السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم علماء سے سوال ہے کہ اس پر روشنی ڈالیے کہ انفرادی جھوٹ (صرف ایک شخص سے جھوٹ بولنا) اور اجتماعی جھوٹ (وہ جھوٹ جس کو ایک جماعت یا انفرادی طور پر ہزاروں لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جسے وہ کبھی سن ، کبھی پڑھ رہا ہوتا ہے جیسا کہ فیس بک، واٹس ایپ پر کوئی جھوٹی پوسٹ) اس کے گناہ کا شمار کتنا ہو گا؟
@اسحاق سلفی بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بد ترین جھوٹ کی بھیانک اشاعت
محمد اسحاق سلفی
اسلام میں جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے ، اور سب سے بڑے جرم "شرک " کی بنیاد جھوٹ ہی ہے ،نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو بلیغ انداز میں بیان فرمایا :
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ» قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ: أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ فَمَا زَالَ يَقُولُهَا، حَتَّى قُلْتُ: لاَ يَسْكُتُ"
صحیح البخاری 5976
ترجمہ :
عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا میں تمہیں "اکبر الکبائر "یعنی سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں ؟ ہم نے عرض کیا ضرور بتا یئے یا رسول اللہ ! آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اوروالدین کی نافرمانی کرنا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا آگاہ ہو جاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی ( سب سے بڑے گناہ ہیں ) آگاہ ہو جاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے مسلسل دہراتے رہے اور میں نے سوچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش نہیں ہوں گے ۔
2۔جھوٹ کا منافقوں کی خصلتوں میں سے ہونا:
جھوٹ کی شدید خرابی اور قباحت پر دلالت کرنے والی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ منافقوں کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے ، اور ان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ، یعنی سچے مومن میں یہ برائی نہیں ہوتی ۔
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ‘‘
(رواہ البخاری فی کتاب الایمان ، ومسلم أیضا فی کتاب الایمان )
منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب ( اس کے ہاں) امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
امام مسلم ؒکی روایت میں ہے :
وَإِنْ صَامَ وَصَلَّی وَزَعَمَ أَنَّہُ مُسْلِمٌ
’’اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور دعویٰ کرے کہ وہ مسلمان ہے۔‘‘
ملا علی قاری نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے : ’’ (إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ) وَهُوَ أَقْبَحُ الثَّلَاثَةِ، ‘‘ وہ (یعنی جھوٹ بولنا) تینوں میں سے بدترین (خصلت ) ہے۔
اسی لئے قرآن حکیم میں مالک ارض و سماء کا کہنا ہے کہ جھوٹ گھڑنے والے بے ایمان ہیں، وہ صاحب ایمان نہیں ہوسکتے :
إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ (سورۃ النحل 105)
جھوٹ تو وہ لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے، اور وہی لوگ جھوٹے ہیں "
اور صحیح مسلم کی حدیث ہے :
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْ نِفَاقٍ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ " غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ: «وَإِنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ» (صحیح مسلم ،کتاب الایمان )
سیدناعبد اللہ بن عَمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ چار عادتیں ہیں جس میں وہ (چاروں) ہوں گی ، وہ خالص منافق ہو گا اور جس کسی میں ان میں سے ایک عادت ہو گی تو اس میں نفاق کی ایک عادت ہو گی یہاں تک کہ اس سے باز آ جائے ۔ ( وہ چار یہ ہیں :) جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب معاہدہ کرے تو توڑ ڈالے ، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی دے ۔ ‘‘
اور جھوٹ کی سنگینی اس وقت بہت بڑھ جاتی ہے جب کوئی جھوٹ لوگوں کی عقیدہ و عمل کے لحاظ سےگمراہی کا سبب اور ذریعہ بن جائے ، مثلاًکسی نے کسی بدعت کی اشاعت و بلیغ کی ، تو اس بدعت پر عمل کرنے والے بھی غضب الہی کے مستحق ہوں گے ،اور اس بدعت کی اشاعت کرنے والا ان سب کے گناہ کاذمہ دار ہوگا ۔
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (سورۃ النور 19)
جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
علامہ عبدالرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
آج کل فحاشی کی اشاعت کی بہت سی صورتیں ایجاد ہوچکی ہیں۔ مثلاً ٹھیٹر، سینماگھر، کلب ہاؤس، اور ہوٹلوں کے پرائیوٹ کمرے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر شہوت انگیز پروگرام اور زہد شکن گانے۔ فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول افسانے اور ڈرانے وعیرہ اور جنسی ادب۔ اخبارات اور اشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی عریاں تصاویر۔ ناچ گانے کی محفلیں۔ غرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہوچکا ہے اور اس موجودہ دور میں فحاشی کے اس سیلاب کی ذمہ دار یا تو خود حکومت ہے یا پھر سرمایہ دار لوگ جو سینما، ٹھیٹر اور کلب گھر وغیرہ بناتے ہیں یا اپنا میک اپ کا سامان بیچنے کی خاطر انہوں نے عورتوں کی عریاں تصاویر شائع کرنے کا محبوب مشغلہ اپنا رکھا ہے یا بعض اداروں اور مکانوں میں عورتوں کو سیل میں کے طور پر ملازم رکھا جاتا ہے تاکہ مردوں کے لئے وہ باعث کشش ہوں اور ان کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو۔ ان سب باتوں کے لئے وہی وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھوٹ اور فحاشی کی تشہیر و اشاعت اب سینما ہال و تھیئٹر سے نکل کر سوشل میڈیا نامی " ڈائنا سار "دندناتا پھرتا ہے ،جس کے ذریعہ دنیا بھر کے جھوٹ اور بے حیائی کے کارندے پس پردہ رہ کر بڑی آسانی جھوٹ کا بازار سجائے ،دین و ایمان پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ،
اور یہی نہیں دین و مذہب کے عنوان سے بھی ہر نتھو خیرا علامہ کے روپ میں سرگرم عمل ہے ،
کوئی کائنات کےسب سے بڑے جھوٹ شرک کی تبلیغ کر رہا ہے ،کوئی بدعت کی ترویج میں خوشنما تقریریں جھاڑ رہا ہے اور کوئی اصحاب محمد ﷺ کی کردار کشی کی مہم میں اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے ،
آج فکری و اخلاقی بے راہ روی اور گمراہی کی اشاعت و فروغ میں سوشل" میڈیا " یا سماجی رابطوں کے جدید ذرائع جس طوفانی انداز سے تباہی پھیلا رہے ہیں ، اس کا عشر عشیر بھی نصف صدی پہلے نہیں تھا ۔
یہ صورت حال ہمہ گیر تباہی کی عکاس ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اردو شاعر نے اس دور کی تصویر کچھ یوں پیش کی ہے :
کھلا ہے جھوٹ کا بازار ، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار ، آؤ سچ بولیں
سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقع اظہار ، آو سچ بولیں
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنامِ عظمت کردار ، آو سچ بولیں