• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اور ہم نے خدا کو کھو دیا :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اور ہم نے خدا کو کھو دیا :

ابوبکر قدوسی
اس نے کہا میں تو بنا دلیل کے نہیں مانوں گا -
وہ بولا کہ میں تو کب کا ، روز الست سے ، بنا کسی دلیل کے مان چکا -
تو پھر مجھے دلائل سے کیوں خدا منوانے چلے ہو ملّا کہیں کے ؟
آپ کو اس لیے دلیل دیتا ہوں کہ آپ کو دلیل کی حاجت ہے ، جس کو جو حاجت ہے وہ خدا اس کی طلب کو پورا کرتا ہے - خالق جو ہے ہمارا -
ممکن ہے اس مکالمے کے بیچ دونوں کا خالق اوپر آسمانوں پر مسکرا رہا ہو -
دلائل کا آغاز تھا - اک طوفان تھا - کارخانہ حیات کے پیچ و خم کا بیان تھا ، مسکراتی زندگی کی داستانیں سنائی جا رہی تھیں - لامحدود کائنات کے رنگ ایک کے بعد ایک نکھر نکھر سامنے آ رہے تھے - اپنے بدن کی مثال سے بڑھ کی کوئی اور دلیل کیونکر ہو گی - اپنے ہاتھ کی ایک چھنگلیا پر ہی غور کرتے چلے جاؤ - اسرار کے سمندر موجزن ہوتے چلے جائیں گے - اس ایک چھنگلیا کو لے کے ملکوں ملکوں گھوم لیجئے ، زمانہ چھان جائیے - کوئی دوسری ایسی نہیں ملے گی - ڈیڑھ ہزار سال پہلے عرب کے صحرا کے بیچ شہر مدینہ میں ایک کتاب نازل ہوئی ، جس میں ان پوروں کا تمام سحر آشکار کر دیا گیا - تب کسی کو سمجھ نہ آئی -

(اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعُ عِظَامَہ ۔ بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہ)
'' کیا انسا ن یہ سمجھتاہے کہ ہم اس کی ہڈیاں اکٹھی نہ کر سکیں گے؟کیوں نہیں،ہم اس بات پر قادر ہیں کہ (پھر سے )اس کی انگلیوں کے پور پور تک درست بنا دیں''

یہ پور پور کا ہی ذکر کیوں ؟
جی ہاں آج سائنس کہتی ہے کہ ایک ماں کے پیٹ میں پلنے والے ایک باپ کی اولاد جڑواں بچوں کے پور بھی آپس میں نہیں ملتے دوسروں کے کیا ملیں گے - کیا یہ سب بنا کسی منصوبہ بندی سے آپ ہی آپ ہو گیا ؟
کبھی سوچا کہ یہ انگلی پر ناخن کیوں ہوتا ہے ؟
بہت سہولت سے اشیاء تھام لیتے ہیں اور اگر یہ ناخن اکھاڑ لیا جائے تو ؟
ہاں محض ایک سوئی زمین پر گر جائے تو اٹھا نہ پائیں - آزما لیجیے - آپ کی اوقات تو سوئی جتنی بھی نہ رہی پھر ...اچھا کبھی سوچا یہ ناخن کبھی کوئی کھینچ لے ، ٹوٹ جائیں تو نیچے کیا ہے ؟
محض لجلجا سا گوشت ...اس گوشت میں کوئی شے نہیں کہ جو ٹھوس ہو لیکن کچھ دن میں اس گوشت سے بنا کسی تخم کے کھیتی نکلنے لگتی ہے - نیا ناخن نکلتا ہے اور ایسا تیز کہ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کے خود کا منہ نوچ لیجئے - انگلی میں جوڑ بنا دیے کہ لچک رہے - لچک مگر نہ آئی تو خالق کے منکر انسان میں نہ آئی کہ کہتا ہے خود تو بنا دلیل ماننے کا دعوی اور مجھے دلیل پہ دلیل کہ خدا ہے خدا ہے ، ہاں خدا ہے -
او بھائی سن ! دلیل کی مجھے ضرورت اس لیے نہیں کہ میں ہوں سو خدا ہے ، میرا وجود ، میرا ہونا ہی مجھے خدا کی خبر دے جاتا ہے - دلیل اس لیے مگر پھر بہ کہ آپ جو نہیں مانتے اور دلیل طلب کرتے ہو ..سو دلیل پر دلیل تو آئے گی - اور تمام کے تمام دلائل اس ایک ہاتھ سے نہ نکل سکیں گے -
ایک روز میں بیٹھا بیٹھا سوچتا رہا کہ ہمارے منہ پر کیا ہوتا ہے ، محض دو اکھیاں ہاں نین کٹورے ، اک ناک کہ جس کو اونچا کرنے کا شوق نچلا نہ بیٹھنے دے ، ہونٹ کہ جن کی نازکی غزل سرا کر دے اور بس ...ذرا ان تیز چیزوں کو ملا کے آپ الگ الگ شکلیں تو بنا کے دکھائیں ؟
سات ارب کو چھوتی آبادی ، اور سب کے منہ پر بس یہی کل کائنات ..اور سب کی الگ الگ شکلیں -
ایک روز آم کھاتے میں نے ایک "دوست " سے پوچھا ، میٹھا ہے ؟
بولا چونسا ہے آموں کا بادشاہ ، میٹھا کیونکر نہ ہو گا ؟
کہا ، کہ پھر ایسا کرو ایک پاؤ مٹی لو ، اس میں پانی ڈالو ، ساتھ آم کی گھٹلی بھی لینا نہ بھولنا ..اب ان کو ملا کے آم بنا کے کھا لو ، اگر بنا نہیں سکتے تو چلو تصور کر کے ہی کھالو کہ آم انہی تین اشیاء کا مرکب ہے - ارے ہاں گھٹلی میں چھپے "جینز " بات نہ کرنا ، ورنہ میں مٹی چھین لوں گا اور کہوں گا کہ چلو اس گھٹلی سے جین ، آم کا ڈی این اے ڈھونڈو اور ایک آم جتنا میٹھا ہی نکال کے دکھاؤ -خالق تو اس ایک گھٹلی سے پورا ہزار من کا درخت اور پوری صدی کے لیے ٹنوں کے ٹن آم نکالتا ہے -
کائنات تو بہت بڑی ہے ، اس کی کیا بات کیجئے - اے حضرت انسان آپ کبھی اپنے وجود سے ہی نکل کے دیکھئے - کبھی بھی نہیں نکل پائیں گے - جسم کے کسی عضو کی طرف نکل جایئے خدا یاد آ جائے گا -
تشکیک خدا کے انکار کی طرف لے جاتی ہے ، اور بھاگے چلے جاتے ہو -
چندا ! یہی تشکیک کبھی واپس کیوں نہیں لے کے آتی - کہ ارتقاء " ورتقاء " سب انسانوں میں ہی گھسا بیٹھا ہے - کہ ارتقاء سے بندر بندہ بن گیا - ارتقا سے پہلے یوں تھا اب یاں ہو گیا - یہ ارتقا کبھی کسی بھینس میں ، کسی چرند پرند میں بھی ہوا ہوتا ؟
- ایسی ترقی تو کسی نے نہ کی جو انسان کے بدن نے کر لی - چھوڑ یار ارتقا کا منجن اب نہیں بکتا - تشکیک بھی اب فرار کے بہانے ہیں محض -
اچھا سنو دوست !
خدا تو احساسات کے اندر تک اترا ہوا ہے ، کبھی سوچا کہ انسان کا انسان کو قتل کرنا کیونکر برا ہو گیا ؟
چوری کیسے برائی ہے ؟
کسی کی جورو کو لے اڑنا جرم کیوں ہے ؟
ارے دوست ! یہ احساسات ہمارے اندر کس نے اتار دیئے - کیا اس بات سے بھی انکار ہو گا کہ خدا پرست بھلے ایک دوسرے کو نہ مانیں ، اپنے اپنے فرقے پر کاربند رہیں لیکن اپنے اپنے ان دیکھے خدا کی بات مانتے ہوے سب نے ان کو جرائم قرار دے دیا -
لیکن بھلے آدمی جب خدا نہیں تو کیا اچھا کیا برا ، کیا گناہ ، کیا ثواب ، کس کی جورو ، کس کا مال - یہ اخلاقی پیمانے کہاں سے آ گئے ؟؟
حہھہ ، دلائل کچھ عجیب سے نہیں ہو گئے ؟
اگر خدا نہ ہوتا تو یہ صحیح اور غلط کی پہچان کا احساس کہاں سے آتا؟
ہاں دوست ! کائنات کی وسعتوں سے جب حیرت گم ہوتی ہے کہ ایسی وسیع کائنات کہ جس میں لاکھوں نہیں کروڑوں بلکہ امکان کہ اربوں ستارے ، مدار اندر مدار اور قطار اندر قطار گھوم رہے ہیں ، کھیل رہے ہیں ، چھپن چھپائی مچائی ہوئی ہے اور کوئی کسی سے نہیں ٹکراتا -
دیکھو نا دوست ! کبھی ایک سورج ہی دوسرے سورج سے ٹکرا جائے تو کیا قیامت ہو .ایسی قیامت کہ محبوب کے روٹھنے سے کیا ہو گی - لیکن سائنس کہتی ہے کہ یہ ہمارے زمین کے کروڑ کروڑ گنا بڑے دیوہیکل ستارے چپکے سے بجھ جاتے ہیں ، ہاں مر جاتے ہیں ...اف نہیں کرتے -
لیکن میں پھر کہوں گا کہ اس سے بڑی دلیل یہی ہے کہ خدا نے انسان بنا کے اس کے اندر احساس پیدا کیا کہ جھوٹ بولنا جرم ، چوری کرنا گناہ ، کسی کا حق کھانا برائی .......
یار دیکھ یار ناراض ناراض دوست ! یہ اخلاق اور یہ احساس اور شعور اس کائنات سے کہیں بڑی تخلیق ہے ..... ہے نا ؟
اب بھی نہیں مانو گے کہ خدا ہے ؟
اچھا سب چھوڑ میرے روٹھے دوست !
دیکھ تیرے اندر ایک خلیہ ہے ، اور دوست آپ خلیہ در خلیہ ہو بلکہ خلیوں کا کباڑ خانہ بن گئے ہو- اچھا ناراض نہیں ہونا لیکن منکر کباڑ خانہ ہی ہوتا ہے - پھر یہ ایک خلیوں کی لڑی ہے جو کسی نے ایسے پرو دی کہ جیسے کی آسمانوں پر کہکشاں جگ مگ کرے - آپ اس کو جینز بولتے ہو - یہ ڈی این اے ، جین ایسی الگ سے کائنات ہے کہ آنکھیں پھٹیاں کی پھٹیاں رہ جائیں اور سمجھ خاک نہ آئے -
ایک ڈی این اے کہ جس کو خورد بین نہ دیکھ سکے ، اس کے اندر موجود ڈیٹا اگر ڈی کوڈ کیا جائے اوراس کا پرنٹ لیا جائے تو کا کاغذ کی لمبائی زمین کو گھیر لے - جی ہاں ایک انسانی جین ، صرف ایک - کہ جو آنکھ کو دکھائی نہیں دیتا - لیکن چھوڑ میرے یار جین کو چھوڑ اس جین ، ڈی این اے ، خلیے کے بیچ میں تیرے خدا نے ایک محبت سمو دی ..ماں بنا دی -
پھر ماں کی محبت بنائی کہ جب یہ خلیہ در خلیہ انسان بچہ ہوتا ہے نا اس کو چوٹ لگ جاتی ہے ، کبھی جل جاتا ہے تو ماں تڑپ تڑپ اٹھتی ہے ...مجھے کوئی بتائے کہ یہ ماں کی محبت کا احساس کیا بنا کسی کی چاہت کے بن گیا ، تشکیل پا گیا ؟
کمال ہے میرے ملحد دوست ! جس نے ماں بنا چھوڑی اور قرار دیا کہ اس کی محبت اس ماں سے بھی کہیں بڑھی ہوئی ہے اپنے بندوں سے ..آپ نے اس کو کھو دیا یار جس نے محبت بنائی - بھلا محبت میں بھی تشکیک ہوتی ہے ؟
ہائے ، آپ نے کس سہولت سے خدا کو کھو دیا -
........ابوبکر قدوسی
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اور ہم نے خدا کو کھو دیا :

ابوبکر قدوسی
اس نے کہا میں تو بنا دلیل کے نہیں مانوں گا -
وہ بولا کہ میں تو کب کا ، روز الست سے ، بنا کسی دلیل کے مان چکا -
تو پھر مجھے دلائل سے کیوں خدا منوانے چلے ہو ملّا کہیں کے ؟
آپ کو اس لیے دلیل دیتا ہوں کہ آپ کو دلیل کی حاجت ہے ، جس کو جو حاجت ہے وہ خدا اس کی طلب کو پورا کرتا ہے - خالق جو ہے ہمارا -
ممکن ہے اس مکالمے کے بیچ دونوں کا خالق اوپر آسمانوں پر مسکرا رہا ہو -
دلائل کا آغاز تھا - اک طوفان تھا - کارخانہ حیات کے پیچ و خم کا بیان تھا ، مسکراتی زندگی کی داستانیں سنائی جا رہی تھیں - لامحدود کائنات کے رنگ ایک کے بعد ایک نکھر نکھر سامنے آ رہے تھے - اپنے بدن کی مثال سے بڑھ کی کوئی اور دلیل کیونکر ہو گی - اپنے ہاتھ کی ایک چھنگلیا پر ہی غور کرتے چلے جاؤ - اسرار کے سمندر موجزن ہوتے چلے جائیں گے - اس ایک چھنگلیا کو لے کے ملکوں ملکوں گھوم لیجئے ، زمانہ چھان جائیے - کوئی دوسری ایسی نہیں ملے گی - ڈیڑھ ہزار سال پہلے عرب کے صحرا کے بیچ شہر مدینہ میں ایک کتاب نازل ہوئی ، جس میں ان پوروں کا تمام سحر آشکار کر دیا گیا - تب کسی کو سمجھ نہ آئی -

(اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعُ عِظَامَہ ۔ بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہ)
'' کیا انسا ن یہ سمجھتاہے کہ ہم اس کی ہڈیاں اکٹھی نہ کر سکیں گے؟کیوں نہیں،ہم اس بات پر قادر ہیں کہ (پھر سے )اس کی انگلیوں کے پور پور تک درست بنا دیں''

یہ پور پور کا ہی ذکر کیوں ؟
جی ہاں آج سائنس کہتی ہے کہ ایک ماں کے پیٹ میں پلنے والے ایک باپ کی اولاد جڑواں بچوں کے پور بھی آپس میں نہیں ملتے دوسروں کے کیا ملیں گے - کیا یہ سب بنا کسی منصوبہ بندی سے آپ ہی آپ ہو گیا ؟
کبھی سوچا کہ یہ انگلی پر ناخن کیوں ہوتا ہے ؟
بہت سہولت سے اشیاء تھام لیتے ہیں اور اگر یہ ناخن اکھاڑ لیا جائے تو ؟
ہاں محض ایک سوئی زمین پر گر جائے تو اٹھا نہ پائیں - آزما لیجیے - آپ کی اوقات تو سوئی جتنی بھی نہ رہی پھر ...اچھا کبھی سوچا یہ ناخن کبھی کوئی کھینچ لے ، ٹوٹ جائیں تو نیچے کیا ہے ؟
محض لجلجا سا گوشت ...اس گوشت میں کوئی شے نہیں کہ جو ٹھوس ہو لیکن کچھ دن میں اس گوشت سے بنا کسی تخم کے کھیتی نکلنے لگتی ہے - نیا ناخن نکلتا ہے اور ایسا تیز کہ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کے خود کا منہ نوچ لیجئے - انگلی میں جوڑ بنا دیے کہ لچک رہے - لچک مگر نہ آئی تو خالق کے منکر انسان میں نہ آئی کہ کہتا ہے خود تو بنا دلیل ماننے کا دعوی اور مجھے دلیل پہ دلیل کہ خدا ہے خدا ہے ، ہاں خدا ہے -
او بھائی سن ! دلیل کی مجھے ضرورت اس لیے نہیں کہ میں ہوں سو خدا ہے ، میرا وجود ، میرا ہونا ہی مجھے خدا کی خبر دے جاتا ہے - دلیل اس لیے مگر پھر بہ کہ آپ جو نہیں مانتے اور دلیل طلب کرتے ہو ..سو دلیل پر دلیل تو آئے گی - اور تمام کے تمام دلائل اس ایک ہاتھ سے نہ نکل سکیں گے -
ایک روز میں بیٹھا بیٹھا سوچتا رہا کہ ہمارے منہ پر کیا ہوتا ہے ، محض دو اکھیاں ہاں نین کٹورے ، اک ناک کہ جس کو اونچا کرنے کا شوق نچلا نہ بیٹھنے دے ، ہونٹ کہ جن کی نازکی غزل سرا کر دے اور بس ...ذرا ان تیز چیزوں کو ملا کے آپ الگ الگ شکلیں تو بنا کے دکھائیں ؟
سات ارب کو چھوتی آبادی ، اور سب کے منہ پر بس یہی کل کائنات ..اور سب کی الگ الگ شکلیں -
ایک روز آم کھاتے میں نے ایک "دوست " سے پوچھا ، میٹھا ہے ؟
بولا چونسا ہے آموں کا بادشاہ ، میٹھا کیونکر نہ ہو گا ؟
کہا ، کہ پھر ایسا کرو ایک پاؤ مٹی لو ، اس میں پانی ڈالو ، ساتھ آم کی گھٹلی بھی لینا نہ بھولنا ..اب ان کو ملا کے آم بنا کے کھا لو ، اگر بنا نہیں سکتے تو چلو تصور کر کے ہی کھالو کہ آم انہی تین اشیاء کا مرکب ہے - ارے ہاں گھٹلی میں چھپے "جینز " بات نہ کرنا ، ورنہ میں مٹی چھین لوں گا اور کہوں گا کہ چلو اس گھٹلی سے جین ، آم کا ڈی این اے ڈھونڈو اور ایک آم جتنا میٹھا ہی نکال کے دکھاؤ -خالق تو اس ایک گھٹلی سے پورا ہزار من کا درخت اور پوری صدی کے لیے ٹنوں کے ٹن آم نکالتا ہے -
کائنات تو بہت بڑی ہے ، اس کی کیا بات کیجئے - اے حضرت انسان آپ کبھی اپنے وجود سے ہی نکل کے دیکھئے - کبھی بھی نہیں نکل پائیں گے - جسم کے کسی عضو کی طرف نکل جایئے خدا یاد آ جائے گا -
تشکیک خدا کے انکار کی طرف لے جاتی ہے ، اور بھاگے چلے جاتے ہو -
چندا ! یہی تشکیک کبھی واپس کیوں نہیں لے کے آتی - کہ ارتقاء " ورتقاء " سب انسانوں میں ہی گھسا بیٹھا ہے - کہ ارتقاء سے بندر بندہ بن گیا - ارتقا سے پہلے یوں تھا اب یاں ہو گیا - یہ ارتقا کبھی کسی بھینس میں ، کسی چرند پرند میں بھی ہوا ہوتا ؟
- ایسی ترقی تو کسی نے نہ کی جو انسان کے بدن نے کر لی - چھوڑ یار ارتقا کا منجن اب نہیں بکتا - تشکیک بھی اب فرار کے بہانے ہیں محض -
اچھا سنو دوست !
خدا تو احساسات کے اندر تک اترا ہوا ہے ، کبھی سوچا کہ انسان کا انسان کو قتل کرنا کیونکر برا ہو گیا ؟
چوری کیسے برائی ہے ؟
کسی کی جورو کو لے اڑنا جرم کیوں ہے ؟
ارے دوست ! یہ احساسات ہمارے اندر کس نے اتار دیئے - کیا اس بات سے بھی انکار ہو گا کہ خدا پرست بھلے ایک دوسرے کو نہ مانیں ، اپنے اپنے فرقے پر کاربند رہیں لیکن اپنے اپنے ان دیکھے خدا کی بات مانتے ہوے سب نے ان کو جرائم قرار دے دیا -
لیکن بھلے آدمی جب خدا نہیں تو کیا اچھا کیا برا ، کیا گناہ ، کیا ثواب ، کس کی جورو ، کس کا مال - یہ اخلاقی پیمانے کہاں سے آ گئے ؟؟
حہھہ ، دلائل کچھ عجیب سے نہیں ہو گئے ؟
اگر خدا نہ ہوتا تو یہ صحیح اور غلط کی پہچان کا احساس کہاں سے آتا؟
ہاں دوست ! کائنات کی وسعتوں سے جب حیرت گم ہوتی ہے کہ ایسی وسیع کائنات کہ جس میں لاکھوں نہیں کروڑوں بلکہ امکان کہ اربوں ستارے ، مدار اندر مدار اور قطار اندر قطار گھوم رہے ہیں ، کھیل رہے ہیں ، چھپن چھپائی مچائی ہوئی ہے اور کوئی کسی سے نہیں ٹکراتا -
دیکھو نا دوست ! کبھی ایک سورج ہی دوسرے سورج سے ٹکرا جائے تو کیا قیامت ہو .ایسی قیامت کہ محبوب کے روٹھنے سے کیا ہو گی - لیکن سائنس کہتی ہے کہ یہ ہمارے زمین کے کروڑ کروڑ گنا بڑے دیوہیکل ستارے چپکے سے بجھ جاتے ہیں ، ہاں مر جاتے ہیں ...اف نہیں کرتے -
لیکن میں پھر کہوں گا کہ اس سے بڑی دلیل یہی ہے کہ خدا نے انسان بنا کے اس کے اندر احساس پیدا کیا کہ جھوٹ بولنا جرم ، چوری کرنا گناہ ، کسی کا حق کھانا برائی .......
یار دیکھ یار ناراض ناراض دوست ! یہ اخلاق اور یہ احساس اور شعور اس کائنات سے کہیں بڑی تخلیق ہے ..... ہے نا ؟
اب بھی نہیں مانو گے کہ خدا ہے ؟
اچھا سب چھوڑ میرے روٹھے دوست !
دیکھ تیرے اندر ایک خلیہ ہے ، اور دوست آپ خلیہ در خلیہ ہو بلکہ خلیوں کا کباڑ خانہ بن گئے ہو- اچھا ناراض نہیں ہونا لیکن منکر کباڑ خانہ ہی ہوتا ہے - پھر یہ ایک خلیوں کی لڑی ہے جو کسی نے ایسے پرو دی کہ جیسے کی آسمانوں پر کہکشاں جگ مگ کرے - آپ اس کو جینز بولتے ہو - یہ ڈی این اے ، جین ایسی الگ سے کائنات ہے کہ آنکھیں پھٹیاں کی پھٹیاں رہ جائیں اور سمجھ خاک نہ آئے -
ایک ڈی این اے کہ جس کو خورد بین نہ دیکھ سکے ، اس کے اندر موجود ڈیٹا اگر ڈی کوڈ کیا جائے اوراس کا پرنٹ لیا جائے تو کا کاغذ کی لمبائی زمین کو گھیر لے - جی ہاں ایک انسانی جین ، صرف ایک - کہ جو آنکھ کو دکھائی نہیں دیتا - لیکن چھوڑ میرے یار جین کو چھوڑ اس جین ، ڈی این اے ، خلیے کے بیچ میں تیرے خدا نے ایک محبت سمو دی ..ماں بنا دی -
پھر ماں کی محبت بنائی کہ جب یہ خلیہ در خلیہ انسان بچہ ہوتا ہے نا اس کو چوٹ لگ جاتی ہے ، کبھی جل جاتا ہے تو ماں تڑپ تڑپ اٹھتی ہے ...مجھے کوئی بتائے کہ یہ ماں کی محبت کا احساس کیا بنا کسی کی چاہت کے بن گیا ، تشکیل پا گیا ؟
کمال ہے میرے ملحد دوست ! جس نے ماں بنا چھوڑی اور قرار دیا کہ اس کی محبت اس ماں سے بھی کہیں بڑھی ہوئی ہے اپنے بندوں سے ..آپ نے اس کو کھو دیا یار جس نے محبت بنائی - بھلا محبت میں بھی تشکیک ہوتی ہے ؟
ہائے ، آپ نے کس سہولت سے خدا کو کھو دیا -
........ابوبکر قدوسی
السلام و علیکم و رحمت الله-.

مذکورہ بالا مضمون کے عنوان میں اور پھر متن میں جگہ جگہ الله رب العزت کو مصنف کی طرف سے ''خدا" لکھا گیا ہے-جو شرعی اعتبار سے صحیح طرز عمل نہیں ہے

رہنمائی کے لئے یہ تھریڈ مفید رہے گا -

http://forum.mohaddis.com/threads/لفظ-خدا-کا-استعمال.29589/
 
Top