داعش مخالف جنگ 30 سال جاری رہنے کا امکان
سابق وزیردفاع کی صدر اوباما پر فیصلوں میں تاخیر پر کڑی تنقید
العربیہ ڈاٹ نیٹ: پیر 12 ذوالحجہ 1435هـ - 6 اکتوبر 2014م
امریکا کے سابق وزیر دفاع لیون پینیٹا نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ کی ناقص فیصلہ سازی کی وجہ سے عراق اور شام میں برسرپیکار جنگجو گروپ دولت اسلامی (داعش) کے خلاف جنگ میں تین عشرے لگ سکتے ہیں۔
انھوں نے یہ بات امریکی اخبار یوایس ٹوڈے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی ہے۔ سوموار کو شائع ہونے والے اس انٹرویو میں انھوں نے صدر براک اوباما کو فیصلوں میں تاخیر پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ صدر صاحب اکثر ایک لیڈر کی حیثیت سے کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے قانون کے پروفیسر کی منطق جھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔
لیون پینیٹا نے شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف احتجاجی تحریک کے اوائل میں اعتدال پسند شامی باغیوں کو مسلح کرنے کا فیصلہ نہ کرنے پر بھی صدر اوباما پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔
پینیٹا کا کہنا ہے کہ ''ان کے خیال میں داعش کے خلاف اس جنگ میں تیس سال لگ سکتے ہیں اور یہ جنگ لیبیا، نائیجیریا ، صومالیہ اور یمن تک طول پکڑ سکتی ہے''۔ وہ صدر اوباما کی کابینہ میں وزیر دفاع کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں لیکن انھوں نے گذشتہ تین سال کے دوران اوباما انتظامیہ کے فیصلوں پر تنقید کی ہے۔
انھوں نے خاص طور پر عراق سے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کے فیصلے کوغلط قرار دیا اور کہا ہے کہ صدر اوباما کو عراقی حکومت پر امریکی فوجیوں کی تعیناتی برقرار رکھنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے تھا۔ ان کے بہ قول 2011ء میں امریکی فوج کے انخلاء سے عراق میں سکیورٹی انخلاء پیدا ہوگیا تھا۔
سابق امریکی وزیردفاع نے انٹرویو میں بتایا ہے کہ انھوں نے اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے صدر اوباما کو 2012ء میں اعتدال پسند شامی باغیوں کو مسلح کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن انھوں نے اس پر کان نہیں دھرے تھے۔
انھوں نے شام میں فوجی کارروائی میں تاخیر اور پس وپیش سے کام لینے پر صدر براک اوباما پرتنقید کی ہے۔ تاہم انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ براک اوباما اپنی صدارت کے آخری دوسال میں اپنے غلط فیصلوں کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
انھوں نے ان خیالات کا اظہار اپنی کتاب ''قیمتی جنگیں: جنگ اور امن میں قیادت کی یادداشتیں'' کے منگل کو اجراء سے ایک روز قبل کیا ہے۔ یہ کتاب پینگوئن پریس نے شائع کی ہے۔ انھیں سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے وزیردفاع مقرر کیا تھا۔ اس سے قبل وہ سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ رہے تھے۔
لیون پینیٹا نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل اس کتاب میں لکھا ہے کہ ''صدر اوباما شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد ردعمل کے اظہار میں ناکام رہے تھے جس سے دنیا کو ایک غلط پیغام گیا تھا، اس طرح وہ اپنی ساکھ کھو بیٹھے تھے''۔ اس کتاب میں انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ان کے سنہ 2011ء میں عراق سے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کے معاملے پر بھی صدر اوباما کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ براک اوباما نے اگست 2012 ء میں کہا تھا کہ اگر صدر بشارالاسد اپنے ہی شہریوں کے خلاف کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہیں تو امریکا شام کی خانہ جنگی میں فوجی مداخلت کی مخالفت کے فیصلے پر نظرثانی کرے گا۔ انھوں نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو سرخ لکیر قرار دیا تھا لیکن جب شامی صدر کی فورسز نے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو صدر اوباما نے ازخود شامی رجیم کے خلاف فوجی کارروائی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور اس کے بجائے انھوں نے کانگریس سے مشاورت کا عندیہ دے دیا تھا۔
2013ء کے وسط میں کانگریس کی اکثریت نے شام میں امریکی فوج کی کارروائی سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ لیون پینیٹا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ''یہ نتیجہ امریکا کی ساکھ کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ جب صدر کمانڈر انچیف کی حیثیت سے کوئی ریڈ لائن کھینچتے ہیں تو یہ بڑی اہم بن جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اگر اس کو عبور کیا جائے گا تو وہ کارروائی کریں گے لیکن بشارالاسد نے صدر اوباما کے بار بار کے انتباہ کو نظر انداز کیا تھا۔
ح