• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو (ٹوٹ جانے) کا بیان

شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
اونٹ کا گوشت اور وضو

ابوحنظلہ ، استاذ جامعة الحائل، المملکة السعودیہ، سلسلہ دعوت و اصلاح، الحمد للہ رب العالمین والصلواة والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ﷽۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي

“اونٹ کا گوشت کا اعصاب پر بہت زیادہ اثر مرتب ہوتا ہے اور یہ انہیں مشتعل کرتا ہے۔ اسی بنا پر جدید میڈیکل سائنس گرم مزاج رکھنے والے افراد کو اونٹ کا گوشت زیادہ مقدار میں کھانے سے منع کرتی ہے۔ وضو کر لینے سے اعصاب کو سکون اور راحت ملتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نبی پاک ﷺ نے غصے کے وقت میں وضو کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ ہمارے اعصاب پرسکون ہو جائیں۔” الممتع ج۱ ص۳۰۸۔ تالیف۔ محمد بن صالح العثیمین

(اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قول وجوب کا نہیں استحباب کا ہے۔ فرض نہیں حکیمانہ ہے۔ جیسے اگر کسی نے غصہ آنے کے بعد وضو نہیں کیا اور نماز پڑھ لی تو نماز ہو جائیگی۔ غصہ اور اونٹ کا گوشت تاثیر کے اعتبار سے گرم ہیں نا کہ ناقض وضو۔ اور ان پر وضو کا حکم بوجہ نقض وضو نہیں بوجہ گرم تاثیر ہے۔ جس کو ختم کرنا مقصود ہے۔ تین آئمہ امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک اس کا درجہ استحباب کا ہی ہے۔اسی طرح ہر نماز کے لئے نیا وضو کرنے کا امر استحباب کا درجہ رکھتا ہے اگرچہ پچھلا وضو موجود ہو۔ تاکہ اعصاب کو تسکین حاصل ہو۔ اور نماز میں دل جمے۔

وما علینا الالبلاغ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
الممتع ج۱ ص۳۰۸۔ تالیف۔ محمد بن صالح العثیمین
(اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قول وجوب کا نہیں استحباب کا ہے۔ فرض نہیں حکیمانہ ہے۔ جیسے اگر کسی نے غصہ آنے کے بعد وضو نہیں کیا اور نماز پڑھ لی تو نماز ہو جائیگی۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ـــــــــــــــــــــــــ
أكْلُ اللَّحْمِ خاصَّة من الجَزُور من نواقض الوُضُوء
علامہ محمد بن صالح العثيمين (المتوفى: 1421هـ) (الشرح الممتع على زاد المستقنع )
وإِذا دلَّت السُّنَّة على الوُضُوء من ألبان الإِبل، فإِن هذه الأجزاء التي لا تنفصل عن الحيوان من باب أَوْلَى. وعلى هذا يكون الصَّحيحُ أنّ أكل لحم الإِبل ناقضٌ للوُضُوء مطلقاً، سواءٌ كان هَبْراً أم غيره.( الشرح الممتع على زاد المستقنع جزء1، ص302 )

علامہ اونٹ کے گوشت کے مختلف صورتوں ،اور اجزاء کے متعلق تفصیل بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
" جب سنت اونٹ کے گوشت کو کھانے سے وضوء کرنے پر دلالت کرتی ہے تو صحیح بات یہی ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء ٹوٹ جائے گا ،
آگے شیخ رحمہ اللہ نے دو حدیثیں اس موضوع پر نقل فرمائی ہیں :
1
E
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، " أَنَّ رَجُلًا، سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَأَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ؟ قَالَ: إِنْ شِئْتَ فَتَوَضَّأْ، وَإِنْ شِئْتَ فَلَا تَوَضَّأْ، قَالَ: أَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَتَوَضَّأْ مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ، قَالَ: أُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أُصَلِّي فِي مَبَارِكِ الإِبِلِ؟ قَالَ: لَا "(صحیح مسلم ،کتاب الحیض )
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، کیا بکری کا گوشت کھا کر میں وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہے کر چاہے نہ کر۔“ پھر اس نے پوچھا: اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کر اونٹ کے گوشت سے۔“ اس نے کہا: بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ اس نے کہا: اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2
E
عن البراء بن عازب، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الوضوء من لحوم الإبل، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ توضئوا منها، ‏‏‏‏‏‏وسئل عن لحوم الغنم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ لا توضئوا منها ۔۔۔۔۔۔۔
رواه أبو داود، كتاب الطهارة: باب الوضوء من لحوم الإبل، رقم (184)
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کے متعلق سوال کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے وضو کرو“، اور بکری کے گوشت کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے وضو نہ کرو“ (سنن ابوداود 184 )

اس کے بعد اونٹ کا گوشت کھانے سے نہ ٹوٹنے کے قائلین کے دلائل کا ضعف بیان کرکے لکھتے ہیں :

فظهر بذلك ضعفُ دليل من قال: إِن لحمَ الإِبل لا ينقضُ الوضوءَ ويبقى حديثُ الوُضُوءِ من لحمِ الإِبل سالماً من المعارض المقاوم،
" تو اس طرح اونٹ کے گوشت کھانے سے وضوء نہ ٹوٹنے کے قول کا ضعف ثابت ہوگیا ، اور یہ حقیقت سامنے آگئی کہ اونٹ کے گوشت سے وضوء کی حدیث معارض سے سالم ہے " (یعنی اس حدیث کے خلاف کوئی دلیل ثابت نہیں ؛)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ٭
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
سعودی عرب کے مشہور جید عالم ،مفتی علامہ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

أكل لحم الإبل ينقض الوضوء
السؤال : هل ينقض أكل لحم الإبل الوضوء؟.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الصحيح : أنه يجب الوضوء من أكل لحوم الإبل صغيراً كان أو كبيراً ذكراً أو أنثى مطبوخاً أو نيئاً ، وعلى هذا دلّت الأدلّة :
1-حديث جابر ، سئل النبي صلى الله عليه وسلم أنتوضأ من لحوم الإبل ؟ قال : نعم ، قال : أنتوضأ من لحوم الغنم ؟ قال :إن شئت . رواه مسلم ( 360 ) .
2-حديث البراء ، سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن لحوم الإبل ؟ قال : توضئوا منها ، وسئل عن لحوم الغنم فقال لا يتوضاٌ . رواه أبو داود ( 184 ) الترمذي ( 81 ) وصححه الإمام أحمد وإسحاق بن راهويه .

وأما الذين لم يوجبوا الوضوء من لحم الإبل ، فإنهم ردوا بأشياء ، منها :
أ. بأن هذا الحكم منسوخ ، ودليلهم :
حديث جابر : كان آخر الأمرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك الوضوء مما مسّت النار . رواه أبو داود ( 192 ) والنسائي ( 185 ) .

وهذا الرد لا يقابل النص الخاص السابق في " صحيح مسلم " .
ثم إنه ليس فيه دليل على النسخ ؛ لأنهم سألوا أنتوضأ من لحوم الغنم ؟ فقال : إن شئت .
فلو كان هذا الحديث منسوخاً لنسخ حكم لحم الغنم ولما قال : " إن شئت " : دل على أن هذه الأحاديث لاحقة لحديث جابر .
والنسخ لا بد فيه من دليل يفيد أن الناسخ مقدم في التاريخ ولا دليل .
ثم إن حديث النسخ عام ، وهذا خاص يخصص عموم الحديث .
ثم إن سؤاله عن لحوم الغنم يبين أن العلة ليست في مس النار لأنه لو كان كذلك لتساوت لحوم الإبل ولحوم الغنم في ذلك .
ب. واستدلوا بحديث : " الوضوء مما يخرج لا مما يدخل " .

والرد :
الحديث : رواه البيهقي ( 1 / 116 ) وضعفه ، والدار قطني ( ص 55 ) ، وهو حديث ضعيف فيه ثلاث علل ، انظر تحقيقها في " السلسلة الضعيفة " ( 959 ) .

وإن صح - تنزلاً - : فهو عام ، وحديث إيجاب الوضوء خاص .
ج. وقال بعضهم : إن المراد من قوله " توضئوا منها " : غسل اليدين والفم لما في لحم الإبل من رائحة كريهة ودسومة غليظة بخلاف لحم الغنم !

والرد :
أن هذا بعيد ، لأن الظاهر منه هو الوضوء الشرعي لا اللغوي ، وحمل الألفاظ الشرعية على معانيها الشرعية واجب .
د. واستدل بعضهم بقصة لا أصل لها وخلاصتها :
أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يخطب ذات يوم ، فخرج من أحدهم ريح ، فاستحيا أن يقوم بين الناس ، وكان قد أكل لحم جزور ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ستراً عليه ! : من أكل لحم جزور فليتوضأ ! فقام جماعة كانوا أكلوا من لحمه فتوضأوا !.

والرد :

قال الشيخ الألباني رحمه الله :

لا أصل لها في شيء من كتب السنة ولا في غيرها من كتب الفقه والتفسير فيما علمت . " السلسة الضعيفة " ( 3 / 268 ) .

والراجح في المسألة : أن الوضوء مما مست النار منسوخ .

وأنه يجب الوضوء من لحوم الإبل .

قال النووي :

وذهب إلى انتقاض الوضوء به أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه ويحيى بن يحيى وأبو بكر ابن المنذر وابن خزيمة واختاره الحافظ أبو بكر البيهقي ، وحُكي عن أصحاب الحديث مطلقا وحُكي عن جماعة من الصحابة .

واحتج هؤلاء بحديث جابر بن سمرة الذي رواه مسلم : قال أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه صح عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا حديثان حديث جابر وحديث البراء وهذا المذهب أقوى دليلا وإن كان الجمهور على خلافه .

وقد أجاب الجمهور عن هذا الحديث بحديث جابر : كان آخر الأمرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك الوضوء مما مست النار , ولكن هذا الحديث عام وحديث الوضوء من لحوم الإبل خاص والخاص مقدم على العام . " شرح مسلم " ( 4 / 49 ) .

وقال به من المعاصرين : الشيخ عبد العزيز بن باز والشيخ ابن عثيمين والشيخ الألباني .

والله أعلم .

الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد
________________

____
ترجمہ :
سوال: کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد للہ:

صحیح یہی ہے کہ اونٹ کا گوشت چاہے وہ چھوٹے یا بڑے اونٹ کا ہو یا اونٹنی کا گوشت ہو ، کچا ہو یا پکا ہوا ہو اسے کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس کے متعدد دلائل ہیں:

1- جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث :

وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا:" کیا ہم اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو کریں ؟ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (جی ہاں)۔ سائل نے کہا: "کیا ہم بکری کا گوشت کھانے پر وضو کریں ؟" تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو کر لو" صحیح مسلم ( 360 )

2- براء رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث: وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کے گوشت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اس سے وضو کرو) پھر بکری کے گوشت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وضو نہ کیا جائے)سنن ابو داود :( 184 ) سنن ترمذی : (81 ) امام احمد اور اسحاق بن راہویہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

جو علمائے کرام اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کو واجب نہیں کہتے انہوں نے اس کے کئی ایک جوابات پیش کیے ہیں:

أ‌- یہ حکم منسوخ ہے، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: "رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخر میں آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو نہیں کرتے تھے" سنن ابو داود :( 192 ) سنن نسائی :( 185 )

لیکن حقیقت میں یہ جواب صحیح مسلم کی سابقہ خاص نص کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

پھر یہ بھی ہے کہ اس میں منسوخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں؛ کیونکہ انہوں نے تو یہ دریافت کیا کہ آیا ہم بکری کا گوشت کھانے پر وضو کریں تو آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا (اگر چاہو تو کر لو)۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ احادیث جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد کے زمانے کی ہیں۔

حالانکہ نسخ کیلیے یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسی دلیل ہو جو یہ ثابت کرے کہ ناسخ بعد میں ہو اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے تاریخ کا تعین ہو سکے۔

نیز نسخ والی حدیث عام ہے، اور یہ خاص جو کہ حدیث کے عموم کو خاص کرتی ہے۔

اس پر مستزاد یہ بھی کہ ان کا بکری کے گوشت کے متعلق سوال کرنا اس بات کو بیان کرتا ہے کہ علت آگ پر پکنا نہیں؛ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بکری اور اونٹ کے گوشت کیلیے یکساں حکم ہوتا۔

ب‌- انہوں نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے:
( وضو خارج ہونے والی چیز سے ہوتا ہے نہ کہ داخل ہونے والی چیز سے )

اس کا جواب یہ ہے کہ:
اس حدیث کو امام بیہقی ( 1 / 116 ) نے روایت کر کے ضعیف قرار دیا ہے، اور دار قطنی صفحہ (55 ) میں بھی تین علتوں کی بنا پر یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی مزید تحقیق آپ سلسلہ ضعیفہ میں حدیث نمبر ( 959 ) کے تحت دیکھ سکتے ہیں۔

اور بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو یہ عام ہے اور وضو واجب کرنے والی حدیث خاص۔

ت‌- ٭ اور بعض اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ([اونٹ کا]گوشت کھانے پر وضو کرو)اس میں وضو سے مراد یہ ہے کہ ہاتھ اور منہ دھوئے جائیں؛ کیونکہ اونٹ کے گوشت میں ناپسندیدہ قسم کی بو اور بہت زیادہ چکناہٹ پائی جاتی ہے، لیکن بکری کے گوشت میں بو اور چکناہٹ نہیں ہوتی!

اس کا جواب یہ ہے کہ:
یہ بعید ہے، کیونکہ اس سے ظاہر یہی ہے کہ شرعی وضو کیا جائے نہ کہ لغوی، اور شرعی الفاظ کو شرعی معانی پر ہی محمول کرنا واجب ہوتا ہے۔

ث‌- ٭ بعض نے ایک ایسے قصہ سے استدلال کیا ہے جس کی کوئی اصل ہی نہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو کسی شخص کی ہوا خارج ہوئی تو اس شخص نے لوگوں کے درمیان سے نکلنے میں شرم کی اور اس نے اونٹ کا گوشت کھایا تھا، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا پردہ رکھتے ہوئے فرمایا! : جس نے اونٹ کا گوشت کھایا وہ وضو کرے، تو اونٹ کا گوشت کھانے والے لوگوں نے اٹھ کر وضو کیا ! "

اس کا جواب یہ ہے کہ:
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
میرے علم کے مطابق کتب حدیث میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے، اور نہ ہی کسی فقہ اور تفسیر کی کتاب میں موجود ہے۔
دیکھیں: سلسلہ ضعیفہ( 3 / 268 )

اس مسئلے میں راجح یہ ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا منسوخ ہے۔
اور اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنا واجب ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راھویہ، یحیی بن یحیی، ابو بکر ابن منذر اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ کا موقف یہ ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور حافظ ابوبکر بیہقی نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے، نیز یہی موقف تمام محدثین سے بلا استثنا بیان کیا جاتا ہے، اور صحابہ کرام کی ایک جماعت سے بھی منقول ہے۔
ان کی دلیل امام مسلم کی روایت کردہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ: اس کے متعلق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جابر اور براء رضی اللہ عنہما کی دو حدیثیں صحیح ثابت ہیں، جو کہ اس مذہب میں سب سے قوی دلیل ہے، اگرچہ جمہور کا موقف اس کے خلاف ہے۔

جمہور علمائے کرام نے اس حدیث کا جواب جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دیا کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر میں آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو نہیں کرتے تھے"، لیکن یہ حدیث عام ہے اور اونٹ کے گوشت سے وضو کرنے والی حدیث خاص ہے، اور خاص عام پر مقدم ہوتی ہے۔
دیکھیں: شرح مسلم از نووی ( 4 / 49 )

اور معاصر علمائے کرام میں سے شیخ ابن باز ،شیخ ابن عثیمین اور البانی رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے ۔
واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
https://islamqa.info/ar/7103
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
جید سعودی علماء پر مشتمل فتاویٰ کیلئے مستقل کمیٹی (اللجنۃ الدائمۃ ) کا فتویٰ اس ضمن میں یہ ہے :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
الفتوى رقم 1163
س: ما قولكم أثابكم الله عن لحم الجزور، هل هو من نواقض الوضوء أم لا، أفيدونا مأجورين مع التكرم بالإشارة إلى الدليل؟
جـ: الحمد لله وحده والصلاة والسلام على رسوله وآله وصحبه. . وبعد:
أكل لحم الجزور من نواقض الوضوء سواء أكل نيئا أم مطبوخا، وبهذا قال جابر بن سمرة أحد أصحاب الرسول صلى الله عليه وسلم ومحمد بن إسحاق ويحيى بن يحيى والإمام أحمد وابن المنذر وطائفة من أهل العلم، لما روى أحمد وأبو داود من طريق البراء بن عازب أنه قال: «سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لحوم الإبل، فقال: توضأ منها، وسئل عن لحوم الغنم، فقال: لا يتوضأ منها (أحمد 4 / 288، وأبو داود 1 / 47 برقم (184) ، والترمذي 1 / 122، 123، برقم (81) ، وابن ماجه 1 / 166 برقم (494)) » . وما رواه الإمام أحمد من طريق أسيد بن حضير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «توضأوا من لحوم الإبل ولا تتوضأوا من لحوم الغنم (أحمد 4 / 352، والترمذي (تحفة الأحوذي) 1 / 268، وابن ماجه 1 / 166 برقم (497)) » .
فأمر صلى الله عليه وسلم بالوضوء من أكل لحم الجزور، والأصل في الأمر الوجوب حتى يوجد من الأدلة الشرعية ما يصرفه عن ذلك، والأصل في الوضوء إذا ورد في الأدلة الشرعية أن يحمل على الوضوء الشرعي المعهود في عرف الشرع وهو الذي أوجبه الله للصلاة، حتى يوجد من الأدلة الشرعية ما يصرفه عن ذلك، ولا نعلم دليلا شرعيا في هذه المسألة يصرف الأمر عن الوجوب إلى الندب، ولا ما يصرف الوضع عن معناه الشرعي إلى المعنى اللغوي وهو غسل اليدين والمضمضة فقط، فوجب البقاء على وجوب الوضوء الشرعي من أكل لحم الجزور.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
عبد الله بن منيع ... عبد الله بن غديان ... عبد الرزاق عفيفي ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز

__________


اونٹ کے گوشت کھا لینے سے وضو کے واجب ہونے کی دلیل
فتوى نمبر( 1163 )
سوال: [اللہ آپ کو جزائے خیر دے] اونٹ کے گوشت کے بارے میں آپ کی شرعی رائے کیا ہے؟ کیا اونٹ کے گوشت سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ برائے کرم سےدلیل كے ساتهـ وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہيں؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب: الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ۔۔۔ وبعد:
اونٹ کا گوشت چاہے کچا کھایا جائے یا پکا کر اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور اسی کے قائل ہیں سیدنا جابر بن سمرہ [جو کہ ایک صحابئ رسول صلى الله عليہ وسلم ہیں]، محمد بن اسحاق، يحيى بن يحيى، امام احمد ، ابن منذر، دیگر علماء کی ایک بڑی جماعت ، اس لئے کہ امام احمدؒ اور ابو داودؒ نے سیدنا براء بن عازب کی سند سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: آیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو لازم آتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے وضو کیا کرو۔ سوال کیا گیا کہ بکری کے گوشت سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے وضو نہ کرو۔اور وہ حدیث جس کو امام احمد نے حضرت اسيد بن حضير سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا:اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کیا کرو اور بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو نہ کرو۔
(أحمد 4 / 352، والترمذي (تحفة الأحوذي) 1 / 268، وابن ماجه 1 / 166 برقم (497)
تو واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کا گوشت کھا لینے پر وضو کرنے کا حکم دیا ہے، اور صیغہ امر کے بارے میں اصول یہ ہے کہ اس کو وجوب پر محمول کیا جائے، بشرطیکہ اس کو وجوب سے پھیرنے والی کوئی دلیل نہيں ہے، اور وضو کے بارے میں اصول یہ ہے کہ جب شرعی دلائل کے اندر اس کا ذکر آئے، تو اس سے مراد وہی وضو ہے، جو عام طور پر شریعت کے اندر معروف ہے، اور اللہ تعالی نے بھی اسی وضو کو فرض کیا ہے، یہاں تک کہ اس معنی سے ہٹ کر دوسرے معنی مراد لینے کی کوئی شرعی دلیل پائے جائے [اگر پائی گئی تو وضو سے مراد شرعی وضو نہیں ہوگا]، اور اس مسئلے میں ہمارے علم کے مطابق کوئی ایسی شرعی دلیل نہیں ہے، جس سے صیغہ امر کو وجوب سے ہٹا کر مستحب کے معنی میں مراد لیا جا سکتا ہو، اور نہ یہاں پر کوئی ایسا لغوی قاعدہ ہے جس کی وجہ سے شرعی معنی کو چھوڑ کر لغوی معنی مراد لئے جائیں، اور وضو کے لغوی معنی ہیں صرف دونوں ہاتھـ دھونا اور کلی کرنا، تو اس مسئلے میں وضو سے شرعی وضو ہی مراد لینا ضروری ہوگیا، لہذا حکم یہ ہوگا کہ اگر اونٹ کا گوشت کھا لیا جائے تو شرعی وضو کرنا واجب ہے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر صدر
عبد اللہ بن منیع عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
امام حافظ ابن حزم رحمہ اللہ (م۴۵۶) لکھتے ہیں :
واکل لحوم الابل نیئۃ و مطبوخۃ أو مشویۃ وھو یدری أنہ لحم جمل أو ناقۃ فانہ ینقض الوضوء.
اونٹ کا گوشت کھانا ، خواہ کچا ہو یا پکا یا بھونا ہوا ہو ، وضو توڑ دیتا ہے، بشرطیکہ کھانے والا جانتا ہو کہ یہ اونٹ یا اونٹنی کا گوشت ہے ۔ ( المحلی لابن حزم ۲۴۱/۱ )
۸٭ امام بیہقی (م۴۵۸) کی تبویب حسب ذیل ہے : باب التوضی من لحوم الابل.
اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کا بیان ( السنن الکبری للبیہقی ۱۵۹/۱ )
نیز مخالفین کے بودے دلائل کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وبمثل ھٰذا لا یترک ماثبت عن رسول اللہ ﷺ.
“اس جیسے ( غیر معتبر دلائل) کی وجہ سے رسول اکرم ﷺ سے ثابت شدہ حدیث کو چھوڑا نہیں جا سکتا ۔” ( السنن الکبری للبیہقی ۱۵۸/۱ ، ۱۵۹)
۹٭ امام ابن المنذر (م۳۱۸) فرماتے ہیں :
والوضوء من لحوم الابل یجب، لثبوت ھٰذین الحدیثین وجودۃ اسنادھما.
ان دونوں حدیثوں کے ثبوت اور ان کی سند کی عمدگی کی بناء پر اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو واجب ہو جاتا ہے ۔ ( الاوسط لابن المنذر ۱۳۸/۱ )
۱۰٭ حافظ نووی لکھتے ہیں :
وھٰذا المذھب أقوی دلیلاً.
“یہ مذہب ( کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ) دلیل کے لحاظ سے زیادہ قوی ہے ۔” ( شرح مسلم از نووی ۱۸۵/۱ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
گذشتہ ماہ ایک محترم بھائی کی جانب سے حلیم کی دعوت تھی۔۔ دعوت کا انتظام مسجد میں بعد نماز عشاء کیا گیا تھا۔۔ ماشاء اللہ حلیم بہت زبردست قسم کی مزیدار تھی۔۔ کھانے کے دوران محترم بھائی کی جانب سے اعلان کیا گیا:
جو بھائی کھانے کے بعد نوافل و وتر ادا کرنا چاہیں، وہ وضو کر لیں کیونکہ حلیم میں اونٹ کا گوشت ہے!

نوٹ: ویسے مجھے اس اعلان سے قبل ہی پتا تھا کہ آج اونٹ والی حلیم کھانی ہے۔ ابتسامہ!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
گذشتہ ماہ ایک محترم بھائی کی جانب سے حلیم کی دعوت تھی۔۔ دعوت کا انتظام مسجد میں بعد نماز عشاء کیا گیا تھا۔۔ ماشاء اللہ حلیم بہت زبردست قسم کی مزیدار تھی۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اگر ایسی دعوت ِحلیمیہ وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس مسجد کے قریب گھر لینا پڑے گا ،
بلکہ اسی مسجد ٹھکانہ کرلیں گے ؛
عــــــــــــــ
تیرا کوچہ ترا در تیری گلی کافی ہے
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64

اس مسئلہ کے سمجھنے میں علمائے عرب اورعلمائے ائلحدیث کو غلطی لگی ہے۔
۱۔ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جانے کے الفاظ کسی حدیث میں نہیں آئے۔
۲۔ اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو کا حکم ایسا ہی ہے جیسے غصہ آنے پر وضو کا حکم
۳۔ غصہ آنے اور اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو کا حکم بوجہ نقض وضو سابق نہیں ہے بلکہ تقلیل حدت و تسکین اعصاب ہے۔
واللہ اعلم
 
Top