محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
امت کی تنظیم نو
آج امت مسلمہ اپنی وقعت کهو چکی ہے۔
اب یہ ایک امت نہیں رہی۔ یہ ایک ہجوم ہے بلکہ ایک بے ہنگم ہجوم۔
کسی ہجوم کو قوم یا امت میں بدلنے والا صرف ایک فرد ہوتا ہے جو قوم کی تربیت کرنے اور قوم کو صحیح راہ پر لگانے کیلئے اپنی دن رات ایک کرتا ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں میں آج ایسا کوئی مرد مؤمن مرد حق نہیں بلکہ صدیوں سے نہیں‘ اس لئے اس دور کو قحط الرجال کا دور کہا جاتا ہے۔
پچهلی صدی میں مسلمانوں میں جو بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے انہوں صرف آزادی کی جدوجہد کی اور ملک آزاد کرایا لیکن کسی نے ایک قوم یا ایک امت بنانے کی کوشش نہیں کی۔ لہذا مسلمانوں کو آزادی ملی، ملک آزاد ہوئے، پاکستان جیسے نئے ملک وجود میں آیا لیکن ایک قوم یا ایک امت نہیں بن پایا۔
ایک قوم یا ایک امت بنانے کیلئے ایک ایک فرد پر محنت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔
یاد کیجئے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے اوائل ایام کو کہ آپ ﷺنے کس طرح ایک ایک فرد کی تربیت کرنے کیلئے کتنی محنت کی‘ کیسی کیسی اذیتیں برداشت کئے ۔ پهر جب چند جلیل القدر صحابہ کرام مسلمان ہوئے تو انہوں نے کس طرح نبی کریم ﷺ کا ساتھ دیا اور بالآخر ایک امت تشکیل پائی جو دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ تهی ۔
ملک بنانا یا ملک آزاد کرانا آسان ہے بنسبت کوئی قوم یا کوئی امت بنانے کے۔ اگر ایک قوم یا ایک امت بن جائے تو ملک خود بخود وجود میں آجاتا ہے بلکہ پوری دنیا فتح کرنا ممکن ہو جاتا ہے ۔
ہر نبی نے اپنی قوم کو خطاب کیا اور بهٹکی، بگڑی اور بکهری ہوئی قوم کو منظم کرنے کا کام کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے مصر میں بنی اسرائیل کیلئے الگ ملک کا مطالبہ نہیں کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کوئی ملک بنانے کی جدوجہد نہیں کی۔ لیکن ان انبیا نے بنی اسرئیل اور عیسائی جیسی امت بنانے کا کام کیا اور پھر یہی امتیں پوری دنیا پر حکمرانی کی۔
ہمارے پیارے نبی ﷺکو مکہ میں بادشاہت کی آفر ملی لیکن آپ ﷺ ملک نہیں بلکہ امت بنانے آئے تهے، امت بنایا اور بادشاہ کے بجائے ہمیشہ کیلئے رحمت اللعالمین بن گئے‘ ساری دنیا کی بادشاہت جس کے سامنے ہیچ ہے۔
تاریخ میں جن لوگوں نے اس راز کو سمجها انہوں ملک بنانے یا آزاد کرانے کے بجائے قوم بنانے کو مقدم رکها۔ پھر قوم بنی اور دنیا میں چها گئی ۔
اس دور میں چین کا عظیم راہنما ’ماوزے تنگ‘ نے قوم بنانے کا کام کیا۔ 1949ء میں چین آزاد ہوا تو عوام عجیب کیفیت کا شکار تھی۔ 84 فیصد چینی افیون کے نشے کے عادی تھے۔ انہیں برطانیہ نے اس بیماری میں مبتلا کیا تھا۔ ماوزے تنگ جب راہنما بنا تو اس نے اپنی افیون کے نشے میں دهت قوم میں نئی روح ڈالنے کی فکر کی اور جدوجہد شروع کی ۔ اس نے انسانوں کے ایک لشکر کی قیادت کی اور چینی انقلاب کا موجب بن گیا۔ اس نے کہا: ’’ اگر آپ ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو گندم بوئیں۔ اگر 10 سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو ساتھ درخت بھی لگائیں۔ اگر صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی تربیت بھی کریں اور انہیں تعلیم بھی دیں‘‘۔
اپنے اس قول کے مطابق ماوزے تنگ نے چین میں اعلیٰ درجے کے یونیورسیٹیاں اور تعلیمی ادارے قائم کئے‘ جہاں سے اعلیٰ ترین چینی قیادت نکلی اور چین کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ نشے کے عادی چینی عوام ایک قوم بن گئی۔ آج چینی قوم ایک بڑی طاوت ہے اور پوری دنیا پر چھا جانے کے قریب ہے۔
یہودی راہنماؤں بھی اسی راہ پر گامزن رہے۔ ساری دنیا سے یہودیوں کو لا کر اسرئیل میں بسایا، ان کی تربیت کی اور یہودیوں کو ایک منظم قوم بنایا۔ آج یہودیوں کے ہاتهوں میں ساری دنیا کی معیشت ہے اور مسلم دنیا ان کی خوف سے لرزاں ہے ...
اور اسکی وجہ مسلمانوں میں کوئی ایسا راہنما پیدا نہیں ہوا جوبهٹکی، بگڑی اور بکهری ہوئی مسلمانوں کی اس بے ہنگم ہجوم کو ایک امت بنانے کا کام کرتا۔ اس کے برعکس مسلم راہنماؤں نے اپنی سیاست اور بادشاہت کی خاظر امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے اور امت کو کمزور کرنے کا کام کیا ۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ آج امت اپنی وقعت کھو چکی ہے اور سمندر کی جھاگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
دنیا میں حکمرانی کا راز قوم بنانے میں ہے ملک بنانے میں نہیں۔
ملک بن جائے یا آزاد ہو بھی جائے اور قوم نہ بنے تو غلامی ہی رہے گی‘ آزادی نہیں ملے گی ۔
یہی کچھ ہم اپنے ملک میں بلکہ تمام مسلم ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ آزادی کے ستر سال بعد بھی ہم غلام ہی ہیں۔
آج بهی کوئی اگر امت کی تقدیر بدلنا چاہتا ہے تو اسے نبی کریم ﷺ کی اُسوۂ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے بهٹکی، بگڑی اور بکهری ہوئی امت کو منظم کرنی ہوگی‘ امت میں نئی روح ڈالنی ہوگی۔ ایک ایک فرد پر محنت کرنی ہوگی۔ امت کی تربیت اسی طرح کرنی ہوگی جس طرح والدین اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں چیونکہ قوم کا لیڈر قوم کا باپ ہی ہوتا ہے۔
امت کیلئے درد دل رکهنے والے دعا کریں کہ اللہ تعالی اس امت میں کوئی ایسا مرد مومن پیدا کر دے جو اس امت کی تربیت کرے ‘ اسے منظم کرے اور دنیا میں اسے اس کا کھویا ہوا مقام دلانے کا کام کرے۔ آمین۔
ورنہ اس امت کا مستقبل بہت خوفناک ہے۔
تحریر: #محمد_اجمل_خان
آج امت مسلمہ اپنی وقعت کهو چکی ہے۔
اب یہ ایک امت نہیں رہی۔ یہ ایک ہجوم ہے بلکہ ایک بے ہنگم ہجوم۔
کسی ہجوم کو قوم یا امت میں بدلنے والا صرف ایک فرد ہوتا ہے جو قوم کی تربیت کرنے اور قوم کو صحیح راہ پر لگانے کیلئے اپنی دن رات ایک کرتا ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں میں آج ایسا کوئی مرد مؤمن مرد حق نہیں بلکہ صدیوں سے نہیں‘ اس لئے اس دور کو قحط الرجال کا دور کہا جاتا ہے۔
پچهلی صدی میں مسلمانوں میں جو بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے انہوں صرف آزادی کی جدوجہد کی اور ملک آزاد کرایا لیکن کسی نے ایک قوم یا ایک امت بنانے کی کوشش نہیں کی۔ لہذا مسلمانوں کو آزادی ملی، ملک آزاد ہوئے، پاکستان جیسے نئے ملک وجود میں آیا لیکن ایک قوم یا ایک امت نہیں بن پایا۔
ایک قوم یا ایک امت بنانے کیلئے ایک ایک فرد پر محنت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔
یاد کیجئے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے اوائل ایام کو کہ آپ ﷺنے کس طرح ایک ایک فرد کی تربیت کرنے کیلئے کتنی محنت کی‘ کیسی کیسی اذیتیں برداشت کئے ۔ پهر جب چند جلیل القدر صحابہ کرام مسلمان ہوئے تو انہوں نے کس طرح نبی کریم ﷺ کا ساتھ دیا اور بالآخر ایک امت تشکیل پائی جو دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ تهی ۔
ملک بنانا یا ملک آزاد کرانا آسان ہے بنسبت کوئی قوم یا کوئی امت بنانے کے۔ اگر ایک قوم یا ایک امت بن جائے تو ملک خود بخود وجود میں آجاتا ہے بلکہ پوری دنیا فتح کرنا ممکن ہو جاتا ہے ۔
ہر نبی نے اپنی قوم کو خطاب کیا اور بهٹکی، بگڑی اور بکهری ہوئی قوم کو منظم کرنے کا کام کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے مصر میں بنی اسرائیل کیلئے الگ ملک کا مطالبہ نہیں کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کوئی ملک بنانے کی جدوجہد نہیں کی۔ لیکن ان انبیا نے بنی اسرئیل اور عیسائی جیسی امت بنانے کا کام کیا اور پھر یہی امتیں پوری دنیا پر حکمرانی کی۔
ہمارے پیارے نبی ﷺکو مکہ میں بادشاہت کی آفر ملی لیکن آپ ﷺ ملک نہیں بلکہ امت بنانے آئے تهے، امت بنایا اور بادشاہ کے بجائے ہمیشہ کیلئے رحمت اللعالمین بن گئے‘ ساری دنیا کی بادشاہت جس کے سامنے ہیچ ہے۔
تاریخ میں جن لوگوں نے اس راز کو سمجها انہوں ملک بنانے یا آزاد کرانے کے بجائے قوم بنانے کو مقدم رکها۔ پھر قوم بنی اور دنیا میں چها گئی ۔
اس دور میں چین کا عظیم راہنما ’ماوزے تنگ‘ نے قوم بنانے کا کام کیا۔ 1949ء میں چین آزاد ہوا تو عوام عجیب کیفیت کا شکار تھی۔ 84 فیصد چینی افیون کے نشے کے عادی تھے۔ انہیں برطانیہ نے اس بیماری میں مبتلا کیا تھا۔ ماوزے تنگ جب راہنما بنا تو اس نے اپنی افیون کے نشے میں دهت قوم میں نئی روح ڈالنے کی فکر کی اور جدوجہد شروع کی ۔ اس نے انسانوں کے ایک لشکر کی قیادت کی اور چینی انقلاب کا موجب بن گیا۔ اس نے کہا: ’’ اگر آپ ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو گندم بوئیں۔ اگر 10 سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو ساتھ درخت بھی لگائیں۔ اگر صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی تربیت بھی کریں اور انہیں تعلیم بھی دیں‘‘۔
اپنے اس قول کے مطابق ماوزے تنگ نے چین میں اعلیٰ درجے کے یونیورسیٹیاں اور تعلیمی ادارے قائم کئے‘ جہاں سے اعلیٰ ترین چینی قیادت نکلی اور چین کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ نشے کے عادی چینی عوام ایک قوم بن گئی۔ آج چینی قوم ایک بڑی طاوت ہے اور پوری دنیا پر چھا جانے کے قریب ہے۔
یہودی راہنماؤں بھی اسی راہ پر گامزن رہے۔ ساری دنیا سے یہودیوں کو لا کر اسرئیل میں بسایا، ان کی تربیت کی اور یہودیوں کو ایک منظم قوم بنایا۔ آج یہودیوں کے ہاتهوں میں ساری دنیا کی معیشت ہے اور مسلم دنیا ان کی خوف سے لرزاں ہے ...
اور اسکی وجہ مسلمانوں میں کوئی ایسا راہنما پیدا نہیں ہوا جوبهٹکی، بگڑی اور بکهری ہوئی مسلمانوں کی اس بے ہنگم ہجوم کو ایک امت بنانے کا کام کرتا۔ اس کے برعکس مسلم راہنماؤں نے اپنی سیاست اور بادشاہت کی خاظر امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے اور امت کو کمزور کرنے کا کام کیا ۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ آج امت اپنی وقعت کھو چکی ہے اور سمندر کی جھاگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
دنیا میں حکمرانی کا راز قوم بنانے میں ہے ملک بنانے میں نہیں۔
ملک بن جائے یا آزاد ہو بھی جائے اور قوم نہ بنے تو غلامی ہی رہے گی‘ آزادی نہیں ملے گی ۔
یہی کچھ ہم اپنے ملک میں بلکہ تمام مسلم ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ آزادی کے ستر سال بعد بھی ہم غلام ہی ہیں۔
آج بهی کوئی اگر امت کی تقدیر بدلنا چاہتا ہے تو اسے نبی کریم ﷺ کی اُسوۂ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے بهٹکی، بگڑی اور بکهری ہوئی امت کو منظم کرنی ہوگی‘ امت میں نئی روح ڈالنی ہوگی۔ ایک ایک فرد پر محنت کرنی ہوگی۔ امت کی تربیت اسی طرح کرنی ہوگی جس طرح والدین اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں چیونکہ قوم کا لیڈر قوم کا باپ ہی ہوتا ہے۔
امت کیلئے درد دل رکهنے والے دعا کریں کہ اللہ تعالی اس امت میں کوئی ایسا مرد مومن پیدا کر دے جو اس امت کی تربیت کرے ‘ اسے منظم کرے اور دنیا میں اسے اس کا کھویا ہوا مقام دلانے کا کام کرے۔ آمین۔
ورنہ اس امت کا مستقبل بہت خوفناک ہے۔
تحریر: #محمد_اجمل_خان