• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ام المومین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رویت باری کو نہیں مانتی تھیں؟

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
السلام علیکم
اس حدیث کی روسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رویت باری کو نہیں مانتی تھیں ۔ یا اس کی تشریح کچھ اور ہے۔ کیونکہ روافض کا عقیدہ بھی یہی ہے ۔ اور ایسا کیسے ممکن ہے کہ روافض کسی ایسے عقیدے کو پھیلائیں جو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہو۔
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» ”کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ لیتا ہے) اور اس کی ذات لطیف و خبیر ہے“، «وما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب» ”کسی انسان کو بھی یہ مقام و درجہ حاصل نہیں ہے کہ اللہ اس سے بغیر وحی کے یا بغیر پردے کے براہ راست اس سے بات چیت کرے“، (وہ کہتے ہیں) میں ٹیک لگائے ہوئے تھا اور اٹھ بیٹھا، میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے بولنے کا موقع دیجئیے اور میرے بارے میں حکم لگانے میں جلدی نہ کیجئے گا، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: «ولقد رآه نزلة أخرى» ”بیشک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا“ (النجم: ۱۳) «ولقد رآه بالأفق المبين» ”بیشک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا“ (التکویر: ۲۳) تب عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: قسم اللہ کی! میں وہ پہلی ذات ہوں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ”وہ تو جبرائیل علیہ السلام تھے (ان آیتوں میں میرے دیکھنے سے مراد جبرائیل علیہ السلام کو دیکھنا تھا، اللہ کو نہیں) ان دو مواقع کے سوا اور کوئی موقع ایسا نہیں ہے جس میں جبرائیل علیہ السلام کو میں نے ان کی اپنی اصل صورت میں دیکھا ہو۔ جس پر ان کی تخلیق ہوئی ہے، میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ہے، ان کی بناوٹ کی بڑائی یعنی بھاری بھر کم جسامت نے آسمان و زمین کے درمیان جگہ کو گھیر رکھا تھا“، (۲): اور دوسرا وہ شخص کہ جو اللہ پر جھوٹا الزام لگانے کا بڑا مجرم ہے جس نے یہ خیال کیا کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چیزیں اتاری ہیں ان میں سے کچھ چیزیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپا لی ہیں۔ جب کہ اللہ کہتا ہے «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» ”جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو“ (النساء: ۶۷)، (۳): وہ شخص بھی اللہ پر جھوٹا الزام لگانے والا ہے جو یہ سمجھے کہ کل کیا ہونے والا ہے، محمد اسے جانتے ہیں، جب کہ اللہ خود کہتا ہے «قل لا يعلم من في السموات والأرض الغيب إلا الله» ”کہ آسمان و زمین میں غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے“۔
حدیث نمبر: 3068ترمذی --- حکم البانی: صحيح
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم! رویت باری تعالیٰ جو کہ آخرت ميں مومنین کے لئے ہے اس کا یہاں تذکرہ نہیں، جس کے اہل سنت قائل ہیں،
یہاں اس معراج میں اللہ تعالیٰ کی رویت کا انکار ہے، جو صوفی و بریلوی مانتے ہیں، دوم اس حدیث میں بریولوں کے عقیدہ علم الغیب کی بھی صریح نفی ہے!
مزید کہ یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے!
 
Last edited:
Top