ٹیلی گراف برطانیہ کا معروف اور سنجیدہ اخبار ہے۔ اس نے پاکستان کے المشہور مولوی صاحب کو ’’کنٹینر کلیرک ‘‘ (کنٹینر کا پروہت) کا خطاب دیا ہے۔ ایسے بڑے ادارے جب خطاب دیتے ہیں تو ساتھ میں کوئی سند اور ’’ٹرافی‘‘ وغیرہ بھی دیتے ہیں۔ اخبار کی خبر سے نہ تو یہ پتہ چلتا ہے کہ سنداور ٹرافی دی جائے گی یا نہیں اور نہ ہی ایسا کوئی اشارہ ہے کہ تقریبِ عطائے خطاب و سند کب ہوگی۔ یہ اندازہ بھی نہیں کہ وصولئ خطاب و سند کے لئے مولوی صاحب لندن خود تشریف لے جائیں گے یا اپنے ’’پروٹوکول افسر‘‘ المعروف بہ پرویز الٰہی کو بھیج دیں گے۔ ممکن ہے تب تک پرویز الٰہی پروٹوکول افسر سے ترقی کرکے مولوی صاحب کے ٹوپی بردار (Capkeeper) بن چکے ہوں۔ ٹوپی بردار کی ضرورت مولوی صاحب کو پڑتی رہتی ہے۔ خاص طور سے ہوائی سفر کے دوران کیونکہ وہ ہر چھ گھنٹے بعد ایک مختلف قسم کے ماڈل کی ٹوپی پہنتے یا بدلتے ہیں۔
خیر اصل مدّعا تو غائب ہوگیا جو یہ تھا کہ برطانیہ کے اخبار نے جو خطاب آج دیا ہے‘ وہ صاحبِ وغیرہ وغیرہ ڈیڑھ سال پہلے دے چکا ہے۔ برطانوی اخبار نے خطاب دیا تو دھوم مچ گئی لیکن جب اس پاکستانی اخبار نے یہ خطاب دیا تو کسی نے اعتراف نہیں کیا‘ الٹا تنقید ہوئی۔ ڈیڑھ برس پہلے اسی کالم میں انہیں ’’مولانا کنٹینر‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ کنٹینر کلیرک اسی کا انگریزی ترجمہ ہی توہے۔ تنقید یہ ہوئی کہ فون پر کئی قارئین نے ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ مولانا تو پڑھے لکھے آدمی کو کہتے ہیں۔ چنانچہ خطاب ترمیم کرکے مولوی کنٹینر کر دیا گیا لیکن اس پر بھی فون آگئے کہ اے بے علم کالم نویس‘ تمہیں اتنا بھی پتہ نہیں کہ مولوی بھی پڑھے لکھے آدمی کو کہتے ہیں۔(برسبیل تذکرہ‘ ایک وہ تھی مثنوی مولوی معنوی اور ایک یہ ہے‘ کنٹینرِ لایعنویِ مولوی۔)
صاحب وغیرہ وغیرہ نے اپنی بے علمی کا اعتراف کیا اور پوچھا ‘تو کیا لکھا جائے‘ جواب ملا ’’کنٹینر صاحب‘‘ کافی ہے۔ پوچھا ‘ آخر آپ کو کیوں شبہ ہے کہ زیرِ خطاب مولوی صاحب پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ جواب میں جو بتایا گیا وہ اگرچہ بتانے کے قابل نہیں ہے لیکن پھر بھی خلاصہ یہ ہے کہ مولوی صاحب کی جو پہلی ’’عالمانہ تصنیف‘‘ مشہور ہوئی‘ وہ دراصل مولانا برہان احمد فاروقیؒ کی کتاب کا ہوبہو چربہ تھی‘ بس مضامین کی ترتیب بدل دی گئی اور ہر مضمون کے شروع و اخیر کے فقرے آگے پیچھے کر دیئے گئے۔ مزید یہ کہ مولوی صاحب نے پوری زندگی میں ایک بھی کتاب نہیں لکھی۔ وہ کسی ’’شاگرد‘‘ کو ہدایت دے دیتے ہیں کہ فلاں موضوع پر کتاب لکھ دو‘ پھر وہ مولوی صاحب کے نام سے چھپ جاتی ہے حتیٰ کہ وہ شہرہ آفاق ’’فتویٰ‘‘ بھی انہوں نے خود نہیں لکھا‘ رینڈ کارپوریشن کے مستشرقین نے جو مسّودہ عطافرمایا‘ اسی کو اپنے نام سے جاری فرما دیا۔
بہرحال صاحبِ وغیرہ وغیرہ کو ان جملہ انکشافات پر’’ شک‘‘ ہے چنانچہ اسے حق ہے کہ وہ مولوی صاحب کو بدستور مولوی صاحب لکھتا رہے۔ عالم بالا اور عالم مزید بالا سے آنے والے ہدایت ناموں کو وہ اچھی طرح پڑھ لیتے ہیں اور سمجھ بھی لیتے ہیں اور عملدرآمد بھی کر لیتے ہیں‘ بے پڑھے لکھے تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس باب میں انہیں شک کا فائدہ دینا چاہئے اور مولوی صاحب کے قابل احترام خطاب سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔
ادھر چند دنوں سے میڈیا کا مولوی صاحب کے بارے میں رویہّ یکسر بدل گیا ہے۔ وہی کالم نگار اور کارٹونسٹ جو کل تک ان کا ڈنکا بجا رہے تھے‘ آج ان کا ’’ڈغا‘‘ بجا رہے ہیں اور وہ اینکر پرسن جو بتا رہے تھے کہ مولوی صاحب ’’لینن‘‘ سے بھی بڑا انقلاب بس لانے ہی والے ہیں اب دبے لفظوں میں مولوی صاحب کی ’’روشن دماغی ‘‘کو موضوع مزاح بنا رہے ہیں۔ کرم فرمائی میں اس تبدیلی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ کیا میڈیا کو ملنے والے اشارے بدل گئے (یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آٹھ دس سال کی آزادی کے بعد میڈیا پھر سے ’’قومی مفاد‘‘ کے تابع ہوگیا ہے ) شاید ایسا ہی ہو لیکن واقفانِ احوال کا کہنا ہے کہ میڈیا دراصل بتا رہا ہے کہ مولوی جی‘ پیسہ ہضم‘ کھیل ختم۔ نئے کھیل کے لئے پھر سے پیسے دینے ہوں گے۔لیکن مولوی صاحب کا ارادہ شاید مزید پیسے دینے کا نہیں بن رہا۔ چنانچہ انہوں نے لئی کے لالے اور مٹّی پاؤ بھائیوں کی درد بھری التجاؤں‘ منتوں‘ آہ و زاریوں‘ ترلوں اور واسطوں کے باوجود گرینڈ الائنس بنانے سے انکار کر دیا ہے (نومن تو کیا سو گرام تیل بھی نہیں مل رہا‘ رادھا بے چاری کیا کرے) اور کہا ہے کہ ہم حکومت کا تختہ الٹنے جا رہے ہیں نہ گرینڈ الائنس بنا رہے ہیں‘ فی الحال صرف سانحہ ماڈل ٹاؤن پر انصاف کے لئے آل پارٹیز کانفرنس بلالی ہے‘ اسی پر گزارا کرو۔ چنانچہ کوئی تماشا ہونے نہیں جا رہا۔ اور چونکہ کوئی تماشا ہی نہیں ہونا تو اورپیسہ کیوں دوں؟ ۔’’انقلابی اینکر پرسنز‘‘ کواپنی تمنّائے ہل من مزید سے فی الحال دستبردار ہونا ہی پڑے گا۔
کہا جاتا ہے کہ گرینڈ الائنس کی وفاتِ قبل از پیدائش کی وجہ عمران خان کا روّیہ بھی ہے۔ وہ اپنا نام ایک کروڑ نمازیوں کی اس فہرست میں شامل نہیں کرانا چاہتے جس میں ابھی تک صرف تین نمازیوں کا اندراج ہی ہو سکا ہے۔ نمازی نمبر ایک شجاعت‘ نمازی نمبردوپرویز اور نمازی نمبر تین شیخ رشید‘ عمران بھی آجاتے تو نمازیوں کی تعداد چار ہو جاتی جو ’’جنازۂ انقلاب‘‘ کیلئے مطلوب افراد کی کم از کم تعداد ہوتی۔ اس لئے جنازہ ملتوی پڑا ہے۔ ویسے مولوی صاحب اگر غور فرمائیں تو ایک پایہ خالی چھوڑ کر بھی جنازے کی چارپائی اٹھائی جا سکتی ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کیا کہیں گے۔ یہی کہیں گے کہ دیکھو‘ جنازے کی تین پائی جارہی ہے۔ مولوی صاحب بے فکر ہو کر اس جلوس جنازہ کی قیادت کر سکتے ہیں بلکہ چاہیں تو چارپائی (یا تین پائی) پر استراحت بھی فرما سکتے ہیں۔ لئی کے لالے نے مشرف کے آٹھ سال اتنا تو کھایا ہی ہوگا کہ اکیلے ہی چار پائی سر پر اٹھا کر لے جا سکے۔آخر بارہ من کے اس ڈھولے کا کوئی مصرف تو ہونا چاہئے۔ یہ تو ایک وجہ ہوئی‘ دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پس پردہ خفیہ ہاتھ کا مقصد حکومت کا تختہ الٹنا نہیں تھا۔ اس کے مقاصد کچھ اور تھے جو حاصل کر لئے گئے۔ مثلاًایک یہ کہ حکومت کو دباؤ میں رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ معیشت کی بحالی کیلئے نواز شریف کی ’’سازشوں‘‘ کو ناکام بنا دیا جائے۔ تیسرا کراچی میں جشن ہائے مرگ انبوہ کا احیاء‘چوتھا یہ کہ ڈالر کا وقار بحال کیا جائے۔ اب دیکھ لیجئے‘ سات لاکھ سے زیادہ قبائلی( اقوام متحدہ کی رپورٹ ہے کہ یہ گنتی 15لاکھ تک پہنچ جائے گی (نوائے وقت5جون))ویرانوں میں اٹھا پھینکے گئے ہیں۔ ان کا بوجھ حکومت کیسے اٹھائے گی۔ باہر سے جو سرمایہ کاری آرہی ہے‘ وہ ساری ان جلا وطنوں پر لگے تو بھی کم پڑے گی۔ افغان مہاجروں کا بوجھ ساری دنیا نے مل کر اٹھایا تھا۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ حکومت سات (یا پندرہ) لاکھ افراد کو بھوکوں مار دے۔ چنانچہ معیشت کی فاتحہ تو پیشگی پڑھ لی جائے (کیا ہی بہتر ہو‘ یہ فاتحہ مولوی صاحب منہاج ہاؤس میں پڑھیں اور ٹی وی اسے لائیو دکھائے) اور ’’حسن اتفاق‘‘ دیکھئے‘ ’’جلا وطنوں‘‘ کی امداد کیلئے آگے بڑھنے والی جماعت الدعوۃ اور اس کے امدادی ٹرسٹ کو امریکہ نے کس وقت دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اب اس کے خلاف آپریشن کا مطالبہ بھی ہوگا۔ پاکستان شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے امریکی دباؤ کی مزاحمت نہیں کرسکا‘نئے حکم کی کیسے کرے گا۔خبریں ہیں کہ ’’جلا وطنوں‘‘ کے بچوں کو72گھنٹوں تک پانی کا گھونٹ ملا نہ خوراک کا ذرّہ۔اور وہ مسلسل موت کے منہ میں جا رہے ہیں کیا کیا جائے۔ع
یہی مرضی مرے آقا و صیّاد کی ہے
جلا وطنوں پر جو قیامت ٹوٹ رہی ہے‘ اس میں کوئی کشش نہیں‘ اس لئے کوئی بھی چینل ان کے بارے میں کچھ دکھا رہا ہے اور نہ بتا رہا ہے۔ اور نہ اخبارات پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ کوئی المیہ ہو رہا ہے۔ (کمال حیرت‘ نظریہ پاکستان کے ترجمان اخبار کی نظر سے بھی یہ کربلا اوجھل ہے‘ دوسروں سے کیا شکوہ کیجئے)۔جو شے دکھانے والی تھی اور بتانے والی تھی‘ وہ فی الحال خود ہی دستبردارِ تماشا ہوگئی ہے۔ فی الحال یہی ہو سکتا ہے کہ ٹی وی چینل بھارتی ناریوں کے نیم عریاں جسم دکھانے کا دورانیہ دوگنا کر دیںیہ وہ شے ہے جو ’’قومی مفاد‘‘ کے ہرگز منافی نہیں! (عبداللہ طارق سہیل کا کالم)