• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اورلینڈو (فلوریڈا) میں قتلِ عام!

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
اورلینڈو (فلوریڈا) میں قتلِ عام!
14 جون 2016
کالم: لیفٹیننٹ کرنل (ر) علام جیلانی خان

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نقشے پر نگاہ ڈالیں تو اس کے انتہائی جنوب مشرق میں ایک ریاست نظر آئے گی جس کو فلوریڈا کہتے ہیں۔ یہ ایک جزیرہ نما ہے۔ یعنی اس کے تین طرف پانی ہے اور ایک طرف خشکی ہے۔ مشرق میں بحراوقیانوس اور مغرب میں خلیج میکسیکو ہے جبکہ جنوب میں بحراوقیانوس اور خلیج میکسیکو کے پانی آپس میں گلے ملتے نظر آتے ہیں۔
چونکہ جزیرہ نما ہے اس لئے اس کے سواحل (Beaches) میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں جہاں دن کے وقت کیا خواتین اور کیا مرد، نیم برہنہ حالت میں ریگِ ساحل پر پڑے پڑے اپنی جلدوں (Skins) کو Tan کرتے نظر آتے ہیں۔
طبی سائنس نے ان کو کہیں یہ بتا دیا ہے کہ اہلِ مغرب کے باسیوں میں وٹامن ڈی (D) کی بالعموم کمی ہوتی ہے کیونکہ یہ وٹامن دھوپ میں پایا جاتا ہے۔ اور چونکہ یورپ کے بیشتر حصوں میں موسم سرما طویل تر ہوتا ہے اور امریکہ کی بھی بہت کم ریاستیں ایسی ہیں جن میں تپتے صحرا اور سنگلاخ پہاڑ پائے جاتے ہیں، اس لئے افرنگی بالعموم اور افرنگنیں بالخصوص کسی ساحل پر دھوپ چمکتی دیکھ کر الف ہونے میں دیر نہیں لگاتیں!


ڈاکٹر حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ وٹامن ڈی اگر جسم میں کم ہوں تو ہڈیاں کمزور رہ جاتی ہیں، بڑھاپا جلد آ جاتا ہے اور کمریں جلد خَم ہونے لگتی ہیں۔ کچھ عرصے سے چونکہ میری اپنی ٹانگوں میں بھی درد بسا رہتا ہے اس لئے ایک بار CMH (لاہور) کے ایک آرتھوپیڈک ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ آپ وٹامن D کا ٹیسٹ کروا لیں۔ تاکہ اگر ان کی کمی ہو تو علاج کیا جائے۔ پھر کہنے لگے کہ فوجی ہسپتالوں میں ان کا ٹیسٹ نہیں ہوتا، آپ کسی شوکت خانم لیبارٹری وغیرہ سے رجوع کریں۔ چنانچہ میں لاہور کینٹ میں شوکت خانم لیبارٹری میں گیا اور خون دے کر واپس آ گیا۔ کہا گیا کہ کل شام آکر اپنی ٹیسٹ رپورٹ لے جائیں۔ اگلے روز وہاں گیا تو رپورٹ تیار تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وٹامن ڈی کی واقعی کمی ہے۔ لیکن اتنی شدید نہیں کہ تشویشناک کی ذیل میں شمار ہو۔ ڈاکٹر نے پانی میں ملا کر ایک ٹیکہ پینے کے لئے تجویز کیا اور فرمایا کہ 2،3 ماہ تک اسے استعمال کریں اور پھر دوبارہ ٹیسٹ کرا کے، ٹیسٹ رپورٹ کے ہمراہ حاضر آویں۔ میں نے دو تین ہفتوں تک وہ ’’بک بکا‘‘ سا ٹیکہ ملا پانی تو پیالیکن اس کے بعد چھوڑ دیا۔۔۔ وجہ یہ تھی کہ جب میں لیبارٹری سے اپنی رپورٹ لینے گیا تھا تو ایک نوجوان خاتون بھی وہیں بیٹھی تھیں جو کہہ رہی تھیں: ’’میں پانچویں بار یہ ٹیسٹ کروا رہی ہوں۔ لیکن ہر بار وٹامن ڈی کی کمی وہیں کی وہیں ہے جہاں پہلے ٹیسٹ میں تھی۔ یہ آپ ہر دفعہ تین ہزار روپے تو لے لیتے ہیں۔ مجھے فائدہ تو ’’ککھ‘‘ کا بھی نہیں ہوتا۔۔۔‘‘۔۔۔ میں نے ان کی بات پلے باندھ لی اور وہ غلطی نہ دہرائی جو وہ پانچ بار دہرا کر چھٹی بار دہرانے کا ارتکاب کر رہی تھیں۔


صفاتی موضوع کو چھوڑ کر ذاتیات پر اتر آنے کی معافی چاہوں گا۔۔۔
عرض یہ کر رہا تھا کہ فلوریڈا کے میامی بیچ پر سال بھر برہنہ اور نیم برہنہ جسموں کی قطاریں ’’پڑی‘‘ رہتی ہیں اور سوائے ایشیائی ’’زائرین‘‘ کے کوئی نگاہ اٹھا کر بھی ان کو نہیں دیکھتا۔
اسی وجہ سے فلوریڈا کو ’’سن شائن‘‘ ریاست بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے دارالحکومت کا نام تو ٹالاہاسی
(Tallahassee) ہے لیکن اورلینڈو (Orlando) نام کا شہر تو دنیا بھر میں شبانہ عشرت کدوں کے طفیل مشہور ہے۔ اسی شہر کی ایک نائٹ کلب کا نام Pulse نائٹ کلب ہے جس میں ہم جنس پرستوں (Gays) کے میلے لگے رہتے ہیں۔ وہاں کسی ظالم نے رائفل سے فائر کرکے 50 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور 53 کو زخمی کر دیا جن میں اکثر کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ اتنے لوگوں کو موت کی نیند سلانے اور گھائل کرنے کے بعد قاتل نے 30 مزید افراد کو یرغمال بھی بنایا ہوا تھا کہ پولیس نے اس پر دھاوا بول دیا اور اسے قتل کر ڈالا۔


خبریں آ رہی تھیں کہ قاتل ایک مسلمان نوجوان ہے۔ مجھے دھڑکا سا لگ گیا کہ کہیں یہ پاکستانی نہ ہو۔ لیکن خیریت گزری۔ معلوم ہوا کہ اس کا تعلق پاکستان سے نہیں، افغانستان سے ہے۔۔۔ چلو ہمسایہ تو نکلا۔۔۔ اس کا نام عمر متین ہے، عمر 29 برس ہے اور کئی برس پہلے اس کے والدین امریکہ جا کر بس گئے تھے۔ عمر وہیں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور تعلیم پائی۔ پولیس نے اب تک اس کے بارے میں اتنا ہی بتایا ہے۔ تحقیق ہو رہی ہے کہ کیا اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے تھا یا اس نے یہ بھیانک اور دلدوز واردات کسی اور وجہ سے کی۔ پولیس یہ معلوم کرنیکی کوشش بھی کر رہی ہے کہ آیا عمر متین گزشتہ برسوں میں کبھی افغانستان بھی گیا تھا یا نہیں اور کیا اس کا تعلق 13 سال تک افغانستان میں برسر جنگ رہنے والی امریکن آرمی سے بھی کوئی تھا یا نہیں۔ فلوریڈا ریاست میں اورلینڈو کے میئر اور پولیس چیف دونوں نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قاتل کا تعلق فلوریڈا ہی سے تھا۔ اور وہ امریکی شہری ہی تھا۔

ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس گھناؤنے جرم کی وجہ کیا تھی۔۔۔ امریکی مختلف اندازے لگا رہے ہیں۔

ایک گروہ یہ دلیل لاتا ہے کہ چونکہ اورلینڈو کا یہ کلب ہم جنس پرستوں کا عشرت کدہ تھا اس لئے نہ صرف مسلمانوں بلکہ بہت سے امریکیوں کے لئے بھی یہ ’’لت‘‘ ایک شدید قابلِ نفرت فعل تھا۔ ہو سکتا ہے عمر متین نے اسی وجہ سے یہ افسوسناک اقدام کیا ہو۔ قاتل کے والد صدیق میر نے تسلیم کیا ہے کہ اس کے بیٹے نے ایک روز گھر آ کر بتایا تھا کہ اس نے آج ہم جنس پرستوں کو بازار میں سر عام بوس و کنار میں مشغول دیکھا ہے جو ایک کراہتِ آمیز منظر تھا ۔۔۔

دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ قاتل چونکہ فلوریڈا میں پیدا ہوا اور انہی فضاؤں میں پروان چڑھا اس لئے ہم جنس پرستی کا کلچر اس کے لئے کوئی نیا مظہرنہ تھا اس لئے یہ اقدام اس نے ’’گے کلب‘‘ (Gay Club) کے اس پہلو کے پیش نظر نہیں اٹھایا۔ ۔۔۔

ایک تیسرا گروہ اس سانحہ کو اس زاویۂ نگاہ سے بھی دیکھتا ہے کہ عمر متین کے آباؤ اجداد کا تعلق جس ملک سے ہے وہاں ہم جنس پرستی کو اتنا بُرا خیال نہیں کیا جاتا۔ افغانستان کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں یہ قبیح حرکت کوئی ایسی انہونی بات نہیں گردانی جاتی۔ وہاں اس ’’لعنت‘‘ کو بچہ بازی کہہ کر پکارا جاتا ہے اور صدیوں سے افغان معاشرے کا ایک طبقہ اس نفرت انگیز عادت کو ایک ثقافتی روائت بنا چکا ہے۔

ان کے علاوہ امریکہ میں ایک اور طبقہء خیال بھی ہے جو پچھلے چند ماہ سے وجود میں آیا ہے۔ اس میں 99 فیصد وہ مسلمان ہیں جو برسوں سے یہاں آباد ہیں۔ ان کی تیسری چوتھی نسل اب جوان ہو رہی ہے۔ لیکن ان میں اپنے مذہب سے لگاؤ ایک ایسی مستحکم اور مضبوط صفتِ مشترک ہے کہ اس سے کوئی امریکی انحراف نہیں کر سکتا۔ امریکی مسلمانوں کی آج کل ویسے بھی بہ نگاہِ حقارت دیکھتے ہیں اور اسلام اور دہشت گردی کو ہم معنی سمجھتے ہیں لیکن ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ اس امریکی دشمنی یا مغرب کی مخالفت کا بیج کسی اور نے نہیں خود امریکیوں نے مسلمان امریکیوں کے دل و دماغ میں بویا ہے۔۔۔


ابھی حال ہی میں امریکہ کی ایک بڑی سیاسی پارٹی (ری پبلکن) کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ نقطۂ نظر کسے معلوم نہیں جس میں امریکیوں کی اسلام دشمنی بہت کھل کر سامنے آ چکی ہے؟۔۔۔ مسٹر ٹرمپ ایک بار نہیں کئی بار اعلان کر چکے ہیں کہ میں صدر بننے کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کے دروازے امریکہ پر بند کر دوں گا۔ امریکہ کی کل آبادی کا 14 فیصد مسلمان ہیں۔ اگر کوئی صدارتی امیدوار اتنی اہم اقلیت کو مذہبی طعن و تشنیع کا نشانہ بناتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ امریکہ کی نصف سے زیادہ آبادی مسلمانوں کو اپنے کلچر میں اچھوت سمجھتی ہے۔ ہر چند کہ امریکہ کی سول سوسائٹی ٹرمپ کے اس نقطہ نگاہ کا بڑے زور دار انداز میں ابطال کر چکی ہے لیکن پھر بھی امریکی میڈیا میں "Islamist" کا لفظ ’’دہشت گرد‘‘ کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلام کے کسی نام لیوا نے آج تک کسی برے سے برے عیسائی کو بھی "Christianist" کہہ کر نہیں پکارا۔ نہ صرف یہ نام امریکہ نے بلکہ بیشتر یورپی ممالک کے عیسائیوں کی اکثریت نے انہی معانی میں استعمال کرنے کا گویا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔۔۔ چنانچہ بعض لوگ عمر متین کے اس اقدامِ قتل کو ٹرمپ کی مسلم دشمنی کا ردعمل سمجھ رہے ہیں۔


قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ آج امریکہ میں بعض مسلم نوجوانوں کے ذہنوں میں اگر اپنے دین کے ساتھ اس طرح کا مضبوط بندھن موجود ہے تو کل کلاں اگر ٹرمپ صدر امریکہ بن گئے تو امریکہ کی دوسری 51 ریاستوں میں کتنے عمر متین، وہی کچھ کر گزرنے کا سوچیں گے جو اس افغان امریکی نے سوچا تھا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ان کے علاوہ امریکہ میں ایک اور طبقہء خیال بھی ہے جو پچھلے چند ماہ سے وجود میں آیا ہے۔ اس میں 99 فیصد وہ مسلمان ہیں جو برسوں سے یہاں آباد ہیں۔ ان کی تیسری چوتھی نسل اب جوان ہو رہی ہے۔ لیکن ان میں اپنے مذہب سے لگاؤ ایک ایسی مستحکم اور مضبوط صفتِ مشترک ہے کہ اس سے کوئی امریکی انحراف نہیں کر سکتا۔ امریکی مسلمانوں کی آج کل ویسے بھی بہ نگاہِ حقارت دیکھتے ہیں اور اسلام اور دہشت گردی کو ہم معنی سمجھتے ہیں لیکن ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ اس امریکی دشمنی یا مغرب کی مخالفت کا بیج کسی اور نے نہیں خود امریکیوں نے مسلمان امریکیوں کے دل و دماغ میں بویا ہے۔۔۔
اس واقعہ کا پس منظر کوئی بھی محرک ہوسکتا ہے ،
لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت کہ کئی عشروں سے امریکی اور یورپی معاشروں میں آباد رہنے کے باوجود
ان تارکین وطن کے دلوں میں اسلام کسی نہ کسی درجہ زندہ ہے ،
اور یہ بات لبرل اور سیکولر کیلئے بہت تشویش ناک ہے ،

محدث میگزین میں شائع ایک آرٹیکل کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے ایک جائزہ کے مطابق جو مسلمان ۱۱ستمبر کے واقعہ سے پہلے آوارگی اور تعیش کی زندگی گزار رہے تھے، ان میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے، دین سے ان کی وابستگی اور رغبت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوگیا ہے، ایک ہزار سے زائد امریکی مسجدیں پنج وقتہ نمازیوں میں پہلے سے زیادہ بھری رہتی ہیں۔ ۱۱؍ستمبر۲۰۰۱ء سے ۱۲؍ستمبر۲۰۰۲ء تک ایک سال کے دوران جتنی اسلامی کتابیں بالخصوص قرآنِ مجید کے تراجم فروخت ہوئے ہیں، اتنے پچھلے۶،۷ سال کے دوران نہیں ہوئے۔ امریکی عوام میں اسلام کے متعلق صحیح معلومات حاصل کرنے کی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔ انٹرنیٹ پر مختلف اسلامی سائٹس میں جانے والے غیر مسلموں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور وہ متعلقہ اداروں کو ای میل کے ذریعے اسلام کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کے لئے مختلف سوالات بھیج کر جوابات طلب کررہے ہیں۔ خود امریکہ کو اس بات کا احساس ہے کہ اس کے اسلام کے متعلق غلط پروپیگنڈہ سے خود ان کی معیشت پر ناقابل یقین اثر پڑ رہا ہے، چنانچہ امریکی وزارتِ خارجہ کے تعاون و اشتراک سے کام کرنے والے شہری سفارت کاروں کے نوبل انعام یافتہ بین الاقوامی ادارہ نیشنل کونسل آف انٹرنیشنل وزیٹرس (NCIV) نے گذشتہ ماہ اس بات کا اعلان کیا ہے کہ عالمی سطح پر بالعموم اور امریکہ میں بالخصوص اسلام کے متعلق کئے جارہے غلط پروپیگنڈوں کی روک تھام کیلئے، وہ اپنے ادارہ کے ۸۰ ہزار رضا کاروں کو حرکت میں لارہے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے حضور ا کی تعلیمات کا انسانی زندگی پر اثر دکھانے کیلئے ایک دستاویزی فلم تیار کی ہے جو ۱۸؍ستمبر۲۰۰۲ء کو پبلک براڈ کاسٹنگ سسٹم پر ریلیز کی جا چکی ہے۔ٌ
مسلمان کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
 
Top