واقعات پر حضور ﷺ کے ردعمل کی مثالیں حاضر ہیں،

  • نبی کریم ﷺ نے خود کعب بن اشرف یہودی کو اپنی نگرانی میں قتل کرایا۔
  • ابو رافع سلام بن الحقیق یہودی کو اپنے حکم سے قتل کرایا۔
  • آپ ﷺ نے عبد اللہ بن عتیکؓ کو اس یہودی کو قتل کرنے کی مہم پر مامور کیا۔.
  • حضرت زبیرؓ کو آپ ﷺ نے ایک مشرک شاتم رسول کو قتل کرنے بھیجا۔
  • عمیر بن اْمیہؓ نے اپنی گستاخِ رسول مشرک بہن کو قتل کیا اور آپ ﷺ نے اس مشرکہ کا خون رائیگاں قرار دیا۔.
  • بنوخطمہ کی گستاخ عورت عصما بنتِ مروان کو عمیر بن عدی خطمیؓ نے قتل کر دیا اور نبی کریم ﷺ نے اس فعل پر عمیر بن عدیؓ کی تحسین کی۔
  • دور نبوی میں ایک یہودیہ نبی کریم ﷺ کو دشنام کیا کرتی اور گستاخی کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے گلا گھونٹ کر اس کو قتل کردیا تو آپ نے اْس کا خون رائیگاں قرار دیا۔
  • سیدنا عمر بن خطابؓ نے اپنے دور خلافت میں بحرین کے بشپ کی گستاخی پر اس کے قتل پر اظہارِ اطمینان کیا۔۔
  • عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے شخص کو قتل کیا جو آپ ﷺ کے فیصلے پر راضی نہیں تھا۔
(الصارم المسلول، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ)

ہمیں شخصی اذیت دینے والے اور آپ ﷺ کی رسالت پر زبان طعن دراز کرنے والوں میں بھی فرق کرنا ہو گا۔ جن لوگوں نے آپ کو جسمانی اذیت دی آپ ﷺ نے اپنی وسیع تر رحمت کی بنا پر ان کو معاف فرما دیا،
لیکن جو لوگ آپ ﷺ کے منصب رسالت پر حرف گیری کرتے تھے، اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے تھے، اْنہیں آپ ﷺ نے معاف نہیں کیا کیونکہ منصبِ رسالت میں یہ گستاخی دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پر زبان درازی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنا اور اپنے رسول مکرم ﷺ کا تذکرہ یکجا کیا ہے۔
پہلے دہشت گردی نے اسلام کے خوب صورت چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی، اب دانشور دہشت گردوں سے قوم کا پالا پڑا ہوا ہے،
اسلام کے خلاف تاریخ کی اس بدترین جنگ کے اندر امت کے عقیدے اور شریعت کا علم تھام کر میدان میں اترنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمیں ایسے موحد اور صالح دانشور وں کی ضرورت ہے جو نظریات کے اس عظیم ترین گھمسان اور تہذیبوں کے اس بے رحم ترین تصادم کے اندر امت کو اس کا ہاتھ پکڑ کر چلائیں، اور جو اِس بحر ظلمات کے اندر سے اس کیلئے راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھیں، اور جو ایک زیرک و مکار دشمن کے حربوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے اِس قوم کو علم اور فکر اور تدبیر اور بصیرت سے لیس کریں۔ اسلام دشمن قوتوں نے اپنے مقاصد کے لیے ہر طرف ہم پر "دانش وروں" کے غول چھوڑ دیے ہیں جو ہمارے اِس بچے کھچے نظریاتی وجود کو بڑی بے رحمی کے ساتھ بھنبھوڑ رہے ہیں، اس کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔

کچھ لکھاری کے بارے میں: ڈاکٹر رانا تنویر قاسم انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے اسلامک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں "مذاہب ثلاثہ میں امن اور جنگ کے تصورات" کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، تدریسی و صحافتی شعبوں سے برابر وابستہ ہیں، ایک ٹی وی چینل میں بطور اینکر بھی کام کر رہے ہیں۔

ح
 
Top