بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
وطن عزیز میں عصر حاضر کی سیاسی قوتوں کی جانب سے دہشت گردی میں ملوث مقامی مزاحمتی گروہوں سے بات چیت کے اشارے کے بعد وفاقی دارالحکومت میں قائم غیر مُلکی سفارتخانوں کے اہلکار نہایت مضطرب انداز میں گھومتے نظر آرہے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق عوام کی جانب سے بھی منتخب کی جانے والی سیاسی قوتوں کو دہشت گردی سے چھُٹکارے کا مینڈیٹ حاصل ہے جس کی بنا پر سفارتی حلقے کھُل کر مخالفت سے اجتناب کر رہے ہیں تاہم اُن کی سیاسی دھڑے بازیوں میں ماہر خرانٹ سیاستدانوں سے غیر رسمی ملاقاتوں کا سلسلہ جس تیزی سے بڑھا ہے اس کے تناظر میں یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ بات چیت کا عمل کسی دباؤ میں آ کر التوا کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے خاموشی نیم رضامندی کی ادا دکھائے جانے کے بعد بظاہر تو یہ بات نہایت عجیب لگتی ہے کہ بات چیت کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی التوا کا شکار ہو جائے لیکن سفارتکارانہ حربوں کے ماہرین کے زیر نگرانی شروع کھیل کا انجام اچھا نظر نہیں آ رہا۔ عسکری ذرائع کی جانب سے نئے وزیر اعظم کو دی جانے والی بریفنگ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مزاحمتی گروپوں کی مرکزی قیادت تو مذاکرات کے بارے میں کچھ حد تک سنجیدگی کا اظہار کر چُکی ہے تاہم اس کے ذیلی گروہ سنجیدہ نظر نہیں آ رہے اور کسی نہ کسی طرح اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹ کے مطابق حلف برداری کی تقریب کے بعد اگر فوری طور پر بات چیت کا عمل شروع نہ کیا گیا تو مُلک ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا نشانہ بن جائے گا۔ اس ہی ضمن میں خیبر پختونخواہ کی ایک مقتدر مذہبی شخصیت جو مزاحمتی گروہوں میں بھی مقدم خیال کیے جاتے ہیں کو مذاکرات کا ماحول بنانے کے لیے فعال کر دیا گیا ہے۔ اب انتظار صرف اس بات کا ہے کہ مزاحمتی گروہ بھی بات چیت کے لیے مکمل آمادگی ظاہر کریں اور کچھ عرصے کے لیے عسکری کارروائیاں روک دیں تاکہ غیر ملکی سفارتکاروں اور شر پسند عناصر کو امن مذاکرات کے التوا کا خاطر خواہ بہانہ دستیاب نہ ہو سکے۔
(اس تحریر میں دانستہ کسی بھی گروہ شخص یا ادارے کا نام نہیں لیا گیا اور یہ تحریر شائع شدہ اصل تجزیے کا اقتباس ہے جو قارئین کی معلومات میں اضافہ کی نیت سے یہاں دیا جا رہا ہے۔ اس تحریر کے تمام مندرجات کا میں دامے درمے سُخنے ذمہ دار ہوں۔ )
(اس تحریر میں دانستہ کسی بھی گروہ شخص یا ادارے کا نام نہیں لیا گیا اور یہ تحریر شائع شدہ اصل تجزیے کا اقتباس ہے جو قارئین کی معلومات میں اضافہ کی نیت سے یہاں دیا جا رہا ہے۔ اس تحریر کے تمام مندرجات کا میں دامے درمے سُخنے ذمہ دار ہوں۔ )