کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
جو لوگ بیرون مل جانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی طرح دوسرے ملک چلیں جائیں اور اس پر ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں وہ اس خبر کا مطالعہ ضرور فرمائیں اور مزید اگر اس پر ون ٹو ون بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہاں اس پر مجھ سے ہر قسم کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ یا آپکا کوئی عزیز دنیا میں جہاں بھی جانا چاہتا ھے تو ویزہ حاصل کرے اور ہوائی جہاز کے ذریعے جائے اس کے علاوہ ہر ناجائز طریقہ جان لیوا ھے۔
ہرمین گریچ ٹائمز آف مالٹا: ہفتہ 20 ستمبر 2014
بارہ ستمبر کو جب ایشیائی تارکین وطن سے بھری ہو ئی کشتی بحیرہ ٴروم میں مالٹا کے قریب ڈوب گئی تو یہ بحیرہٴ روم میں ماضی میں پیش آنے والے واقعات سے ایک مختلف واقع تھا۔
اس بار اس کشتی کو مصر سے تعلق رکھنے والے انسانی سمگلروں نے اس وقت جان بوجھ کر تباہ کر دیا جب اس بڑی کشتی میں سوار مسافروں نے چھوٹی کشتیوں میں منتقل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس واقع میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 300 تارکین ڈوب گئے۔
لیبیا یورپ کا کھلا دروازہ ہے
اس واقعے میں بچ جانے والے تین افراد نے مالٹا ٹائمز کو بتایا کہ’ یہ قتل عام تھا‘ اور جب سمگلروں نے مسافروں کی طرف سے چھوٹی کشتیوں میں سوار ہونے سے انکار کیا تو انھوں نے جان بوجھ کر دوسری کشتیوں کو اس بڑی کشتی میں مار مار کر اسے ڈبو دیا۔ جب تارکین وطن سے بھری ہوئی کشتی ڈوب رہی تھی اور لوگ مر رہے تھے تو انسانی سمگلر انھیں دیکھ کر ہنس رہے تھے اور اسی طرح ان کو ڈوبتا ہوا چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔
فلسطین سے تعلق رکھنے والے تیئس سالہ محمد علی آمدلا نے مالٹا ٹائمزکو بتایا: ’سارے راستے ہمارے ساتھ کتوں جیسا سلوک کیا گیا، لیکن مصری سمگلر سب سے بدترین تھے۔‘
ایک اور بچ جانے والے شخص نے تارکین وطن کی عالمی تنظیم آئی آو ایم کو بتایا کہ جب کشتی ڈوب رہی تھی تو انسانی سمگلر ڈوبتے ہوئے مسافروں کا تمسخر اڑا رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہماری کشتی کو ٹکر مارنے کے بعد وہ اس وقت تک وہاں موجود رہے جب تک کشتی پوری طرح ڈوب نہیں گئی۔‘
تارکین وطن کی اکثریت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھتی ہے
اس سانحے میں بچ جانے والے تیرہ اشخاص نے اپنی شہادتوں میں بتایا ہے کہ بڑی کشتی میں سوار آدھے لوگ تو فوراً ڈوب گئے لیکن جو وقتی طور پر بچ گئے تو وہ دو تین دن تک کھلے سمندر میں تیرتے رہے او جب ان کے لیے امداد پہنچی تو اس وقت بہت سارے سمندر کی نذر ہو چکے تھے۔
بچ جانے لوگوں نے جو کہانیاں بیان کی ہیں وہ دل دہلانے والی ہیں۔ ستائس سالہ مامون دوگموش بتاتے ہیں: ’میں نے ایک پورے شامی خاندان کو ڈوبتے دیکھا۔ پہلے باپ ڈوبا، پھر ماں ڈوبی اور پھر میں ان کے ایک سالہ بچے کا حفاظت کرنے والا رہ گیا۔ ایک سالہ بچے نے میری باہوں میں دم توڑ دیا۔‘
ماموں دوگموش نے بتایا کہ کس طرح انسانی سمگلر ڈوبنے والے کا تمسخر اڑا رہے تھے۔’جب ایک شخص زندگی بچانے کےلیے انسانی سمگلروں کی کشتی کے ساتھ لٹک گیا تو انھوں نے اس کے بازو کاٹ دیئے۔‘
بہتر زندگی کی امید میں یورپ کے طرف سفر کرنے والوں نے بتایا کہ ہر شخص نے انسانی سمگلروں کو چار ہزار ڈالر ادا کیے تھے اور وہ انھیں تاریک راستوں سے مصری علاقے دیمتا لائے جہاں سے انھیں ایک کشتی میں بٹھایا گیا۔
تارکین وطن کی تنظیم آئی آو ایم کے مطابق سنہ 2014 میں بحیرہٴ روم میں 2900 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
مالٹا نے یورپ کی طرف سفر کرنے والے تارکین وطن کی رہائش کے لیے کنٹینر ہاؤس تیار کیے ہیں
مالٹا کے وزیر اعظم جوزف موس کیٹ نے بتایا کہ یورپ کی طرف بڑھنے والے تارکین وطن کی تمام ذمہ داری جنوبی یورپ کے دو ملکوں، مالٹا اور اٹلی پر آن پڑی ہے۔
مالٹا اور اٹلی کی کوششوں کے باوجود یورپ آنے کے خواہشمند تارکین وطن بحیرہٴ روم میں ڈوب کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تارکین وطن کا مسئلہ ایک ایسا انسانی مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس سے کوئی بھی نظریں نہیں چرا سکتا۔ ’رات دیر سے جب مجھے سینکڑوں افراد کےسمندر میں ڈوبنے کی اطلاع ملتی ہے تو مجھے دھچکا لگتا ہے۔‘
مالٹا کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی منصوبے بنائے گئے لیکن ان پر عمل نہیں ہو پاتا۔ لیبیا میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور اس کے ساحل سے یورپ کے ساحلوں کی طرف خطرناک سفر کرنے والوں کو روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم انٹیگرا فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والی ماریا پسانی کا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جاری لڑائیوں نے لوگوں کو بہتر زندگی کے لیے خطرناک راستوں کے ذریعے یورپ کی طرف سفر کرنے پر مجبور کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یورپ اپنے دروازے پر ہونے والی اموات سے پر بےحس ہوتا جا رہا ہے ۔
ح
انھوں نے ہم سے کتوں کا سا برتاؤ کیا
ہرمین گریچ ٹائمز آف مالٹا: ہفتہ 20 ستمبر 2014
بارہ ستمبر کو جب ایشیائی تارکین وطن سے بھری ہو ئی کشتی بحیرہ ٴروم میں مالٹا کے قریب ڈوب گئی تو یہ بحیرہٴ روم میں ماضی میں پیش آنے والے واقعات سے ایک مختلف واقع تھا۔
اس بار اس کشتی کو مصر سے تعلق رکھنے والے انسانی سمگلروں نے اس وقت جان بوجھ کر تباہ کر دیا جب اس بڑی کشتی میں سوار مسافروں نے چھوٹی کشتیوں میں منتقل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس واقع میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 300 تارکین ڈوب گئے۔
لیبیا یورپ کا کھلا دروازہ ہے
اس واقعے میں بچ جانے والے تین افراد نے مالٹا ٹائمز کو بتایا کہ’ یہ قتل عام تھا‘ اور جب سمگلروں نے مسافروں کی طرف سے چھوٹی کشتیوں میں سوار ہونے سے انکار کیا تو انھوں نے جان بوجھ کر دوسری کشتیوں کو اس بڑی کشتی میں مار مار کر اسے ڈبو دیا۔ جب تارکین وطن سے بھری ہوئی کشتی ڈوب رہی تھی اور لوگ مر رہے تھے تو انسانی سمگلر انھیں دیکھ کر ہنس رہے تھے اور اسی طرح ان کو ڈوبتا ہوا چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔
فلسطین سے تعلق رکھنے والے تیئس سالہ محمد علی آمدلا نے مالٹا ٹائمزکو بتایا: ’سارے راستے ہمارے ساتھ کتوں جیسا سلوک کیا گیا، لیکن مصری سمگلر سب سے بدترین تھے۔‘
ایک اور بچ جانے والے شخص نے تارکین وطن کی عالمی تنظیم آئی آو ایم کو بتایا کہ جب کشتی ڈوب رہی تھی تو انسانی سمگلر ڈوبتے ہوئے مسافروں کا تمسخر اڑا رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہماری کشتی کو ٹکر مارنے کے بعد وہ اس وقت تک وہاں موجود رہے جب تک کشتی پوری طرح ڈوب نہیں گئی۔‘
تارکین وطن کی اکثریت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھتی ہے
اس سانحے میں بچ جانے والے تیرہ اشخاص نے اپنی شہادتوں میں بتایا ہے کہ بڑی کشتی میں سوار آدھے لوگ تو فوراً ڈوب گئے لیکن جو وقتی طور پر بچ گئے تو وہ دو تین دن تک کھلے سمندر میں تیرتے رہے او جب ان کے لیے امداد پہنچی تو اس وقت بہت سارے سمندر کی نذر ہو چکے تھے۔
بچ جانے لوگوں نے جو کہانیاں بیان کی ہیں وہ دل دہلانے والی ہیں۔ ستائس سالہ مامون دوگموش بتاتے ہیں: ’میں نے ایک پورے شامی خاندان کو ڈوبتے دیکھا۔ پہلے باپ ڈوبا، پھر ماں ڈوبی اور پھر میں ان کے ایک سالہ بچے کا حفاظت کرنے والا رہ گیا۔ ایک سالہ بچے نے میری باہوں میں دم توڑ دیا۔‘
ماموں دوگموش نے بتایا کہ کس طرح انسانی سمگلر ڈوبنے والے کا تمسخر اڑا رہے تھے۔’جب ایک شخص زندگی بچانے کےلیے انسانی سمگلروں کی کشتی کے ساتھ لٹک گیا تو انھوں نے اس کے بازو کاٹ دیئے۔‘
بہتر زندگی کی امید میں یورپ کے طرف سفر کرنے والوں نے بتایا کہ ہر شخص نے انسانی سمگلروں کو چار ہزار ڈالر ادا کیے تھے اور وہ انھیں تاریک راستوں سے مصری علاقے دیمتا لائے جہاں سے انھیں ایک کشتی میں بٹھایا گیا۔
تارکین وطن کی تنظیم آئی آو ایم کے مطابق سنہ 2014 میں بحیرہٴ روم میں 2900 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
مالٹا نے یورپ کی طرف سفر کرنے والے تارکین وطن کی رہائش کے لیے کنٹینر ہاؤس تیار کیے ہیں
مالٹا کے وزیر اعظم جوزف موس کیٹ نے بتایا کہ یورپ کی طرف بڑھنے والے تارکین وطن کی تمام ذمہ داری جنوبی یورپ کے دو ملکوں، مالٹا اور اٹلی پر آن پڑی ہے۔
مالٹا اور اٹلی کی کوششوں کے باوجود یورپ آنے کے خواہشمند تارکین وطن بحیرہٴ روم میں ڈوب کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تارکین وطن کا مسئلہ ایک ایسا انسانی مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس سے کوئی بھی نظریں نہیں چرا سکتا۔ ’رات دیر سے جب مجھے سینکڑوں افراد کےسمندر میں ڈوبنے کی اطلاع ملتی ہے تو مجھے دھچکا لگتا ہے۔‘
مالٹا کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی منصوبے بنائے گئے لیکن ان پر عمل نہیں ہو پاتا۔ لیبیا میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور اس کے ساحل سے یورپ کے ساحلوں کی طرف خطرناک سفر کرنے والوں کو روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم انٹیگرا فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والی ماریا پسانی کا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جاری لڑائیوں نے لوگوں کو بہتر زندگی کے لیے خطرناک راستوں کے ذریعے یورپ کی طرف سفر کرنے پر مجبور کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یورپ اپنے دروازے پر ہونے والی اموات سے پر بےحس ہوتا جا رہا ہے ۔
ح