• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انا کی قربانی

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
انا کی قربانی

ملک کے صدر بننے کے بعد ایک دن میں نے اپنے چند ساتھیوں سے کہا: ’’چلو! آج شہر دیکھتے ہیں، تقریباً 27 سال قید خانے میں گزارنے کے بعد آج اپنی آنکھوں سے اپنا شہر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔

اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہر کی مختلف گلیوں میں چلتے چلتے جب ہمیں بھوک ستانے لگی، تو جوں ہی ایک ریسٹورینٹ نظر آیا، میں نے ساتھیوں سے کہا: ’’آؤ یہاں کھانا کھاتے ہیں‘‘۔
وہ سب حیرانی سے بولے: ’’سر، آپ ان گلیوں کی ریسٹورینٹ سے کھانا کھائیں گے‘‘۔
میں نے کہا: ’’حیرت کی کوئی بات نہیں! مجھے بھوک لگی ہے۔ میں تو کھاؤں گا۔ طویل عرصے تک جیل میں بدترین کھانا کھانے کے بعد اب ان گلیوں کا کھانا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا‘‘۔

اور ہم دو ٹیبل کو جوڑ کر کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔
ہم سے تھوڑے فاصلے پر ایک دوسرے ٹیبل پر ایک عمر رسیدہ آدمی بیٹھا ہوا نظر آیا۔
تو میں نے ویٹر سے کہا: ’’اسے میرے ٹیبل پر کھانا کھانے کیلئے بلاؤ اور اس کیلئے میرے برابر میں ایک کرسی رکھو‘‘۔
وہ عمر رسیدہ شخص آکر میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
ہم کھاتے ہوئے اپنے شہر کی تبدیلی اور اس کی ترقی کے متعلق باتیں کرتے جارہے تھے کہ ہم سبھوں نے نوٹ کیا کہ میرے ساتھ بیٹھا وہ آدمی ٹھیک سے کھا نہیں پا رہا تھا۔ اسے پسینہ چھوٹ رہا تھا اور اس کا ہاتھ اس بری طرح کانپ رہا ہے کہ جب وہ کھانا منہ تک لے جا جاتا تو کھانا پلیٹ میں ہی گر جاتا۔
ہمارے ایک ساتھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:’’ آپ بیمار لگ رہے ہیں‘‘۔
لیکن وہ شخص خاموش رہا، کچھ نہیں کہا۔
پھر میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلایا، پانی پلایا اور اس کا منہ صاف کیا۔
میں نے ویٹر سے کہا: ’’کھانے کا بل لے آؤ‘‘۔
اب وہ شخص ہمیں الوداع کہہ کر جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن اس کے جسم میں کپکپاہٹ طاری تھی اور کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔ لہذا میں نے اپنے ہاتھوں سے کھڑے ہونے میں اس کی مدد کی اور اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ وہ اسے دروازے تک چھوڑ آئے۔
جب وہ ہوٹل سے باہر جا رہا تھا تو میرے ایک ساتھی نے کہا: ’’یہ آدمی تو شدید بیمار ہے، ایسی حالت میں وہ گھر تک کیونکر پہنچ پائے گا‘‘۔
لہذا میں نے انہیں بتایا کہ : ’’وہ بیمار نہیں ہے۔ وہ اس سیل کا انچارج تھا جہاں مجھے قید کیا گیا تھا۔ قید خانے میں مجھے مارپیٹ کرنا، اذیت دینا اور مجھ پر تشدد کرنا اس کے فرائض میں تھے۔ جب کبھی شدید مار پیٹ اور تشدد کے بعد مجھے بری طرح پیاس لگتی اور میں پانی کے لئے چیختا تو وہ میرے منہ اور جسم پر پیشاب کر دیتا‘‘۔
آج جب میں اس ملک کا ایک طاقت ور صدر بننے کے بعد اسے اچانک دیکھا اور اسے اپنے ٹیبل پر بلایا تو اپنے اُن دنوں کی باتوں کو یاد کر کے وہ ڈر گیا اور اسے اتنی شدید خوف لاحق ہوئی کہ اس کا سارا جسم کانپنے لگا۔
لیکن اقتدار میں آکر بے اختیار لوگوں کو سزا دینا میرے نظریہ کے خلاف ہے، یہ میری زندگی کے اخلاقیات کا حصہ نہیں ہے۔
لہذا سزا دینے کی بجائے میں نے اسے پیار دیا۔
جب وہ طاقت میں تھا تو وہ میرے منہ پر پیشاب کرتا تھا۔
آج میں طاقت میں آکر اپنے ہاتھ سے اس کے منہ میں کھانا ڈال دیا۔
وہ میرا چہرہ گندہ کرتا تھا، آج میں نے اس کے منہ کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔
میں جیسا آپ کا صدر ہوں اسی طرح اس کا بھی صدر ہیں۔ ہر شہری کا احترام کرنا میرا اخلاقی فرض ہے۔
یاد رکھو! انتقام ریاست کو تباہ کرتی ہے جبکہ عفو و درگزر ریاست کی تعمیر کرتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے شاید صدر زرداری کی بات کی ہے۔
نہیں جناب پاکستان کی ایسی قسمت کہاں جو اسے ایسی سوچ رکھنے والا صدر ملے۔
یہ تھے جنوبی افریقہ کے صدر آنجہانی نیلسن منڈیلا (Nelson Mandela)۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
افسوس کہ آج ہم مسلمانوں میں ایسی سوچ کم ہی پائی جاتی ہے جبکہ ہمارے آقا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں اعتدال، رواداری اور عدم تشدد کی اعلیٰ ترین عملی مثالیں قائم کی ہیں۔

تاریخ انسانی میں فتح مکہ انسانی رواداری، صبر وتحمل، برداشت اور وسیع القلبی کی وہ لازوال اور عدیم النظیر روشن مثال ہے جس کا عشر عشیر بھی تاریخ عالم کے معلّمین اخلاق کی عملی زندگی میں نظر نہیں آتا۔ اس دن مکہ کے تمام ظالم و جابر کفار و مشرکین سامنے بے بس اورگردن جھکائے کھڑے تھے۔ وہ سب تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ان کو اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔ آج ربّ کائنات نے ان تمام کو پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں دے دیا تھا۔ چاہتے تو چشم زدن میں سب کی گردنیں کٹواکر سابقہ ظلموں کا بدلہ لے لیتے۔


اس حالت میں پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز اُٹھتی ہے: ”تمہیں معلوم ہے میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟“
سب نے جواب میں کہا: ”آپ کریم بھائی کے کریم بیٹے ہیں اور ہم آپ کی طرف سے رحم واحسان کے امیدوار ہیں‘‘۔
پھر کیاتھا؟ دریائے رحمت اُمنڈ آیا اور اہل مکہ کی ظلموں بھری تاریخ کو بہا کر لے گیا۔
فرمایا: لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ ۔ اِذْہَبُوْا فَاَنْتُمْ الطُّلَقَآءُ ۔ ۔ ۔ ”آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو“۔


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہمارے لئے اور پوری دنیا کیلئے کامل نمونہ ہے۔

لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمان ہی آپ ﷺ کی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں، دوسروں کو کیا سمجھائیں گے۔
ہم میں عفو و درگزر، صبر وتحمل اور برداشت و رواداری کا فقدان ہے۔ آج ہم اپنوں کو بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔

ابھی عشرہ ذی الحجہ کے دن گزر رہے ہیں۔ سب لوگ جانوروں کی قربانی دینے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ 10 ذی الحجہ کو ہم سب مسلمان جانوروں کی قربانی دیں گے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی اگر ہم سب اپنی انا کی بھی قربانی دیں، اپنے دلوں کو پاک و صاف کریں، ہمیں کوئی کتنے بڑے دکھ ہی کیوں نا پہنچائیں ہوں ہم ان دنوں میں انہیں معاف کرکے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کریں تو اس طرح ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی سنت کو زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آقا محمد ﷺ کی عفو و درگزر کی سنت کو بھی زندہ کر سکیں گے۔

اللہ تعالٰی ہمارے دلوں سے اَنا و عِناد کو ختم فرما دے، ہمارے دلوں کو پاک و صاف کر دے اور ہمارے دلوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا فرما دے۔ آمین
تحریر: #محمد_اجمل_خان
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے اپنے عالم اسلام میں ایسے ھزاروں کردار ہیں جنکی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ فتح مکہ کے بعد عام معافی کے اعلان کے بعد جس طرح اس پر عمل کیا گیا اس جیسی کوئی مثال مل ہی نہیں سکتی ۔ میری شدید خواہش ہیکہ جب اپنے ہی باغ میں ھزاروں پھول ھوں تو غیر کے گلدستہ پر نظر کیوں ڈالی جائے!

والسلام
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے اپنے عالم اسلام میں ایسے ھزاروں کردار ہیں جنکی مثالیں دی جا سکتی ہیں
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
ہمارے اپنے عالم اسلام میں تو اب نظر نہیں آتے، یا میرے علم میں نہیں۔ اگر آپ کے علم میں ہوں تو ان کے بارے میں ضرور لکھیں۔
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

"آج" کی مثالیں ملیں گی کیسے جب ہمارا ھر "اکبر" اپنا گھر "جودھا" سے سجا رھا ھے ۔ میری بات اپنی جگہ کہ ھم بطور مثال اپنوں کو پیش کریں ، اس شاداب گلشن میں پھولوں کی کوئی کمی نہیں ۔

والسلام
 
شمولیت
فروری 16، 2018
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
43
انا کی قربانی

ملک کے صدر بننے کے بعد ایک دن میں نے اپنے چند ساتھیوں سے کہا: ’’چلو! آج شہر دیکھتے ہیں، تقریباً 27 سال قید خانے میں گزارنے کے بعد آج اپنی آنکھوں سے اپنا شہر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔

اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہر کی مختلف گلیوں میں چلتے چلتے جب ہمیں بھوک ستانے لگی، تو جوں ہی ایک ریسٹورینٹ نظر آیا، میں نے ساتھیوں سے کہا: ’’آؤ یہاں کھانا کھاتے ہیں‘‘۔
وہ سب حیرانی سے بولے: ’’سر، آپ ان گلیوں کی ریسٹورینٹ سے کھانا کھائیں گے‘‘۔
میں نے کہا: ’’حیرت کی کوئی بات نہیں! مجھے بھوک لگی ہے۔ میں تو کھاؤں گا۔ طویل عرصے تک جیل میں بدترین کھانا کھانے کے بعد اب ان گلیوں کا کھانا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا‘‘۔

اور ہم دو ٹیبل کو جوڑ کر کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔
ہم سے تھوڑے فاصلے پر ایک دوسرے ٹیبل پر ایک عمر رسیدہ آدمی بیٹھا ہوا نظر آیا۔
تو میں نے ویٹر سے کہا: ’’اسے میرے ٹیبل پر کھانا کھانے کیلئے بلاؤ اور اس کیلئے میرے برابر میں ایک کرسی رکھو‘‘۔
وہ عمر رسیدہ شخص آکر میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
ہم کھاتے ہوئے اپنے شہر کی تبدیلی اور اس کی ترقی کے متعلق باتیں کرتے جارہے تھے کہ ہم سبھوں نے نوٹ کیا کہ میرے ساتھ بیٹھا وہ آدمی ٹھیک سے کھا نہیں پا رہا تھا۔ اسے پسینہ چھوٹ رہا تھا اور اس کا ہاتھ اس بری طرح کانپ رہا ہے کہ جب وہ کھانا منہ تک لے جا جاتا تو کھانا پلیٹ میں ہی گر جاتا۔
ہمارے ایک ساتھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:’’ آپ بیمار لگ رہے ہیں‘‘۔
لیکن وہ شخص خاموش رہا، کچھ نہیں کہا۔
پھر میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلایا، پانی پلایا اور اس کا منہ صاف کیا۔
میں نے ویٹر سے کہا: ’’کھانے کا بل لے آؤ‘‘۔
اب وہ شخص ہمیں الوداع کہہ کر جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن اس کے جسم میں کپکپاہٹ طاری تھی اور کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔ لہذا میں نے اپنے ہاتھوں سے کھڑے ہونے میں اس کی مدد کی اور اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ وہ اسے دروازے تک چھوڑ آئے۔
جب وہ ہوٹل سے باہر جا رہا تھا تو میرے ایک ساتھی نے کہا: ’’یہ آدمی تو شدید بیمار ہے، ایسی حالت میں وہ گھر تک کیونکر پہنچ پائے گا‘‘۔
لہذا میں نے انہیں بتایا کہ : ’’وہ بیمار نہیں ہے۔ وہ اس سیل کا انچارج تھا جہاں مجھے قید کیا گیا تھا۔ قید خانے میں مجھے مارپیٹ کرنا، اذیت دینا اور مجھ پر تشدد کرنا اس کے فرائض میں تھے۔ جب کبھی شدید مار پیٹ اور تشدد کے بعد مجھے بری طرح پیاس لگتی اور میں پانی کے لئے چیختا تو وہ میرے منہ اور جسم پر پیشاب کر دیتا‘‘۔
آج جب میں اس ملک کا ایک طاقت ور صدر بننے کے بعد اسے اچانک دیکھا اور اسے اپنے ٹیبل پر بلایا تو اپنے اُن دنوں کی باتوں کو یاد کر کے وہ ڈر گیا اور اسے اتنی شدید خوف لاحق ہوئی کہ اس کا سارا جسم کانپنے لگا۔
لیکن اقتدار میں آکر بے اختیار لوگوں کو سزا دینا میرے نظریہ کے خلاف ہے، یہ میری زندگی کے اخلاقیات کا حصہ نہیں ہے۔
لہذا سزا دینے کی بجائے میں نے اسے پیار دیا۔
جب وہ طاقت میں تھا تو وہ میرے منہ پر پیشاب کرتا تھا۔
آج میں طاقت میں آکر اپنے ہاتھ سے اس کے منہ میں کھانا ڈال دیا۔
وہ میرا چہرہ گندہ کرتا تھا، آج میں نے اس کے منہ کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔
میں جیسا آپ کا صدر ہوں اسی طرح اس کا بھی صدر ہیں۔ ہر شہری کا احترام کرنا میرا اخلاقی فرض ہے۔
یاد رکھو! انتقام ریاست کو تباہ کرتی ہے جبکہ عفو و درگزر ریاست کی تعمیر کرتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے شاید صدر زرداری کی بات کی ہے۔
نہیں جناب پاکستان کی ایسی قسمت کہاں جو اسے ایسی سوچ رکھنے والا صدر ملے۔
یہ تھے جنوبی افریقہ کے صدر آنجہانی نیلسن منڈیلا (Nelson Mandela)۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
افسوس کہ آج ہم مسلمانوں میں ایسی سوچ کم ہی پائی جاتی ہے جبکہ ہمارے آقا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں اعتدال، رواداری اور عدم تشدد کی اعلیٰ ترین عملی مثالیں قائم کی ہیں۔

تاریخ انسانی میں فتح مکہ انسانی رواداری، صبر وتحمل، برداشت اور وسیع القلبی کی وہ لازوال اور عدیم النظیر روشن مثال ہے جس کا عشر عشیر بھی تاریخ عالم کے معلّمین اخلاق کی عملی زندگی میں نظر نہیں آتا۔ اس دن مکہ کے تمام ظالم و جابر کفار و مشرکین سامنے بے بس اورگردن جھکائے کھڑے تھے۔ وہ سب تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ان کو اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔ آج ربّ کائنات نے ان تمام کو پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں دے دیا تھا۔ چاہتے تو چشم زدن میں سب کی گردنیں کٹواکر سابقہ ظلموں کا بدلہ لے لیتے۔


اس حالت میں پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز اُٹھتی ہے: ”تمہیں معلوم ہے میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟“
سب نے جواب میں کہا: ”آپ کریم بھائی کے کریم بیٹے ہیں اور ہم آپ کی طرف سے رحم واحسان کے امیدوار ہیں‘‘۔
پھر کیاتھا؟ دریائے رحمت اُمنڈ آیا اور اہل مکہ کی ظلموں بھری تاریخ کو بہا کر لے گیا۔
فرمایا: لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ ۔ اِذْہَبُوْا فَاَنْتُمْ الطُّلَقَآءُ ۔ ۔ ۔ ”آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو“۔


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہمارے لئے اور پوری دنیا کیلئے کامل نمونہ ہے۔

لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمان ہی آپ ﷺ کی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں، دوسروں کو کیا سمجھائیں گے۔
ہم میں عفو و درگزر، صبر وتحمل اور برداشت و رواداری کا فقدان ہے۔ آج ہم اپنوں کو بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔

ابھی عشرہ ذی الحجہ کے دن گزر رہے ہیں۔ سب لوگ جانوروں کی قربانی دینے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ 10 ذی الحجہ کو ہم سب مسلمان جانوروں کی قربانی دیں گے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی اگر ہم سب اپنی انا کی بھی قربانی دیں، اپنے دلوں کو پاک و صاف کریں، ہمیں کوئی کتنے بڑے دکھ ہی کیوں نا پہنچائیں ہوں ہم ان دنوں میں انہیں معاف کرکے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کریں تو اس طرح ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی سنت کو زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آقا محمد ﷺ کی عفو و درگزر کی سنت کو بھی زندہ کر سکیں گے۔

اللہ تعالٰی ہمارے دلوں سے اَنا و عِناد کو ختم فرما دے، ہمارے دلوں کو پاک و صاف کر دے اور ہمارے دلوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا فرما دے۔ آمین
تحریر: #محمد_اجمل_خان
ہمارے یہاں کا حال تو اللہ خیر کا معاملہ کرے ہمارے یہاں تو بس ایک ہی مسلہ بچا ہے وہ ہے
ہندو مسلم

آپ کے یہاں تو آج بھی قدر غنیمت ہے
 
Top