ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
انسانی حقوق کے علمبردار کہا ں ہیں…؟
محمد عطاء اللہ صدیقی
کارگل سیکٹر میں بھارتی افواج کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں سکول جانے والے معصوم بچوں کے پھول چہرے موت کی اندھی وادی میں اُتر رہے ہیں ۔ پہاڑی چشموں سے پانی بھر کر لانے والی بے گناہ عورتوں کے جسموں کے ٹکڑے ہوامیں بکھر رہے ہیں ۔آس پاس کے گاؤں کے مظلوم انسانوں کے لاشے گر رہے ہیں۔زندہ بچ رہنے والے موت کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھ رہے ہیں، نہیں معلوم کب بھارتی درندے پاکستانی سرحد کو عبور کرتے ہوئے ان پر آگ وآہن کی بارش برسا دیں۔
پور ی دنیا میں استعمار کا پھیلایا ہوا NGOsکا نیٹ ورک بے حسی اور برفابی کیفیت میں مبتلا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے تحفظ کے متعلق تشویش میں مبتلا اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی خاتو ن سربراہ میری روبنس کشمیری خواتین کے اس قتل عام کے بارے میں صدائے احتجاج بلند کیوں نہیں کرتیں…؟ان کی پتھرائی ہوئی آنکھیں کسی امن کے مسیحا کی منتظر ہیں ۔ان کے کان کسی انسانیت کے علمبردار کی آوزسننے کو تر س رہے ہیں ۔ ان بے گناہ انسانوں کی دلدوز چیخیں اقوامِ متحدہ کی دیواروں سے ٹکڑا کر واپس لوٹ رہی ہیں ۔ان کے جگر پاش نوحے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے پردۂ سماعت تک نہیں پہنچ رہے کیونکہ انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی ہیں ۔
معمولی معمولی باتوں پر انسانی حقوق کاواویلا کرنے والے خانہ زاد دانشوروں کے قلموں کی زبانیں خشک ہیں۔ بھارتی سرزمین پر پاکستان کے خلاف ہفواتی بکواس کے مرتکب ایک صحافی کی حمایت میں مضامین کے انبار لگانے والے وہ آزادیٔ صحافت کے علمبردار بھی گم ہیں ۔ لاہور کے مال روڈ پر ایٹمی دھماکے کے خلاف ’’رقص حقوق‘‘ فرمانے والی بیگمات کو زمین کھا گئی ہے یا آسمان اُچک چکا ہے ؟ وہ انسانی حقوقیے کہاں غائب ہو گئے ہیں کہ جن کی زبانیں ’’انسان دوستی ‘‘ کے راگ الاپتے کبھی نہیں تھکتیں۔ وہ Marital rapeپر عمر قید کا مطالبہ اٹھانے والی NGOsکی ’’لبرل‘‘ بیگمات بھارتی درندوں کے ہاتھوں سینکڑوں کشمیری خواتین کے قتل پر سکوت بہ لب کیوں ہیں ؟
پشاور سے بھاگ کر آنے والی سمیعہ عمران کے قتل پر NGOsکی عسکری خواتین Millitantsکے جلوس کی قیادت کرنے والی عاصمہ جہانگیر بھی پر اسرار خاموشی کاشکار ہے ۔ وہ اپنی ذات کے تحفظ کے لیے تو امریکی سینٹرز اور عالمی NGOsکی طرف سے وزیر اعظم پاکستان کو خطوط لکھوا سکتی ہے، وہ پاکستان میں بعض اکا دکا واقعات کی فلم بنا کر یورپ میں بھجوا سکتی ہے تا کہ پاکستان کو بدنام کیا جاسکے لیکن کشمیر میں معصوم بچوں کے مقتول چہرے اور بے گناہ عورتوں کے لاشے اس کی نگاہ ِالتفات کے مستحق نہیں ہیں۔ اس کے نام نہاد انسانی حقوق کمیشن کے ’’بھنگی ‘‘ جنہوں نے پاکستانی سماج کا ’’گند‘‘ جمع کر کے یورپ میں اسے دکھانے کافریضہ اپنے ذمہ لے لیا ہے اور جنہیں پاکستان میں کوئی بھی بات اچھی نہیں لگتی ، وہ آخر ان مقتولین کی تصاویر اتار کر یورپ وامریکہ بھجوانے سے کیوں گریزاں ہیں ؟وائے افسوس ! انسانی حقوق کے بدبخت منادوں کواب سانپ سونگھ گیا ہے، اب نہ ان کی رگ ِانسانیت پھڑکتی ہے، نہ ان کا دل پسیجتا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کیا اس بات کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہیں کہ عاصمہ جہانگیر ہو یا NGOsکا نیٹ ورک ، ان کے انسانی حقوق کے ڈھنڈورے محض فریب ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے نعرے وہاں لگاتے ہیں جہاں مغرب کے ایجنڈے کی تکمیل کا امکان پایا جاتا ہو۔ ان کی زبانیں صرف انہی حقوق کی ’’جگالی ‘‘ کرتی ہیں جس کا چوگا ان کے مغرب آقاؤں کی طرف سے ان کے منہ میں ڈالا جائے ۔ پاکستانی عوام ہوں یا کشمیری مسلمان ہوں ، وہ ان کے نزدیک ’’انسانوں‘‘کی تعریف پر پورا نہیں اترتے ۔ ان کے نزدیک ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کے نام پر ملت ِاسلامیہ کی سالمیت کے خلاف NGOsکا یہ ٹولہ سازش میں مصروف ہے ۔ کیا پاکستانی غیور عوام ان کے بھیانک چہروںکو اب بھی اصل حالت میں نہیں دیکھ سکے ہیں؟ اگر وہ دیکھ چکے ہیں تو مغرب کے یہ ایجنٹ انسانی حقوقیے جب بھی مال روڈ پر آئندہ انسانی حقوق کی دہائی دیں تو ان کا جوتوں سے استقبال کیا جائے … یہ غدارانِ قوم اسی ’’اعزاز کے مستحق ہیں۔پاکستان میں ’’چائلڈ لیبر ‘‘ کا فتنہ کھڑا کر کے کروڑوں روپے کی برآمدات کا ستیاناس مارنے والی وہ ملک دشمن NGOsکشمیری بچوں کے بہیمانہ قتل کو انسانی حقوق کی وحشیانہ پامالی کیوں نہیں سمجھتیں؟ ’’چائلڈ لیبر ‘‘ پر تحقیقات کے نام سے جھوٹ کے انبار جمع کرنے والی یہ مغرب کی تنخواہ دار ایجنٹ NGOsان بچوں کی حمایت میں چندحروف تک نہیں لکھ رہیں، آخر کیوں ؟ قوم یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کے نام نہادعلمبردار کہاں ہیں…؟؟