• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہوگا: شاہ عبداللہ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہوگا: شاہ عبداللہ

انتہا پسندی کا اسلام سے تعلق نہیں، منحرف گروپ شیطانی ایجنٹ ہیں​

الریاض ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ: پیر 12 ذوالحجہ 1435هـ - 6 اکتوبر 2014م

سعودی عرب کے فرمانروا خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی ایک لعنت ہے اور ہمیں اس کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

انھوں نے یہ بات اسلامی ممالک سے حج کے لیے آنے والے وفود کے لیڈروں سے تقریر میں کہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انتہا پسندی سے ہی دہشت گردی جنم لیتی ہے ، ہمیں اس کے استیصال کے لیے اپنی کوششوں کو مربوط بنانا ہو گا اور اس کو شکست دینا ہو گی کیونکہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

شاہ عبداللہ کی یہ تقریر سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے غیرملکی سرکردہ شخصیات کے اجتماع میں پڑھ کر سنائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''انتہا پسندی ایک لعنت ہے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ کر ہی ہم اس کا مکمل خاتمہ کر سکتے ہیں۔ ہم اس کے خاتمے کے لیے غیرمتزلزل اور پُرعزم انداز میں کوششیں کر رہے ہیں''۔ انھوں نے واضح کیا کہ نوجوانوں کو انتہا پسندانہ نظریات سے بچانے کی ضرورت ہے۔

شہزادہ سلمان نے منیٰ میں اتوار کو یہ خطاب کیا ہے جہاں حجاج کرام عید الاضحیٰ کے دوسرے روز مناسک کی ادائی میں مصروف تھے اور شیطان کو کنکریاں مار رہے تھے۔ ان کے مخاطبین میں بعض اسلامی ممالک کے صدور ، ولی عہد، شہزادے اور دیگر اعلیٰ عہدے دار بھی شامل تھے۔

خادم الحرمین الشریفین نے قبل ازیں اپنے ایک اور پیغام میں انتہا پسندوں کی جانب سے سعودی مملکت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں کو ناکام بنانے پر اپنے ملک کی سکیورٹی فورسز کی خدمات کو سراہا ہے۔ انھوں نے ان منحرف گروپوں کو شیطان کے ایجنٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم مادرِوطن کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کرنے والوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
داعش مخالف جنگ 30 سال جاری رہنے کا امکان

سابق وزیردفاع کی صدر اوباما پر فیصلوں میں تاخیر پر کڑی تنقید​

العربیہ ڈاٹ نیٹ: پیر 12 ذوالحجہ 1435هـ - 6 اکتوبر 2014م

امریکا کے سابق وزیر دفاع لیون پینیٹا نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ کی ناقص فیصلہ سازی کی وجہ سے عراق اور شام میں برسرپیکار جنگجو گروپ دولت اسلامی (داعش) کے خلاف جنگ میں تین عشرے لگ سکتے ہیں۔

انھوں نے یہ بات امریکی اخبار یوایس ٹوڈے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی ہے۔ سوموار کو شائع ہونے والے اس انٹرویو میں انھوں نے صدر براک اوباما کو فیصلوں میں تاخیر پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ صدر صاحب اکثر ایک لیڈر کی حیثیت سے کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے قانون کے پروفیسر کی منطق جھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔

لیون پینیٹا نے شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف احتجاجی تحریک کے اوائل میں اعتدال پسند شامی باغیوں کو مسلح کرنے کا فیصلہ نہ کرنے پر بھی صدر اوباما پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔

پینیٹا کا کہنا ہے کہ ''ان کے خیال میں داعش کے خلاف اس جنگ میں تیس سال لگ سکتے ہیں اور یہ جنگ لیبیا، نائیجیریا ، صومالیہ اور یمن تک طول پکڑ سکتی ہے''۔ وہ صدر اوباما کی کابینہ میں وزیر دفاع کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں لیکن انھوں نے گذشتہ تین سال کے دوران اوباما انتظامیہ کے فیصلوں پر تنقید کی ہے۔

انھوں نے خاص طور پر عراق سے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کے فیصلے کوغلط قرار دیا اور کہا ہے کہ صدر اوباما کو عراقی حکومت پر امریکی فوجیوں کی تعیناتی برقرار رکھنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے تھا۔ ان کے بہ قول 2011ء میں امریکی فوج کے انخلاء سے عراق میں سکیورٹی انخلاء پیدا ہوگیا تھا۔

سابق امریکی وزیردفاع نے انٹرویو میں بتایا ہے کہ انھوں نے اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے صدر اوباما کو 2012ء میں اعتدال پسند شامی باغیوں کو مسلح کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن انھوں نے اس پر کان نہیں دھرے تھے۔
انھوں نے شام میں فوجی کارروائی میں تاخیر اور پس وپیش سے کام لینے پر صدر براک اوباما پرتنقید کی ہے۔ تاہم انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ براک اوباما اپنی صدارت کے آخری دوسال میں اپنے غلط فیصلوں کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

انھوں نے ان خیالات کا اظہار اپنی کتاب ''قیمتی جنگیں: جنگ اور امن میں قیادت کی یادداشتیں'' کے منگل کو اجراء سے ایک روز قبل کیا ہے۔ یہ کتاب پینگوئن پریس نے شائع کی ہے۔ انھیں سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے وزیردفاع مقرر کیا تھا۔ اس سے قبل وہ سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ رہے تھے۔

لیون پینیٹا نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل اس کتاب میں لکھا ہے کہ ''صدر اوباما شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد ردعمل کے اظہار میں ناکام رہے تھے جس سے دنیا کو ایک غلط پیغام گیا تھا، اس طرح وہ اپنی ساکھ کھو بیٹھے تھے''۔ اس کتاب میں انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ان کے سنہ 2011ء میں عراق سے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کے معاملے پر بھی صدر اوباما کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔

یاد رہے کہ براک اوباما نے اگست 2012 ء میں کہا تھا کہ اگر صدر بشارالاسد اپنے ہی شہریوں کے خلاف کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہیں تو امریکا شام کی خانہ جنگی میں فوجی مداخلت کی مخالفت کے فیصلے پر نظرثانی کرے گا۔ انھوں نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو سرخ لکیر قرار دیا تھا لیکن جب شامی صدر کی فورسز نے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو صدر اوباما نے ازخود شامی رجیم کے خلاف فوجی کارروائی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور اس کے بجائے انھوں نے کانگریس سے مشاورت کا عندیہ دے دیا تھا۔

2013ء کے وسط میں کانگریس کی اکثریت نے شام میں امریکی فوج کی کارروائی سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ لیون پینیٹا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ''یہ نتیجہ امریکا کی ساکھ کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ جب صدر کمانڈر انچیف کی حیثیت سے کوئی ریڈ لائن کھینچتے ہیں تو یہ بڑی اہم بن جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اگر اس کو عبور کیا جائے گا تو وہ کارروائی کریں گے لیکن بشارالاسد نے صدر اوباما کے بار بار کے انتباہ کو نظر انداز کیا تھا۔

ح
 
Top