• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انکار حق کی چند وجوہات

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234

حق سے اعراض اور عدم قبو ل کی ایک بڑی وجہ انانیت اور انا پرستی ہے ۔بہت سے لوگوں پر حق کی حقانیت واضح ہوجاتی ہے، لیکن قبول حق کی صورت میں انہیں اپنی حشمت وجاہ اور اجارہ داری جاتی نظر آتی ہے اس لیے وہ حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔نضر بن حارث ملعون ایک بہت بڑا تاجر تھا ۔یہ تجارت کے سلسلے میں مختلف ممالک کا سفر کیا کرتا تھا ۔ایک دفعہ یہ بلاد فارس گیا وہاں سے اس نے ان کے بادشاہوں رستم اور اسفند یار کے قصے معلوم کیے۔جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺکو نبی بنا کر مبعوث فرما دیا ہے اور آپ ﷺلوگوں کو قران مجید پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں ۔رسول اللہﷺجب کسی مجلس سے اٹھتے تو یہ لوگوں کو رستم اور اسفند یار کے قصے سنا نے لگ جاتا۔پھر کہتا:اے اللہ!تو ہی بتا ہم سے کسی کے قصے اچھے ہیں میرے یا محمد(ﷺ)کے نعوذ باللہ۔گویا اس بدبخت نے اپنی انانیت کی وجہ سے قران مجید کو اساطیر الاولین قرار دیا اور دعوی کیا کہ وہ بھی اس جیسا کلام پیش کرنے پر قادر ہے ۔اسی لیے جب قران مجید کا اعجاز اس کی تمام تر حیلوں کو ناکام بنا دیتا تو وہ اس کوماننے کی بجائے کفر،سرکشی اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا:﴿اَللَّهُمَّ إِنْ کَانَ هَذَا الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْعَلَيْنَاحِجَارَةًمِّنَ السَّمَآءِ اَوِئْتِنَا بِعَذَابٍ عَلَيْم﴾(الانفال:۳۲)
"اے اللہ یہ اگر (قران)تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر تکلیف دینے والا عذاب بھیج دے۔"
چاہیے تو یہ تھا کہ کہتا:اے اللہ !اگر یہ قران تیری طرف سے برحق ہے تو ہمیں اس کی ہدایت فرما اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرما، لیکن اس کی بجائے اس نے عذاب کا مطالبہ کر دیا یہ سب کچھ اس نے اپنی انا پرستی کی وجہ سے کیا ۔
اسی طرح جب یہ بدبخت غزوہٴ بدر میں قیدی بن کر آیا تو رسول اللہ ﷺنے حکم دیا کہ آپ کے سامنے اس کی گردن اڑا دی جائے ،چنانچہ صحابہ نے تعمیل ارشاد کرتے ہوئے اس کی گر دن تن سے جدا کردی۔(تفسیر الخازن:۲ /۳۰۸)
امام شعبہ  نے عبد الحمید صاحب الزیادی کے حوالے سے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ (نضر بن حارث کی بجائے) ابو جہل نے یہ بات کہی ۔(صحیح البخاری :۴۶۴۸)
آیت کا مصداق ابو جہل ہو یانضر بن الحارث دونوں کا مقصود اپنی انانیت کو قائم رکھنا تھا۔اس وجہ سے انہوں نے قبول حق پر عذاب کو ترجیح دی ۔آج بھی بہت سے لوگ محض اپنے تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے حق کو دھتکار دیتے ہیں حالانکہ انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ،چنانچہ وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اورعوام الناس کا بھی بیڑا غرق کرتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155

حق سے اعراض اور عدم قبو ل کی ایک بڑی وجہ انانیت اور انا پرستی ہے ۔بہت سے لوگوں پر حق کی حقانیت واضح ہوجاتی ہے، لیکن قبول حق کی صورت میں انہیں اپنی حشمت وجاہ اور اجارہ داری جاتی نظر آتی ہے اس لیے وہ حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔نضر بن حارث ملعون ایک بہت بڑا تاجر تھا ۔یہ تجارت کے سلسلے میں مختلف ممالک کا سفر کیا کرتا تھا ۔ایک دفعہ یہ بلاد فارس گیا وہاں سے اس نے ان کے بادشاہوں رستم اور اسفند یار کے قصے معلوم کیے۔جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺکو نبی بنا کر مبعوث فرما دیا ہے اور آپ ﷺلوگوں کو قران مجید پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں ۔رسول اللہﷺجب کسی مجلس سے اٹھتے تو یہ لوگوں کو رستم اور اسفند یار کے قصے سنا نے لگ جاتا۔پھر کہتا:اے اللہ!تو ہی بتا ہم سے کسی کے قصے اچھے ہیں میرے یا محمد(ﷺ)کے نعوذ باللہ۔گویا اس بدبخت نے اپنی انانیت کی وجہ سے قران مجید کو اساطیر الاولین قرار دیا اور دعوی کیا کہ وہ بھی اس جیسا کلام پیش کرنے پر قادر ہے ۔اسی لیے جب قران مجید کا اعجاز اس کی تمام تر حیلوں کو ناکام بنا دیتا تو وہ اس کوماننے کی بجائے کفر،سرکشی اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا:﴿اَللَّهُمَّ إِنْ کَانَ هَذَا الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْعَلَيْنَاحِجَارَةًمِّنَ السَّمَآءِ اَوِئْتِنَا بِعَذَابٍ عَلَيْم﴾(الانفال:۳۲)
"اے اللہ یہ اگر (قران)تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر تکلیف دینے والا عذاب بھیج دے۔"
چاہیے تو یہ تھا کہ کہتا:اے اللہ !اگر یہ قران تیری طرف سے برحق ہے تو ہمیں اس کی ہدایت فرما اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرما، لیکن اس کی بجائے اس نے عذاب کا مطالبہ کر دیا یہ سب کچھ اس نے اپنی انا پرستی کی وجہ سے کیا ۔
اسی طرح جب یہ بدبخت غزوہٴ بدر میں قیدی بن کر آیا تو رسول اللہ ﷺنے حکم دیا کہ آپ کے سامنے اس کی گردن اڑا دی جائے ،چنانچہ صحابہ نے تعمیل ارشاد کرتے ہوئے اس کی گر دن تن سے جدا کردی۔(تفسیر الخازن:۲ /۳۰۸)
امام شعبہ  نے عبد الحمید صاحب الزیادی کے حوالے سے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ (نضر بن حارث کی بجائے) ابو جہل نے یہ بات کہی ۔(صحیح البخاری :۴۶۴۸)
آیت کا مصداق ابو جہل ہو یانضر بن الحارث دونوں کا مقصود اپنی انانیت کو قائم رکھنا تھا۔اس وجہ سے انہوں نے قبول حق پر عذاب کو ترجیح دی ۔آج بھی بہت سے لوگ محض اپنے تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے حق کو دھتکار دیتے ہیں حالانکہ انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ،چنانچہ وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اورعوام الناس کا بھی بیڑا غرق کرتے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا ۔
اوپر ذکر کی گئی آیت درست یوں ہے :
اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاکم اللہ خیرا ۔
اوپر ذکر کی گئی آیت درست یوں ہے :
اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
کتنی واضح غلطی کی اصلاح کی آپ نے۔
اللہ آپ کو جزا دے۔آمین
 
Top