اوطلحہ محمداصغر
رکن
- شمولیت
- مئی 02، 2012
- پیغامات
- 40
- ری ایکشن اسکور
- 210
- پوائنٹ
- 73
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بندہ :محمداصغر ولدحاجی عبدالمجید مغل ،حال مقیم خیرپور میرس سن پیدائش ۷مارچ ۱۹۷۴ ع نے اپنے علاقہ میںسات آٹھ سال عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعدمدرسہ دارالعلوم الحسینیہ شہدادپور ضلع سانگھڑ میں حفظ قرآن سے لے کر درجہ خامسہ تک کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد دورۂ حدیث تک بقیہ تین سال کی تعلیم جامعہ دارالعلوم کراچی میںمکمل کرکے سن ۲۰۰۱ ع میں سند ِفراغ حاصل کی ۔اس کے بعدسے بندہ تاہنوز مختلف کتابوں کا عربی سے اردو ترجمہ اوردیگرعلمی وتحقیقی خدمات سرانجام دینے میں مصروف کاررہا۔اور زیادہ تر یہ علمی کام دارالاشاعت اردوبازار کراچی سے مسلسل شائع ہو ر ہے ہیں۔
بندہ کی مسلک اہل حدیث سے وابستگی کی وجوہات
بندہ بچپن سے دینی ذہن رکھتاہے اسی شوق کی بنیاد پربندہ نے اہل خانہ کے اختلاف کے باوجود دینی تعلیم حاصل کی۔ پھر دورانِ تعلیم تعلق مع اللہ کے حصول کیلئے اپنے اساتذہ وشیوخ کی زیر سرپرستی یکے بعد دیگرے مختلف حضرات سے پیر مریدی کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور اس کے علاوہ مسلک دیوبند کی اکثر جماعتوں میں بھی کام کرنے کاموقع ملتا رہا لیکن اس تمام عرصہ میں تبلیغی جماعت سے ہمیشہ کنارہ کش رہااور اس پر اکثر معترض رہا کرتا تھاکیونکہ ان کی اکثر باتیں قرآن وحدیث کے خلاف محسوس ہوتی تھیں۔
بندہ پچھلے دنوں ۲۰۰۷ع میںعرب امارات کسی کام کی غرض سے گیا تھا اور وہاں اپنے ایک عم زاد کے ساتھ ابو ذہبی اور العین کے بعض علاقوں میں تبلیغی جماعت میں جانے کا موقع ملا ۔ اس کا بندہ پر ایسا اثر ہواکہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانے کے لئے پاکستان واپس آگیا کیونکہ یہاں پاکستان میںاس جماعت کو کھل کر کام کرنے کے مواقع میسر ہیں جبکہ عرب علاقوں میں چھپے بندھے یہ کام ہوتا ہے۔ اگرچہ بندہ وہاں مستقل اقامت کی غرض سے گیا تھا لیکن بندہ دین کے کام کو مقدم رکھتے ہوئے واپس آگیا۔اور یہاں آکر دوسال مسلسل دن رات تبلیغی جماعت کے ساتھ مصروفِ عمل رہا اور واپسی کا راستہ تب سے شروع ہوا جب شوق میں آکر تبلیغی جماعت کے کاموں کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے اور ان کے بیانات کی تخریج وتحقیق کرنا شروع کی ۔ تب اندازہ ہوا کہ قرآن وحدیث سے اس کام کو ثابت کرنے کی تمام تر کوشش ناکام ہے بلکہ دونوں چیزوں یعنی قرآن اور حدیث اور جماعت کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش دوکشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش ہے ،جس کا نتیجہ کسی ایک سے ہاتھ دھونے کی شکل میں نکلتا ہے۔تب یہ بھی اندازہ ہوا کہ تبلیغی بیانات میں لاشعوری یاشعوری طور پراکثر فی صد جھوٹ بولاجاتا ہے ۔اور اکثر فضائل من گھڑت سے بھی بڑھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ کیونکہ جماعت میں مقصود… صرف لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ نکالنے کی کوشش ہوتی ہے یا پھر بزرگوں کے ہرحکم کو قرآن وحدیث کی طرف نظر کئے بغیر اورچوں وچراکئے بغیر ماننے کی طرف راغب کیا جاتا ہے جس کا خطرناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعت کے احباب کو قرآن وحدیث بھی پیش کردیا جائے تو وہ اس کے خلاف اپنے بزرگوں کی بات کو چھوڑ نے پر قطعاً تیار نہیں ہوتے ۔بندہ نے ان خرابیوں کی وجوہات پرخوب غور وفکر کیا تو اس کا سبب بندہ کی نظر میں یہ نکلا کہ اس مسلک ِحنفی ثم دیوبندی میں اصول کووضع کرتے ہو ئے انتہائی غلطیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے، مثلاً ایک طرف تو حدیث کو عقلی ترازو میں تولتے ہوئے خبر ِواحد کو بھی ظنی درجہ دیاگیا اور عقائد واصولیات میں اس کی واجبی اورقطعی حیثیت سے انکار کیا گیا اور عقائد کو عقل کے زوروں پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی اورقرآن وحدیث کو عقل کے تابع رکھا گیاجس کی وجہ سے قرآن وسنت کے خلاف عقائد رائج ہوگئے اور دوسری طرف حدیث کے نام پر یہ ظلم کیا گیا کہ بعض اہل کے اس قو ل کہ ’’ فضائل میں ضعیف روایات جائز ہیں‘‘کو بنیاد بناکر ضعیف توکیا… من گھڑت سے من گھڑت باتیں بھی دین کے اندر سورۂ فاتحہ کی طرح ازبر کرادی گئیں ۔اس مقولہ کا تبلیغی جماعت نے بھرپور فائدہ اٹھایااور لوگوں کوبالکل جھوٹے فضائل سناسناکر راہ راست سے بھٹکایا گیا۔ بندہ کی نظر میںجماعت کے احباب ان شاء اللہ ایک صحیح حدیث بھی اپنے مروجہ کام کی فضیلت کیلئے پیش نہیں کرسکتے جو خاص ان کے ایجاد کردہ طریقہ ،اقوال وافعال پر دلالت کرتی ہو۔ چہ جائیکہ تبلیغی حضرات نے عوام کو یہ باورکرارکھاہے کہ اس کام کے بغیر کسی کا کوئی بھی دین قبول نہیں ہے خواہ وہ انہی کے مسلک کے بزرگان دین کیوں نہ ہوں۔ الحاصل جماعت کی خرابیوں کا سارا دارومدار مسلک کے عجیب وغریب اصول ،اہل مسلک کی قرآن وسنت سے دوری،ارباب ِمسلک کی بے جا حد سے نکلی ہوئی دینی دردمندی ہے جس پر’’ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے‘‘ کامقولہ صادق آتا ہے اوریہ خود ساختہ درد مندی اللہ ورسول سے آگے بڑھنے کی حد میں داخل ہوجاتی ہے۔یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں ہر ذی علم کوذہن میں کھٹکتی ضرور ہیں مگر اگلوں کی مثل اپنے آباء اوربزرگوں کی عقیدت میںاپنے ضمیر کی حق کی آواز کو خاموش کرادیتے ہیں۔ اور انسان کسی بھی قول وعمل کو اپنانے میں فطرتاً دوسرے انسان کا محتاج ہوتا ہے،جس سے وہ اثر لے کر صحیح راہ پر گامزن ہوسکے ورنہ وہ شکوک وشبہات کے بھنور میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اور اب ظلم یہ ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر میں اس طرح کاتعصب انتہائی سخت ہے کہ کوئی بھی کتاب پڑھنے سے پہلے یا کسی کی بھی بات سننے سے پہلے یہ تسلی کی جائے کہ یہ ہمارے مسلک اور مکتب فکرکے خلاف نہ ہوخواہ وہ خالص قرآن وسنت ہی کیوں نہ ہو… اورخصوصاً اہل ِحدیث کے بارے میں غلط سلط افواہیں عام ہیں اورعوام کو ان سے دور رکھنے کی انتہائی کوشش کی جاتی ہے حتیٰ کہ اس کی اجازت دیدی جاتی ہے کہ اگر کہیں جانا ہے تو چار مسلکوں میں سے کسی ایک مسلک کو اپنا لیا جائے ، اہل حدیث کے بارے میں سوچا بھی نہ جائے ۔ خیر مدعا عرض ہے کہ …بندہ پر اللہ کا فضل یوں ہواکہ بندہ کو مکتبہ شاملہ میں کتب الالبانی کے مطالعہ کا موقع میسر آیا اور بندہ کو جو باتیں خلش میں مبتلاء کئے رہتی تھیں ان سب کا قرآن وسنت کی روشنی میں واضح حل موجود تھا بلکہ بندہ کو ان کی کتابیں پڑھتے ہوئے محسوس ہواکہ مختلف ومتضادانسانی آراؤں سے پاک بالکل خالص قرآن وسنت کواپنانے والی باتیں یہی ہیں اور جو اختلافی باتیں ہیں ان سب میں صرف اور صرف قرآن وسنت کا سہارا لینے والے لوگ یہی ہیں ۔ بندہ ان کی کتابیں پڑھ پڑھ کر قرآن وسنت پر چلنے کیلئے اپنی راہ متعین کرتا رہا اور اکثر مسائل میں ان پر عمل کرتا رہا اگرچہ بندہ کو حتمی علم نہیں تھا کہ علامہ البانی کس مسلک سے متعلق ہیں لیکن یہ تسلی اور خوشی ہوتی تھی کہ قرآن وسنت والی راہ یہی ہے ،جب بندہ کوخوب علم ہوا کہ علامہ البانی سلفی ہیں تو بندہ کو اولاًخیال توگزراکہ یہ وہ راستہ ہے جوہمارے خاندان اور ہمارے اساتذہ ومشائخ بلکہ سارے علاقے کے خلاف ہے لیکن لاتزال طائفۃ من امتی حدیث کو دیکھ کر اوریہ دیکھ کر کہ آخرت کی کامیابی قطعی طور پر اسی جماعت کے ساتھ ہے … بندہ نے ہر خوف وخطر کوجھٹک دیا۔اور اس بات کواب تقریباً دوسال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے اور بندہ کو علامہ البانی کی تالیفات بہترین رہنما ثابت ہوئی ہیں۔ بندہ غائبانہ اہل حدیث کے ساتھ شامل ہوکر اپنی متعین کردہ راہ پر اس لئے خوش ہے کہ یہ قرآن وسنت کی راہ ہے اور بالفرض اگر کسی وقت کوئی بات اہل حدیث کی قرآن وسنت سے خلاف معلوم ہوئی تب بھی اس مسلک کاسب سے سنہری اصول یہی ہے کہ آپ قرآن وسنت کو ہی اپنائیں نہ کہ زیدوعمرو کے قول کو۔یہی صحیح اہل حدیث جماعت اور اس کازرّیں اصول ہے اوراصل کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔
علمی وتحقیقی خدمات
ابھی پچھلے دنوں الدرالمنثور فی التفسیر الماثور للسیوطیؒ کی احادیث کی تحقیق اوران پر کلام کاکام مکمل کرکے دارالاشاعت کے سپرد کیا ہے بحمداللہ وعونہ ۔ اللہ کرے وہ بعینہٖ شامل اشاعت ہوجائے کیونکہ اس میں بندہ نے حضرت علامہ البانی ؒ کی کتب سے بھی حوالہ جات درج کئے ہیں اور ہمارے اہل ِعلم میں ان کی طرف سے بے بنیاد تعصب پایا جاتا ہے ۔ اس سے قبل مدرسہ ٔ دیوبند کے مہتمم قاری طیب قاسمی ؒ کے بیانات کامجموعہ جو ملفوظات حکیم الاسلام کے نام سے مختلف کتب خانوں سے پانچ چھ ضخیم جلدوں میںشائع ہورہا ہے، بندہ نے …ایک ادارے کے مدیر کی فرمائش پر اس کی احادیث کی تحقیق وکلام کاکام مکمل کرکے مدیر کے سپرد کیا تھا اس میں بھی بندہ نے دیگر کتب کے علاوہ علامہ البانی ؒ کی کتب سے استفادہ کیا تھا اور ان ملفوظات میںجوبہت سی غیر احادیث باتوں کو احادیث کہہ کر بیان کیا گیا تھابندہ نے ان کی تحقیق بھی سپرد کلام کی تھی لیکن شاید یہی بناء تھی کہ اہل ادارہ کے مشیر اہل ِعلم نے اپنے مرکزی مدرسہ دیوبند کے مہتمم کے متعلق حدیث میں کم علمی کے ساتھ منسوب ہونے کو گوارہ نہ کیا اگرچہ حدیث پہ ظلم ہی کیوں نہ ہوتا ہو اور اس وجہ سے اہل ادارہ نے اس تحقیق کو کالعدم قرار دیدیااوران کے مشیر عالم نے کہا کہ یہ اصغر صاحب ہمارے مسلک دیوبند کی ہنسی اُڑوانا چاہتے ہیں ، بندہ نے مدیر کو عرض کیا کہ بندۂ خدا !شخصیت کا دفاع نہیں بلکہ حضورا کی حدیث کا دفاع کرنا چاہئے ، نجات اس میں ہے ناں کہ شخصیت پرستی میں۔خیراب وہ کسی اور صاحب سے اس میں ترمیم کرواکر اس کو طبع کروارہے ہیں۔اس کے علاوہ بندہ نے زیادہ ترترجموں کی خدمت سر انجام دی ہے ، کنزالعمال جو سولہ جلدوں پر مشتمل ہے دارالاشاعت اردو بازار والوں کیلئے ترجمہ کرناشروع کی تھی ، چناچہ پانچ جلدوں کو خود ترجمہ کیا اور بقیہ دوسرے دوستوں سے کروایااور اب وہ مطبوع ومنشور ہے۔ اسی طرح دارالاشاعت سے چھپی ہوئی بڑی بڑی تاریخی کتب تاریخ ابن خلدون ، تاریخ طبری،تاریخ ابن کثیر ، طبقات ابن سعد وغیرہ کئی کتابوں کاکام اپنے ذمہ لے کر ان میں مختلف نوعیت کے علمی کام ،ترجمہ سے رہے ہوئے باقی ماندہ حصص کے تراجم اور عنوانات وغیرہ قائم کئے اور کرائے تھے اور ان کی کمپوزنگ بھی بندہ نے اپنی نگرانی میں کروائی تھی ۔ ابن کثیر کی قصص الانبیاء کا مکمل ترجمہ خودکیا اوراسی طرح اور بھی چھوٹی بڑی کئی کتابوں میں مختلف نوعیت کے کام کرنے کی خدمت کا موقع ملتا رہا چونکہ یہی علمی کام اور کمپوزنگ وغیرہ بندہ کا ذریعہ معاش بھی تھا ۔
آئندہ مقاصد
اگرچہ تبدیلی ٔمسلک کی وجہ سے حالات کچھ متغیر ہیں اورجولوگ کبھی بندہ کی باتوں اور بیان کردہ مسائل سے تشفی پاتے تھے اب وہ کسی بھی اَن پڑھ سے ان پڑھ کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھناگواراکرلیتے ہیں لیکن بندہ کے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی۔ اپنے پرائے سب رُوگرداں ہیں ،اللہ پاک بندہ کوقرآن وسنت کی راہ سے کبھی منحرف نہ ہونے دے اور ’’ومن الناس من یعبداللہ علی حرف‘‘ کے زمرے میں شامل ہونے سے بچائے لیکن اللہ سے عافیت فی الدارین کا ہمیشہ سے سوال ہے اور رہے گا۔ بندہ اپنے علاقہ میں اپنے سابق مسلک کے احباب کے ترش رویہّ کودیکھ کرواپس عرب امارات آیاہے ،اللہ دین ودنیا کو آسان بنائے۔اور اللہ سے دعاہے کہ ایسا کوئی انتظام فرمادے کہ اپنے تمام اوقات قرآن وسنت کولکھنے پڑھنے کیلئے وقف کرسکوں۔اورخصوصاً برصغیر کے لوگوں کیلئے خصوصاً تبلیغی جماعت کیلئے انہی کی زبان اور اصطلاحات میں صحیح دین پیش کرسکوں ،اللہ قبول فرمائے آمین ثم آمین۔اور کچھ کتابیں بھی زیر تصنیف ہیں جن میں سے ایک کتاب اپنے سابق مسلک کو سامنے رکھ کر لکھی ہے ،جس کا نام ہے’’ ضعیف وموضوع احادیث صحیح احادیث کی نظر میں‘‘۔ لکھنے کے بعد اگرچہ اس موضوع پر اور بھی کئی کتب مطبوع ومنشور ملی ہیں لیکن یہ افہام وتفہیم میںاپنے خاص انداز کی الگ کتاب ہے جس کو قارئین سمجھنے کے بہت قریب پائیں گے۔اوریہ کمپوزنگ سے مکمل ہوچکی ہے لیکن ہنوز محتاجِ طباعت ہے۔اللہ پاک اس کے اسباب میسر فرمائے۔
ہمارے برصغیر میں خصوصاً تبلیغی جماعت اور مسلک ِدیوبند میں جن غیر شرعی باتوں کو دین کہا جاتا ہے یا ضعیف وموضو ع احادیث کو احادیث سمجھ کر سورۂ فاتحہ کی طرح ازبر کیا جاتا ہے ان کے متعلق عوام کوانہی کے انداز میںعام فہم طریقہ سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک کتاب ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہے جو صحیح سنت اور غلط طریقہ کو واضح کرتی ہے جس کے آٹھ دس ابواب مکمل ہوگئے ہیں۔اسی طرح بندہ کا ارادہ ہے کہ تبلیغی جماعت میں رائج کتابوں پرتحقیق اور کلام کرکے ان کو شائع کیا جائے ، کیونکہ بہت سے لوگ ان میں ضعیف وموضوع مواد کوبھی سچی پکی حدیث سمجھتے ہیں تو تحقیق شدہ کتاب ان کی آنکھیں کھولنے کاذریعہ ثابت ہوگی ،انہی کتابوں میں سے ایک کتاب حیاۃ الصحابہ پربندہ کا کام کرنے کاارادہ ہے ،اللہ مدد فرمائے۔اللہم ارنا الحق حقاوارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاوارزقنا اجتنابہ۔
الحمدللہ الذی بعزتہ وجلالہ تتم الصالحات۔
ابو طلحہ محمداصغرعفااللہ عنہ وعن سائر المسلمین
بندہ :محمداصغر ولدحاجی عبدالمجید مغل ،حال مقیم خیرپور میرس سن پیدائش ۷مارچ ۱۹۷۴ ع نے اپنے علاقہ میںسات آٹھ سال عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعدمدرسہ دارالعلوم الحسینیہ شہدادپور ضلع سانگھڑ میں حفظ قرآن سے لے کر درجہ خامسہ تک کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد دورۂ حدیث تک بقیہ تین سال کی تعلیم جامعہ دارالعلوم کراچی میںمکمل کرکے سن ۲۰۰۱ ع میں سند ِفراغ حاصل کی ۔اس کے بعدسے بندہ تاہنوز مختلف کتابوں کا عربی سے اردو ترجمہ اوردیگرعلمی وتحقیقی خدمات سرانجام دینے میں مصروف کاررہا۔اور زیادہ تر یہ علمی کام دارالاشاعت اردوبازار کراچی سے مسلسل شائع ہو ر ہے ہیں۔
بندہ کی مسلک اہل حدیث سے وابستگی کی وجوہات
بندہ بچپن سے دینی ذہن رکھتاہے اسی شوق کی بنیاد پربندہ نے اہل خانہ کے اختلاف کے باوجود دینی تعلیم حاصل کی۔ پھر دورانِ تعلیم تعلق مع اللہ کے حصول کیلئے اپنے اساتذہ وشیوخ کی زیر سرپرستی یکے بعد دیگرے مختلف حضرات سے پیر مریدی کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور اس کے علاوہ مسلک دیوبند کی اکثر جماعتوں میں بھی کام کرنے کاموقع ملتا رہا لیکن اس تمام عرصہ میں تبلیغی جماعت سے ہمیشہ کنارہ کش رہااور اس پر اکثر معترض رہا کرتا تھاکیونکہ ان کی اکثر باتیں قرآن وحدیث کے خلاف محسوس ہوتی تھیں۔
بندہ پچھلے دنوں ۲۰۰۷ع میںعرب امارات کسی کام کی غرض سے گیا تھا اور وہاں اپنے ایک عم زاد کے ساتھ ابو ذہبی اور العین کے بعض علاقوں میں تبلیغی جماعت میں جانے کا موقع ملا ۔ اس کا بندہ پر ایسا اثر ہواکہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانے کے لئے پاکستان واپس آگیا کیونکہ یہاں پاکستان میںاس جماعت کو کھل کر کام کرنے کے مواقع میسر ہیں جبکہ عرب علاقوں میں چھپے بندھے یہ کام ہوتا ہے۔ اگرچہ بندہ وہاں مستقل اقامت کی غرض سے گیا تھا لیکن بندہ دین کے کام کو مقدم رکھتے ہوئے واپس آگیا۔اور یہاں آکر دوسال مسلسل دن رات تبلیغی جماعت کے ساتھ مصروفِ عمل رہا اور واپسی کا راستہ تب سے شروع ہوا جب شوق میں آکر تبلیغی جماعت کے کاموں کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے اور ان کے بیانات کی تخریج وتحقیق کرنا شروع کی ۔ تب اندازہ ہوا کہ قرآن وحدیث سے اس کام کو ثابت کرنے کی تمام تر کوشش ناکام ہے بلکہ دونوں چیزوں یعنی قرآن اور حدیث اور جماعت کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش دوکشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش ہے ،جس کا نتیجہ کسی ایک سے ہاتھ دھونے کی شکل میں نکلتا ہے۔تب یہ بھی اندازہ ہوا کہ تبلیغی بیانات میں لاشعوری یاشعوری طور پراکثر فی صد جھوٹ بولاجاتا ہے ۔اور اکثر فضائل من گھڑت سے بھی بڑھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ کیونکہ جماعت میں مقصود… صرف لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ نکالنے کی کوشش ہوتی ہے یا پھر بزرگوں کے ہرحکم کو قرآن وحدیث کی طرف نظر کئے بغیر اورچوں وچراکئے بغیر ماننے کی طرف راغب کیا جاتا ہے جس کا خطرناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعت کے احباب کو قرآن وحدیث بھی پیش کردیا جائے تو وہ اس کے خلاف اپنے بزرگوں کی بات کو چھوڑ نے پر قطعاً تیار نہیں ہوتے ۔بندہ نے ان خرابیوں کی وجوہات پرخوب غور وفکر کیا تو اس کا سبب بندہ کی نظر میں یہ نکلا کہ اس مسلک ِحنفی ثم دیوبندی میں اصول کووضع کرتے ہو ئے انتہائی غلطیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے، مثلاً ایک طرف تو حدیث کو عقلی ترازو میں تولتے ہوئے خبر ِواحد کو بھی ظنی درجہ دیاگیا اور عقائد واصولیات میں اس کی واجبی اورقطعی حیثیت سے انکار کیا گیا اور عقائد کو عقل کے زوروں پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی اورقرآن وحدیث کو عقل کے تابع رکھا گیاجس کی وجہ سے قرآن وسنت کے خلاف عقائد رائج ہوگئے اور دوسری طرف حدیث کے نام پر یہ ظلم کیا گیا کہ بعض اہل کے اس قو ل کہ ’’ فضائل میں ضعیف روایات جائز ہیں‘‘کو بنیاد بناکر ضعیف توکیا… من گھڑت سے من گھڑت باتیں بھی دین کے اندر سورۂ فاتحہ کی طرح ازبر کرادی گئیں ۔اس مقولہ کا تبلیغی جماعت نے بھرپور فائدہ اٹھایااور لوگوں کوبالکل جھوٹے فضائل سناسناکر راہ راست سے بھٹکایا گیا۔ بندہ کی نظر میںجماعت کے احباب ان شاء اللہ ایک صحیح حدیث بھی اپنے مروجہ کام کی فضیلت کیلئے پیش نہیں کرسکتے جو خاص ان کے ایجاد کردہ طریقہ ،اقوال وافعال پر دلالت کرتی ہو۔ چہ جائیکہ تبلیغی حضرات نے عوام کو یہ باورکرارکھاہے کہ اس کام کے بغیر کسی کا کوئی بھی دین قبول نہیں ہے خواہ وہ انہی کے مسلک کے بزرگان دین کیوں نہ ہوں۔ الحاصل جماعت کی خرابیوں کا سارا دارومدار مسلک کے عجیب وغریب اصول ،اہل مسلک کی قرآن وسنت سے دوری،ارباب ِمسلک کی بے جا حد سے نکلی ہوئی دینی دردمندی ہے جس پر’’ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے‘‘ کامقولہ صادق آتا ہے اوریہ خود ساختہ درد مندی اللہ ورسول سے آگے بڑھنے کی حد میں داخل ہوجاتی ہے۔یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں ہر ذی علم کوذہن میں کھٹکتی ضرور ہیں مگر اگلوں کی مثل اپنے آباء اوربزرگوں کی عقیدت میںاپنے ضمیر کی حق کی آواز کو خاموش کرادیتے ہیں۔ اور انسان کسی بھی قول وعمل کو اپنانے میں فطرتاً دوسرے انسان کا محتاج ہوتا ہے،جس سے وہ اثر لے کر صحیح راہ پر گامزن ہوسکے ورنہ وہ شکوک وشبہات کے بھنور میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اور اب ظلم یہ ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر میں اس طرح کاتعصب انتہائی سخت ہے کہ کوئی بھی کتاب پڑھنے سے پہلے یا کسی کی بھی بات سننے سے پہلے یہ تسلی کی جائے کہ یہ ہمارے مسلک اور مکتب فکرکے خلاف نہ ہوخواہ وہ خالص قرآن وسنت ہی کیوں نہ ہو… اورخصوصاً اہل ِحدیث کے بارے میں غلط سلط افواہیں عام ہیں اورعوام کو ان سے دور رکھنے کی انتہائی کوشش کی جاتی ہے حتیٰ کہ اس کی اجازت دیدی جاتی ہے کہ اگر کہیں جانا ہے تو چار مسلکوں میں سے کسی ایک مسلک کو اپنا لیا جائے ، اہل حدیث کے بارے میں سوچا بھی نہ جائے ۔ خیر مدعا عرض ہے کہ …بندہ پر اللہ کا فضل یوں ہواکہ بندہ کو مکتبہ شاملہ میں کتب الالبانی کے مطالعہ کا موقع میسر آیا اور بندہ کو جو باتیں خلش میں مبتلاء کئے رہتی تھیں ان سب کا قرآن وسنت کی روشنی میں واضح حل موجود تھا بلکہ بندہ کو ان کی کتابیں پڑھتے ہوئے محسوس ہواکہ مختلف ومتضادانسانی آراؤں سے پاک بالکل خالص قرآن وسنت کواپنانے والی باتیں یہی ہیں اور جو اختلافی باتیں ہیں ان سب میں صرف اور صرف قرآن وسنت کا سہارا لینے والے لوگ یہی ہیں ۔ بندہ ان کی کتابیں پڑھ پڑھ کر قرآن وسنت پر چلنے کیلئے اپنی راہ متعین کرتا رہا اور اکثر مسائل میں ان پر عمل کرتا رہا اگرچہ بندہ کو حتمی علم نہیں تھا کہ علامہ البانی کس مسلک سے متعلق ہیں لیکن یہ تسلی اور خوشی ہوتی تھی کہ قرآن وسنت والی راہ یہی ہے ،جب بندہ کوخوب علم ہوا کہ علامہ البانی سلفی ہیں تو بندہ کو اولاًخیال توگزراکہ یہ وہ راستہ ہے جوہمارے خاندان اور ہمارے اساتذہ ومشائخ بلکہ سارے علاقے کے خلاف ہے لیکن لاتزال طائفۃ من امتی حدیث کو دیکھ کر اوریہ دیکھ کر کہ آخرت کی کامیابی قطعی طور پر اسی جماعت کے ساتھ ہے … بندہ نے ہر خوف وخطر کوجھٹک دیا۔اور اس بات کواب تقریباً دوسال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے اور بندہ کو علامہ البانی کی تالیفات بہترین رہنما ثابت ہوئی ہیں۔ بندہ غائبانہ اہل حدیث کے ساتھ شامل ہوکر اپنی متعین کردہ راہ پر اس لئے خوش ہے کہ یہ قرآن وسنت کی راہ ہے اور بالفرض اگر کسی وقت کوئی بات اہل حدیث کی قرآن وسنت سے خلاف معلوم ہوئی تب بھی اس مسلک کاسب سے سنہری اصول یہی ہے کہ آپ قرآن وسنت کو ہی اپنائیں نہ کہ زیدوعمرو کے قول کو۔یہی صحیح اہل حدیث جماعت اور اس کازرّیں اصول ہے اوراصل کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔
علمی وتحقیقی خدمات
ابھی پچھلے دنوں الدرالمنثور فی التفسیر الماثور للسیوطیؒ کی احادیث کی تحقیق اوران پر کلام کاکام مکمل کرکے دارالاشاعت کے سپرد کیا ہے بحمداللہ وعونہ ۔ اللہ کرے وہ بعینہٖ شامل اشاعت ہوجائے کیونکہ اس میں بندہ نے حضرت علامہ البانی ؒ کی کتب سے بھی حوالہ جات درج کئے ہیں اور ہمارے اہل ِعلم میں ان کی طرف سے بے بنیاد تعصب پایا جاتا ہے ۔ اس سے قبل مدرسہ ٔ دیوبند کے مہتمم قاری طیب قاسمی ؒ کے بیانات کامجموعہ جو ملفوظات حکیم الاسلام کے نام سے مختلف کتب خانوں سے پانچ چھ ضخیم جلدوں میںشائع ہورہا ہے، بندہ نے …ایک ادارے کے مدیر کی فرمائش پر اس کی احادیث کی تحقیق وکلام کاکام مکمل کرکے مدیر کے سپرد کیا تھا اس میں بھی بندہ نے دیگر کتب کے علاوہ علامہ البانی ؒ کی کتب سے استفادہ کیا تھا اور ان ملفوظات میںجوبہت سی غیر احادیث باتوں کو احادیث کہہ کر بیان کیا گیا تھابندہ نے ان کی تحقیق بھی سپرد کلام کی تھی لیکن شاید یہی بناء تھی کہ اہل ادارہ کے مشیر اہل ِعلم نے اپنے مرکزی مدرسہ دیوبند کے مہتمم کے متعلق حدیث میں کم علمی کے ساتھ منسوب ہونے کو گوارہ نہ کیا اگرچہ حدیث پہ ظلم ہی کیوں نہ ہوتا ہو اور اس وجہ سے اہل ادارہ نے اس تحقیق کو کالعدم قرار دیدیااوران کے مشیر عالم نے کہا کہ یہ اصغر صاحب ہمارے مسلک دیوبند کی ہنسی اُڑوانا چاہتے ہیں ، بندہ نے مدیر کو عرض کیا کہ بندۂ خدا !شخصیت کا دفاع نہیں بلکہ حضورا کی حدیث کا دفاع کرنا چاہئے ، نجات اس میں ہے ناں کہ شخصیت پرستی میں۔خیراب وہ کسی اور صاحب سے اس میں ترمیم کرواکر اس کو طبع کروارہے ہیں۔اس کے علاوہ بندہ نے زیادہ ترترجموں کی خدمت سر انجام دی ہے ، کنزالعمال جو سولہ جلدوں پر مشتمل ہے دارالاشاعت اردو بازار والوں کیلئے ترجمہ کرناشروع کی تھی ، چناچہ پانچ جلدوں کو خود ترجمہ کیا اور بقیہ دوسرے دوستوں سے کروایااور اب وہ مطبوع ومنشور ہے۔ اسی طرح دارالاشاعت سے چھپی ہوئی بڑی بڑی تاریخی کتب تاریخ ابن خلدون ، تاریخ طبری،تاریخ ابن کثیر ، طبقات ابن سعد وغیرہ کئی کتابوں کاکام اپنے ذمہ لے کر ان میں مختلف نوعیت کے علمی کام ،ترجمہ سے رہے ہوئے باقی ماندہ حصص کے تراجم اور عنوانات وغیرہ قائم کئے اور کرائے تھے اور ان کی کمپوزنگ بھی بندہ نے اپنی نگرانی میں کروائی تھی ۔ ابن کثیر کی قصص الانبیاء کا مکمل ترجمہ خودکیا اوراسی طرح اور بھی چھوٹی بڑی کئی کتابوں میں مختلف نوعیت کے کام کرنے کی خدمت کا موقع ملتا رہا چونکہ یہی علمی کام اور کمپوزنگ وغیرہ بندہ کا ذریعہ معاش بھی تھا ۔
آئندہ مقاصد
اگرچہ تبدیلی ٔمسلک کی وجہ سے حالات کچھ متغیر ہیں اورجولوگ کبھی بندہ کی باتوں اور بیان کردہ مسائل سے تشفی پاتے تھے اب وہ کسی بھی اَن پڑھ سے ان پڑھ کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھناگواراکرلیتے ہیں لیکن بندہ کے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی۔ اپنے پرائے سب رُوگرداں ہیں ،اللہ پاک بندہ کوقرآن وسنت کی راہ سے کبھی منحرف نہ ہونے دے اور ’’ومن الناس من یعبداللہ علی حرف‘‘ کے زمرے میں شامل ہونے سے بچائے لیکن اللہ سے عافیت فی الدارین کا ہمیشہ سے سوال ہے اور رہے گا۔ بندہ اپنے علاقہ میں اپنے سابق مسلک کے احباب کے ترش رویہّ کودیکھ کرواپس عرب امارات آیاہے ،اللہ دین ودنیا کو آسان بنائے۔اور اللہ سے دعاہے کہ ایسا کوئی انتظام فرمادے کہ اپنے تمام اوقات قرآن وسنت کولکھنے پڑھنے کیلئے وقف کرسکوں۔اورخصوصاً برصغیر کے لوگوں کیلئے خصوصاً تبلیغی جماعت کیلئے انہی کی زبان اور اصطلاحات میں صحیح دین پیش کرسکوں ،اللہ قبول فرمائے آمین ثم آمین۔اور کچھ کتابیں بھی زیر تصنیف ہیں جن میں سے ایک کتاب اپنے سابق مسلک کو سامنے رکھ کر لکھی ہے ،جس کا نام ہے’’ ضعیف وموضوع احادیث صحیح احادیث کی نظر میں‘‘۔ لکھنے کے بعد اگرچہ اس موضوع پر اور بھی کئی کتب مطبوع ومنشور ملی ہیں لیکن یہ افہام وتفہیم میںاپنے خاص انداز کی الگ کتاب ہے جس کو قارئین سمجھنے کے بہت قریب پائیں گے۔اوریہ کمپوزنگ سے مکمل ہوچکی ہے لیکن ہنوز محتاجِ طباعت ہے۔اللہ پاک اس کے اسباب میسر فرمائے۔
ہمارے برصغیر میں خصوصاً تبلیغی جماعت اور مسلک ِدیوبند میں جن غیر شرعی باتوں کو دین کہا جاتا ہے یا ضعیف وموضو ع احادیث کو احادیث سمجھ کر سورۂ فاتحہ کی طرح ازبر کیا جاتا ہے ان کے متعلق عوام کوانہی کے انداز میںعام فہم طریقہ سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک کتاب ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہے جو صحیح سنت اور غلط طریقہ کو واضح کرتی ہے جس کے آٹھ دس ابواب مکمل ہوگئے ہیں۔اسی طرح بندہ کا ارادہ ہے کہ تبلیغی جماعت میں رائج کتابوں پرتحقیق اور کلام کرکے ان کو شائع کیا جائے ، کیونکہ بہت سے لوگ ان میں ضعیف وموضوع مواد کوبھی سچی پکی حدیث سمجھتے ہیں تو تحقیق شدہ کتاب ان کی آنکھیں کھولنے کاذریعہ ثابت ہوگی ،انہی کتابوں میں سے ایک کتاب حیاۃ الصحابہ پربندہ کا کام کرنے کاارادہ ہے ،اللہ مدد فرمائے۔اللہم ارنا الحق حقاوارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاوارزقنا اجتنابہ۔
الحمدللہ الذی بعزتہ وجلالہ تتم الصالحات۔
ابو طلحہ محمداصغرعفااللہ عنہ وعن سائر المسلمین