• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انکل کیا آپ کھسرے ہیں...؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
انکل کیا آپ کھسرے ہیں...؟
...
پانچ برس بیتے ، میں ایک روز ٹھنڈی سڑک ، جسے آپ مال روڈ کہتے ہیں ، پر رکا...سروس روڈ پر گاڑی کھڑی کی ..بچے میرے ساتھ تھے...میری بیٹی جو سات برس کی رہی ہو گی ، بہت غور سے ساتھ کھڑی گاڑی میں دیکھ رہی تھی...میں نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں جو دیکھا تو وہ حوصلہ مند ہو گئی...گاڑی میں ایک گزرتی عمر کا نوجوان بیٹھا تھا.. لمبی زلفیں ، گورا چٹا چہرہ ، "صفا چٹ" داڑھی مونچھ...ستم بالائے ستم کہ بالوں کی "پونی" کی ہوئی...بس یہی کمی تھی کہ چوٹی نہ کی ہوئی تھی...میری بیٹی نے مجھے بھی متوجہ پایا تو اسے مخاطب کر کے بولی...."انکل......."
اس نے جواب میں ایک مسکراہٹ سے بچی کو جو نوازا تو حوصلہ مندی نکھر گئی
" انکل! آپ کھسرے ہیں......؟"
مجھے پچھلے دنوں سے یہ واقعہ بہت یاد آ رہا ہے...جو اپنے اندر بظاہر مزاح کا پہلو لیے ہووے تھا لیکن حقیقتا افسوسناک ہے...ایک فرضی خط جو ممکن ہے صاحب تحریر کی "ہڈ بیتی "رہی ہو اس کو انہوں نے اپنی زندگی میں لکھ ڈالا...اور یوں فرضی خط آج کل خوب گردش میں ہے...بظاہر خط میں لکھی گئی تحریر اور المیہ واقعات دل کو گداز تو کرتے ہی ہیں، آنکھوں کو بھی نم کر جاتے ہیں .... پشاور میں ایک خواجہ سرا قتل ہو گیا ..آپ گمان کر سکتے ہیں کہ کیا وجہ رہی ہو گی .. لیکن
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
درجن درجن بھر معصوم بچے قتل ہو جاتے ہیں خبر تک نہیں آتی...اس خوش قسمت کی خبر میں نے وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر بھی دیکھی...قتل کسی صورت جائز ہے نہ روا ، ظلم ہے لیکن اس پر جذبات بھرے خط لکھنے والے کبھی ان "وجوہات" پر بھی اپنے قلم کی روشنائی خرچ کریں.. جو ایسے واقعات کے پس منظر میں ہوتے ہیں
آپ بھی ٹھنڈے دل سے سوچیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مبالغے کے ذریعے جذبات کو انگیخت کیا گیا ہے...مقصد " وہی " کہ اپنے معاشرے کی ایسی بری تصویر کھینچی جائے کہ یہ طبقہ مظلوم اور قابل ہمدردی دکھائی دے
لیکن حقائق کچھ اور بولتے ہیں..
زنخنے یا خواجہ سرا ان کو کہتے ہیں جو کسی طبی خرابی کے سبب تشکیل جنس کے معاملے میں راہ کھوٹی کر بیٹھتے ہیں..اور اگر مرد بننے جا رہے ہیں تو مکمل مرد نہیں بن پاتے ، اور اگر عورت بننے کی راہ پر گامزن تھے تو رحم مادر میں عورت نہیں بن پاتے...اور یوں اپنی شناخت سے محروم رہ جاتے ہیں.....
سوال یہ ہے کہ ایسے بچے کتنے ہو سکتے ہیں ؟
اگر آپ عقل کو آواز دیں تو ہر کوئی خود ہی تجزیہ کر سکتا ہے کہ اصل قصہ کیا ہے؟...اپنے خاندان کا جائزہ لیجئے آپ کو کتنے ایسے بچے نظر آئیں گے؟....اپنے والدین سے پوچھئے کہ ایسے واقعات خاندان میں کتنے ہووے؟...جواب میں انکار ہی ملے گا....جی ہاں ایسے بچے شاذ و نادر ہی پیدا ہوتے ہیں....کہ جو مکمل "کھسرے" ہوتے ہیں...لیکن یہ کیا کہ لاہور ہی کے بڑے چوکوں میں ان کے غول در غول رات کو باھر نکل آتے ہے ، سجے سنورے ، ناز و ادا دکھلاتے ، اٹھلاتے آپ کو چھو کے گزر جائیں گے...
اصل معاملہ کا کھوج لگائیں تو یہ جرم و گناہ میں لپٹی کہانیوں کو کھولتا ہے...یہ طبقہ مکمل طور پر جرائم کی دلدل میں گھرا ہوا ہے....معصوم بچوں کو بچپن میں اغوا کر لیا جاتا ہے..اور پھر ان کو خواجہ سر بنا لیا جاتا ہے...ماں باپ عمر بھر اپنے لخت جگر کی راہ تکتے اگلے جہاں کو چلے جاتے ہیں...
ان کے گرو ان کو جنسی آسودگی کے لیے پیسوں کے عوض اپنے گاہکوں کو مہیا کرتے ہیں ، اور یوں یہ بیماریوں کا گھر بن جاتے ہیں....جعلی "کھسرے" ہمدردی کے کیسے مستحق ہو سکتے ہیں کہ اس معاشرے کی اخلاقی قدروں کو برباد کرنے میں ان کا کلیدی کردار ہے...اور ان میں سے ہر ایک کے پیچھے آپ کو جرم کی مکمل داستان نظر آئے گی
رہے پیدائشی زنخنے ان کی ہمدردی کی آڑ میں مجرموں کو کیسے چھوٹ دی جا سکتی ہے؟
اب ہمدردی کا قصہ بھی پڑھ لیجئے...اس ہمدردی کی آڑ میں ہم جنس پرستی کو معاشرے میں عام کرنا مقصود ہے محض...گناہ سے نفرت ختم کرنا مطلوب ہے...ان کے حقوق کے ایک معروف محافظ آئ اے رحمان لکھتے ہیں
======
"پاکستان میں ہم جنس پسندی اور ہم جنس پسندافراد ایک حقیقت ہیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی ہم جنس پسندوں کوکسی قسم کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ پاکستانی ہم جنس پسندجبر اور خوف میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہم پاکستان میں ہم جنس پسندی کا فروغ چاہتے ہیں اور نہ ایسی سرگرمیوں کے حامی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم جنس پسندوں کو سمجھا جائے اور ان کے ساتھ انسانی سلوک کیا جائے۔انہیں اپنی زندگیاں آزادی سے گزارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ہم جنس پسنددوسرے انسانوں کی طرح جیتے جاگتے، سانس لیتے اور انسانی جذبات رکھتے ہیں ان کی بھی خواہشات اور امنگیں ہیں۔ وہ بھی معاشرے میں دوسرے انسانوں کی طرح اپنی زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔ وہ بھی محبت اور جنسی تسکین کا انسانی حق رکھتے ہیں"
======
جی پڑھا آپ نے یہ اقتباس ؟ ... ان صاحب کے اس مضمون کا عنوان تھا "پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق....
اب اسلام میں ان کے بارے میں جو احکامات ہیں وہ بھی دیکھ لیجئے...استاد مقبول احمد سلفی لکھتے ہیں:
مخنث یا ہیجڑے اور خواجہ سرا کا ذکر کتب حدیث میں بھی آیا ہے صحیح بخاری میں حدیث4324 ، 5235 ، 5887 ، 6834 اور حدیث695 وغیرہ میں اس کا ذکر آیا ہے نیز صحیح مسلم، سنن ابی دائود ابن ماجہ وغیرہ میں بھی اس کا ذکر ہے۔
فطری اور طبعی طور پر کوئی مخنث ہو تو یہ اﷲ کی طرف سے ہے اور وہ بھی شریعت کا مکلف ہے اگر جسمانی اور خلقی اعتبار سے وہ مرد کے مشابہ ہے تو مردوں کے احکام اس پر لاگو ہوں گے اور اگر وہ غالب جسمانی ساخت کے اعتبار سے عورت کے مشابہ ہے تو اس پر عورتوں کے احکامات لوگوں ہوں گے اور اگر وہ شرعی احکام کا لحاظ و پاس نہ کرے تو عند اﷲ فاسق ہے اور شاید اسی بنیاد پر بعض احادیث میں ان پر لعنت بھی کی گئی ہے۔
مردوں پر (از خود ) مخنث بننا حرام ہے اور عورتوں سے مشابہت بھی حرام ہے نبی علیہ السلام نے ان پر لعنت کی ہے۔
فقہا ء کے مباحث میں مخنث کے احکام خیار العیب ، شہادت، نکاح اجنبی عورت کی طرف دیکھنا، لباس، زینت اور حَظر ابا حت کی بحث میں ملتے ہیں۔ (الموسوعة الفقھیة الکویتیہ 63/11 ،بحوالہ مکتبہ شاملہ)
قرآن میں جو '' اوالتعابعین غیر اولی الا ربة'' کی آیت ہے تو تفسیر طبری کے مطابق اس سے مراد مخنث/ خواجہ سرا ہی ہے۔
مخنث کے احکامات واضح ہیں اگر مرد کے مشابہ ہے تو مردوں کے احکام وگرنہ عورتوں کے احکام اس پر لاگو ہوں گے۔ ہر مسئلے میں البتہ اگر خنثی مشکل ہے تو اسکی وفات پر اسے کپڑوں سمیت غسل دیا جائے گا یا پھر فقط تیمم کروا کر دفن کر دیا جائے ۔(المغنی وغیرہ)
اور اگر اس مخنث کے محارم موجود ہیں تو وہ اسے غسل دے سکتے ہیں (الموسوعة الفقھیہ الکویتیہ)
.....
آخری بات
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق اسی ہزار خواجہ سرا موجود ہیں...ان میں سے اصلی اور پیدائشی شاید سو دو سو بھی نہ ہوں....حکومت کو چاہیے کہ جو باقی بچیں ان کی تحقیق کر کے ، ان کا نفسیاتی علاج کروایے ...اور ان کے والدین کو تلاش کیا جائے...اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم ان کو اغوا کرنے والے ان کے گرووں اور مجرموں کو سزا دی جائے...اور جن کو مجرمانہ طور پر مردانہ صفات سے محروم کیا گیا ہے ان کے مجرموں کا بھی محاسبہ کرے...اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کچھ ہونے کا نہیں...
اور عوامی شعور بیدار کیا جائے کہ اگر بد قسمتی سے ایسا بچہ پیدا ہو جائے تو ...اس کو بوجھ سمجھنے کی بجائے اس کی اچھی تربیت کر کے اپنی آخرت سنوارنے کا موقع حاصل کیا جائے...یہ اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہے اور امتحان بھی اور آپ کا چناؤ بھی کہ آپ کے ذمے اللہ نے ایسے بچے کی تربیت اور پرورش لگائی ہے جو نارمل نہیں ہے...


.................ابو بکر قدوسی
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ایسے بچوں کو "معذور بچہ" سمجھ کر پرورش اور تربیت کی جانی چاہئیے۔ ایسے بچے والدین کے لئے بھی امتحان ہوتے ہیں اور جوان ہونے پر ان کا بھی امتحان ہوتا ہے کہ یہ جنسی طور پر "نامکمل" ہونے کے باوجود اللہ کی رضا پہ راضی رہتے ہوئے کیسے زندگی گذارتے ہیں
 
Top