کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
اورلینڈو (فلوریڈا) میں قتلِ عام!
14 جون 2016کالم: لیفٹیننٹ کرنل (ر) علام جیلانی خان
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نقشے پر نگاہ ڈالیں تو اس کے انتہائی جنوب مشرق میں ایک ریاست نظر آئے گی جس کو فلوریڈا کہتے ہیں۔ یہ ایک جزیرہ نما ہے۔ یعنی اس کے تین طرف پانی ہے اور ایک طرف خشکی ہے۔ مشرق میں بحراوقیانوس اور مغرب میں خلیج میکسیکو ہے جبکہ جنوب میں بحراوقیانوس اور خلیج میکسیکو کے پانی آپس میں گلے ملتے نظر آتے ہیں۔
چونکہ جزیرہ نما ہے اس لئے اس کے سواحل (Beaches) میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں جہاں دن کے وقت کیا خواتین اور کیا مرد، نیم برہنہ حالت میں ریگِ ساحل پر پڑے پڑے اپنی جلدوں (Skins) کو Tan کرتے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ وٹامن ڈی اگر جسم میں کم ہوں تو ہڈیاں کمزور رہ جاتی ہیں، بڑھاپا جلد آ جاتا ہے اور کمریں جلد خَم ہونے لگتی ہیں۔ کچھ عرصے سے چونکہ میری اپنی ٹانگوں میں بھی درد بسا رہتا ہے اس لئے ایک بار CMH (لاہور) کے ایک آرتھوپیڈک ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ آپ وٹامن D کا ٹیسٹ کروا لیں۔ تاکہ اگر ان کی کمی ہو تو علاج کیا جائے۔ پھر کہنے لگے کہ فوجی ہسپتالوں میں ان کا ٹیسٹ نہیں ہوتا، آپ کسی شوکت خانم لیبارٹری وغیرہ سے رجوع کریں۔ چنانچہ میں لاہور کینٹ میں شوکت خانم لیبارٹری میں گیا اور خون دے کر واپس آ گیا۔ کہا گیا کہ کل شام آکر اپنی ٹیسٹ رپورٹ لے جائیں۔ اگلے روز وہاں گیا تو رپورٹ تیار تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وٹامن ڈی کی واقعی کمی ہے۔ لیکن اتنی شدید نہیں کہ تشویشناک کی ذیل میں شمار ہو۔ ڈاکٹر نے پانی میں ملا کر ایک ٹیکہ پینے کے لئے تجویز کیا اور فرمایا کہ 2،3 ماہ تک اسے استعمال کریں اور پھر دوبارہ ٹیسٹ کرا کے، ٹیسٹ رپورٹ کے ہمراہ حاضر آویں۔ میں نے دو تین ہفتوں تک وہ ’’بک بکا‘‘ سا ٹیکہ ملا پانی تو پیالیکن اس کے بعد چھوڑ دیا۔۔۔ وجہ یہ تھی کہ جب میں لیبارٹری سے اپنی رپورٹ لینے گیا تھا تو ایک نوجوان خاتون بھی وہیں بیٹھی تھیں جو کہہ رہی تھیں: ’’میں پانچویں بار یہ ٹیسٹ کروا رہی ہوں۔ لیکن ہر بار وٹامن ڈی کی کمی وہیں کی وہیں ہے جہاں پہلے ٹیسٹ میں تھی۔ یہ آپ ہر دفعہ تین ہزار روپے تو لے لیتے ہیں۔ مجھے فائدہ تو ’’ککھ‘‘ کا بھی نہیں ہوتا۔۔۔‘‘۔۔۔ میں نے ان کی بات پلے باندھ لی اور وہ غلطی نہ دہرائی جو وہ پانچ بار دہرا کر چھٹی بار دہرانے کا ارتکاب کر رہی تھیں۔
صفاتی موضوع کو چھوڑ کر ذاتیات پر اتر آنے کی معافی چاہوں گا۔۔۔
عرض یہ کر رہا تھا کہ فلوریڈا کے میامی بیچ پر سال بھر برہنہ اور نیم برہنہ جسموں کی قطاریں ’’پڑی‘‘ رہتی ہیں اور سوائے ایشیائی ’’زائرین‘‘ کے کوئی نگاہ اٹھا کر بھی ان کو نہیں دیکھتا۔
خبریں آ رہی تھیں کہ قاتل ایک مسلمان نوجوان ہے۔ مجھے دھڑکا سا لگ گیا کہ کہیں یہ پاکستانی نہ ہو۔ لیکن خیریت گزری۔ معلوم ہوا کہ اس کا تعلق پاکستان سے نہیں، افغانستان سے ہے۔۔۔ چلو ہمسایہ تو نکلا۔۔۔ اس کا نام عمر متین ہے، عمر 29 برس ہے اور کئی برس پہلے اس کے والدین امریکہ جا کر بس گئے تھے۔ عمر وہیں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور تعلیم پائی۔ پولیس نے اب تک اس کے بارے میں اتنا ہی بتایا ہے۔ تحقیق ہو رہی ہے کہ کیا اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے تھا یا اس نے یہ بھیانک اور دلدوز واردات کسی اور وجہ سے کی۔ پولیس یہ معلوم کرنیکی کوشش بھی کر رہی ہے کہ آیا عمر متین گزشتہ برسوں میں کبھی افغانستان بھی گیا تھا یا نہیں اور کیا اس کا تعلق 13 سال تک افغانستان میں برسر جنگ رہنے والی امریکن آرمی سے بھی کوئی تھا یا نہیں۔ فلوریڈا ریاست میں اورلینڈو کے میئر اور پولیس چیف دونوں نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قاتل کا تعلق فلوریڈا ہی سے تھا۔ اور وہ امریکی شہری ہی تھا۔
ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس گھناؤنے جرم کی وجہ کیا تھی۔۔۔ امریکی مختلف اندازے لگا رہے ہیں۔
ایک گروہ یہ دلیل لاتا ہے کہ چونکہ اورلینڈو کا یہ کلب ہم جنس پرستوں کا عشرت کدہ تھا اس لئے نہ صرف مسلمانوں بلکہ بہت سے امریکیوں کے لئے بھی یہ ’’لت‘‘ ایک شدید قابلِ نفرت فعل تھا۔ ہو سکتا ہے عمر متین نے اسی وجہ سے یہ افسوسناک اقدام کیا ہو۔ قاتل کے والد صدیق میر نے تسلیم کیا ہے کہ اس کے بیٹے نے ایک روز گھر آ کر بتایا تھا کہ اس نے آج ہم جنس پرستوں کو بازار میں سر عام بوس و کنار میں مشغول دیکھا ہے جو ایک کراہتِ آمیز منظر تھا ۔۔۔
دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ قاتل چونکہ فلوریڈا میں پیدا ہوا اور انہی فضاؤں میں پروان چڑھا اس لئے ہم جنس پرستی کا کلچر اس کے لئے کوئی نیا مظہرنہ تھا اس لئے یہ اقدام اس نے ’’گے کلب‘‘ (Gay Club) کے اس پہلو کے پیش نظر نہیں اٹھایا۔ ۔۔۔
ایک تیسرا گروہ اس سانحہ کو اس زاویۂ نگاہ سے بھی دیکھتا ہے کہ عمر متین کے آباؤ اجداد کا تعلق جس ملک سے ہے وہاں ہم جنس پرستی کو اتنا بُرا خیال نہیں کیا جاتا۔ افغانستان کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں یہ قبیح حرکت کوئی ایسی انہونی بات نہیں گردانی جاتی۔ وہاں اس ’’لعنت‘‘ کو بچہ بازی کہہ کر پکارا جاتا ہے اور صدیوں سے افغان معاشرے کا ایک طبقہ اس نفرت انگیز عادت کو ایک ثقافتی روائت بنا چکا ہے۔
ان کے علاوہ امریکہ میں ایک اور طبقہء خیال بھی ہے جو پچھلے چند ماہ سے وجود میں آیا ہے۔ اس میں 99 فیصد وہ مسلمان ہیں جو برسوں سے یہاں آباد ہیں۔ ان کی تیسری چوتھی نسل اب جوان ہو رہی ہے۔ لیکن ان میں اپنے مذہب سے لگاؤ ایک ایسی مستحکم اور مضبوط صفتِ مشترک ہے کہ اس سے کوئی امریکی انحراف نہیں کر سکتا۔ امریکی مسلمانوں کی آج کل ویسے بھی بہ نگاہِ حقارت دیکھتے ہیں اور اسلام اور دہشت گردی کو ہم معنی سمجھتے ہیں لیکن ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ اس امریکی دشمنی یا مغرب کی مخالفت کا بیج کسی اور نے نہیں خود امریکیوں نے مسلمان امریکیوں کے دل و دماغ میں بویا ہے۔۔۔
ابھی حال ہی میں امریکہ کی ایک بڑی سیاسی پارٹی (ری پبلکن) کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ نقطۂ نظر کسے معلوم نہیں جس میں امریکیوں کی اسلام دشمنی بہت کھل کر سامنے آ چکی ہے؟۔۔۔ مسٹر ٹرمپ ایک بار نہیں کئی بار اعلان کر چکے ہیں کہ میں صدر بننے کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کے دروازے امریکہ پر بند کر دوں گا۔ امریکہ کی کل آبادی کا 14 فیصد مسلمان ہیں۔ اگر کوئی صدارتی امیدوار اتنی اہم اقلیت کو مذہبی طعن و تشنیع کا نشانہ بناتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ امریکہ کی نصف سے زیادہ آبادی مسلمانوں کو اپنے کلچر میں اچھوت سمجھتی ہے۔ ہر چند کہ امریکہ کی سول سوسائٹی ٹرمپ کے اس نقطہ نگاہ کا بڑے زور دار انداز میں ابطال کر چکی ہے لیکن پھر بھی امریکی میڈیا میں "Islamist" کا لفظ ’’دہشت گرد‘‘ کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلام کے کسی نام لیوا نے آج تک کسی برے سے برے عیسائی کو بھی "Christianist" کہہ کر نہیں پکارا۔ نہ صرف یہ نام امریکہ نے بلکہ بیشتر یورپی ممالک کے عیسائیوں کی اکثریت نے انہی معانی میں استعمال کرنے کا گویا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔۔۔ چنانچہ بعض لوگ عمر متین کے اس اقدامِ قتل کو ٹرمپ کی مسلم دشمنی کا ردعمل سمجھ رہے ہیں۔
قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ آج امریکہ میں بعض مسلم نوجوانوں کے ذہنوں میں اگر اپنے دین کے ساتھ اس طرح کا مضبوط بندھن موجود ہے تو کل کلاں اگر ٹرمپ صدر امریکہ بن گئے تو امریکہ کی دوسری 51 ریاستوں میں کتنے عمر متین، وہی کچھ کر گزرنے کا سوچیں گے جو اس افغان امریکی نے سوچا تھا۔