• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امریکی جاسوسی لسٹ میں پاکستان کا دوسرا نمبر

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
امریکی جاسوسی لسٹ میں پاکستان کا دوسرا نمبر

لندن: برطانوی اخبار دی گارجین نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا نے پاکستان سے مارچ 2013ء کے دوران ساڑھے 13 ارب کی خفیہ معلومات اکھٹی کی ہیں۔

یہ معلومات ٹیلی فون اور کمپیوٹر نیٹ ورک سے لی گئیں ہیں۔

برطانوی اخبار نے امریکا کی دنیا بھر میں خفیہ ڈیجیٹل معلومات جمع کرنے کی رپورٹ جاری کی ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ امریکا کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی جاسوسی لسٹ میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔

امریکی ادارے نے رواں سال مارچ کے 30 دنوں میں پاکستان سے ساڑھے 13 ارب کی خفیہ معلومات اکھٹی کیں۔

سب سے زیادہ ڈیٹا ایران سے لیا گیا جہاں سے امریکا نے 14 ارب معلومات لیں۔

اردن سے 12 ارب سے زائد

مصر سے 7 ارب سے زائد

اور جب کہ بھارت سے 6 ارب 3 کروڑ خفیہ معلومات اکھٹی کیں۔

امریکی ایجنسی نے اسی عرصے کے دوران امریکا سے بھی 3 ارب خفیہ معلومات اکھٹی کیں۔

دی نیوز ٹرائب 9 جون 2013: Web Desk
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا جہاں ہر حرکت ریکارڈ کی جا رہی ہو

برطانوی اخبار گارڈین نے اس شخص کا نام ظاہر کر دیا ہے جس نے امریکی حکومت کی جانب سے فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے نگرانی کے پروگرام کی معلومات منظر عام پر لایا۔

گارڈین اخبار کے مطابق اس پروگرام کی معلومات ظاہر کرنے والا شخص انتیس سالہ ایڈورڈ سنوڈن ہے جو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سابق ٹیکنیکل اسسٹنٹ ہیں۔ اس وقت وہ ڈیفنس کنٹریکٹر بوز ایلن ہیملٹن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

اخبار نے کہا ہے کہ ایڈورڈ کا نام انہی کی درخواست پر ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ایڈورڈ نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ وہ بیس مئی کو ہانگ کانگ گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے آپ کو ایک ہوٹل میں بند کر لیا۔

'میں ایسے معاشرے میں نہیں رہنا چاہتا جہاں اس قسم کا کام کیا جائے ۔۔۔ میں ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا جہاں ہر وہ چیز جو میں کروں یا کہوں اس کو ریکارڈ کیا جائے۔'

واضح رہے کہ برطانوی اخبار گارڈین نے خبر شائع کی تھی کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی بڑے پیمانے پر فون اور انٹرنیٹ کی نگرانی کر رہی ہے۔

اخبار کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی کے اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر نظر رکھی جا سکے۔

بعدازاں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے تسلیم کیا تھا کہ حکومت انٹرنیٹ کمپنیوں سے صارفین کی بات چیت کا ریکارڈ حاصل کرتی ہے تاہم انہوں نے کہا تھا کہ معلومات حاصل کرنے کی پالیسی کا ہدف صرف 'غیر امریکی افراد' ہیں۔

گارڈین اخبار کے مطابق جب ایڈورڈ سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں ان کا جواب تھا 'اچھا نہیں۔'

ایڈورڈ کا کہنا تھا کہ وہ ہانگ کانگ اس لیے گئے کہ وہاں پر آزادی اظہار کا حق ہے۔

واضح رہے کہ صدر براک اوباما نے اس پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کی انتظامیہ نے سکیورٹی اور پرائیویسی کے درمیان 'صحیح توازن برقرار رکھا ہے۔'

صدر اوباما نے کہا تھا کہ این ایس اے کے پروگرام کی منظوری کانگریس نے دی ہے اور کانگریس کی انٹیلیجنس کمیٹیاں اور خفیہ جاسوسی کی عدالتیں اس پروگرام کی مسلسل نگرانی کرتی ہیں۔

صدر اوباما نے کہا کہ جب انھوں نے صدر کی ذمہ داری اٹھائی تھی اس وقت دونوں پروگراموں کے بارے میں کافی شکوک پائے جاتے تھے لیکن ان کی جانچ پڑتال اور اس میں مزید حفاظتی انتظامات کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ 'یہ قابل قبول ہے'۔

انھوں نے مزید کہا: 'اس کے ذریعہ آپ کو صد فی صد سیکیورٹی تو نہیں مل سکتی لیکن سو فی صد پرائیویسی آپ کو حاصل ہے۔'

خیال رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی تھی کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں سراغ رسانی کی غرض سے انٹرنیٹ کی نو بڑی کمپنیوں کے سرورز سے صارفین کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں میں فیس بک، یو ٹیوب، سکائپ، ایپل، پال ٹاک، گوگل، مائکروسافٹ اور یاہو بھی شامل ہیں۔

ان خبروں کے بعد ورلڈ وائیڈ ویب کے خالق سر ٹم برنرز لی نے پرزم پروگرام پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی حکومت کی جانب سے یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ کے صارفین سے کہا کہ وہ انفرادی طور پر بھی اس معاملے پر آواز اٹھائیں اور احتجاج کریں۔

دوسری جانب فیس بک کے خالق مارک زکربرگ اور گوگل کے مالک لیری پیج نے امریکہ خفیہ ایجنسی کو صارفین کی معلومات کی فراہمی کی تردید کی تھی۔

اس سے قبل ایپل اور یاہو بھی کسی بھی حکومتی ایجنسی کو اپنے سرورز تک براہ راست رسائی دینے کے الزام سے انکار کر چکی ہیں۔

آخری وقت اشاعت: پير 10 جون 2013 ,‭ 20:30 GMT 01:30 PST

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
نگرانی کا راز افشا کرنے والے سنوڈن ہانگ کانگ میں 'لاپتہ'

ایڈورڈ بیس مئی کو ہانگ کانگ پہنچے تھے اور ان کے پاس 90 دن کا ویزا ہے۔

امریکی حکومت کے فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے نگرانی کے پروگرام کی معلومات منظر عام پر لانے والے سی آئی اے کے سابق ملازم ہانگ کانگ میں اپنے ہوٹل سے غائب ہو گئے ہیں۔

انتیس سالہ ایڈورڈ سنوڈن نے پیر کو وہ ہوٹل چھوڑ دیا جہاں وہ قیام پذیر تھے اور اس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں ہی موجود ہیں۔

اس سے قبلی سی آئی اے کے سابق ٹیکنیکل اسسٹنٹ سنوڈن نے کہا تھا کہ انہوں نے پرزم نامی اس پروگرام کے بارے میں معلومات عام کرنے کا فیصلہ ساری دنیا لوگوں کو آزادیوں کو بچانے کے لیے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آزاد عوام کو استبداد سے بچانا ان کی ذمہ داری تھی۔

ایڈورڈ سنوڈن نے امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے بڑے پیمانے پر فون اور انٹرنیٹ کی نگرانی کے بارے میں برطانوی اخبار گارڈین کو بتایا تھا اور اخبار نے انہی کے کہنے پر ان کا نام ظاہر کیا۔

ایڈورڈ نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ 'میں ایسے معاشرے میں نہیں رہنا چاہتا جہاں اس قسم کا کام کیا جائے ۔۔۔ میں ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا جہاں ہر وہ چیز جو میں کروں یا کہوں اس کو ریکارڈ کیا جائے۔'

واضح رہے کہ برطانوی اخبار گارڈین نے خبر شائع کی تھی کہ امریکی خفیہ ایجنسی کے اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر نظر رکھی جا سکے۔

بعدازاں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے تسلیم کیا تھا کہ حکومت انٹرنیٹ کمپنیوں سے صارفین کی بات چیت کا ریکارڈ حاصل کرتی ہے تاہم انہوں نے کہا تھا کہ معلومات حاصل کرنے کی پالیسی کا ہدف صرف'غیر امریکی افراد' ہیں۔

ایڈورڈ سنوڈن پیر کو ہوٹل مِیرا سے چیک آؤٹ کر گئے

گارڈین اخبار کے مطابق جب ایڈورڈ سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں ان کا جواب تھا 'اچھا نہیں۔'

ایڈورڈ کا کہنا تھا کہ وہ ہانگ کانگ اس لیے گئے کہ وہاں پر آزادی اظہار کا حق ہے۔ ایڈورڈ بیس مئی کو ہانگ کانگ پہنچے تھے اور ان کے پاس 90 دن کا ویزا ہے۔

ہانگ کانگ کے مقامی چینل آر ٹی ایچ کے کا کہنا ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن پیر کو ہوٹل مِیرا سے چیک آؤٹ کر گئے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے ہوٹل کے عملے کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ پیر کی دوپہر چلے گئے تھے۔

خیال رہے کہ ہانگ کانگ چین کا علاقہ ہے تاہم اس کا امریکہ کے ساتھ مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ موجود ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سنوڈن کو امریکہ لے جانے کی کوششوں کی کامیابی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر چین ان کوششوں کو ناکام بھی بنا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ صدر براک اوباما نے اس پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کی انتظامیہ نے سکیورٹی اور پرائیویسی کے درمیان 'صحیح توازن برقرار رکھا ہے۔'

صدر اوباما نے کہا تھا کہ این ایس اے کے پروگرام کی منظوری کانگریس نے دی ہے اور کانگریس کی انٹیلیجنس کمیٹیاں اور خفیہ جاسوسی کی عدالتیں اس پروگرام کی مسلسل نگرانی کرتی ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی تھی کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں سراغ رسانی کی غرض سے انٹرنیٹ کی نو بڑی کمپنیوں کے سرورز سے صارفین کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں میں فیس بک، یو ٹیوب، سکائپ، ایپل، پال ٹاک، گوگل، مائکروسافٹ اور یاہو بھی شامل ہیں۔

ان خبروں کے بعد ورلڈ وائیڈ ویب کے خالق سر ٹم برنرز لی نے پرزم پروگرام پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی حکومت کی جانب سے یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ کے صارفین سے کہا کہ وہ انفرادی طور پر بھی اس معاملے پر آواز اٹھائیں اور احتجاج کریں۔

آخری وقت اشاعت: منگل 11 جون 2013 ,‭ 23:23 GMT 04:23 PST

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
مخبر منظر عام سے غائب: اوباما پر عالمی دباؤ

واشنگٹن : امریکی تاریخ کی سب سے بڑی معلومات لیک کرنے والے ایڈورر سنوڈن منظر عام سےغائب ہو گئے ہیں جب کہ صدر بارک اوباما پر مقامی اور عالمی دباؤ میں اضافہ ہو گیا اور ان کی انتظامیہ اس وقت مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔

برطانوی اخبار گارجین کے مطابق امریکہ میں سیاسی رائے منقسم ہے اور کانگریس کے کچھ اراکین ایڈورڈ سنوڈن کی ہانگ کانگ بدری کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر دیگر دونوں جماعتوں کے سنیئر رہنماء سوال کر رہے ہیں کہ امریکا کی عالمی جاسوسی حد سے تجاوز تو نہیں کر گئی۔

امریکی قومی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین ڈیانا فینسٹائن نے این ایس اے کو ہدایت کی ہے کہ وہ طے کرے کہ کس طرح حکومتی نگرانی کے عمل کو محدود کیا جاسکتا ہے۔

یورپی دارالحکومتوں کے عہدیداران نے امریکی ہم منصوبوں سے اس خبر پر جواب طلب کرتے ہوئے یورپ میں ڈیجٹل جاسوسی کو ناقابل برداشت، غیر قانونی اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

جرمن چانسلر انجیلا مارکل نے عندیہ دیا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے برلن میں ایک سمٹ کے دوران اس معاملے پر بارک اوباما سے وضاحت طلب کریں گی۔

علاوہ ازیں یورپین کمیشن کی نائب سربراہ ویویانی ریڈنگ کا کہنا ہے کہ وہ جمعہ کو ڈبلن میں اس معاملے پر امریکی حکام پر دباؤ ڈالے گی، جب کہ لوگوں کے ذاتی ڈیٹا کے تحفظ واضح قانونی فریم ورک وضع کیا جائے گا۔

برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے امریکا کی جمع کردہ انٹیلی جنس معلومات کے استعمال پر برطانوی مؤقف کا دفاع کیا ہے، ان کے بقول یہ کسی بھی طرح ریاست کے لیے خطرے کا باعث نہیں۔

یاد رہے کہ ایڈورڈ سنوڈن نے امریکا کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی جانب سے بڑے پیمانے پر فون اور انٹرنیٹ کی نگرانی کے بارے میں برطانوی اخبار گارجین کو بتایا تھا اور اخبار نے انہی کے کہنے پر ان کا نام ظاہر کیا۔

اب سنوڈن ہانگ کانگ کے ہوٹل سے غائب ہوگئے ہیں۔

روس نے ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے سیاسی پناہ کی درخواست دینے پر اس غور کرنے کی پیشکش کی ہے۔

روسی وزیراعظم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر سی آئی اے کے سابق اہلکار نے ہم سے درخواست کی تو ہم اس پر ہمدردانہ غور کریں گے۔

دی نیوز ٹرائب 11 جون 2013: Katrina Jones
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
گوگل، فیس بک، مائیکرو سافٹ سکیورٹی شفافیت کے حامی

گوگل نے امریکی اٹارنی جنرل کو لکھے خط میں امریکی ایجنسی کی جانب سے کی جانے والی درخواستوں کو ظاہرکرنے کی اجازت چاہی ہے

گوگل، فیس بک اور مائیکرو سافٹ نے امریکی حکومت سے سکیورٹی کے معاملے میں کی جانے والی درخواستوں کو منظر ِعام پر لانے کی اجازت مانگی ہے۔

واضح رہے کہ یہ درخواستیں سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے ان کمپنیوں کے صارفین کی معلومات سے متعلق ہیں۔

یہ مطالبہ اس دعوے کے بعد کیا گیا ہے جس میں یہ کہا گيا ہے کہ امریکی حکام کو ایپل اور گوگل سمیت نو ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سرورز تک براہ راست رسائی حاصل ہے۔

گوگل کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ 'درست نہیں' ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے مزید کہا کہ رازداری کے قانون اس طرح کی درخواستوں کے تحت شبہات کو جنم دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ نے 'پرزم' نامی نگرانی کے پروگرام کی تصدیق کی ہے۔

گوگل کے چیف قانونی اہلکار ڈیوڈ ڈرمنڈ نے امریکی اٹارنی جنرل کو ایک خط لکھ کر یہ اجازت چاہی ہے کہ انھیں 'قومی سلامتی کی درخواستوں بشمول فارن انٹیلیجنس سرویلینس ایکٹ (فیسا) کے ذریعے موصول درخواستوں کو شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔'

انھوں نے خط میں کہا ہے کہ'گوگل کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جتنے دعوے کیے جارہے ہیں ان کے مقابلے درخواستوں پر کی جانے والی تعمیل کے اعداد و شمار بہت کم ہیں۔'

مائیکرو سافٹ کا کہنا ہے کہ درخواستوں کے متعلق زیادہ شفافیت سے لوگوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور اس اہم مسئلے پر بحث ہو سکے گی۔

فیس بک کے مشیر ٹیڈ ایلیئٹ نے کہا کہ 'سماجی رابطے کی بڑی کمپنیاں حکومت کی جانب سے کی جانے والی درخواستوں کے ساتھ ان پر کی جانے والی کارروائی کی مکمل تصویر پیش کرنا چاہتی ہیں۔'

نگرانی کے پروگرام پرزم کے بارے میں یہ بات اس وقت منظر عام پر آئی جب سی آئي اے کے ایک اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے اس پروگرام کے بارے میں کئی انکشافات کیے۔

برطانوی اخبار گارڈین اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع رپورٹ میں دعویٰ کیا گيا ہے کہ امریکہ میں نگرانی کا پہلے سے کہیں زیادہ وسیع نیٹ ورک رکھتا ہے۔

اس انکشاف کے بعد پرائیویسی کے تحفظ کے بارے میں سوال اٹھنے لگے ہیں

سنوڈن نے گارڈین کو بتایا کہ 'نگرانی کرنے والے کسی بھی ای میل کو کسی بھی وقت دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم مشینوں میں بگ ڈال سکتے ہیں۔ جوں ہی آپ انٹرنیٹ پر آئیں گے ہم آپ کے کمپیوٹر کو پہچان لیں گے۔ آپ کسی بھی طرح محفوظ نہیں ہیں خواہ آپ کچھ بھی کرلیں۔'

امریکی کی ٹیکنالوجی کی اہم کمپنیوں نے امریکی حکام کو حاصل اس قسم کی رسائی سے انکار کیا ہے۔

امریکی حکام نے اس پروگرام کا فیسا کے قانون کے تحت دفاع کیا ہے۔

سنوڈن کے انکشاف نے آن لائن سہولیات استعمال کرنے والوں کے حقوق کے بارے میں تشویش میں اضافہ کیا ہے۔

آخری وقت اشاعت: بدھ 12 جون 2013 ,‭ 07:37 GMT 12:37 PST
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
انٹرنیٹ جاسوسی پر اوباما انتطامیہ کے خلاف مقدمہ

نیویارک: نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی جانب سے ٹیلی فون ریکارڈ اور انٹرنیٹ جاسوسی کرنے پر امریکن سول لبرٹیز یونین نے اوباما انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے۔

امریکن سول لبرٹیز یونین کاکہنا ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے حکومت کے پاس شہریوں کے بارے میں نجی اور مذہبی معاملات سمیت ہر قسم کی معلومات جمع ہوگئی ہے جو غلط ہے۔

یونین نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پروگرام کو غیر قانونی اور جاسوس کے ذریعے حاصل کیے جانے والا ریکارڈ ضائع کرنے کا حکم دے۔

دی نیوز ٹرائب 12 جون 2013: Katrina Jones
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ڈیٹا حصول کے لیے امریکی درخواست کی تصدیق

فیس بک نے امریکی حکومت کی جانب سے ڈیٹا کی فراہمی کے لیے کی جانے والی درخواست کی تصدیق کی ہے

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے کہا ہے کہ اسے امریکی حکومت کے مختلف شعبوں سے ان کے صارفین کے ڈیٹا کے بارے میں سنہ 2012 کے آخری نصف میں 9 سے 10 ہزار درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔

کمپنی نے کہا کہ یہ درخواستیں 18 سے 19 ہزار صارفین کے اکاؤنٹس کے متعلق تھیں اور ان کا تعلق جرم اور قومی سلامتی سے تھا۔

ایک سابق امریکی اہلکار کے انکشاف کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں امریکہ میں حکومت کی نگرانی میں الیکٹرانک جاسوسی کا عمل پہلےسے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔

اس سلسلے میں امریکہ کا موقف یہ ہے کہ نگرانی کے اس پروگرام کے ذریعے اسے درجنوں دہشت گردانہ حملے کو ناکام بنانے میں مدد ملی جبکہ امریکہ اور یوروپ میں اس پروگرام کے ذریعہ عوام کی پرائیوسی کے حق پر ضرب پڑنے کا الزام بھی لگ رہا ہے۔

کمپنی کے بلاگ پر لکھے اپنے ایک پوسٹ میں فیس بک کے ٹیڈ اولیوٹ نے کہا کہ یہ درخواستیں مختلف اقسام کی جانچ کے سلسلے میں کی گئي ہیں جن میں بچوں کی گمشدگی، وفاقی مفرور ملزم، چھوٹے مقامی مجرم اور دہشت گردانہ دھمکیوں کے متعلق معلومات شامل ہیں۔

ٹیڈ اولیوٹ نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی کمپنی نے کس حد تک ان درخواستوں پر عمل کیا لیکن انھوں نے یہ ضرور کہا کہ فیس بک نے اپنے صارفین کے ڈیٹا کو 'شدت کے ساتھ' محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔

انھوں نے کہا 'ہم عام طور پر ان درخواستوں کو مسترد کر دیتے ہیں یا پھر حکومت سے اپنی درخواست میں واضح کمی کرنے کے لیے کہتے ہیں یا پھر مطلوبہ دیٹا یا معلومات سے کم مواد فراہم کرتے ہیں'۔

امریکہ کی قومی سیکورٹی ایجنسی سے منسلک اور سابق جاسوس ایڈورڈ سنوڈین نے گارڈین اور واشنگٹن پوسٹ کو الیکٹرونک شعبے میں امریکی خفیہ اداروں کی بڑے پیمانے پر پرزم نامی پروگرام کو افشا کیا تھا۔

ایڈورڈ سنوڈن نے امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے بڑے پیمانے پر فون اور انٹرنیٹ کی نگرانی کے بارے میں برطانوی اخبار گارڈین کو بتایا تھا اور اخبار نے انہی کے کہنے پر ان کا نام ظاہر کیا۔

سی آئی اے کے سابق ٹیکنیکل اسسٹنٹ سنوڈن نے کہا تھا کہ انہوں نے پرزم نامی اس پروگرام کے بارے میں معلومات عام کرنے کا فیصلہ ساری دنیا لوگوں کو آزادیوں کو بچانے کے لیے کیا۔

واضح رہے کہ برطانوی اخبار گارڈین نے خبر شائع کی تھی کہ امریکی خفیہ ایجنسی کے اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر نظر رکھی جا سکے۔

بعدازاں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے تسلیم کیا تھا کہ حکومت انٹرنیٹ کمپنیوں سے صارفین کی بات چیت کا ریکارڈ حاصل کرتی ہے تاہم انہوں نے کہا تھا کہ معلومات حاصل کرنے کی پالیسی کا ہدف صرف 'غیر امریکی افراد' ہیں۔

ہفتہ 15 جون 2013 ,‭ 05:18 GMT 10:18 PST

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
پاکستان کی سائبر جاسوسی میں اضافہ

ٹورنٹو: دنیا بھر میں جہاں امریکا کی جانب سے انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوسی کا چرچا ہے وہیں پاکستان میں بھی اس کی موجودگی کے اشارے ملے ہیں۔

اس بابت گزشتہ دنوں کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی کے ایک تحقیقی گروپ نے پاکستان میں بھی انٹرنیٹ کے ذریعے نگرانی کے اس نظام کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔

مشتری ہوشیار باش' طرز کا یہ پیغام یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے 'دی سٹیزن لیب' نامی تحقیقی گروپ نے اپنی ایک رپورٹ 'فار دئیر آئیز اونلی: ڈیجٹل سپائینگ کی کمرشلائزیشن' میں کی ہے۔

اس رپورٹ نے پاکستان میں بھی فن فشر نامی نظام کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سرور پایا۔ یہ سافٹ ویئر ایک برطانوی کمپنی گیما گروپ تیار کرتی ہے جو کسی ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے کمپیوٹر کا کنٹرول حاصل کر کے دستاویزات کاپی کر سکتا ہے۔

اسکائپ کالز سن سکتا ہے اور ہر ٹائپ کیے ہوئے لفظ کا لاگ حاصل کرسکتا ہے۔

دی نیوز ٹرائب 16 جون 2013: Web Desk
===========

اس کمپنی میں میرا بیٹا کمپیوٹر سائنس تیسرا سال، انٹرنشپ کر رہا ھے جو اسی مہینہ جون میں ایک سال مکمل ہونے پر ختم ہو رہی ھے اور پھر ستمبر میں پوسٹ گریجوئیٹ شروع ہو گی۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
اسی کو کہتے ہیں حق آزادی اظہار اور حق رائے رہی اور نجی اور مذہبی ہر قسم کی معاملات کی آزادی!!!
 
Top