سعودی عرب کے مشہور جید عالم ،مفتی علامہ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
أكل لحم الإبل ينقض الوضوء
السؤال : هل ينقض أكل لحم الإبل الوضوء؟.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الصحيح : أنه يجب الوضوء من أكل لحوم الإبل صغيراً كان أو كبيراً ذكراً أو أنثى مطبوخاً أو نيئاً ، وعلى هذا دلّت الأدلّة :
1-حديث جابر ، سئل النبي صلى الله عليه وسلم أنتوضأ من لحوم الإبل ؟ قال : نعم ، قال : أنتوضأ من لحوم الغنم ؟ قال :إن شئت . رواه مسلم ( 360 ) .
2-حديث البراء ، سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن لحوم الإبل ؟ قال : توضئوا منها ، وسئل عن لحوم الغنم فقال لا يتوضاٌ . رواه أبو داود ( 184 ) الترمذي ( 81 ) وصححه الإمام أحمد وإسحاق بن راهويه .
وأما الذين لم يوجبوا الوضوء من لحم الإبل ، فإنهم ردوا بأشياء ، منها :
أ. بأن هذا الحكم منسوخ ، ودليلهم :
حديث جابر : كان آخر الأمرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك الوضوء مما مسّت النار . رواه أبو داود ( 192 ) والنسائي ( 185 ) .
وهذا الرد لا يقابل النص الخاص السابق في " صحيح مسلم " .
ثم إنه ليس فيه دليل على النسخ ؛ لأنهم سألوا أنتوضأ من لحوم الغنم ؟ فقال : إن شئت .
فلو كان هذا الحديث منسوخاً لنسخ حكم لحم الغنم ولما قال : " إن شئت " : دل على أن هذه الأحاديث لاحقة لحديث جابر .
والنسخ لا بد فيه من دليل يفيد أن الناسخ مقدم في التاريخ ولا دليل .
ثم إن حديث النسخ عام ، وهذا خاص يخصص عموم الحديث .
ثم إن سؤاله عن لحوم الغنم يبين أن العلة ليست في مس النار لأنه لو كان كذلك لتساوت لحوم الإبل ولحوم الغنم في ذلك .
ب. واستدلوا بحديث : " الوضوء مما يخرج لا مما يدخل " .
والرد :
الحديث : رواه البيهقي ( 1 / 116 ) وضعفه ، والدار قطني ( ص 55 ) ، وهو حديث ضعيف فيه ثلاث علل ، انظر تحقيقها في " السلسلة الضعيفة " ( 959 ) .
وإن صح - تنزلاً - : فهو عام ، وحديث إيجاب الوضوء خاص .
ج. وقال بعضهم : إن المراد من قوله " توضئوا منها " : غسل اليدين والفم لما في لحم الإبل من رائحة كريهة ودسومة غليظة بخلاف لحم الغنم !
والرد :
أن هذا بعيد ، لأن الظاهر منه هو الوضوء الشرعي لا اللغوي ، وحمل الألفاظ الشرعية على معانيها الشرعية واجب .
د. واستدل بعضهم بقصة لا أصل لها وخلاصتها :
أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يخطب ذات يوم ، فخرج من أحدهم ريح ، فاستحيا أن يقوم بين الناس ، وكان قد أكل لحم جزور ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ستراً عليه ! : من أكل لحم جزور فليتوضأ ! فقام جماعة كانوا أكلوا من لحمه فتوضأوا !.
والرد :
قال الشيخ الألباني رحمه الله :
لا أصل لها في شيء من كتب السنة ولا في غيرها من كتب الفقه والتفسير فيما علمت . " السلسة الضعيفة " ( 3 / 268 ) .
والراجح في المسألة : أن الوضوء مما مست النار منسوخ .
وأنه يجب الوضوء من لحوم الإبل .
قال النووي :
وذهب إلى انتقاض الوضوء به أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه ويحيى بن يحيى وأبو بكر ابن المنذر وابن خزيمة واختاره الحافظ أبو بكر البيهقي ، وحُكي عن أصحاب الحديث مطلقا وحُكي عن جماعة من الصحابة .
واحتج هؤلاء بحديث جابر بن سمرة الذي رواه مسلم : قال أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه صح عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا حديثان حديث جابر وحديث البراء وهذا المذهب أقوى دليلا وإن كان الجمهور على خلافه .
وقد أجاب الجمهور عن هذا الحديث بحديث جابر : كان آخر الأمرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك الوضوء مما مست النار , ولكن هذا الحديث عام وحديث الوضوء من لحوم الإبل خاص والخاص مقدم على العام . " شرح مسلم " ( 4 / 49 ) .
وقال به من المعاصرين : الشيخ عبد العزيز بن باز والشيخ ابن عثيمين والشيخ الألباني .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد
________________
____
ترجمہ :
سوال: کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد للہ:
صحیح یہی ہے کہ اونٹ کا گوشت چاہے وہ چھوٹے یا بڑے اونٹ کا ہو یا اونٹنی کا گوشت ہو ، کچا ہو یا پکا ہوا ہو اسے کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس کے متعدد دلائل ہیں:
1- جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث :
وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا:" کیا ہم اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو کریں ؟ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (جی ہاں)۔ سائل نے کہا: "کیا ہم بکری کا گوشت کھانے پر وضو کریں ؟" تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو کر لو" صحیح مسلم ( 360 )
2- براء رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث: وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کے گوشت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اس سے وضو کرو) پھر بکری کے گوشت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وضو نہ کیا جائے)سنن ابو داود :( 184 ) سنن ترمذی : (81 ) امام احمد اور اسحاق بن راہویہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
جو علمائے کرام اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کو واجب نہیں کہتے انہوں نے اس کے کئی ایک جوابات پیش کیے ہیں:
أ- یہ حکم منسوخ ہے، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: "رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخر میں آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو نہیں کرتے تھے" سنن ابو داود :( 192 ) سنن نسائی :( 185 )
لیکن حقیقت میں یہ جواب صحیح مسلم کی سابقہ خاص نص کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
پھر یہ بھی ہے کہ اس میں منسوخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں؛ کیونکہ انہوں نے تو یہ دریافت کیا کہ آیا ہم بکری کا گوشت کھانے پر وضو کریں تو آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا (اگر چاہو تو کر لو)۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ احادیث جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد کے زمانے کی ہیں۔
حالانکہ نسخ کیلیے یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسی دلیل ہو جو یہ ثابت کرے کہ ناسخ بعد میں ہو اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے تاریخ کا تعین ہو سکے۔
نیز نسخ والی حدیث عام ہے، اور یہ خاص جو کہ حدیث کے عموم کو خاص کرتی ہے۔
اس پر مستزاد یہ بھی کہ ان کا بکری کے گوشت کے متعلق سوال کرنا اس بات کو بیان کرتا ہے کہ علت آگ پر پکنا نہیں؛ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بکری اور اونٹ کے گوشت کیلیے یکساں حکم ہوتا۔
ب- انہوں نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے:
( وضو خارج ہونے والی چیز سے ہوتا ہے نہ کہ داخل ہونے والی چیز سے )
اس کا جواب یہ ہے کہ:
اس حدیث کو امام بیہقی ( 1 / 116 ) نے روایت کر کے ضعیف قرار دیا ہے، اور دار قطنی صفحہ (55 ) میں بھی تین علتوں کی بنا پر یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی مزید تحقیق آپ سلسلہ ضعیفہ میں حدیث نمبر ( 959 ) کے تحت دیکھ سکتے ہیں۔
اور بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو یہ عام ہے اور وضو واجب کرنے والی حدیث خاص۔
ت- ٭ اور بعض اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ([اونٹ کا]گوشت کھانے پر وضو کرو)اس میں وضو سے مراد یہ ہے کہ ہاتھ اور منہ دھوئے جائیں؛ کیونکہ اونٹ کے گوشت میں ناپسندیدہ قسم کی بو اور بہت زیادہ چکناہٹ پائی جاتی ہے، لیکن بکری کے گوشت میں بو اور چکناہٹ نہیں ہوتی!
اس کا جواب یہ ہے کہ:
یہ بعید ہے، کیونکہ اس سے ظاہر یہی ہے کہ شرعی وضو کیا جائے نہ کہ لغوی، اور شرعی الفاظ کو شرعی معانی پر ہی محمول کرنا واجب ہوتا ہے۔
ث- ٭ بعض نے ایک ایسے قصہ سے استدلال کیا ہے جس کی کوئی اصل ہی نہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو کسی شخص کی ہوا خارج ہوئی تو اس شخص نے لوگوں کے درمیان سے نکلنے میں شرم کی اور اس نے اونٹ کا گوشت کھایا تھا، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا پردہ رکھتے ہوئے فرمایا! : جس نے اونٹ کا گوشت کھایا وہ وضو کرے، تو اونٹ کا گوشت کھانے والے لوگوں نے اٹھ کر وضو کیا ! "
اس کا جواب یہ ہے کہ:
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
میرے علم کے مطابق کتب حدیث میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے، اور نہ ہی کسی فقہ اور تفسیر کی کتاب میں موجود ہے۔
دیکھیں: سلسلہ ضعیفہ( 3 / 268 )
اس مسئلے میں راجح یہ ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا منسوخ ہے۔
اور اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنا واجب ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راھویہ، یحیی بن یحیی، ابو بکر ابن منذر اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ کا موقف یہ ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور حافظ ابوبکر بیہقی نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے، نیز یہی موقف تمام محدثین سے بلا استثنا بیان کیا جاتا ہے، اور صحابہ کرام کی ایک جماعت سے بھی منقول ہے۔
ان کی دلیل امام مسلم کی روایت کردہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ: اس کے متعلق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جابر اور براء رضی اللہ عنہما کی دو حدیثیں صحیح ثابت ہیں، جو کہ اس مذہب میں سب سے قوی دلیل ہے، اگرچہ جمہور کا موقف اس کے خلاف ہے۔
جمہور علمائے کرام نے اس حدیث کا جواب جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دیا کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر میں آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو نہیں کرتے تھے"، لیکن یہ حدیث عام ہے اور اونٹ کے گوشت سے وضو کرنے والی حدیث خاص ہے، اور خاص عام پر مقدم ہوتی ہے۔
دیکھیں: شرح مسلم از نووی ( 4 / 49 )
اور معاصر علمائے کرام میں سے شیخ ابن باز ،شیخ ابن عثیمین اور البانی رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے ۔
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
https://islamqa.info/ar/7103