کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
انفاق فی سبیل اللہ
مورخہ: Apr 26, 2015کالم: علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 3 میں جہاں متقی لوگوں کے دیگر اوصاف بیان فرمائے وہاں اس صفت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے کئی آداب ہیں جن کا ذکر قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کیا گیا ہے ان میں چند آداب درج ذیل ہیں:
1۔ محبوب چیز کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا : جو چیز انسان کو محبوب اور مرغوب ہو جب وہ اُس کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کونیکو کاروں میں شامل فرما لیتے ہیں۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 92 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ
” تم ہر گز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن کو تم محبوب رکھتے ہو۔‘‘
2۔ احسان جتلانے سے اجتناب: جب انسان اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال کو خرچ کرتا ہے تو اس کو اس مال کو خرچ کرتے ہوئے لوگوں پر احسان نہیں جتلانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرۃ کی آیت نمبر 262 میں ارشاد فرماتے ہیں
”جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
3۔ دکھلاوے سے اجتناب: انسان جب اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال کو خرچ کرتا ہے تو اس کو دکھلاوے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ریاکاری کی مذمت کرتے ہوئے سورہ بقرۃ کی آیت نمبر 264 میں ارشاد فرمایا:
اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتلانے اور دکھ دینے سے ضائع نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنے مال کو لوگوں کو دکھلانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔
4۔ اللہ کی محبت میں خرچ کرنا: انفاق فی سبیل اللہ کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جو کچھ بھی خرچ کیا جائے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت ہو اور اس کے بدلے انسانوں سے صلہ یا ستائش کی کوئی تمنا نہ ہو۔
سورہ الدھر کی آیت 8 میں اسی حقیقت کا ذکر کیا گیا ہے کہ
وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو۔
5۔ رضائے الٰہی کی طلب: اللہ تعالیٰ کی محبت میں خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا اور اپنے نفس کی پختگی کے لیے مال کو خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 265 میں یوں فرمایا ہے :
اور جو لوگ اپنے مال ﷲ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر) مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے ، اور اگر اسے زوردار بارش نہ ملے تو (اسے) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) بھی کافی ہو، اور ﷲ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔
6۔ پاکیزہ اور حلال مال سے خرچ کرنا: انفاق فی سبیل اللہ کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ پاکیزہ اور حلال مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا جائے۔ حرام مال کما کر خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی۔اس حقیقت کا ثبوت حدیث پاک سے ملتاہے کہ جو کوئی مال حرام کماتا ہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر267 میں یوں بیان کیا ہے۔ ”اے ایمان والو! تم نے جو پاکیزہ چیزیں کمائی ہیں ان میں سے خرچ کرو۔ ‘‘
ان آداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر جب انسان اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کو مختلف دنیاوی اور اخروی فوائد سے بہرہ ور فرماتے ہیں جن میں سے چند ایک درجہ ذیل ہیں:
1۔ سات سو گنا اجر: جب انسان ایک روپیہ ، ایک درھم یا ایک دینار اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سات سو سے ضرب دے کر پلٹاتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 261 میں یوں فرمایا ہے
” جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔‘‘
2۔ مال میں اضافہ: ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مال اور تجارت میں اضافہ ہو۔ اس اضافے کے لیے انسان مختلف طرح کی تدابیر بھی اختیار کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انفا ق فی سبیل اللہ کو مال میں اضافے کا سبب قرار دیا ہے۔
سورہ سباء کی آیت نمبر 39 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
” اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو پھر وہ اس کا بدلہ دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر276 میں ارشاد فرماتے ہیں
” اللہ تعالیٰ سود کو مٹا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے‘‘۔
3۔ خوف اور غم سے رہائی: انسان کو ماضی اور حال کی مشکلات پر غم اور مستقبل کے اندیشوں کے باعث خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ غم اور خوف انسان میں اداسی اور بے قراری پیدا کرتے ہیں اور ہر انسان اس کیفیت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں غم سے رہائی کی دیگر تدابیر بتلائی ہیں وہیں پر بکثرت انفاق فی سبیل اللہ کو بھی غم اور خوف سے دوری کا سبب قرار دیا ہے ۔ ا
للہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274 میں ارشاد فرماتے ہیں
” جو لوگ اپنے مال رات دن چھپ کر اور کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہو گا ان پہ نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے‘‘۔
4۔ طہارت اور تزکیہ کا حصول: دین اسلام میں طہارت اور تزکیہ کے حصول کو بہت اہم قرار دیا گیا ہے اور سورہ اعلیٰ میں اس شخص کو کامیاب قرار دیا گیا ہے جو تزکیہ نفس کے بعد اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور نماز ادا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ کی آیت نمبر103 میں ارشاد فرمایا ہے کہ
”تم ان کے مالوں میں سے صدقہ دو اس سے تم انہیں پاک کرو گے اور ان کا تزکیہ کرو گے۔‘‘
جس طرح انفاق فی سبیل اللہ کے متعدد فوائد قرآن و سنت سے ثابت ہیں اسی طرح قرآن وسنت میں خرچ نہ کرنے والوں کو جن نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ انفاق فی سبیل اللہ نہ کرنے کے نتیجے میں مندرجہ ذیل نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔
1۔ مال کا تلف ہو جانا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہ کرنے والے کئی مرتبہ مال سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ قلم میں ایک خوشحال زمیندار کا ذکر کیا ۔ زمیندار کے بیٹے اپنے باپ کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہ کرنے کا ارادہ کر چکے تھے ۔ جب وہ صبح کے وقت اپنے کھیت یا باغ پر پہنچے تو ان کا سارا کھیت ان کے برے ارادے اور کھوٹی نیت کی وجہ سے تباہ و برباد ہوگیا تھا۔
2۔ جہنم کی وعید: جنت کا حصول سب سے بڑی کامیابی‘ اسی طرح جہنم کا عذاب سب سے بڑ ی ندامت اور رسوائی ہے۔ جہنم میں لے کے جانے والے جرائم متعدد ہیں، ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہ کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر35 میں ارشاد فرماتے ہیں
” اس دن اس مال پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور اس سے ان کی پیشانیوں، پیٹھوں اور پہلوؤں کو داغا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ جسے تم نے اپنے لیے جمع کیا تو چکھو جو تم جمع کرتے تھے ۔‘‘
3۔ ذلت اور رسوائی: وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اور زیادہ مال کی وجہ سے وہ گھمنڈ اور تکبر کا شکار ہو گئے اللہ تعالیٰ نے ان کو دردناک عذاب میں مبتلا کر کے ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی کو ان کا مقدر بنا دیا۔ قارون اور ابولہب صاحب مال ہو کر بھی ذلیل و رسوا ہوئے ‘ان کی ذلت اور رسوائی کا بڑا سبب یہی تھا کہ انہوں نے مال کی وجہ سے حق کو ٹھکرا دیا‘ نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو قصہ پارینہ بنا دیا ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے۔ مال دار لوگ اس عطا کے ذریعے حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چل کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل کر سکتے ہیں اور اسی مال سے اپنی تجوریوں کو بھر کر قارون اور ابولہب کی طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غصے کے مستحق بھی ٹھہر سکتے ہیں۔ مال اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت اور اس کی امانت ہے اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ اس کا درست استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتا ہے یا اس کا غلط استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کے نافرمان بندوں میں شامل ہوتا ہے۔
ح
----------
@لکی کتاب تو نہیں اس پر بات بن سکتی ھے کیا؟