• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اولیاء اللہ کے درجے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اولیاء اللہ کے درجے

اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاطر میں اپنے ان اولیاء کا ذکر بھی کیا ہے جو کہ درمیانے درجے کے ہیں اور ان کا ذکر بھی فرمایا ہے جو کہ سبقت لے جانے والے ہیں:
ارشاد فرمایا:
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴿٣٢﴾ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ﴿٣٣﴾ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۖ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ ﴿٣٤﴾ الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِن فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ ﴿٣٥﴾ الفاطر
’’پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب لوگوں کو اس کتاب کا وارث ٹھہرایا (یعنی مسلمانوں کو) پھر ان میں سے بعض تو اس پر عمل نہ کر کے اپنی جانوں پر ستم کر رہے ہیں اور بعض ان میں سے اوسط درجے کے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ کے حکم سے نیکیوں میں اوروں سے آگے بڑھے ہوئے ہیں، یہی تو اللہ کا بڑا فضل ہے اور (اس کا صلہ ہے) ہمیشہ رہنے کے بہشت کے باغ۔ کہ یہ لوگ رہنے کے لیے ان میں داخل ہوں گے اور وہاں ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا معمولی لباس بھی ریشمی ہوگا اور یہ لوگ نعمتیں پا کر کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہر طرح کا رنج و غم ہم سے دور کر دیا بے شک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا اور ایسا بڑا قدر دان ہے کہ اس نے ہم کو اپنے فضل سے ٹھہرنے کے لیے ایسے گھر میں لا اتارا کہ یہاں ہم کو نہ کسی طرح کی تکلیف پہنچتی ہے اور نہ یہاں ہم کو تکان لاحق ہوتی ہے۔‘‘
لیکن یہ تینوں قسمیں جو کہ اس آیت میں ہیں صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ساتھ مخصوص ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا {ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ} اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہی نے پہلی امتوں کے بعد کتابوں کی میراث سنبھالی اور یہ حفاظِ قرآن ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو قرآن پر ایمان لائے، ان ہی لوگوں میں سے ہے اور ان لوگوں کو {ظَالِمٌ لِنَفْسِہ} اور {مُقْتَصِدٌ} تین قسموں میں منقسم کیا، اس کے خلاف جو آیات کہ سورہ واقعہ، سورہ مطففین اور انفطار میں وارد ہیں، ان میں تمام پہلی امتوں کے مومن اور کافر داخل ہیں اور یہ تقسیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے مخصوص ہے۔ {ظَالِمٌ لِنَفْسِہ} وہ لوگ ہیں جو کہ گناہ کریں اور اس پر اصرار کریں۔ مقتصد وہ ہوتا ہے جو فرائض ادا کرے اور محرمات سے پرہیز کرے۔ سابق بالخیرات وہ ہوتا ہے جو کہ فرائض اور نوافل دونوں ادا کرے جیسا کہ ان آیات میں ہے اور جو شخص اپنے گناہ سے خواہ کیسا ہی گناہ کیوں نہ ہو صحیح طور پر توبہ کر لے وہ اس کی وجہ سے سابقین اور مقتصدین سے خارج نہیں۔
جیسا کہ ان آیات میں ہے:
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣﴾ الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾ أُولَـٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴿١٣٦﴾ آل عمران
’’اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور جنت کی طرف لپکو جس کا پھیلائو اتنا بڑا ہے جیسے زمین و آسمان کا پھیلائو۔ سجی سجائی ان پرہیزگاروں کے لیے تیار ہے جو خوشحالی اور تنگدستی دونوں حالتوں میں اللہ کے نام پرخرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصوروں سے درگزر کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور وہ لوگ جو ایسے نیک دل ہیں کہ بہ تقاضائے بشریت جب کوئی بے حیائی کا کام کر بیٹھتے ہیں یا کوئی اور بے جا بات کر کے اپنا یعنی اپنے دین کا کچھ نقصان کر لیتے ہیں تو اللہ کو یاد کر کے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہوں کا معاف کرنے والا ہے ہی کون اور جو بے جا بات کر بیٹھتے ہیں تو دیدہ دانستہ اس پر اصرار نہیں کرتے یہی لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت ہے اور بہشت کے باغ ہیں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور نیک کام کرنے والوں کے بھی کیسے اچھے اجر ہیں۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا:
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَدْخُلُوْنَھَا۔
الفاطر

سدا بہار باغ جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے۔
تو اس سے اہلِ سنت یہ استدلال کرتے ہیں کہ اہلِ توحید میں سے کوئی بھی ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا۔
جہاں تک اہل کبائر کے جہنم میں داخل ہونے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث مروی ہیں جس طرح کہ ان کے جہنم سے نکل آنے، اہل کبائر کے متعلق ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ی شفاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے علاوہ دوسروں کی شفاعت سے جہنم سے نکالے جانے کے متعلق بھی متواتر احادیث وارد ہیں۔ تو جو لوگ اہل کبائر کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کے قائل ہیں اور آیت مذکورہ کا مطلب یہ کرتے ہیں کہ سابقین ہی جنت میں جائیں گے اور مقتصد اور ظالم لنفسہ جنت میں داخل ہی نہیں ہوں گے جیسا کہ معتزلہ میں سے بعض نے یہ معنی کیا ہے تو ان کی یہ تاویل مرجئہ کی تاویل کے مقابل ہے جو اہل کبائر کے جہنم میں قطعی داخلے کے قائل نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ممکن ہے وہ سب کے سب بغیرحساب اور عذاب کے جنت میں چلے جائیں۔ تاہم یہ دونوں قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سنت متواترہ، سلف امت اور ائمہ کے اجماع کے خلاف ہیں۔
اور ان دونوں جماعتوں کا قول فاسد ہونے پر اللہ تعالیٰ کا دو مقامات پر اللہ تعالیٰ کایہ فرمان مبارک دلیل ہے:
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ﴿١١٦﴾ النساء
’’اللہ تعالیٰ اس گناہ کو نہیں بخشتا کہ اس کا کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے اور گناہ جس کو چاہے بخش دیتا ہے۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ شرک معاف نہیں کرے گا نیز یہ بھی خبر دی کہ وہ اس سے کم درجے کے گناہ جسے چاہے گا معاف فرما دے گا۔اس سے یہ مراد لینا جائز نہیں ہے کہ تائب ہی کو بخشے گا جیسا کہ معتزلہ میں سے اس کے قائل کہتے ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کو تو شرک بھی معاف فرما دیتا ہے اور جو گناہ اس کے علاوہ ہیں وہ بھی توبہ کرنے والے کو معاف فرما دیتا ہے،
اس کا تعلق مشیئت سے نہیں اسی لیے جہاں توبہ کرنے والوں کے لیے مغفرت کا ذکر ہوا اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾ الزمر
’’اے میرے پیغمبر! ان بندوں سے جنہوں نے نفسوں پر ظلم کیا یہ کہہ دو کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
چنانچہ اس مقام پر مغفرت کو عام اور مطلق رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے کے جس گناہ سے بھی وہ توبہ کرے، بخش دیتا ہے اور جو شخص شرک سے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اسے بھی بخش دیتا ہے اور جو کبائر سے توبہ کرے وہ بھی بخش دیا جاتا ہے، الغرض جو گناہ بھی ہو اور بندہ اس سے تائب ہو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔
پس توبہ کی آیت میں عموم اور اطلاق رکھا ہے اور اس آیت میں تخصیص و تعلیق ذکر کی ہے۔ شرک کی تخصیص کر دی کہ اسے نہیں بخشے گا اور اس کے سوا دوسرے گناہوں کا معاف ہونا مشیت پر معلق کر دیا اور شرک کا ذکر کر کے اس سے بڑے گناہ مثلاً خالق کو معطل اور صفات سے عاری سمجھنے پر تنبیہ کی ہے (یعنی یہ جرائم بالاولی معاف نہیں ہوں گے)۔
اور اوپر ذکر کی گئی تفصیل ان لوگوں کے موقف فاسد ہونے پر دلالت کرتی ہے جو ہر گنہگار کی مغفرت کو یقینی سمجھتے ہیں اور اس بات کو ممکن قرار دیتے ہیں کہ کسی بھی گنہگار کو عذاب نہ ہو اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ ذکر نہ فرماتا کہ وہ بعض کو بخشے گا اور بعض کو نہیں بخشے گا۔
اور اگر ہر ظالم لنفسہ کو توبہ اور گناہوں کو مٹا دینے والی نیکیوں کے بغیر بخشنا ہوتا تو اسے مشیت کے ساتھ معلق نہ کرتا جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ویغفرمادون ذلک لمن یشاء، اس سے نیچے کے گناہ جسے چاہے بخش دے۔ دلیل ہے کہ وہ بعض کو چھوڑ کر بعض کو بخشے گا۔ اس طرح مغفرت کی نفی اور عفوعام دونوں قول باطل ٹھہرے۔


الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top