امریکہ کی دریافت کا قضیہ
کالم، وسیم تارڑ: 26 نومبر2014
امریکی سرزمین کی دریافت کا واقعہ، دنیا کے ان اہم سوالات میں سے ایک ہے، جس کا غیرمتنازعہ جواب ابھی تک کسی کے پاس نہیں۔ صدیوں تک اس موضوع پر تحقیق ہوتی رہی اور ہر تحقیق کے بعد ایک نیا دعویٰ سامنے آتا رہا۔ اس بحث میں کچھ عرصہ کے لئے شدت پیدا ہوتی اور پھر دم توڑ جاتی۔ چند روز قبل ترکی کے صدر رجب طیب ارد وان نے اس مردہ بحث کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے ۔ رجب طیب ارد وان نے انقرہ میں جاری مسلم اسکالرز کی کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ مسلمان کولمبس کے پہنچنے سے 300 سال قبل ہی امریکہ دریافت کر چکے تھے۔ ترک صدر کے اس دعوے کے بعد دنیا کے طول و عرض میں یہ سوال ایک بار پھر زیر گردش ہے کہ، سب سے پہلے امریکہ کس نے دریافت کیا؟
مشرق و مغرب کی تقریباً تمام نصابی اور غیر نصابی کتابوں میں درج ہے کہ امریکہ کو سب سے پہلے کولمبس نے 1492ء میں دریافت کیا۔ دراصل کولمبس ایک بحری مہم جو اور سپین کے قشتالوی عیسائی حکمرانوں کا ملازم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سپین کی ملکہ ازابیلا اور فرڈینینڈ نے اسے ایک بحری مہم کے لئے روانہ کیا اور اس مقصد کے لئے متعدد چھوٹے جہاز بھی فراہم کیے ، جن کے ذریعے وہ ایک طویل سفر طے کرتا ہوا کیوبا پہنچا (جو براعظم جنوبی امریکہ کا ایک ملک ہے)۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کولمبس امریکہ کے بجائے ہندوستان کی تلاش میں نکلا تھا۔ کیوبا پہنچ کر بھی اسے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ جس خطے کو اس نے دریافت کیا ہے وہ ہندوستان نہیں، بلکہ امریکہ ہے اور مرتے دم تک وہ اِسی غلط فہمی میں مبتلا رہا۔ دنیا کے اکثر و بیشتر مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کولمبس نے جو جگہ دریافت کی تھی وہاں اس سے قبل دوسرے خطے کا کوئی باسی نہیں پہنچا تھا، مگر معدودے چند ایسے بھی ہیں جو اسے تسلیم نہیں کرتے ۔ ترک صدر رجب طیب ارد وان بھی انہی افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
رجب طیب ارد وان نے جو دعویٰ کیا ہے وہ دراصل ان نکات پر مشتمل ہے، جنہیں 1996ء کی ایک تحقیق میں زیربحث لایا گیا تھا۔ ان نکات کو ’’یوسف مروہ ‘‘ نامی کالم نگار نے آج سے 18 سال قبل بیان کیا۔ یوسف مروہ نے اپنی تحقیق میں کولمبس کی خودنوشت کی طرف توجہ مبذول کرائی، جس میں وہ لکھتا ہے کہ ’’ جب میرا جہاز کیوبا کے ساحل سے گزر رہا تھا تو وہاں شاندار پہاڑ تھے۔ وہیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر مَیں نے ایک خوبصورت مسجد دیکھی۔‘‘ یوسف مروہ کا استدالال ہے کہ کولمبس کے کیوبا پہنچنے پر وہاں پہلے سے ایک مسجد موجود تھی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کولمبس سے قبل مسلمان امریکہ پہنچ چکے تھے۔
اہلِ مغرب کا اعتراض یہ ہے کہ کولمبس نے جو چیز دیکھی وہ مسجد نہیں، بلکہ مسجد نما عمارت تھی۔ چوںکہ امریکہ میں کولمبس سے قبل اسلام کے وجود کے شواہد نہیں ملتے، اس لئے کیوبا میں مسجد کی موجودگی کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک پیچیدہ بحث ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر پہاڑی کی چوٹی پر موجود عمارت مسجد نہیں تھی تو کولمبس اس کے لئے گرجا یا کوئی دوسرا لفظ بھی استعمال کر سکتا تھا، مگر اس نے مسجد کا لفظ لکھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کولمبس سپین میں مقیم تھا۔ یہ وہی سپین تھا جہاں کچھ عرصہ قبل مسلمانوں کی حکومت تھی، لہٰذا وہاں جا بجا مساجد بھی موجود تھیں اور کولمبس مسجد کو پہچاننے میں غلطی کیسے کر سکتا تھا۔ تاہم مغربی مورخین اس استدالال کو تسلیم نہیں کرتے۔
یوسف مروہ اپنے استدالال کی مضبوطی کے لئے افریقی مسلمانوں کے امریکہ جانے کے شواہد بھی پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مغربی افریقہ میں ٹمبکٹو ( مالی کا شہر) کی سنہری سلطنت کے بادشاہ ابوبکر نے گیارہویں صدی عیسویں میں 400 چوبی جہاز مغرب کی جانب روانہ کئے تھے۔ یہ جہاز کیوبا سے ہوتے ہوئے برازیل پہنچے اور ان میں سے صرف ایک جہاز واپس لوٹا، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ افریقی مسلمان کولمبس سے 300 سال قبل امریکہ میں اپنی بستیاں بسا چکے تھے، لہٰذا وہاں مسجد کی موجودگی بھی اچھنبے کی بات نہیں۔ کچھ دیگر قدیم تحریروں میں بھی مسلمانوں کے امریکہ داخل ہونے کے حوالے موجود ہیں۔
ایک مسلمان مورخ ابوالحسن علی السعودی (889-956ء) نے اپنی تحریروں میں قرطبہ کے رہائشی ابن سعد نامی شخص کا ذکر کیا ہے، جس نے امریکہ کا سفر کیا تھا۔ دسمبر 2013ء میں معروف میگزین ’’ہسٹری ٹو ڈے‘‘ میں ایک مغربی محقق فریڈرک نے بھی اس بات کی تائید کی ہے کہ مسلمان کولمبس سے 500 سال قبل امریکہ پہنچ چکے تھے۔
دوسری طرف دنیا میں ان قوموں کی بھی کمی نہیں جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ کولمبس سے قبل امریکہ دریافت کر چکی تھیں۔ ناروے کے شہری دعویٰ کرتے ہیں کہ ناروے میں رہنے والے وائی کنگ نارویجن، مسلمانوں سے بھی ایک صدی پہلے کینیڈا پہنچے تھے۔
اہل چین کہتے ہیں کہ چینی ایڈمرل ژینگ (1421ء) میں امریکہ پہنچا۔
نیوزی لینڈ کے ایک چھوٹے سے جزیرے کک آئی لینڈ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ 700 سال پہلے امریکہ پہنچ چکے تھے۔
جاپانیوں کا موقف ہے کہ وہ تین ہزار سال پہلے امریکہ پہنچ چکے تھے،
جبکہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ ریڈ انڈینز کولمبس سے 12 سے 13 ہزار سال پیشتر سائبریرہ کے راستے امریکہ پہنچے۔
ایسے واقعات میں ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے۔ ہر قوم کسی تاریخی واقعہ کو اپنے سر منڈنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہے، جہاں تک امریکہ کا معاملہ ہے تو مورخین کے خیال میں یہ تاریخ کے ان قضیوں میں سے ایک ہے جسے آج کے دور میں حل نہیں کیا جا سکتا۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس دنیا کی کوئی ایسی تاریخ موجود نہیں، جس سے ہر کوئی اتفاق کرتا ہو۔ مختلف مورخین کا فکری تعصب مختلف ہو سکتا ہے۔ ایسا اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک مورخ نے تاریخی واقعات کو کسی خاص زوایئے سے دیکھا، جبکہ کسی دوسرے نے مخصوص پہلوؤں کو ہائی لائٹ کیا اور مخصوص پہلوؤں کو چھپانے کی کوشش کی۔
ہندوستان کی تاریخ کی بابت بھی ایک قضیہ موجود ہے۔ پاکستان میں مسلمانوں کی تاریخ کو محمد بن قاسم کی آمد (712ء) سے شروع کیا جاتا ہے، جبکہ ہندو مورخین کا معاملہ دوسرا ہے، لہٰذا بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نوعیت کے تاریخی قضیوں میں مختلف مورخین کو پڑھ کر ایک تجزیہ کھڑا کر لیا جائے۔ امریکہ کی دریافت کے باب میں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اگر رجب طیب ارد وان صاحب یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو سب سے پہلے مسلمانوں نے دریافت کیا تو یہ کہنے کا انہیں پورا حق ہے اور اس بات کے وسیع امکانات بھی موجود ہیں۔
ح