- شمولیت
- ستمبر 15، 2018
- پیغامات
- 164
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 54
امیر المومنین حضرت امیر معاویہ کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کی گواہی
(تحقیق بقلم :اسد الطحاوی الحنفی البریلوی)
(تحقیق بقلم :اسد الطحاوی الحنفی البریلوی)
امام طبرانی اپنی المعجم الکبیر میں ایک روایت نقل کرتے ہیں :
10613 - حدثنا يحيى بن عبد الباقي الأذني، ثنا أبو عمير بن النحاس، ثنا ضمرة بن ربيعة، عن ابن شوذب، عن مطر الوراق، عن زهدم الجرمي قال: كنا في سمر ابن عباس، فقال: " إني محدثكم بحديث ليس بسر ولا علانية: إنه لما كان من أمر هذا الرجل ما كان - يعني عثمان - قلت لعلي: اعتزل؛ فلو كنت في جحر طلبت حتى تستخرج، فعصاني، وايم الله ليتأمرن عليكم معاوية، وذلك أن الله عز وجل يقول {ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لوليه سلطانا فلا يسرف في القتل إنه كان منصورا} [الإسراء: 33] ، ولتحملنكم قريش على سنة فارس والروم، وليتمنن عليكم النصارى واليهود والمجوس، فمن أخذ منكم يومئذ بما يعرف نجا، ومن ترك، وأنتم تاركون، كنتم كقرن من القرون فيمن هلك "
ثقہ تابعی ابومسلم زھدم بن مضرب جرمی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
’’ہم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس رات کی محفل میں شریک ہوئے۔انہوں نے فرمایا : میں تمہیں ایسی بات بیان کرنے والا ہوں جو نہ مخفی ہے نہ ظاہر۔جب عثمان(کی شہادت) کا معاملہ ہوا تو میں نے علی سے کہا : اس معاملے سے دُور رہیں، اگر آپ کسی بِل میں بھی ہوں گے تو (خلافت کے لیے)آپ کو تلاش کر کے نکال لیا جائے گا، لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی۔اللہ کی قسم!معاویہ ضرور تمہارے حکمران بنیں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ إِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا}(الإسرائ17: 33)(اور جو شخص ظلم سے قتل کر دیا جائے، ہم نے اس کے ولی کو اختیار دیا ہے،وہ قتل کرنے میں زیادتی نہ کرے، اس کی ضرور مدد کی جائے گی) ضرور قریش تم پر سوار ہوجائیں گے فارس اور روم کی طریقے پرضرور تم پر نصاری یہود،مجوس احسان جتلائیں گے پس تم میں سے جس اس سے اس دن وہ چیز لے کی جس کو وہ پہچانتا ہے تو اس نے نجات پالی اور جس نے چھوڑ دی اور تم چھوڑنے والے ہی ہوتو تم اس امت کی طرح ہوگے جو ھلاک ہونے والے ہیں ‘‘
(المعجم الکبیر برقم: 10613)
اس روایت کو امام ذھبی نے سیر اعلام میں حضرت امیر معاویہ کے ترجمے میں ذکر کیا ہے
عن زهدم الجرمي، قال:
كنا في سمر ابن عباس، فقال: لما كان من أمر هذا الرجل ما كان -يعني: عثمان - قلت لعلي: اعتزل الناس، فلو كنت في جحر (1) ، لطلبت حتى تستخرج.
فعصاني، وايم الله ليتأمرن عليكم معاوية، وذلك أن الله يقول: {ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لوليه سلطانا، فلا يسرف في القتل، إنه كان منصورا (2) } [الإسراء: 33]
اس روایت کے حاشیہ میں محدث علامہ شعیب الارنووط لکھتے ہیں :
__________
(1) تحرفت في المطبوع إلى " حجر ".
(2)*** أخرجه الطبراني في " الكبير " برقم (1063) من طريق يحيى بن عبدا لباقي الاذني، حدثنا أبو عمير بن النحاس، حدثنا ضمرة بن ربيعة بهذا الإسناد.
ويحيى وأبو عمير لم أجد لهما ترجمة، وباقي رجله ثقات، وأورده في " المجمع " 7 / 236، وقال: رواه الطبراني وفيه من لم أعرفهم، وذكره ابن كثير في " تفسيره " 3 / 39 عن الطبراني، وسكت عنه.
اس روایت کی تخریج کی ہے امام طبرانی نے الکبیر میں برقم: 1063 پر یحییٰ بن عبد الباقی کے طریق سے جو وہ ابو عمیر بن الحناس سے بیان کرتے ہیں ضمرہ کے طریق سے
اور یحییٰ (شیخ طبرانی) اور ابو عمیر (ابن النحاس) میں ان دونوں کے ترجمہ پر مطلع نہ ہو سکا ، اور باقی رجال اس روایت کے ثقہ ہیں
اس روایت کو امام ہیثمی نے المجمع میں درج کرےت ہوئے فراما اس (سند میں ایسے راوی ہیں ) جنکو میں نہیں جانتا
(سیر اعلام النبلاء، جلد 3 ، ص139)
شیخ طبرانی : امام يحيى بن عبد الباقي الأذني کی توثیق :
7480- يحيى بن عبد الباقي بن يحيى بن يزيد بن إبراهيم بن عبد الله أبو القاسم الثغري من أهل أذنة،
قدم بغداد، وحدث بها عن: محمد بن سليمان لوين، وإبراهيم بن سعيد الجوهري، وسعيد بن عمرو السكوني الحمصي، وأبي عمير ابن النحاس الرملي، وإسماعيل بن أبي خالد المقدسي، وأحمد بن عبد الرحمن بن المفضل الحراني، ومحمد بن وزير الدمشقي، والمسيب بن واضح السلمي، ويحيى بن عثمان الحمصي.
روى عنه: يحيى بن محمد بن صاعد، وأبو الحسين ابن المنادي، وأحمد بن إسحاق بن وهب البندار، وأبو عمرو ابن السماك، وإسماعيل بن علي الخطبي، وعبد الباقي بن قانع القاضي.
وكان ثقة.
امام خطیب نے یحییٰ بن الباقی کے شیوخ میں ابو عمیر بن النحاس الرملی کو درج کیا ہوا ہے
(تاریخ بغداد برقم:7480)
ابو عمیر بن النحاس کی توثیق:
انکا ترجمہ خود سیر اعلام ہی میں موجود ہے لیکن اس کتاب کے محقق علامہ شعیب اس ترجمہ پر مطلع نہ ہو سکے معلوم نہیں کیسے لیکن اسکی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ کنیت سے مشہور تھے لیکن انکا مکمل نام بالکل اور ہے کتب احادیث میں
جیسا کہ امام ذھبی انکا مکمل نام اور کنیت لکھتے ہیں :
11 - أبو عمير ابن النحاس، عيسى بن محمد * (د، س)
الإمام، الحافظ، العابد، القدوة، أبو عمير عيسى بن محمد بن إسحاق بن النحاس الرملي.
سمع: الوليد بن مسلم لما قدم الرملة، وضمرة بن ربيعة، وأيوب بن سويد، وزيد بن أبي الزرقاء، وجماعة.
حدث عنه: أبو داود، والنسائي، ويحيى بن معين - مع تقدمه، وأثنى عليه، وقال: ثقة، من أحفظ الناس لحديث ضمرة - وأبو زرعة الرازي، وأبو حاتم، وجعفر الفريابي، وعمر بن محمد بن بجير ، وأبو بكر بن أبي داود، وابن جوصا، وخلق كثير.
قال أبو الحسن بن جوصا: سمعت أبا عمير يقول:
قدم علينا الوليد في سنة أربع وتسعين ومائة، فاستقرض له أبي دنانير، فحج من الرملة، فمات منصرفه من الحج بذي المروة (2) ، فمضى أبي إلى دمشق حتى أبيع منزل الوليد، وقضى دينه.
قال أبو زرعة: حدثنا أبو عمير الرملي، وكان ثقة رضى
(سیر اعلام النبلاء برقم: 11)
ابو عمیر بن الںحاس عیسی بن محمد
اور کتب حدیث میں انکا نام عیسیٰ بن محمد بھی آتا ہے اور ابو عمیر بن نحاس بھی آتا ہے شاید اسی وجہ سے تسامح ہوا ہو کیونکہ جب یہ اس راوی سے انجان تھے وہ بات انہوں نے سیر اعلام کی تیسری جلد میں کی اور بارویں جلد میں اس راوی کا نام آیا تو انہوں نے اپنی تصحیح نہ کی تیسری جلد میں یہ بھی ہو سکتا ہے
تو اس روایت کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں
اور جن دو راویان پر علامہ شعیب نے ترجمے پر مطلع نہ ہونے کا ذکر کیا اسکی توثیق ہم نے پیش کر دی
اس روایت سے حاصل کیا ہوتا ہے ؟
اس موقف کو لکھنا تو میں اپنے الفاظوں سے چاہتا تھا لیکن میری پچھلی پوسٹ جس میں حضرت عثمان کے باغیوں اور قاتلوں کو نبی کریم نے منافق لکھا تھا اس پر میرے عزیز دوست احسن عطاری صاحب نے ایک تجزیہ لکھا تھا جو بہت خوبصورت اور مختصر ہے
جسکی مکمل سمجھ اوپر والی روایت کو پڑھنے کے بعد آتی ہے
وہ یہ ہے
حضرت مولا مشکل کشا رضی اللہ تعالی عنہ
اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ان دونوں کا اپنا اپنا فتویٰ تھا۔
مولا مشکل کشا و رضی اللہ تعالی عنہ کافتوی تھا کہ پہلے بیعت ہو گئی پھر آگے بات ہوگی، اطاعت تو کرو پھر بات بھی کریں گے۔ مسلمانوں کی جمیعت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔
جب کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ رائے تھی کہ سب سے پہلے قرآنی حکم کے مطابق قاتلین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے ورثاء کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اس پر اسلامی حد جاری کریں۔ پھر ہم آپ کی بات کریں گے۔ اس کے بعد بعیت کی جائے گی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مطالبہ بالکل درست تھا لیکن بعیت کی تاخیر کا جو فتوی تھا مبنی بر خطا تھا۔
کیونکہ بعیت الگ چیز ہے اور قاتلین پر حد جاری کرنا الگ چیز ہے
اور میرا تجزیہ یہ ہے :
کہ حضرت ابن عباس جو اہل بیت سے تعلق رکھنے والے کبیر صحابی تھے
اور نبی کریمﷺ نے انکو قرآن کا بڑا عالم (مفسر )قرار دیا تھا
تو معلوم ہوا قصاص حضرت عثمان کے حق میں یہ آٰیت سب سے پہلے نبی کریم کی سند یافتہ مفسر اعظم جو خود اہلبیت سے ہیں انہوں نے خود یہ دلیل قرار دی
اب جو امیر معاویہ کے اس استدلال پر ان پر طعن کریگا در حقیقت وہ حضرت ابن عباس کے فہم پر طعن کر رہا ہے
تحقیق:دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
۲۶مارچ ۲۰۲۰
اٹیچمنٹس
-
465.7 KB مناظر: 275