• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امریکہ میں لگی آگ سے امت مسلمہ کے نام دس پیغام

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
بسم اللہ الرحمن الرحیم

امریکہ میں لگی آگ سے

امت مسلمہ کے نام دس پیغام​



ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی


الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:

محترم سامعین!

آج کل سوشل میڈیا ہویاپھر الیکٹرانک میڈیا ہویا پھر پرنٹ میڈیا ہرجگہ اورہرکس وناکس کی زبان پر بس امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں لگی ہوئی آگ کا تذکرہ ہورہاہے،ہرکوئی یہ سوچنے پرمجبور ہورہاہے کہ بالآخر اتنی تیزوتندآگ لگی تو لگی کیسے؟یہ کیسے ہوا؟اتنا خوبصورت شہر کیسے برباد ہوگیا؟امریکہ جوہرہمیشہ دنیا کے سامنے میں اپنے آپ کو سوپرپاور باور کراتارہتاہے کیااسے اس بات کی کانوں کان خبرنہ تھی اور نہ ہوئی کہ شہر میں آگ لگنے والی ہے؟تو اسی مناسبت سے آج کے خطبۂ جمعہ کا عنوان ہے ’’ امریکہ میں لگی آگ سے امت مسلمہ کے نام دس پیغام ‘‘

میرے دوستو!آئیے سب سے پہلےامریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے بارے میں کچھ باتیں جانتے ہیں!لاس اینجلس یہ بالکل سمندر کے کنارے پہاڑی کے دامن میں آباد دنیا کی خوبصورت ترین جگہوں میں سےایک امریکہ کاشہر ہے،لاس اینجلس یہ آبادی کے لحاظ سے امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، یہی وہ شہر ہے جہاں ہمیشہ زائرین کاآنا جانا لگا رہتاتھا اور یہی لاس اینجلس وہ شہر ہے جس سے امریکہ کی بہت زیادہ کمائی بھی ہوتی تھی،یہی لاس اینجلس وہ شہر ہے جہاں ہالی ووڈ فلمی اداکاروں،بڑے بڑے رئیسوں اور امیروں کے بنگلے بھی تھےاور امریکہ کو اس شہر کی خوبصورتی وآمدنی پر بہت ناز بھی تھا اور اس کی خوبصورتی کے مدنظر ہی اس شہر کا نام رکھا گیا تھا لاس اینجلس،جس کا معنی ہوتاہے فرشتوں کی ملکہ یا پھر فرشتوں کا شہر، یہ نام اس شہر کی خوبصورتی پررکھا گیاتھا،مگر آپ یہ یقین جانئے کہ ان لوگوں نے نام تو فرشتوں کا شہر رکھا تھا مگر ان کے سارے کام شیطانوں والے تھے، یہ لاس اینجلس ہی وہ شہر ہے جہاں دن رات،ہروقت اور ہرآن وہرلمحہ برائیوں عروج پر رہاکرتی تھیں،اس روئے زمین پر کون سی ایسی برائی ہے جو اس شہر میں موجود نہ ہو،ہروقت سمندر کے لب زنا ،شراب وکباب،فحاشی وعرنیت اوررقص وسرور کی محفلیں سجی رہتی تھیں یہ توامریکہ کے ایک شہر لاس اینجلس کی بات ہوئی اب ذرا امریکہ کی کارستانیاں بھی سن لیں کہ یہی وہ امریکہ ملک ہے جس نے 6 اور 9 اگست 1945 کے دن جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا تھا،جس سے دیکھتے ہی دیکھتے 2 سے 3 لاکھ لوگوں کی جانیں گئیں تھیں اور اس ایٹمی بمباری کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے معصوم لوگوں کے جسموں سے گوشت پگھلنے لگا تھا، اسی بمباری کی وجہ سے آج بھی اگر ہیروشیما یا ناگاساکی میں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی خلقی نقص ضرورپایا جاتا ہے، آج بھی اس دن کو تاریخ کا سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے اور ہرانسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا ایسےظالم وبے رحم انسان بھی ہو تے ہیں جو لاکھوں بے گناہ لوگوں کی جان منٹوں میں لے لیتا ہے،یہی وہ امریکہ ملک ہے جس نے افغانستان پر حملہ کیا،یہی وہ امریکہ ملک ہے جس نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی،یہی وہ امریکہ ملک ہے جس نےلیبیا کو بھی تہس نہس کیا تھا،یہی وہ امریکہ ہے جس نےمسلم ممالک میں خانہ جنگیاں کرائی اور مسلم ممالک کو آپس میں لڑا کر دونوں کو ہتھیار فراہم کئے ،یہی وہ امریکہ ہے جو جگہ جگہ پراور بالخصوص مسلم ممالک میں حکومت اور عوام کے درمیان تصادم کراکراپنے ہمنواؤں اور اپنے حلیفوں کو ملک کی گدی پر بیٹھا دیتاہے اور پھر بے قصور عوام کا قتل عام کراتی ہے،ایک رپورٹ کے مطابق 1947 سے 1989 کے دوران امریکہ نے 72 حکومتوں کو بدلنے کی کوشش کی،وکی لیکس کے مطابق ان میں سے 66 آپریشن خفیہ تھے جب کہ چھ ایسے تھے جہاں امریکہ نے سرعام حکومتیں گرانے کی کوشش کی اور 72 میں سے 26 حکومتوں کو بدلنے میں امریکہ کو کامیابی ملی،یہی وہ امریکہ ہے جس کے بم وبارود اور ایٹمی ہتھیاروں ومیزائلوں سے نہ جانے اب تک جگہ جگہ پرکتنے اربوں اور کھربوں کی تعداد میں لوگ مرے،بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں، یہی وہ امریکہ ہے جو ہمیشہ بدبخت ازرائیل(اسرائیل) کی مدد کرتارہتاہےاور ازرائیل کو اپنا ہتھیار ومیزائل وغیرہ بھی فلسطینی مسلمانوں پر برسانے کے لئے مہیاکرتارہاہے،یہی وہ امریکہ ہےجس نے جگہ جگہ پر پچھلے کچھ دہائیویں سے ظلم وستم کا بازار گرم کررکھا تھا،ابھی کچھ دن پہلے اسی مہینے 9/جنوری کو اردو اخبار سہارا کے صفحہ 12 پر ٹرمپ میاں امریکہ کے صدر نے حماس کے آڑ میں اپنا یہ منصوبہ علی الاعلان ظاہر کیاتھا کہ اگر حماس نے قیدیوں کورہا نہ کیا تو ہم پوری عرب دنیا اور مسلم ممالک کو تہس نہس کردیں گے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گےاور ان کا جملہ تھا کہ میری حلف برداری سے پہلے پہلے اگر حماس نے قیدیوں کو رہا نہیں کیا تو میں مشرق وسطی یعنی عرب ممالک کو جہنم بنادوں گا،غرضیکہ کہ امریکہ پوری دنیا میں اپنی سوپرپاوری کا اظہار کرتے پھر رہاتھا کہ دیکھو ہم جس ملک کو چاہیں برباد کردیں اور جس ملک کو چاہیں چھوڑ دیں،ہمارے پاس ایسے ایسے اسلحے ومیزائل اور ایٹمی ہتھیار ہیں ، جو کسی اور ملک کے پاس نہیں ہیں ،ہمارے پاس یہ طاقت ہے ،ہمارے پاس وہ طاقت ہے،امریکہ اپنی طاقت کے نشے میں چور ہورہاتھا کہ اللہ رب العزت نے اس امریکہ کو اس کی اوقات بتادی وہ اس طرح سےکہ 7/ جنوری 2025 کے دن اس امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں آگ کی شروعات ہوئی ،اللہ اکبر! یہ آگ کیا تھی نہ پوچھو! دیکھتے دیکھتے پوری شہر لاس اینجلس میں پھیل گئی اور ایک خوبصورت شہرجل کر راکھ ہوگیا،آپ نے دیکھا ہوگا کہ جدید سے جدید ترین آلات بھی اس آگ کو قابو نہ کرسکے اور نہ ہی بجھا سکے،سارے اسلحے اس آگ کے سامنے میں کمزوروماند پڑگئے،آگ بجھانے والی کیمیکلس اور پانی سے بھرے ہیلی کاپٹر وجہاز وغیرہ بھی اس آگ کو بجھانے سے قاصر رہے بلکہ شہر کا سارا کا سارا پانی بھی ختم ہوگیا مگر یہ آگ ایسی تھی جو بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ،اور بجھے گی بھی کیسے ؟یہ تو اللہ کی ایک ایسی سلگائی ہوئی آگ تھی جو ان کے کرتوتوں اور کالے کارناموں کی وجہ سے ان کے اوپر مسلط کی گئی تھی اور لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ قدرت کے قہر کے سامنے امریکہ بے بس ہوگیا،اس کی ساری ہیکڑی نکل گئی،اس کا انا فنا ہوگیا،بڑا اپنا سوپرپاوری کا اعلان کرتے پھررہاتھا ،اسے اپنے اسلحے اور جدید مشینری وآلات پر بڑا ناز تھا ،سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آگ کو قابو نہ کرسکا،اور وہ آگ کو قابو میں کرتا بھی کیسے ؟ یہ آگ نہیں بلکہ یہ تو اس کے ظلموں کی سزا تھی جو رب کے طرف سے مسلط کی گئی تھی،جو 60 سے 120 /130/160کیلومیٹر تیرز رفتار ہوا کے ساتھ پھیلتی گئی اور پورے شہر کو خاکستر کردیا،اب ساری دنيا يه سوچ رہی ہے کہ یہ آگ کیسے لگی اور کیوں لگی؟مگر میں آج کے خطبۂ جمعہ میں آپ کو نہ تویہ بتانا چاہتاہوں کہ یہ آگ کیسے لگی اور نہ ہی ہمیں اس سے کوئی مطلب ہے کہ یہ آگ کیوں لگی؟کیسے لگی؟خود بخود لگی یا پھر اس کے پیچھے امریکہ کی کوئی سازش ہے؟اور نہ ہی یہ بتاؤں گا کہ اس آگ سے امریکہ کا کتناخسارہ ونقصان ہوا ہے،ہمیں اس سے کیا مطلب اور کیا سروکار !اور نہ ہی اس سب سے ہمارا کچھ فائدہ ہے!ہم تو مسلمان ہے اوراس کائنات کے رب نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ہر ایک چیز سےعبرت ونصیحت حاصل کریں اور اپنی اصلاح کریں،بحیثیت مسلمان میں تو یہ کہوں گا کہ لاس اینجلس میں جو آگ لگی وہ آگ نہیں تھی بلکہ وہ تو اللہ کا عذاب تھا اور اللہ کی سلگائی ہوئی آگ تھی،اب آپ کے ذہن ودماغ میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ یہ عذاب کیسے ہوا ؟تو اس کا جواب بھی سن ہی لیجئے،میں اس آگ کو تین باتوں کی وجہ سے اللہ کا عذاب کہہ رہاہوں :

(1)نمبر ایک اگر یہ معمولی آگ ہوتی تو امریکہ اس پر قابو پالیتا تھا کیونکہ اس کے پاس آگ بجھانے کے جدید سے جدید ترین آلات ومشینری موجود تھے،مگر دنیا جانتی ہے کہ انتھک کوششوں کے باوجود بھی امریکہ اس آگ کو نہ بجھا سکا جو اس بات کا ثبوت ہے یہ آگ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ تھی جو امریکہ کے ظلم وستم کے بدلے ان کے اوپر مسلط کی گئی تھی ۔

(2) اور نمبر دو یہ کہ ذرا سوچئے کہ یہ آگ امریکہ میں کب لگی ہے اور کس موسم میں لگی ہے؟ آپ یہ جان کر حیران وششدر رہ جائیں گے کہ یہ آگ موسم سرما میں لگی ہے،جہاں ایک طرف امریکہ میں آگ لگی ہے وہیں دوسری طرف امریکہ کے بعض علاقوں میں سردی کا یہ عالم ہے کہ زودار برف باری ہورہی ہے ،ایک طرف لوگ آگ کے عذاب کو جھیل رہے ہیں تو دوسری طرف ٹھنڈ کے عذاب کو جھیل رہے ہیں ۔

(3) اورنمبر تین یہ آگ اللہ کی سلگائی ہوئی اس لئے بھی ہے کہ اس آگ کو مزید بھڑکانے والی ایک تیز وتند ہوا بھی 60 سے لے کر 100/120/130/160 کیلو میڑتیزی کے ساتھ چل رہی تھی جس کا نتیجہ یہ رہا کہ کچھ ہی لمحوں میں پورے شہر لاس اینجلس میں آگ پھیل گئی اور قرآن نے ہمیں اس بات کی جانکاری بھی دی ہے کہ پچھلے زمانے میں ایک قوم کے اوپر بھی اسی طرح سے رب العزت نے ہوا کا عذاب بھیجا تھا،آئیے قرآن کی زبانی سنتے ہیں کہ اس ہوا نے اس قوم کے ساتھ کیا کیا؟فرمان باری تعالی ’’ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ‘‘ اور قوم عاد بے حد تیز وتند ہوا سے غارت کردئے گئے،’’ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ‘‘جسے ان کے اوپر لگاتار سات رات اور آٹھ دن تک مسلط رکھا پس تم دیکھتے کہ یہ لوگ زمین پر اس طرح گر گئے جیسے کہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں،’’ فَهَلْ تَرَى لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ ‘‘کیا ان میں سے کوئی بھی تجھے باقی نظر آرہاہے۔(الحاقۃ:6-8)

میرے دوستو!غور کیجئے کہ رب العزت نے جو ہوا قوم عاد کے اوپربھیجی اس کے نتیجے کا یہ اعلان کیا کہ اس ہوا نے کسی کو نہ چھوڑا اورپوری قوم عاد کو بالکل ہی تہس نہس کرکے رکھ دیا تھا ٹھیک اسی طرح سے اس ہوا و آگ نے بھی لاس اینجلس شہرکو تہس نہس کرکےرکھ دیا ہے،آپ نےسوشل میڈیا کے ذریعے آگ لگنے سے پہلے شہر لاس اینجلس کا خوبصورت ترین نظارہ اور آگ کے جلنے کے بعد شہر لاس اینجلس کا ویران وبرباد نظارہ ضرور دیکھا ہوگاکہ کس طرح سے اس آگ نے شہر کی خوبصورتی کو تہس نہس کرکے بدصورتی سے بدل دیا اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں کوئی شہر نہیں بلکہ کوئی ویران وجنگل کی جگہ ہے جہاں آگ لگ گئی تھی،جس طر ح سے اس ہوا نے قوم عاد کو نہیں چھوڑا تھاٹھیک اسی طرح سے اس ہوا وآگ نے بھی امریکہ کی ایسی کمر توڑ کےرکھ دی ہے کہ اب اس شہر لاس اینجلس کے لواحقین کے حصےمیں سوائے غم وماتم کےاورکچھ نہیں ہے،جو دوسروں کے گھروں کو جلانے کے خواہشمند تھے رب العزت نے خود انہیں کے گھروں میں آگ لگا دی اور ’’ فَأَتاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ‘‘ ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا۔(الحشر:2)اورمسٹر بائیڈن یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ امریکہ میں یودھ یعنی جنگ جیسے حالات ہیں،کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

لکھتا ہے وہی ہر بشر کی تقدیر

وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

میرے دوستو!اس آگ کی کیفیت وحقیقت کو سمجھنے کے بعد اب آئیے میں آپ کو اس امریکہ میں لگی آگ کے ذریعے دس اہم اہم پیغام دے کر آپ کے ایمان کو جھنجھوڑنا چاہتاہوں اور اس کے ذریعے آپ کے بوسیدہ پڑے ایمان کو منورکرنا چاہتاہوں اورآپ کو یہ بتانا چاہتاہوں کہ وقت وحالات اور واقعات سے ہم مزے نہ لیں بلکہ ہم اس طرح کے ہونے والے واقعات سےکچھ سبق سیکھیں اوراپنی اصلاح کرکے اپنی دنیا وآخرت کو سنواریں،کیا آپ نے رب کا یہ فرمان نہیں سنا کہ ’’ فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ ‘‘اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔(الحشر:2)

(1)ایک دوسرے کے اوپر ظلم کرنے سے باز آ جاؤ!

میرے دوستو! امریکہ میں لگی آگ کا سب سے بڑا اہم پیغام یہ ہے کہ کوئی کسی کے اوپر ظلم نہ کرے،کوئی حکومت کسی حکومت کے اوپر ظلم نہ کرے،کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اوپر ظلم نہ کرے،کوئی حکومت کسی عوام کے اوپر ظلم نہ کرے کیونکہ جب ظلم حد سے گذرتاہے تو قدرت کو جلال آتا ہے اور پھر وہی ہوتاہے جو لاس اینجلس میں ہوا ،آپ یقین جانئے کہ یہ آگ نہیں بلکہ یہ تو اس کے ظلموں کی سزا تھی جو ان کے اوپر مسلط کی گئی تھی،ابھی آپ نے سنا کہ امریکہ نے کتناظلم برپا کررکھا تھا،امریکہ یہ سوچ رہاتھا کہ اس کے سوپرپاوری کے سامنے کون ٹکے گا؟اس کے ظلم کے خلاف کون کھڑا ہوگا؟اس کے خلاف کون اٹھے گا اور اس کے کئے گئے ظلم وستم کا حساب ان سے کون لے گا؟مگر وہ یہ بھول رہا تھا کہ ساری دنیا ظالموں کی حرکت کو بھول سکتی ہے مگر ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ بھی تو ہے جو ہرظالم کے ہرظلم وستم کو یاد رکھتا ہے ،فرمان باری تعالی ہے!’’ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ‘‘ ظالموں کے حرکات وافعال سے اللہ کو غافل نہ سمجھنا۔(ابراہیم:42)یقیناً اللہ رب العزت ظالموں کے کسی بھی ظلم سےنہ تو بےخبر ہوتاہے اور نہ ہی کبھی کسی ظالم کو چھوڑتا ہے مگر اللہ رب العزت اپنی حکمت کے تحت جب ظالموں کو ڈھیل دیتاہے اور فوری طور پر اس کی پکڑ نہیں کرتاہے تو ظالم اسے کچھ اور ہی سمجھ لیتا ہے،دنیا کا ہرظالم قدرت کا یہ قانون اور اللہ رب العزت کا یہ اٹل فیصلہ جان لیں کہ ظالموں کو کچھ دنوں یا مہینوں یا پھر سالوں تک کے لئے مہلت تو دی جاتی ہے مگر جب ان کی پکڑ کی جاتی ہے تو اسے مہلت نہیں دی جاتی ہےجیسا کہ رحمۃ للعالمینﷺ نے یہ کہا کہ ’’ إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ ‘‘ بے شک کہ اللہ رب العزت ظالموں کو چند روز مہلت دیتارہتاہے لیکن جب اس کی پکڑ کرتاہے تو اسے چھوڑتا نہیں ہے،پھر آپﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ ’’ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ ‘‘ تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے ،بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے۔ (ھود:102)۔بخاری:4686،مسلم:6581)سنا آپ نےکہ ہرظالم کی جب پکڑ کی جاتی ہے تو اسے مہلت بالکل بھی نہیں دی جاتی ہے،پھر اس کی ساری کی ساری چالاکیاں اور جدید سے جدید ترین آلات و ٹکنالوجی یہ سب کے سب فیل وناکام ہوجاتی ہیں،اس آیت کی جیتی جاگتی مثال یہی امریکہ میں لگی آگ ہے،آپ نے دیکھا نہیں کہ لاس اینجلس میں جب آگ لگی تو امریکہ ساری طاقت وتوانائی جھونکنے اور تمام جدید سے جدید آگ بجھانے والے آلات ومشینری رکھنے اور پھر بروقت اس کے استعمال کے باوجودبھی اس پر قابونہ پاسکا ،یہی ہوتا ظالموں کا انجام کہ جب اس کی پکڑ کی جاتی ہے تو اسے بالکل بھی مہلت نہیں دی جاتی ہے،اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہاں عوام کے گھرومکانات جلے اورعوام ہی کا زیادہ نقصان ہوا اس میں عوام کی کیا غلطی تھی ؟ظلم تو حکمرانوں نے کیا تھاتو اس کا جواب بھی رب نے برسوں پہلےاپنے کلام پاک میں دے دیا ہے کہ ظالموں کی جو مدد کرے گا اور ظالموں کی جو پیٹھ تھپتھپائے گا تووہ بھی ظالم شمار ہوگا اور اس کا بھی انجام ظالموں جیسا ہوگا ،فرمان باری تعالی ہے ’’ وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ ‘‘ دیکھو ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکنا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی ) آگ لگ جائے گی اور اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی مددگار نہ ہوگا اور نہ تم مدد کئے جاؤگے۔(ھود:113)سنا آپ نے کہ جو ظالموں کی مدد کرتاہے اس کی بھی کسی طرح سے کوئی مدد نہ کی جاتی ہے اور یہی تو ہوا لاس اینجلس میں کہ آگ ایسی لگی کہ اس آگ نے کسی کے بھی گھر ومکان اور بنگلے کو نہ چھوڑااور نہ ہی یہ آگ بجھائی جا سکی، یہ ہوتا ہے ظالم اور ظالموں کا ساتھ دینے والوں کا انجام،سچ فرمایا رب العزت نے کہ ’’ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ ‘‘اور ظالموں کی کوئی مدد نہیں کی جاتی ہے۔(البقرۃ:270) امریکہ میں لگی آگ سے ہرظالم یہ سبق سیکھ لے کہ ظلم وزیادتی کا انجام بہت بھیانک اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔

(2) اے لوگو !برائیوں کو پھیلانے سے باز آجاؤ:

میرے دوستو!لاس اینجلس میں لگی آگ سے ایک سب سے بڑا سبق ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں برائیوں اور بے حیائیوں کو پھیلاتے ہیں ان کو اسی طرح سےسزائیں دی جاتی ہیں ،آپ نے یہ ضرور سنا ہوگا کہ لاس اینجلس میں لگی آگ نے ہالی ووڈ کی آفس اور ہالی ووڈکے فلمی ستاروں کے عالیشان بنگلوں اور جائدادوں کو جلا کر بھسم کردیا ،یہ وہی لوگ ہیں جوفیشن اور آزادی کے نام پر پوری دنیا میں برسوں سےبے حیائی کو پھیلاتے آ رہے ہیں ، پوری دنیا میں انہوں نے آزادی کے نام پر زنا وشراب نوشی کو عام کیا ،ان لوگوں نے ہی گندی گندی فلمیں بنائی،آپ کو یہ جان کر بڑی حیرانی ہوگی کہ سب سے زیادہ فحش وگندی فلمیں اسی ملک امریکہ میں بنتی اور دیکھی جاتی ہیں ،ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ فحش فلمیں دیکھنے والا ملک یہی امریکہ ہے ،دوسرے استھان پر برطانیہ اور تیسرے نمبر پر ہمارا بھارت ،چوتھے نمبر پر کینیڈا اور پانچویں نمبر پر جرمنی ملک ہے،2015 کی گوگل رپورٹ کے مطابق بھارت میں روزانہ چھ کروڑ اور پڑوس ملک میں روزانہ نوے لاکھ لوگ فحش ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں،استغفر اللہ۔سوچئے کہ ان گورے گورے انگریزبدبختوں نے دنیا بھر میں کتنی بے حیائی پھیلا رکھی ہے اور لوگوں کو بے حیائی کے کس موڑ پر لاکر رکھ دیا ہے،یہ تو 2015 کی بات اب تو 2025 ہے ان بیتے دس سالوں میں کتنا اضافہ ہوا ہوگا،اللہ کی پناہ !!الغرض ہالی ووڈ یہ برائیوں کا مرکز ہے اور یہی وہ مرکز ہے جو سب سے زیادہ بے حیائی پھیلانے پر آسکر ایوارڈ سے نوازتاہے،یہی وہ ہالی ووڈ ہے جو ہرگندی وفحش فلموں کی پرمیشن دیتاہے، اورتو اور ہے لاس اینجلس شہر کے سمندر کے کنارے بیچ پر کیا کچھ نہیں ہوتا تھا،کون سی ایسی برائی نہ تھی جس کو فیشن وآزادی کے نام پر سرعام نہ کی جاتی تھی،اور اسی برائی وبے حیائی نے شہر لاس اینجلس کو تباہ وبرباد کرکے راکھ کا ڈھیر بنادیا ،اب سنئے رب العزت کا وہ وعدہ جو رب العزت نے برائیوں کے پھیلانے والے سے کیا ہےاورجیسا رب نے کہا ہے ویسا ہی تو برائیوں وبے حیائیوں کو پھیلانے والوں کے ساتھ ہوا ہے ،فرمان باری تعالی ہے کہ ’’ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‘‘جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں،اللہ سب کچھ جانتاہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔(النور:19)سنا آپ نے کہ اللہ رب العزت نے برائیوں اور بے حیائیوں کو پھیلانے والوں سے کیا وعدہ کیا کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں تکلیف دہ سزاؤں اور عذابوں سے دوچار کیا جائے گا،اور یقیناً اللہ رب العزت نے جیسا کہاہے ویسا ہی کچھ منظر ہمیں نظر آرہاہے کہ لوگ اپنے اپنے گھرومکانات کو جلتے دیکھ کر روتے اور بلکتے نظر آئے،ہالی ووڈ کا ایک ہیرو جیمس ووڈ بھی روتا اور بلکتا نظر آیا کیونکہ اس کا گھرومکان بھی اس آگ میں جل کر راکھ ہوگیا،یقیناً برائیوں کے اس سمندر میں باری تعالی نے ایسی آگ لگائی کہ ان کے گھر ومکانات ،زمین وجائداد جل کر راکھ ہوگئے اور ابھی تک جل رہے ہیں، ان کی کئی اربوں اور کھربوں کی جائداد جل گئیں اور دنیا میں اس بڑی سزا اور کیا ہوسکتی ہے ؟یہ تو ان کے لئے دنیا کا ایک معمولی عذاب ہے ورنہ ابھی تو ان کے لئے آخرت کی سزا اور جہنم کی آگ باقی ہے،کیا خوب کہا ہے باری تعالی نے کہ ’’ لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ وَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ ‘‘ ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی زیادہ سخت ہے اور انہیں اللہ کے غضب سے بچانے والا کوئی بھی نہیں۔(الرعد:34)اس لئے میرے دوستو!اور اے دنیا کے لوگو!اس آگ سے سبق سیکھو اور سماج ومعاشرے میں برائیوں اور بے حیائیوں کو نہ پھیلاؤ ورنہ تم بھی کسی نہ کسی شکل میں قدرت کےعذاب اور قہرالٰہی کے شکار ہوجاؤگے۔

(3)اے لوگو!دوبڑے بڑے گناہوں سے باز آ جاؤ!

میرے دوستو! ابھی آپ نے یہ سنا کہ امریکہ میں برائیاں کتنی زور وشور پرتھی جس کے وجہ سے ہی وہ عذاب الٰہی کے شکار ہوئے،اسی تمام برائیوں میں سے دوبرائی اور دو گناہ ایسےبھی ہیں کہ یہ گناہ جس ملک یا پھر جس قوم میں بھی عام ہوجائے وہاں قدرت کاعذاب ضرور آتاہے،اور وہ دو گناہ ہیں زنا اور سود،یقیناً امریکہ میں یہ زنا بھی عام ہے اور سود بھی عام ہےبلکہ زنا اور سود کو وہاں کے لوگ تو کوئی جرم ہی تصور نہیں کرتے ہیں،بلکہ اسے آزادی وفیشن کے نام پر انجام دیا جاتاہے،آپ کو یہ جان کر بڑی حیرت ہوگی کہ ساری دنیا میں امریکہ ہی وہ ملک ہے جہاں پر ریپ سب سے زیادہ ہوتاہے،ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہرچھ میں ایک خاتون ریپ کا شکار ہوچکی ہے،صرف یہی نہیں بلکہ مغربی کلچر یعنی یوروپ وامریکہ میں نکاح کو تو ایک بوجھ سمجھا جاتاہےاور ان مغربی ممالک میں بغیرنکاح کے عورت،مرد کا ایک ساتھ رہنایہ قانوناً جائز ہے،اور ان مغربی ممالک میں بغیرنکاح کے بچے پیدا کرنا یہ کوئی جرم بھی نہیں ہے بلکہ اس پر فخر محسوس کیا جاتاہے،زناکی وجہ سے بچے کی پیدائش کی تعداد بھی امریکہ میں سب سے زیادہ ہے ،سن 2016 میں شائع ہونے والی جان ہاپکنز یونیورسٹی جوکہ امریکہ کی ایک مشہور یونیورسٹی ہے اس کی ایک ریسرچ کے مطابق امریکہ میں 64 فیصد عورتیں کم ازکم ایک ایسے بچے کی ماں ضرور ہوتی ہیں جو بغیر شادی کے پیداہوتاہے،اب آپ ہی اندازہ کرلیجئے کہ اس ملک میں زنا کتنا عام ہے اور زنا کے ساتھ ساتھ یہ سود بھی امریکہ کے اندر اور ہرجگہ پر بہت عام ہوچکا ہے،اللہ کا یہ کیسا عذاب تھا کہ آگ لگنے سے ساری کی ساری سود کی کمپنیاں دیوالیہ ہوچکی ہےکیونکہ آگ نےنقصان ہی اتنا کیا ہے کہ اس کی بھرپائی کرنی ناممکن ومحال ہے،آج ہرجگہ اور ہرملک اورہرگاؤں ومحلہ میں یہ سود بہت عام ہوچکا ہے،مسلمان بھی سودی لین دین کو اب گناہ نہیں سمجھ رہے ہیں،بڑے شوق سے اور بڑے فخر سے اپنی جائز وناجائز خواہشات کو پوری کرنے کے لئے سود پرسود لیتے جارہے ہیں ،جب کہ یہ سود اور زنا دو ایسے گناہ ہیں جس کی وجہ سے ملکوں اور شہروں اور گاؤں ودیہات کے باشندوں پر عذاب ہرحال میں ناز ل ہو کررہتے ہیں جیسا کہ اس دنیا کے سب سے عظیم محسن ورحمۃ للعالمینﷺ نے یہ اعلان کردیا تھا کہ ’’ إِذَا ظَهَرَ الزِّنَا وَالرِّبَا فِي قَرْيَةٍ فَقَدْ أَحَلُّوا بِأَنْفُسِهِمْ عَذَابَ اللَّهِ ‘‘ جب کسی ملک وشہر اور گاؤں وبستی میں زنا وسود عام ہوجائے اور لوگ علی الاعلان ان دوگناہوں کو انجام دینے لگتے ہیں تو لوگ خود اپنی اس کرتوت سےاللہ کے عذاب کودعوت دیتے ہیں ۔(حاکم:2261،صحیح الجامع للألبانیؒ:679)سنا آپ نے کہ جب کسی ملک میں زنا وسود عام ہوجاتے ہیں تو پھر رب العزت کا عذاب ان کے اوپر آکر رہتاہے اور یہی تو ہواامریکہ میں کہ ان دوگناہوں کی کثرت نے انہیں آگ کے الاؤ میں جھونک دیا،اس لئے اے دنیا کے واسیوں! اور اے مسلمانوں ان دونوں گناہوں سے باز آجاؤ ورنہ تم بھی اللہ کے عذاب کے شکار ہوجاؤگے،صرف یہی گناہ نہیں بلکہ ہرگناہ سے اپنے آپ کو بچاکر رکھوکیونکہ اسی گناہ کی پاداش میں تو اللہ رب العزت نے فرعون ،قارون اور هامان اورپچھلی قوموں جيسے کہ قوم نوح،قوم عاد،قوم ثمود،قوم لوط اور دیگر قوموں کو ہلاک وبرباد کیا تھا،فرمان باری تعالی ہے ’’ فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ ‘‘ پھر تو ہرایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا،پھر اسی آیت میں اللہ رب العزت نے یہ اعلان کردیا کہ ’’ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ‘‘ اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔(العنکبوت:40)

(4)اے لوگو! تکبر کرنے سے بچو:

میرے دوستو!یہ آگ لاس اینجلس میں ایسے ہی نہیں لگی ہے ،شہر لاس اینجلس کی خوبصورتی نے وہاں کے لوگوں کو کبروغرور کے اندر ڈال دیا تھا،اور اس شہر کو یہ لقب دیا گیا تھا کہ یہاں اس شہر میں خدا کے لئے کوئی جگہ نہیں ہےاور انہوں نے اپنے شہر کو بھی یہی کہنا شروع کردیا تھا کہ These is Godless city on earth،یہ عجیب اتفاق ہے شہر لاس اینجلس کے اندر ہی 5/جنوری 2025 کے ایک شو میں یہ جملہ کہا گیا اور اللہ کا کرنا دیکھئے کہ رب العزت نے انہیں یہ بتا دیا کہ نہیں ہرگز نہیں !صرف یہی شہر نہیں بلکہ روئے زمین کا ہرخطہ اسی اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ملکیت میں ہے وہ جب چاہے اور جو چاہے کرسکتاہے،جس شہر کی خوبصورتی پر سب کو ناز تھا چندلمحوں میں ہی اس کی ساری خوبصورتی بدصورتی سے بدل گئی،جولوگ کبروغرور میں چورقہقہے لگارہے تھےاس آگ نے ان کی ساری زندگی کی ساری خوشیاں اور ہنسی کو چھین لی اور امریکہ بھی اپنے طاقت وقوت اور ایٹمی ہتھیاروں پر بڑا فخر وغرورکررہاتھا،آپ نے مسٹرٹرمپ کا وہ جملہ ضرور سنا ہوگا کہ مسٹر ٹرمپ نے یہ کہا تھاکہ اگر حماس نے قیدیوں کو رہا نہ کیا تو میں فلسطین اور دیگر عرب ممالک کو جہنم بنادوں گا،اس نے ایسا کہا اور پھر رب العزت نے خود اسے دنیا میں ہی جہنم کا نظارہ دکھا دیا ،یہ ہوتا ہےتکبر کا انجام،جس طرح سے امریکہ اپنی طاقت وقوت اور ایٹمی ہتھیاروں پر ناز کررہاتھا اور یہ کہتا پھر رہا تھا کہ ہم ہی سوپر پاور ہیں اورہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ہم سے آنکھ ملانے کی کسی کو جرأ ت ہی نہیں ہے،اور ہمارے میزائل وبم بارود کے سامنے میں کون ٹک سکے گا؟ٹھیک اسی طرح سے پچھلے زمانے میں بھی ایک قوم تھی ،قوم عاد ،انہوں نے بھی اسی طرح سے کہنا شروع کردیا تھا کہ ہم ہی سوپر پاور ہیں ،ہم سے زیادہ کون طاقتور ہے!پھر ان کے ساتھ کیا ہوا ؟اور آج امریکہ کےساتھ کیا ہوا ذرا ان دونوں قوم عاد اور امریکہ کا موازنہ کیجئے،آپ کو ان دونوں کے درمیان اعمال وکردار اورانجام میں بہت گہری مناسبت نظرآئے گی،جیسا کہ سورہ فصلت کے اندر رب العزت نے یہ بیان کیا ہے کہ ’’ فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ‘‘قوم عاد نے تو بلاوجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟دیکھئے قوم عاد نے جو کہاتھا اور جیسا کہا تھا اس امریکہ نے بھی ویسا ہی کرنا شروع کردیاتھا اور اپنے آپ کو سوپر پاور سمجھ رہاتھا اور کہہ بھی رہاتھا کہ ہم سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں ،ہمارے پاس تو نیوکلیئر بم کا پاور ہے،اب آگے کیا ہوا اس قوم عاد کے ساتھ وہ ذرا سنئے،رب العزت نے فرمایا کہ ’’ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ‘‘کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے،وہ ان سے (بہت ہی)زیادہ زورآور ہے اور وہ ( آخر تک) ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے،جب ان کے اوپر عذاب آیا تو کیسا عذاب آیا وہ بھی سنئے باری تعالی نے کہا کہ ’’ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَحِسَاتٍ لِنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ ‘‘بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز وتندآندھی منحوس دنوں میں بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھادیں اور (یقین مانو) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والا ہے اور وہ مدد نہیں کئے جائیں گے۔(فصلت:15-16)سنا آپ نے کہ قوم عاد کے اوپر تیز وتند ہواکو اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے مسلط کردیا تھا اور اس امریکہ کے اوپر بھی رب العزت نے ایسی تیز وتند ہوا کو مسلط کردیا جو 100 سے لے کر 160 کیلومیٹر رفتار سے آگ کی چنگاری کے ساتھ چل رہی تھی اور ابھی تک چل رہی ہے،یہ ہوتا ہے تکبر کرنے کا انجام،رب العزت کو بالکل بھی یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی اس کے سامنے میں اپنی بڑائی دکھائے،اور جس نے بھی جب کبھی بھی اپنی بڑائی دکھائی رب العزت نے اسے اس دنیا میں ہی ضرور بالضرور ذلیل ورسوا کرنے والا عذاب سے دوچار کیا ہے،یاد کیجئے فرعون نے بھی اپنی بڑائی کا اعلان کیا تھا مگر رب العزت نے اسے بھی تاقیامت نشان عبرت بنادیا،شداد نے بھی لاس اینجلس کی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ خوبصورت زمین پر جنت بنائی تھی مگر اسی انا نے اسے بھی فنا کردیا اور جو اپنے لئے بنائی تھی اسے خود نہیں دیکھ سکا،اسی طرح سے قارون بھی مال دولت پر اترایا ،رب نے اسے بھی دیدۂ عبرت بناتے ہوئے زمین میں دھنسا دیا،اس لئے میرے بھائیو اور بہنو اور اے دنیا کے لوگو! امریکہ میں لگی آگ سے عبرت حاصل کرو اور کبھی بھی کسی چیز کے اندر تکبر نہ کیا کرو،اپنی انا کو فنا کردو،اپنے ایگو کو کچل دو، ورنہ خود فنا ہوجاؤگے۔

(5)اے دنیا والو سن لو! لادینیت اور خدا بیزاری عذاب کو دعوت دینے والی چیز ہے:

میرے دوستو! ابھی آپ نے یہ سنا کہ اہل امریکہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ خدا نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہےیہی وجہ ہے کہ وہ لوگ علی الاعلان یہ کہاکرتے تھے اس شہر لاس اینجلس میں خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہےاور اسی چیز نے ان کے اوپر اس آگ کے عذاب کوحلال کردیا، امریکہ میں یہ آگ ایسے ہی نہیں لگی ہے اور بلاوجہ میں کبھی کسی کو اللہ رب العزت سزا ہی نہیں دیتاہے ،یہ اللہ رب العزت کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ کبھی کسی بھی ملک وقوم کو بلاوجہ میں سزائیں نہیں دیتاہے بلکہ لوگ خود اپنی کرتوتوں سے اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ ‘‘ تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرمالیتاہے۔(الشوری:30)سنا آپ نے کہ روئے زمین کے لوگوں پر جو بھی آفتیں ومصیبتیں نازل ہوتی ہیں وہ ان کے کچھ ہی کرتوت سے نازل ہوتی ہیں ،اور یہ اللہ رب العزت کی مہربانی اور اس کا فضل ہے کہ وہ بہت سارے انسانی کرتوتوں سے درگزر فرما لیتاہے،ورنہ اگر اللہ لوگوں کی ہرگناہ اور ہرکرتوت پر سزا دینا شروع کردے تو کیا ہوگا سنئے رب کی زبانی،فرمایا ’’ وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْها مِنْ دَابَّةٍ وَلكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذا جاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ ساعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ ‘‘ اگرلوگوں کے گناہ پر اللہ ان کی گرفت کرتاتوروئے زمین پر ایک بھی جاندار باقی نہ رہتا،لیکن وہ تو انہیں ایک وقت مقررہ تک ڈھیل دیتاہے،جب ان کا وقت آجاتا ہے تو وہ ایک ساعت نہ پیچھے رہ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔(النحل:61)سنا آپ نے کہ اللہ تو بہت سارے گناہوں اور کرتوتوں پر پکڑ ہی نہیں کرتاہے اوراگر وہ رب العزت لوگوں کے ہر گناہ پر سزا دیناشروع کردے تو اس روئے زمین پرکوئی مخلوق ہی نظرنہ آئے گا ،یہ ہے ہمارے رب کی شان اور اس کا فضل وکرم،تو اللہ رب العالمین بلاوجہ میں کسی کو سزائیں نہیں دیتا ہے ،آج جوامریکہ میں آگ لگی وہ اس وجہ سے کہ ان لوگوں نے خدا کی ہستی کے وجود ہی کا انکار کردیا تھا،اور یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ ہمارے یہاں خدا کی کوئی ضرورت نہیں ،ہم خدا سے بیزار لوگ ہیں بلکہ خدا نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے،جب ان لوگوں نے ایسا سمجھا تو رب العزت نے انہیں اپنے وجود کا احساس دلا یا کہ دیکھو اس کائنات میں خدا نام کی بھی کوئی چیز ہے،اگر تمہیں اس سے انکار ہے تو اس آگ سے بچ کر دکھاؤ،رب العزت نے اپنے وجود کا انہیں ایسا احساس دلایا کہ وہ اور ساری دنیا یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ امریکہ قدرت کے سامنے میں ڈھیر،امریکہ پر قدرت کا قہر،امریکہ اب قدرت کے رحم وکرم پروغیرہ وغیرہ،اور یقیناًیہ آگ رب کی سزا ہی تھی جو ان کی لادینیت اورخدا بیزاری کی وجہ سے ہی ان کے اوپرمسلط کی گئی تھی،ورنہ رب کا تو یہ اعلان ہے کہ اگر کوئی ملک وشہر والے میرے اوپر ایمان ویقین رکھیں گے تو میں انہیں کیوں سزا دوں گا،سنئے باری تعالی کا یہ اعلان’’ مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ ‘‘اللہ تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا؟اگر تم شکرگزاری کرتے رہو اور باایمان رہو۔(النساء:147)سنا آپ نے کہ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ اگر تمہارے اندر دوچیزیں رہی تو وہ تمہیں کبھی عذاب نہ دے گا اور وہ دوچیزیں بھی امریکہ والوں میں نہیں تھی،نہ تو وہ اہل ایمان تھے اورنہ ہی ان کے اندر شکرگزاری کا مادہ تھا،جب وہ رب ہی کے وجود کوتسلیم نہیں کرتے تھے تو وہ شکرگزاری کہاں سے کرتے،اس لئے اے دنیا کے لوگو!امریکہ میں لگی آگ سے یہ سبق سیکھ لو کہ اگر تمہیں اس کائنات کے رب کے عذاب وسزاؤں سے بچنا ہے تو اپنے اندر دو صفت کو پیدا کرو،ایک تو باایمان ہوجاؤ،رب کو ماننے لگو اور رب کی طاقت وقوت کو تسلیم کرلو اور دوسری صفت اپنے اندر یہ پیداکرو کہ رب نے جو کچھ بھی تمہیں عطا کیا ہے اس پر اتراؤ نہیں بلکہ اس پر رب العزت کا شکر بجالاؤ،ہمیشہ تم ہی فائدے میں رہوگے،اس میں تمہارا ہی بھلا ہوگا،وہ ذات تو ہرچیز سے بے نیاز ہے ’’ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ‘‘ ويسے تو اللہ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے۔(العنکبوت:6)

(6) اے لوگو! اپنے مال ودولت سے گناہ نہ کماؤ:

میرے بھائیو اور بہنو!جیسا کہ میں نے آپ کو یہ بات بتلائی کہ یہ لاس اینجلس شہر اہل ثروت اور فلمی ہیرو اور ہیروئن کاشہر تھا،یہاں پر پوری دنیا سے لوگ عیش اور موج ومستی کرنے آتے تھے،اور ان لوگوں نے یہاں پر قیمتی سے قیمتی بنگلے بھی بنارکھے اور خرید رکھے تھے،وہ اپنی ساری دولت صرف لاس اینجلس میں برائیوں اور بے حیائیوں کے انجام دینے پر ہی خرچ کیا کرتے تھے ،اور پوری دنیا سے زائرین بھی سب سے زیادہ اسی شہر کا رخ کرتے تھے،غرض کہ وہاں کےلوگ اپنی ساری دولت برائیوں اور بے حیائیوں پر خرچ کرنے لگے تھے اور لوگوں کو بھی اسی کی دعوت دے رہے تھے پھر کیا تھا ؟جب ان کی برائیاں زیادہ ہوگئیں تو رب العزت نے اس شہر کو ویران کردیاتو میرے دوستو!امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں جو آگ لگی ہے اس سے ایک سب سے بڑا سبق ہم سب کے لئے یہ بھی ہے کہ اگراللہ نے ہمیں مال ودولت سے نوازا ہے تو ہم اسے گناہوں پر صرف نہ کریں اور نہ ہی اپنے مال ودولت پر فخر وغرور کریں،اگر اللہ نے ہمیں مال ودولت سے نواز ہے تو اس سے نیکی کمائیں ،سماج ومعاشرے میں دیکھا یہ جاتاہے کہ لوگ اکثر وبیشتر اپنے مال ودولت کو اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرتے ہیں،کسی کو اگر اللہ رب العزت نے مال ودولت سے نواز ہے تو وہ اسے ناجائز چیزوں میں لٹا تا اورخرچ کرتاہے اور اپنے مال ودولت کی بدولت ہی وہ طرح طرح کے رسم ورواج کو اپناکر سماج ومعاشرے میں برائیوں کو رواج دیتاہے،آپ نے دیکھا ہوگا کہ کوئی بھی رسم ورواج ہے تو اس کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ یہ پیسہ والے لوگ ہی اختیار کرتے ہیں ،اور پھر ان کی نقل مارتے ہوئے پوری قوم اس کو انجام دیتی ہے،اہل ثروت اپنے پیسے کی بدولت ہرچیز کو اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اور عوام الناس ان کی تقلید کرتی ہوئی اسے اپناتی چلی جاتی ہے،جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ پوری قوم اللہ کی نافرمانی میں ملوث ہوجاتی ہے اور جب پورا ملک وشہر اور پوری قوم اللہ کی نافرمانی میں ملوث ہوجاتی ہے تو ر ب العزت انہیں عذاب سے دوچار کرتاہے،اور ايسا هي كچھ شہر لاس اینجلس میں ہوا کہ پورا کا پورا شہر برائیوں اور بے حیائیوں میں ڈوبا ہوا تھا بلکہ وہاں پر ہربے حیائی کوایک فیشن سمجھ کر انجام دی جارہی تھی پھر کیا تھا ایک آگ نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کررکھ دی ،سنئے رب العزت کا یہ اعلان ’’ وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ‘‘اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے متکبر خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر عذاب کی بات ثابت ہوجاتی ہے،پھر ہم اسے تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔(الاسراء:16)سبحان اللہ !سنا آپ نے اللہ رب ذوالجلال والاکرم کا اعلان ،جیسا رب نے کہا ہے ٹھیک ویسا ہی کچھ تو اب شہر لاس اینجلس کا انجام ہوا ہے،اس لئے اے دنیا کے لوگو! اپنے مال ودولت سے سماج ومعاشرے میں بے حیائیوں اور برائیوں کی نشرواشاعت کرنے سے باز آجاؤ ورنہ تم بھی کبھی نہ کبھی اللہ کی پکڑ میں آجاؤگے۔

(7)اے لوگو!برائیوں کو دیکھ کر خاموش نہ رہاکرو:

میرے مسلمان بھائیو اور بہنو!ابھی آپ نے سنا کہ شہر لاس اینجلس کے اندر کیسی کیسی برائیاں عروج پر تھی،وہاں پر ہرکوئی ایک دوسرے کے آنکھوں کے سامنے ان ساری چیزوں کو انجام دے رہاتھابلکہ وہاں پر برائی توفیشن بن چکی تھی، تو جب کسی شہر وملک میں برائی وبے حیائی برسرعام ہونے لگے اور لوگ اس کو دیکھ کر خاموش رہیں اور لوگوں کو برائیوں سے نہ روکیں بلکہ اس سے مزہ لیں تو وہاں پر اللہ کا عذاب ضرور نازل ہوتاہے،سنئے جناب محمدعربیﷺ کا فرمان ’’ إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ ‘‘ بے شک کہ اللہ رب العزت کچھ لوگوں کے گناہ کرنے کی وجہ سے تمام لوگوں پر عذاب نازل نہیں کرتاہے،ہاں مگر جب ایساہونے لگے کہ ’’ حَتَّى يَرَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ ‘‘ لوگ اپنی آنکھوں سے برائیوں کو ہوتا دیکھے اور ان کے سامنے میں برائیاں ہورہی ہوں اور وہ انسان ’’ وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ يُنْكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ ‘‘برائیوں کو روکنے پر قادر بھی ہو مگر پھر بھی وہ لوگوں کو برائیوں سے نہ روکے ،اور یہ سمجھنے لگے کہ ہم کو کیا ہے؟وہ برائی کررہاہے وہ دیکھ لے گا،آج ایسا ہی کچھ تو ہرجگہ اور ہرملک میں ہورہاہے کہ لوگ برائیوں کو ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر اپنے زبان ومنہ پر تالا لگا کر بیٹھے ہیں ،یہ جو آج ہماری حالت بن گئی ہے کہ برائیوں کو دیکھ کر بھی ہم خاموش رہتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ اس سے ہم کو کیا مطلب ! تو ایسی سوچ وفکر جب لوگوں میں پیداہوجائے تو کیا ہوتا سنئے آگے آپﷺ نے کیا کہا ،فرمایا کہ ’’ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ ‘‘ جب لوگ ایسا کرنے اور سمجھنے لگ جاتے ہیں اور برائیوں کو دیکھ کر آنکھ بند کرلیتے ہیں تو پھر اللہ کا عمومی عذاب نازل ہوجاتاہے،(اور پھر سب کے سب ہلاک وبرباد ہوجاتے ہیں )۔(مسند احمد:17720،شعیب ارناؤطؒ نے اس کی سند کو حسن لغیرہ کہا ہے)سنا آپ نے کہ برائیوں پر نکیر نہ کرنے سے اس کائنات میں کیا ہوتاہےاور ایسا ہی کچھ تو شہر لاس اینجلس کے ساتھ ہوا، تو اے مسلمانوں ! اس آگ سے سبق سیکھ لو اور اللہ کے عذاب سے ڈرو کیونکہ لوگوں کو برائیوں سے روکنے کی ذمہ داری تمہاری ہے ،صرف تمہاری ہے،اور اب بھی لوگوں کو برائیوں سے نہ روکوگے اور نیکی کا حکم نہ دوگے تو پھر وہ دن دور نہیں جب تم بھی اسی طرح کے عذاب سے دوچار کئے جاؤگے۔

(8) اے لوگو!دوسروں کے غم والم پر کبھی خوشی نہ منایا کرو:

میرے دوستو!آج سماج ومعاشرے کے اندر ایسا ہورہاہے کہ لوگ دوسروں کو غم والم اور پریشانیوں میں ملوث دیکھ کر خوشی مناتے ہیں اور دوسروں کا نقصان دیکھ کر پھولے نہیں سماتے ہیں بلکہ دوسروں کے نقصان پر تو لوگ مٹھائیاں بھی تقسیم کرتے ہیں اور پھر یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اس کے ساتھ اچھا ہوا ! اور ہونا چاہئے!اور لوگ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے فراق میں رہتے ہیں تو جولوگ بھی ایسی سوچ وفکر رکھتے ہیں اور اس طرح کی نیچ حرکت کرتے ہیں تو وہ لوگ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ ان کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوسکتاہے،امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں لگی آگ سے ہرکوئی یہ سبق سیکھ لے کہ جودوسروں کے مال وجائداد کے نقصان کی آرزو کرے گا خود اس کا مال ضائع وبرباد ہوجائے گا اور جو دوسروں کے گھر کے ضائع وبرباد ہونے پر خوشی منائے گا اللہ اس کے گھر میں بھی آگ لگا دے گا،اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ایسا کیوں کہہ رہاہوں تو سنئے اس کی حقیقت وسچائی کو، دراصل بات یہ ہے کہ شہر لاس اینجلس میں رہنے والا ایک ہالی ووڈ کا ہیرو ’’ جیمس ووڈ‘‘ یہ ایسا انسان تھا جو غزہ کے مسلمانوں کی بربادی پر جشن منارہاتھا،اور بہت خوش ہورہاتھا ،اس نے ایک بار یہ ٹوئٹ کیا تھا کہ شاباش نتن یاہو،تم کسی بھی حال میں رکنا نہیں ،کوئی رحم نہیں کرنا،غزہ والوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہ دکھانا ،غزہ میں کسی کو چھوڑنا نہیں ،تم حملے جاری رکھو،غرض یہ کہ اس طرح سے وہ خوشی منارہاتھا !جانتے ہیں کیا ہوا اس کے ساتھ؟ خود اس کا ہی کروڑوں کا بنگلہ اس آگ میں جل کرراکھ ہوگیا،اور اس نے میڈیا کوروتے ہوئے اپنا دکھ ودرد بیان کیا، تو یہ ہوتاہے دوسروں کے غم پر خوشی منانے کا انجام ، غزہ کے گرتے اور زمیں بوس ہوتے عمارتوں پر وہ بہت خوشی منارہاتھا مگر جب خود کے گھر میں آگ لگی تو عقل ٹھکانے آگئے،اس لئے میرے بھائیو آپ بھی کبھی بھی کسی کی غم والم پر کبھی خوشی نہ منایا کرو ،ورنہ تمہارا بھی ویسا انجام ہوسکتاہے،لوگ دوسروں کی پریشانیوں پر خوشی مناتے ہیں جب کہ ہماری شریعت کی پاکیزہ تعلیم یہ ہے کہ ہم اس مصیبت سے اللہ کی پناہ پکڑے اور اللہ سے یہ دعا کریں کہ اے اللہ !تو مجھے اس غم والم میں کبھی نہ ڈالنا،جیسا کہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان ہے کہ اگرکوئی انسان کسی کو مصیبت ،غم والم اور پریشانی میں مبتلا دیکھے تو وہ فوراً یہ دعا پڑھ لے،اور جو یہ دعا پڑھ لے گا تو اس کے ساتھ کیا ہوگا سنئے خود جناب محمدعربیﷺ کی زبانی آپ نے فرمایاکہ ’’ لَمْ يُصِبْهُ ذَلِكَ البَلَاءُ ‘‘ اسے یہ مصیبت مرتے دم تک لاحق نہ ہوگی،سبحان اللہ۔اور ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ جو انسان یہ دعاپڑھے گا تو وہ ’’ عُوفِيَ مِنْ ذَلِكَ الْبَلَاءِ كَائِنًا مَا كَانَ ‘‘اس مصیبت سے محفوظ رہے گا خواہ وہ کوئی اور کتنی بڑی مصیبت ہی کیوں نہ ہو، تو وہ دعاکون سی ہے ؟وہ دعا ہے ’’ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا ‘‘اس دعا کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچا کے رکھا ہے جس میں تجھے مبتلا کیا ہے اور اس اللہ نے مجھے اپنے پیدا کئے ہوئے بہت سے بندوں پر فضیلت عطافرمائی ہے۔( ترمذی:3432،ابن ماجہ:3892،اسنادہ حسن)

(9) اے لوگو!خوشحالی میں تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں بدحالی میں یاد رکھے گا:

میرے دوستو!لاس اینجلس میں جب آگ لگی تو ایک تو اس آگ نے ان کے گھر ومکان کو جلا کر راکھ کا ڈھیر کردیا اور یہ لوگ سڑکوں پر رات گذارنے پر مجبور ہوگئے اور دوسرا یہ کہ وہ لوگ کھانے کھانے کو ترس گئے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہاں پر آگ لگنے کے کچھ ہی دن کے بعدوہاں کے لوگوں کی حالت اور درگت یہ ہوگئی کہ وہ ایک دوسرے کے گھروں میں لوٹ پاٹ کرنے لگے،ذرا سوچئے کہ یہ کون لوگ تھے ؟وہی لوگ تو تھے جو کل تک عالیشان محلوں اور عالیشان بنگلوں میں رہائش پذیر رہا کرتے تھے،یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے کبھی تکلیف ہی نہیں دیکھی تھی بلکہ تکلیف کو کبھی انہوں نے محسوس بھی نہ کیا تھا، یہ وہی لوگ تھے جن کے پاس مال ودولت کی کمی نہیں تھی مگر ایک آگ نے انہیں ڈر وخوف اور تکلیف کا مزہ چکھادیا،جو دوسروں کے تکلیف پر خوشیاں منارہے تھے اس آگ نے انہیں رونے پر مجبور کردیا،اس ایک آگ نے ان کی مالداری کو غریبی ومحتاجگی میں بدل دی اور پھر سب کے سب روتے وبلکتے اور کراہتے ،سڑکوں پر آسمان تلے رات گذارتےنظر آئے،تو اے مسلمانو! اس لاس اینجلس کی آگ سے سبق سیکھو اور یہ سبق ہمیشہ یاد رکھو کہ جب اللہ رب العزت تمہیں مال دولت سے نوازے تو اس وقت تم اللہ کو یاد رکھنا،اپنے مال کے نشے میں اللہ کو بھول نہ جانا، کیونکہ اگر تم اپنےخوشحالی کے دنوں میں اللہ کو یاد رکھوگے تو وہ رب العزت تمہاری مصیبت وپریشانی کے گھڑی میں تمہیں یادرکھے گا ، وہ اس طرح سے تمہیں روتے وبلکتے ہوئے نہیں چھوڑے گا جس طرح سے یہ لاس اینجلس والے لوگ روتے وبلکتے اور کراہتے نظر آئے بلکہ وہ اللہ رب العزت تمہاری ضرور بالضرور مدد کرے گا جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ تَعَرَّفْ إِلَى اللهِ فِي الرَّخَاءِ يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ ‘‘کہ تم اللہ رب العزت کو خوشحالی کے دنوں میں یاد رکھو وہ ذات تمہیں تمہاری پریشانی کے دنوں میں یاد رکھے گی۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:2961،احمد:2803)سنا آپ نے کہ اگرہم خوشحالی اور مالداری کے دنوں میں اللہ کو یاد رکھیں گے تووہ اللہ ہمیں ہماری مصیبت وپریشانی کے وقت یاد رکھے گا،مگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں !دیکھا یہ جاتاہے کہ لوگ مال ودولت اور خوشحالی کے دنوں میں اللہ کو بالکل ہی بھلا دیتے ہیں مگر جیسے ہی ان پر کوئی مصیبت وپریشانی نازل ہوتی ہے تب اللہ اللہ کرتے نظر آتے ہیں،تو میرے دوستو!لاس اینجلس کے لوگوں کی بدحالی کو دیکھ کریہ سبق وسیکھ اور پیغام ہمیشہ کے لئے یاد رکھو کہ اگر تم خوشحالی میں اللہ کو یاد رکھوگے تو وہ اللہ تمہیں تمہاری پریشانی ومصیبت کے وقت میں ضرور بالضرور یاد رکھے گا۔

(10)اے لوگو! ہرشرکے اندر خیرکا پہلو تلاش کیا کرو:

میرے دوستو! امریکہ میں لگی آگ سے ہمارے لئے ایک سب سے بڑا پیغام اور سبق یہ بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے زندگی کے ہر موڑ پر اوراپنے زندگی کے ہرمعاملات کےاندر ہرشر میں اپنے لئے کوئی نہ کوئی خیر کے پہلو کو ضرور بالضرور نکال لیا کریں،اگر کبھی کوئی پریشانی آجائےیا پھر کچھ نقصان ہوجائے تو یہ سوچا کرے کہ ہوسکتا ہے اس میں میرے لئے کوئی خیرہوگا،اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے اس بات کا امریکہ میں آگ لگنے سے کیا تعلق ہے؟تو دیکھئےادھر امریکہ میں آگ لگی اور ادھر ملعون ومبغوض نیتن یاہو نے اہل غزہ سے جنگ بندی کا اعلان کردیا بلکہ یہ خبربھی آئی کہ ازرائیل(اسرائیل) نے 90 فلسطینی مسلمان قیدیوں کو رہا بھی کردیا۔سبحان اللہ۔آپ کیا سمجھتے ہیں اس بدبخت ،ملعون ومبغوض نیتن یاہونے کسی کے کہنے پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہے،نہیں مجھے تو ایسا نہیں لگ رہاہے بلکہ میں تو یہی کہوں گا یہ ملعون نیتن یاہو اس امریکہ میں لگی آگ سے ڈر گیا،اور اس آگ کو خدا کا قہر وغضب سمجھ کر اپنی ظالمانہ حرکت سےتھوڑی دیر کے لئے رک گیا ہےکیونکہ وہ اور اس کی قوم اور اس کے راہب ایک ایسی قوم سے وابستہ ہیں جنہیں یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ خدا کاقہر وعذاب جب روئے زمین پر نازل ہوتاہے تو وہ کس نوعیت کی ہوتی ہے،بہرحال جوبھی ہو، اور جس وجہ سے بھی ہو،اہل غزہ کو تو راحت ملی ، ہم تو بطور مسلمان یہی کہیں گے اس امریکہ میں لگی آگ نے اہل غزہ اورفلسطینی مسلمانوں کو راحت پہنچایا،امریکہ کے لئے یہ آگ تو شر رہا ،شر ہی کیا بلکہ یہ آگ تو ان کے لئے بہت بڑی آفت ومصیبت بن گئی مگر ہمارے لئے اس آگ میں خیر رہاکہ ملعون ومبغوض لوگوں نے فلسطینی مسلمانوں سے جنگ بندی کا اعلان کردیا،سچ کہا تھا کسی شاعر نے کہ :

لکھتا ہے وہی ہر بشر کی تقدیر

وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اللہ کرے کہ یہ جنگ ہمیشہ بند ہی رہے ،ویسے اس مغضوب وملعون شخص نیتن یاہو اور اس کی قوم پر کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ پھر کب سے اپنے رنگ دکھانے لگے کیونکہ اس روئے زمین پر اس جیسی بدعہد قوم نہ تھی اور نہ ہے،تو خیر میرے دوستو!جس طرح سے اس شر نے فلسطینی مسلمانوں کے لئے خیر کی راہ کو ہموار کیا تو ٹھیک اسی طرح سے ہم بھی اپنی زندگی کے ہرموڑ پر جب کبھی بھی کوئی پریشانی یاپھر کوئی غم والم آئے تو ہم اس شر سے یہ وہ سوچنے اور ٹینشن لینے اور دوسروں کے اوپر الزام لگانے کے بجائے اس سےخیر کا پہلو نکال لیا کرے،ایک تو اس سے آپ کا ایمان محفوظ رہے گا اور دوسری بات یہ کہ ہمارے لئے کون سی چیز اچھی اور سودمندہے اور کون سی چیز بری ونقصان دہ ہے،یہ ہم نہیں جانتے ہیں ، بسااوقات ایسا ہوتاہے کہ ہم کوئی چیز پسند کرتے ہیں مگر وہ چیز ہمارے لئےبری ہوتی ہے اور اسی طرح سے کوئی چیز ہم ناپسند کرتے ہیں جب کہ اسی چیز میں ہمارے لئے خیر ہوتاہے، جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‘‘ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور در اصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو،حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو،حقیقی علم اللہ ہی کو ہے،تم محض بے خبر ہو۔(البقرۃ:216)



اب آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اے ارحم الراحمین تو ہم سب کو دنیا وآخرت کے ہرعذاب وسزا سے محفوظ رکھ۔آمین



طالب دعا

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 

اٹیچمنٹس

Top