کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
انقلاب سے پہلے انقلاب!
ویسے تو انقلابات کی تاریخ بہت ہی قدیم ہے۔ ہم اسے زمانۂ جاہلیت سے شروع کرتے ہیں۔ یہ زمانہ جاہلیت ہے۔ ظلم و ستم، ناانصافی اور قتل و غارت کا دور دورہ ہے۔ ہر طاقتور کمزور کو دبانا اپنا کا حق سمجھتا ہے۔ معاشرتی بُرائیاں اپنے عروج پر ہیں اور کون سی خرابیاں اور برائیاں ہیں جو ان میں نہیں پائی جاتیں … آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا انقلاب بپا کیا کہ معاشرہ اور حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ ایک ایسی حکومت اور ریاست کی بنیاد رکھی جس میں سب کے لئے یکساں انصاف، مساوات، امن و امان، رزق میں فراخی اور وسعت ظرفی تھی۔ اس کے نتیجے میں دُشمن دوست بن گئے۔ لینے والے دینے والے بن گئے۔ اس انقلاب کے اثرات پوری دنیا پر پڑے۔ اس کے نتیجے میں اسلام کا آفاقی پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچا۔
یہ انیسویں صدی کا پہلا عشرہ ہے۔ اس میں روس کے لوگ ’’الیگزنڈر دوم‘‘ کی عیاشیوں کو اپنی غربت کا مذاق سمجھتے ہیں۔ حکمران کا بدمست طبقہ عوام کو دبانے کے لئے ہزاروں جتن کر رہا ہے۔ سیکڑوں لوگ گرفتار کیے۔ سینٹ پیٹرز برگ کے قلعوں میں تشدد اور پھانسیاں دی گئیں۔ ہر نیا آنے والے ’’زار‘‘ نے تاریخ کا پہیہ واپس موڑنا چاہا، مگر آخرکار عوام کا غصہ انقلاب کا بے خوف لاوا بن گیا۔ پھر راستے کی ہر عمارت اور رکاوٹ خس وخاشاک ہو گئی۔ حکمرانوں کے عشرت کدے، ماتم خانوں میں تبدیل ہو گئے، لیکن عوام کی خوشحالی کا دور شروع ہو گیا۔
انیسویں صدی میں ہی امریکہ کے شہر ’’شکاگو‘‘ میں مزدوروں کی المناک زندگیاں اپنے مالکان کے تعیش کو دیکھ کر کڑھتی تھیں۔ پھر وہ صبح طلوع ہوئی جب حکمرانوں کا عوام سے مقابلہ ہوا۔ آخر کار فتح عوام ہی کی ہوئی۔
انیسویں صدی کی آخری دہائی میں فرانس کے غریب عوام میں قوتِ برداشت جب ختم ہوئی۔ بے روزگاری سے تنگ آئے ایک 12 سالہ بچے نے دسمبر میں پارلیمنٹ میں بم پھینکا۔ ایک اور بھوک سے سڑکوں پر روٹی کے ٹکڑے چن کر کھانے والے بچے نے ایک ریستوران پر بم دے مارا۔ جب اسے پکڑ کر عدالت میں لایا گیا تو جج نے پوچھا: ’’تم نے اس جگہ بم کیوں پھینکا؟‘‘ اس نے کہا: ’’اس لئے وہاں لوگ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور مجھے کئی کئی میل پیدل چل کر زمین سے پھینکے ہوئے روٹی کے ٹکڑے اٹھا کر پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔ ‘‘
انیسویں صدی میں ہی اسپین کے شہر ’’بارسلونا‘‘ میں عوام آتش فشاں بن کر پھٹے تھے۔ اس کی وجہ بھی ناانصافی اور معاشی ناہمواریاں تھیں۔
یہ 1935ء ہے۔ چین میں ’’مائوزے تنگ‘‘ نے 90 ہزار لوگوں کے ساتھ ہزاروں کلو میٹر کے لانگ مارچ کی قیادت کی جبکہ ان کا مخالف ہر سمت سے حملہ آور تھا ۔ ایک سال کی مدت کے بعد منزل مقصود تک پہنچ سکے ۔ یہی دُکھی عوام تھے جو ہمت و استقلال اور بے مثال قربانی کی علامت بن گئے۔ ان کے گرد پوری قوم جمع ہو گئی اور مخالفین کو شکست دی۔ اکتوبر 1934ء میں شروع ہونے والا یہ مارچ ایک سال بعد اکتوبر 1935ء میں ختم ہوا۔ 368 دن جاری رہنے والے اس مارچ میں ابتدائی طور پر 80 ہزار لوگ شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ شرکاء میں اضافہ ہوتا رہا۔ مارچ کرنے والوں کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہو گئی۔ لانگ مارچ کے شرکاء چین کے 11 بڑے صوبوں سے گزرے اور بھرپور عوامی حمایت پائی۔ مارچ کے اختتام تک کمیونسٹ پارٹی کو چین بھر میں پذیرائی مل گئی جس کا نتیجے 1949ء میں اشتراکی انقلاب کی صورت میں نکلا۔ آج چین اقتصادی لحاظ سے انتہائی مضبوط ہے اور امریکہ تک کی مارکیٹوں پر چھایا ہوا ہے۔ امریکہ کے بعد سپرپاور کے لئے دنیا چین ہی کی طرف دیکھ رہی ہے۔
یہ 1979ء ہے۔ اس سال ایران میں بھی یہی کچھ ہوا۔ دنیا میں آنے والے انقلابوں میں خمینی کی قیادت میں ایرانی انقلاب اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے اعلان سے پہلے فصل بالکل پک چکی تھی، عوام تیار تھے۔ خمینی پیرس سے وطن واپس آئے تو آنکھیں فرش راہ تھیں۔ اوپر سے نیچے کی سطح تک ذہنی تیاری مکمل تھی۔ جب اترے تو نہ صرف پولیس بلکہ فوج نے بھی خیر مقدم کیا اور سلامی دی۔ اس کے بعد ایران کی ترقی کا دور شروع ہو گیا۔ ایک قطرہ خون بہائے بغیر تبدیلی آ گئی۔
یہ 1990ء ہے۔ ’’نیلسن منڈیلا‘‘ نے افریقہ میں عظیم انقلاب بپا کیا۔ نیلسن منڈیلا کا نام نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی ایسی علامت ہے جسے انسانی تاریخ فراموش نہیں کر سکے گی۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ فام اقلیت کی ظالم حکومت کے خلاف احتجاج اور سیاہ فام اکثریت کو اس کے جمہوری، سیاسی اور انسانی حقوق دلانے کے لئے نیلسن منڈیلا کی کوششیں گزشتہ صدی کی عظیم جدوجہد تھی۔ منڈیلا نے 27 سال مختلف جیلوں میں گزارے۔ اس کی ساری جوانی جیل کی کال کوٹھڑی میں گزر گئی۔ قید تنہائی اور جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد نیلسن منڈیلا نے سیاہ فام اکثریت کے حقوق کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں جنوبی افریقہ میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔
پہلی منتخب اسمبلی نے چار سال کے لئے نیلسن منڈیلا کو ملک کا صدر منتخب کر لیا۔ منڈیلا نے صدی کے عظیم رہنما کا ثبوت دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ایک ’’سچائی کمیشن‘‘ قائم کیا جائے۔ جن لوگوں نے آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف مظالم کیے تھے، وہ اگر اس کمیشن کے سامنے اعتراف کرلیں تو انہیں معاف کردیا جائے گا۔ یوں گورے اہلکاروں کے علاوہ ان کا ساتھ دینے والے کالے باشندوں نے بھی سچائی کمیشن کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ منڈیلا نے عوام کو سمجھایا کہ اپنے جرائم کا اقرار کرنے والوں کو معاف کرنے سے ہی جمہوریت مستحکم ہوگی۔ نیلسن منڈیلا سفیدفام اقلیت جس نے ان پر اور سیاہ فاموں پر مظالم ڈھائے تھے انہیں معاف کر دیا بلکہ اس نے سفید فام ارکان کو اپنی حکومت میں وزار تیں بھی دیں۔ نیلسن منڈیلا کا برپا کیا ہوا انقلاب اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں خون خرابہ نہیں ہوا اور سیاہ فام اکثریت کو اس کے حقوق مل گئے۔ آج افریقہ کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہو رہا ہے۔
یہ 2010ء ہے۔ کرغیزستان کے عوام نے مہنگائی، بدانتظامی، کرپشن، لوٹ مار، لوڈشیڈنگ، ظلم وستم سے تنگ آکر پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا۔ سرکاری ٹی وی پر حملہ کر دیا۔ صدارتی محل کا چاروں طرف سے گھیرائو کر کے صدر قربان بیگ کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ وزیراعظم مستعفی ہو گئے۔ نائب وزیر داخلہ سمیت ڈیڑھ سو کے قریب افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سیکڑوں زخمی ہو گئے، لیکن انقلاب آ کر ہی رہا۔ عیاش حکمرانوں سے غریب قوم کو نجات مل گئی۔ آج کرغیزستان ترقی کی جانب گامزن ہے۔
یہ 2012ء ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک مصر، اردن، لیبیا وغیرہ میں ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے انقلاب آئے۔ ان کی وجوہات بھی معاشی ناہمواریاں، ظلم و ستم اور استحصالی نظام ہی تھا۔ اس طرح کی بیسیوں، سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
ان سب انقلابات میں ایک بات طے ہے کہ ہر انقلاب سے پہلے ایک انقلاب ہوتا ہے۔ ایک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ زمین ہموار اور رائے عامہ تبدیل کی جاتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کچھ عرصے سے پاکستان میں بھی مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ظلم و ناانصافی بڑھ گئی ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن اور بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ مجموعی طور پر ریاستی مشنری ناکام اور ادارے مفلوج ہو چکے ہیں۔ نظام کو دیمک نے چاٹ لیا ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ کسی بھی وقت لبریز ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے حالات بھی اسی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن انقلاب کے لئے زمین ہموار اور حالات سازگار نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ وہ ادارے ہیں۔ جب تک یہ نہ چاہیں انقلاب کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ اس سارے ہنگامے اور ٹوٹ پھوٹ سے مصر بچا ہوا ہے۔ اس کی اصل وجہ مصر کی مضبوط فوج اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے۔
پاکستان کی محب وطن اسٹیبلشمنٹ اور مضبوط ادارے طاہر القادری کے انقلاب جیسے کسی انقلاب کے حامی ہر گز نہیں ہیں۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ جو سیاسی جماعتیں موجودہ حکومت کو گھر بھجوانے پر تُلی ہوئی ہیں، کیا ان کے پاس کوئی ایسا مربوط اور منظم لائحہ عمل ہے جس سے پاک وطن کے گرد منڈلاتے سیاہ بادل چھٹ جائیں گے؟ اگر ہے تو محب وطن عوام کے سامنے کیوں نہیں لاتے؟ ہماری ناقص رائے میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے، یہ ملک اور قوم کے خلاف ایک گہری سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔
انور غازی: اتوار 5 ذیعقدہ 1435هـ - 31 اگست 2014م