ماریہ انعام
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 12، 2013
- پیغامات
- 498
- ری ایکشن اسکور
- 377
- پوائنٹ
- 164
مظفراعجاز
ہوسکتا ہے ہماری تحریر کہیں کسی صوبے میں، کسی قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقے میں، یا کسی آنے والے انتخاب میں مفاہمت کی سیاست کو نقصان پہنچادے... لیکن ہمارا کام ہے کسی بھی آنے والے خطرے کی بو سونگھ لینے کے بعد قوم کو اس سے آگاہ کرنا۔ جب عمران خان پاکستان آئے تھے تو صرف شوکت خانم اسپتال بنانا چاہتے تھے، لیکن جمائما سے شادی کے بعد یہ خوف دامن گیر تھا کہ گولڈ اسمتھ کی دولت اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال ہوگی۔ لیکن دو بیٹوں کے بعد عمران اور جمائما کی علیحدگی ہوگئی، اور یوں بظاہر یہ خطرہ بھی ٹل گیا کہ عمران کے ذریعے وہ ایجنڈا پاکستان پر مسلط کیا جاسکے گا جس کو انگریز کا ایجنڈا کہا جاتا ہے۔ پھر الیکشن در الیکشن عمران خان نے ناکامیوں کا منہ دیکھا اور یہ خیال گزرا کہ وہ کبھی اقتدار کے ایوانوں میں نہیں جاسکیں گے، لیکن اچانک انہیں کوئی ''شجاع'' مل گیا جس نے ان کا اقبال بہت ہی بلند کردیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سونامی اب آیا کہ تب... لیکن اِس مرتبہ بھی وہ بالکل اس طرح نیچے آئے جس طرح الیکشن سے دو روز قبل لفٹر سے نیچے آئے تھے۔ لفٹر حادثہ تھا، لیکن سونامی کا التوا کسی ''شجاع'' کی سرپرستی نہ ہونے کے سبب ہوا۔ مولانا فضل الرحمن کا عمران خان کے بارے میں کچھ بھی خیال ہو، لیکن عمران خان کو بھی کچھ زیادہ ہی جلدی ہے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو سچ ثابت کرنے کی... چنانچہ جب انہیں یہودی ایجنٹ کہا گیا تو عمران خان اور ان کی ٹیم نے میڈیا کی مدد سے خوب کھنچائی کی... جب امریکی مفادات کا نگہبان کہا گیا تو بھی وہ میڈیا کی مدد سے چڑھ دوڑے... اور جب یہ کہا گیا کہ مغرب کا پروردہ مغرب کا ایجنڈا لایا ہے تو بھی وہ ناراض ہوئے... لیکن یہ کیا کہ ان کی جماعت کے نمبر ون نہیں تو کم از کم صفِ اوّل کے رہنما جاوید ہاشمی یہ مطالبہ کرنے لگے کہ توہینِ رسالت کا قانون تبدیل کیا جائے... کیوں؟ اس لیے کہ چرچ میں دھماکا ہوگیا ہے! وجہ تو نہیں پتا انہوں نے کیوں یہ کہا؟ لیکن چرچ میں دھماکے کے بعد ہی انہوں نے یہ مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح کے دھماکے میں میٹرک تک انگریزی ذریعہ تعلیم کا فیصلہ بھی ہے۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اس طرح پورے صوبے میں سب کا معیارِ تعلیم یکساں ہوجائے گا، ورنہ انگلش میڈیم اسکول انگریزی میں تعلیم دیں گے اور دوسرے اسکول والے پیچھے رہ جائیں گے۔ گویا پیٹ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
ان دو باتوں کے علاوہ دوسری تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کو شاید قابلِ ذکر نہ سمجھا جائے، لیکن ہم ان کا سرسری تذکرہ کرتے ہیں۔ ان دو باتوں پر تفصیل سے بات کریں گے۔ ایک بات یہ نوٹ کی گئی ہے کہ عمران خان نے جو ٹیم بنائی ہے اس میں اکثریت اسلام پسندوں کی ہے۔ جماعت اسلامی کے بہت سے لوگوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، بہت سے مسلم لیگی ان کی پارٹی میں شامل ہیں، لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ فیصلہ کن حیثیت کسی ایسے فرد کو حاصل نہیں جس کا ماضی اسلام پسند ہو، یا حالیہ خیالات اسلام کے حق میں ہوں۔ بہت سے ایسے افراد ہیں جن کا عوام میں یا سیاست میں کوئی دخل یا کوئی تجربہ نہیں۔ ایک خاتون جن کے بارے میں عمران خان کے لفٹر سے گرنے کے موقع پر کہا جارہا تھا کہ انہیں استعفیٰ دینا پڑے گا، وہ اب بھی تحریک انصاف میں نہایت اہم پوزیشن پر ہیں۔ ان کے خیالات دین، مولوی اور دینی شعائر کے بارے میں بہت واضح ہیں، حلیہ بھی اپنا تعارف آپ ہے۔ اسی طرح پارٹی میں تمام فیصلہ ساز اور فیصلہ کن مرد اسلام سے الرجک یا اسلام سے بیزار ہیں۔
جہاں تک انگریزی ذریعہ تعلیم کا معاملہ ہے، یہ بہت اہم ہے۔ اسے بہت آسانی سے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کے لیے تاریخ کا جائزہ ضرور لینا ہوگا اور حال کا بھی... حال میں26 ملکوں کے اتحادی فوجیوں کو جس خطے کے لوگوں نے شکست سے دوچار کیا وہ ہمیشہ فرنگی نظریات اور فرنگیوں کی ہر چیز سے نفرت کرتے ہیں۔ اس وجہ سے جب یہ زمین پر اترے تو ان کا بھرپور ''استقبال'' کیا گیا... یعنی شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا سبب بھی یہی تھا کہ یہ لوگ دین سے قریب اور فرنگیت سے دور تھے۔ اس بات کو اب یوں سمجھیں کہ جب انگریز نے مسلمانوں کو اسپین سے نکالنے کی ٹھانی تو بڑے بڑے اسکول کھولے تھے۔ ان اسکولوں میں وہی تعلیم دی جاتی تھی جو مسلمانوں کے اسکولوں میں دی جاتی تھی، بس پرنسپل پادری ہوتے تھے اور نصاب میں کچھ کتابیں انگلستان کی ہوتی تھیں۔ لیکن یہ بس نہیں ہے... انگلستان کی کتابوں نے انگلستان سے تعلق قائم کیا اور پادری کے پرنسپل بننے سے اس کا احترام مسلمانوں میں آگیا۔ پہلے اسے کافروں کا مذہبی پیشوا سمجھا جاتا تھا، اب اسے استاد کا محترم درجہ مل گیا۔ بس پھر ایک نسل گزرنے کی بات تھی... اب نسلوں سے وہاں اسلام کے نام لیوا نہیں ہیں۔ اب خیبر پختون خوا میں انگریزی ذریعہ تعلیم سے بھی بس یہی ہوگا... انگریزی کا احترام پیدا ہوگا اور انگریزوں کا بھی... کچھ آکسفورڈ کی کتب بھی آئیں گی۔ بس ایک نسل گزرنے کی دیر ہے، پھر شاید یہ مسلمانوں کو اس خطے میں زیر کرسکیں۔ دیکھتے ہیں ہوتا کیا ہے! گھوڑا بھی حاضر ہے اور میدان بھی ہے۔ ہمارا کام تو بس یہی تھا کہ ہوشیار کردیں۔ شاید اس پر ہمیںدقیانوسی کا خطاب مل جائے، لیکن ہمیں ایسی دقیانوسیت قبول ہے۔
ہوسکتا ہے ہماری تحریر کہیں کسی صوبے میں، کسی قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقے میں، یا کسی آنے والے انتخاب میں مفاہمت کی سیاست کو نقصان پہنچادے... لیکن ہمارا کام ہے کسی بھی آنے والے خطرے کی بو سونگھ لینے کے بعد قوم کو اس سے آگاہ کرنا۔ جب عمران خان پاکستان آئے تھے تو صرف شوکت خانم اسپتال بنانا چاہتے تھے، لیکن جمائما سے شادی کے بعد یہ خوف دامن گیر تھا کہ گولڈ اسمتھ کی دولت اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال ہوگی۔ لیکن دو بیٹوں کے بعد عمران اور جمائما کی علیحدگی ہوگئی، اور یوں بظاہر یہ خطرہ بھی ٹل گیا کہ عمران کے ذریعے وہ ایجنڈا پاکستان پر مسلط کیا جاسکے گا جس کو انگریز کا ایجنڈا کہا جاتا ہے۔ پھر الیکشن در الیکشن عمران خان نے ناکامیوں کا منہ دیکھا اور یہ خیال گزرا کہ وہ کبھی اقتدار کے ایوانوں میں نہیں جاسکیں گے، لیکن اچانک انہیں کوئی ''شجاع'' مل گیا جس نے ان کا اقبال بہت ہی بلند کردیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سونامی اب آیا کہ تب... لیکن اِس مرتبہ بھی وہ بالکل اس طرح نیچے آئے جس طرح الیکشن سے دو روز قبل لفٹر سے نیچے آئے تھے۔ لفٹر حادثہ تھا، لیکن سونامی کا التوا کسی ''شجاع'' کی سرپرستی نہ ہونے کے سبب ہوا۔ مولانا فضل الرحمن کا عمران خان کے بارے میں کچھ بھی خیال ہو، لیکن عمران خان کو بھی کچھ زیادہ ہی جلدی ہے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو سچ ثابت کرنے کی... چنانچہ جب انہیں یہودی ایجنٹ کہا گیا تو عمران خان اور ان کی ٹیم نے میڈیا کی مدد سے خوب کھنچائی کی... جب امریکی مفادات کا نگہبان کہا گیا تو بھی وہ میڈیا کی مدد سے چڑھ دوڑے... اور جب یہ کہا گیا کہ مغرب کا پروردہ مغرب کا ایجنڈا لایا ہے تو بھی وہ ناراض ہوئے... لیکن یہ کیا کہ ان کی جماعت کے نمبر ون نہیں تو کم از کم صفِ اوّل کے رہنما جاوید ہاشمی یہ مطالبہ کرنے لگے کہ توہینِ رسالت کا قانون تبدیل کیا جائے... کیوں؟ اس لیے کہ چرچ میں دھماکا ہوگیا ہے! وجہ تو نہیں پتا انہوں نے کیوں یہ کہا؟ لیکن چرچ میں دھماکے کے بعد ہی انہوں نے یہ مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح کے دھماکے میں میٹرک تک انگریزی ذریعہ تعلیم کا فیصلہ بھی ہے۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اس طرح پورے صوبے میں سب کا معیارِ تعلیم یکساں ہوجائے گا، ورنہ انگلش میڈیم اسکول انگریزی میں تعلیم دیں گے اور دوسرے اسکول والے پیچھے رہ جائیں گے۔ گویا پیٹ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
ان دو باتوں کے علاوہ دوسری تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کو شاید قابلِ ذکر نہ سمجھا جائے، لیکن ہم ان کا سرسری تذکرہ کرتے ہیں۔ ان دو باتوں پر تفصیل سے بات کریں گے۔ ایک بات یہ نوٹ کی گئی ہے کہ عمران خان نے جو ٹیم بنائی ہے اس میں اکثریت اسلام پسندوں کی ہے۔ جماعت اسلامی کے بہت سے لوگوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، بہت سے مسلم لیگی ان کی پارٹی میں شامل ہیں، لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ فیصلہ کن حیثیت کسی ایسے فرد کو حاصل نہیں جس کا ماضی اسلام پسند ہو، یا حالیہ خیالات اسلام کے حق میں ہوں۔ بہت سے ایسے افراد ہیں جن کا عوام میں یا سیاست میں کوئی دخل یا کوئی تجربہ نہیں۔ ایک خاتون جن کے بارے میں عمران خان کے لفٹر سے گرنے کے موقع پر کہا جارہا تھا کہ انہیں استعفیٰ دینا پڑے گا، وہ اب بھی تحریک انصاف میں نہایت اہم پوزیشن پر ہیں۔ ان کے خیالات دین، مولوی اور دینی شعائر کے بارے میں بہت واضح ہیں، حلیہ بھی اپنا تعارف آپ ہے۔ اسی طرح پارٹی میں تمام فیصلہ ساز اور فیصلہ کن مرد اسلام سے الرجک یا اسلام سے بیزار ہیں۔
جہاں تک انگریزی ذریعہ تعلیم کا معاملہ ہے، یہ بہت اہم ہے۔ اسے بہت آسانی سے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کے لیے تاریخ کا جائزہ ضرور لینا ہوگا اور حال کا بھی... حال میں26 ملکوں کے اتحادی فوجیوں کو جس خطے کے لوگوں نے شکست سے دوچار کیا وہ ہمیشہ فرنگی نظریات اور فرنگیوں کی ہر چیز سے نفرت کرتے ہیں۔ اس وجہ سے جب یہ زمین پر اترے تو ان کا بھرپور ''استقبال'' کیا گیا... یعنی شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا سبب بھی یہی تھا کہ یہ لوگ دین سے قریب اور فرنگیت سے دور تھے۔ اس بات کو اب یوں سمجھیں کہ جب انگریز نے مسلمانوں کو اسپین سے نکالنے کی ٹھانی تو بڑے بڑے اسکول کھولے تھے۔ ان اسکولوں میں وہی تعلیم دی جاتی تھی جو مسلمانوں کے اسکولوں میں دی جاتی تھی، بس پرنسپل پادری ہوتے تھے اور نصاب میں کچھ کتابیں انگلستان کی ہوتی تھیں۔ لیکن یہ بس نہیں ہے... انگلستان کی کتابوں نے انگلستان سے تعلق قائم کیا اور پادری کے پرنسپل بننے سے اس کا احترام مسلمانوں میں آگیا۔ پہلے اسے کافروں کا مذہبی پیشوا سمجھا جاتا تھا، اب اسے استاد کا محترم درجہ مل گیا۔ بس پھر ایک نسل گزرنے کی بات تھی... اب نسلوں سے وہاں اسلام کے نام لیوا نہیں ہیں۔ اب خیبر پختون خوا میں انگریزی ذریعہ تعلیم سے بھی بس یہی ہوگا... انگریزی کا احترام پیدا ہوگا اور انگریزوں کا بھی... کچھ آکسفورڈ کی کتب بھی آئیں گی۔ بس ایک نسل گزرنے کی دیر ہے، پھر شاید یہ مسلمانوں کو اس خطے میں زیر کرسکیں۔ دیکھتے ہیں ہوتا کیا ہے! گھوڑا بھی حاضر ہے اور میدان بھی ہے۔ ہمارا کام تو بس یہی تھا کہ ہوشیار کردیں۔ شاید اس پر ہمیںدقیانوسی کا خطاب مل جائے، لیکن ہمیں ایسی دقیانوسیت قبول ہے۔