بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
عرب ممالک میں لاکھوں بھارتی شہری سالوں سے کام کرتے چلے آئے ہیں۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے بھارتی شہریوں کی تعداد تقریبا پچیس لاکھ ہے۔ بھارتی سعودی عرب میں قومیت کے اعتبار سے سب سے بڑا گروپ ہے۔ ہندوستانیوں کی اتنی بڑی تعداد شاید پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ غیر ممالک میں آباد شہریوں کی طرف سے اپنے ملک پیسے بھیجنے میں بھارتی شہری پوری دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ پچھلے برس غیر ممالک میں آباد بھارتی شہریوں نے اپنی کمائی کاتقریبا 70 ارب ڈالر بھارت بھیجا۔ اس میں سے تقریباً 20 ارب ڈالر اکیلے سعودی عرب میں کام کرنے والے بھارتی ماہرین دستکاروں اور مزدوروں کی طرف سے آئے۔ غیرممالک سے آنے والی یہ خطیر نقد رقم برسوں سےبھارت کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ آندھرا پردیش، گجرات، مہاراشٹر، مغربی بنگال، تمل ناڈو اور کیرالہ جیسی ریاستوں کی معیشت میں نقد فنڈ کے حصول کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اب سعودی عرب کی معیشت پر بار بڑھ رہا ہے، مقامی شہری بھی اب پڑھ لکھ رہے ہیں اورکام کرنا چاہتے ہیں۔ مقامی لوگوں میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ غربت اور بے روزگاری کے سبب خود کشیوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اب غیر ملکی کارکنوں کی تعداد کم کرنا چاہتی ہے۔ سعودی حکومت نطاقت نام کا ایک قانون نافذ کرنے جا رہی ہے جس کے تحت سعودی کمپنیوں کو غیر ملکی ملازمین بھرتی کرنے سے پہلے دس فی صد مقامی سعودی کارکنوں کو ملازمت دینی ہو گی۔
اس قانون کے نفاذ سے جو غیر ملکی ملازمین اپنی ملازمت کھوئیں گے انہیں تین جولائی تک دوسری ملازمت تلاش کرنی ہوگی ورنہ انہیں سعودی عرب چھوڑ دینا ہوگا۔ سعودی عرب میں لاکھوں غیر ملکی پر مٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی کم اجرتوں پر کام کر رہے ہیں۔ نطاقت کے نفاذ کے بعد انہیں ملک چھوڑنا ہوگا۔ عام معافی سکیم کے لیے ان کارکنوں کو درخواست دینی ہو گی۔ بڑی تعداد میں بھارتی ملازموں نے واپسی کی درخواست دی ہے۔ لیکن سعودی حکومت نامعلوم وجوہات سے صرف پانچ سو درخواستوں پر غور کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک لاکھ بھارتی شہریوں کو تین جولائی کے بعد گرفتاری اور بھاری جرمانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے۔ سعودی حکومت نے اپنے منصوبے کا اعلان کئی مہینے پہلے کیا تھا۔ ماہرین اور کئی سعودی مشاہدین بھارتی حکومت کو متنبہ کرتے رہے ہیں کہ نطاقت قانون سے بڑی تعداد میں بھارتی ملازمین متاثر ہونگے۔ ماہرین آگاہ کرتے رہے کہ حکومت واپس آنے والے شہریوں کی باز آبادکاری کے لیے کو ئی منصوبہ بنائے۔ لیکن حکومت خاموش بیٹھی تماشہ دیکھتی رہی۔ حکومت نے کچھ وزیروں کو ریاض بھیجا تھا لیکن وہ کس لیے گئے تھے اور کیا حاصل کر کے آئے وہ صرف وہی جانتے ہیں۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے بھارتی شہریوں میں اس وقت افرا تفری مچی ہو ئی ہے اور بھارتی سفارتخا نہ مشکل میں پھنسے ہوئے اپنے شہریوں کے ساتھ سامراجی دور کے حکمرانوں کی طرح پیش آرہا ہے۔ حکومت کی طرف سے بس اس طرح کے بیان آتے رہے ہیں کہ اس نے سعودی حکام سے رابطہ قائم کر رکھا ہے۔
(گو کہ اس قسم کی صورتحال کا سامنا دیگر ممالک کے کارکنوں کو بھی درپیش ہوگا تاہم ابھی یہ ہی اعداد و شمار دستیاب ہو سکے ہیں جو معلومات میں اضافے کے لیے باقی ساتھیوں کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں۔)
اس قانون کے نفاذ سے جو غیر ملکی ملازمین اپنی ملازمت کھوئیں گے انہیں تین جولائی تک دوسری ملازمت تلاش کرنی ہوگی ورنہ انہیں سعودی عرب چھوڑ دینا ہوگا۔ سعودی عرب میں لاکھوں غیر ملکی پر مٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی کم اجرتوں پر کام کر رہے ہیں۔ نطاقت کے نفاذ کے بعد انہیں ملک چھوڑنا ہوگا۔ عام معافی سکیم کے لیے ان کارکنوں کو درخواست دینی ہو گی۔ بڑی تعداد میں بھارتی ملازموں نے واپسی کی درخواست دی ہے۔ لیکن سعودی حکومت نامعلوم وجوہات سے صرف پانچ سو درخواستوں پر غور کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک لاکھ بھارتی شہریوں کو تین جولائی کے بعد گرفتاری اور بھاری جرمانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے۔ سعودی حکومت نے اپنے منصوبے کا اعلان کئی مہینے پہلے کیا تھا۔ ماہرین اور کئی سعودی مشاہدین بھارتی حکومت کو متنبہ کرتے رہے ہیں کہ نطاقت قانون سے بڑی تعداد میں بھارتی ملازمین متاثر ہونگے۔ ماہرین آگاہ کرتے رہے کہ حکومت واپس آنے والے شہریوں کی باز آبادکاری کے لیے کو ئی منصوبہ بنائے۔ لیکن حکومت خاموش بیٹھی تماشہ دیکھتی رہی۔ حکومت نے کچھ وزیروں کو ریاض بھیجا تھا لیکن وہ کس لیے گئے تھے اور کیا حاصل کر کے آئے وہ صرف وہی جانتے ہیں۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے بھارتی شہریوں میں اس وقت افرا تفری مچی ہو ئی ہے اور بھارتی سفارتخا نہ مشکل میں پھنسے ہوئے اپنے شہریوں کے ساتھ سامراجی دور کے حکمرانوں کی طرح پیش آرہا ہے۔ حکومت کی طرف سے بس اس طرح کے بیان آتے رہے ہیں کہ اس نے سعودی حکام سے رابطہ قائم کر رکھا ہے۔
(گو کہ اس قسم کی صورتحال کا سامنا دیگر ممالک کے کارکنوں کو بھی درپیش ہوگا تاہم ابھی یہ ہی اعداد و شمار دستیاب ہو سکے ہیں جو معلومات میں اضافے کے لیے باقی ساتھیوں کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں۔)