بعض الفاظ حدیث کی وضاحت
حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے دونوں آدمیوں سے سوال کیاکہ تمہیں یہ قراء ت کس نے پڑھائی ہے؟ تو ہر ایک نے جواب دیا: رسول اللہﷺ نے۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ چلو میرے ساتھ، آپؐ کے پاس چلتے ہیں۔ تینوں آپؐ کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ہر ایک کی قراء ت کی تحسین فرمائی۔ بعض روایات میں ہے کہ آپؐ نے ہر ایک کے لئے
أَحْسَنْتَ اور
أَصَبْتَ یعنی تو نے اچھاکیا، تو نے سنت طریقہ کو پالیا، کے الفاظ استعمال کئے۔ مطلب یہ کہ آپﷺ نے اختلاف ِقراءت کے باوجود ہرایک کی قراء ت کو صحیح قرار دیا۔ تو میرے دل میں ایسا شبہ پیدا ہوا، جو کبھی جاہلیت کے دور میں بھی پیدا نہ ہوا تھا۔ (سنن النسائی:۹۴۱)
جملہ:
سقط فی نفسی من التکذیب…الخ میں
من التکذیب جار مجرور ہو کر متعلق ہے محذوف کلمہ ما کے، اور یہی کلمہ
ما ، سقط فی نفسی کا فاعل ہے۔ مراد یہ ہے کہ ایساجھوٹ نہ تو ایام ِایمان میں اور نہ ہی دورِ جاہلیت میں میرے دل میں کبھی پیداہواتھا۔چنانچہ اس جملہ کی اصل عبارت یوں ہے:
فسقط فی نفسی من التکذیب ما لم یحصل لی وَقْتًا مَا،ولا وقت کنت فی الجاھلیۃ، تو صحابی کے قول میں
ما، سقطکا فاعل ہے، اور
من التکذیب یہ جار مجرور مل کر فاعل ِ محذوف
مَا اور اس کے بیان کے متعلق ہے ، اور
ولا إذ میں واؤ عاطفہ ہے۔
لا،لم سے حاصل شدہ نفی کی تاکید کے لئے اور
إذ ظرف زمان بمعنی فعل ماضی ہے، اوراس کا معطوف علیہ وقتاً مقدر ہے۔
بعض روایات میں ہے:
’’فدخل فی نفسی من الشکِّ والتکذیب أشدُّ ممّا کنت فی الجاھلیۃ ‘‘
’’یعنی ایسی شدت کے ساتھ میرے دل میں شک اورجھوٹ نے جنم لیا جو دور جاہلیت میں بھی نہ تھا۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ اس جملہ کے معنی کے متعلق فرماتے ہیں:
’’شیطان نے میرے دل میں آپؐ کی نبوت کے بارے میں اس قدر سخت وسوسہ ڈالا جو کبھی جاہلیت میں بھی نہیں آیاتھا، کیونکہ قبل از اسلام تو محض غفلت یا شک تھا، لیکن اب شیطان نے گویا نبوت کا قطعی طور پر جھوٹا ہونا میرے دل میں بٹھا دیا۔‘‘ ( شرح مسلم:۶؍۳۴۳ )
اس بابت یہ عقیدہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ کے دل میں شیطانی وسوسہ اوربہکاوا آیا تھا جو زیادہ دیرنہ چل سکا، کیونکہ صحابہ کرام ؓ کی قوت ایمانی کے سامنے اس قسم کے شبہات اور وساوس کی جتنی بھی آندھیاں آتی تھیں صحابہ کے مضبوط ایمان کے سامنے وہ اپنی شدت کو کھو دیتیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ شیطانی کچوکے اوردل میں اٹھنے والے خیالات پر انسان کا مواخذہ اورمحاسبہ اس وقت تک نہیں کیا جائے گا، جب تک وہ انہیں تسلیم نہ کرے یا ان شبہات کے مطابق عمل نہ کرلے، بلکہ اسے چاہئے کہ ان خیالات و شبہات کو اپنے دل و دماغ سے نکالنے کی کوشش کرے۔
اس حوالے سے امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو شیطان نے اس لیے بہکانا چاہا تاکہ وہ ان پر ان کی حالت ِایمانی کو خلط ملط کرسکے اورقراء ات کی اہمیت کو دھندلا کرسکے۔ جب آپؐ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو ان کے سینے پر ہاتھ مارا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کاسینہ روشنی سے منور فرمادیا، یہاں تک کہ وساوس کے تمام بادل چھٹ گئے اورقراء ات کے معارف کے متعلق آپ کا سینہ کھل گیا۔جب ان کے لئے اس وسوسہ کی برائی ظاہر ہوئی تو ان پر اللہ کا خوف طاری ہو گیا اوراللہ سے حیاء کی وجہ سے ان کے پسینے چھوٹ گئے۔یہ وسوسہ بھی ان وساوس کے قبیل سے تھا جن کے متعلق صحابہ کرام ؓ آپؐ سے سوال کرتے تھے کہ ان کے دلوں میں ایسے وسوسے اٹھتے ہیں، جنہیں دوسروں سے بیان کرتے ہوئے بھی وہ ڈرتے ہیں، تو آپؐ نے پوچھا کہ کیا واقعی ایسے وسوسے پیداہوتے ہیں؟ تو صحابہ نے عرض کیا:جی ہاں! آپؐ نے فرمایا یہ مضبوط ایمان کی نشانی ہے کہ جہاں ایسا ایمان ہو وہیں دشمن نقب لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ ‘‘ (تفسیر قرطبی:۱؍۴۹)
قولہ:
فلمَّا رأی رسولُ اﷲ ﷺ ما قد غشینی ففضت عرقاً کأنما أنظر إلی اﷲ فرقاً کے متعلق قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب آپﷺ نے اس مذموم وسوسے کو ابیؓ کے چہرے سے جانچ لیا، تو ان کے سینے پر ہاتھ اسلئے ماراتاکہ وسوسہ دور ہوجائے۔
فَرَقًا، الْفَرَق سے ہے، جس کا معنی ہے: رعب، خوف اورگھبراہٹ۔‘‘(شرح صحیح مسلم:۶؍۳۴۳)
امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حضرت ابی ؓایمان و یقین میں کامل ترین صحابہ میں سے تھے۔ جب آپؐ نے ان پر یہ شیطانی وسوسہ دیکھا تو آپؐ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا۔ آپﷺ کے ہاتھ مبارک کی برکت کی وجہ سے یہ حالت اورکیفیت حضرت ابیؓ کے پسینے چھوٹنے کے ذریعے جاتی رہی، دوبارہ حالت ِایمان کی طرف پلٹے اور اللہ سے خوف اورشرمندگی اس لئے محسوس کی کہ مذکورہ وسوسہ شیطانی تھا۔‘‘
حضرت ابی ؓسے مروی حدیث کے بعض طرق کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں:
’’فوجدتُّ فی نفسی وسوسۃ الشیطان حتی احمرَّ وجھی ‘‘
’’ میرے دل میں ایسا زبردست وسوسہ آیا کہ میرے چہرے کا رنگ سرخ ہوگیا۔ ‘‘
رسول اللہ ﷺنے یہ حالت دیکھتے ہوئے میرے سینے میں مارا اوردعا کی:
’’اے اللہ! ابیؓ سے شیطان کودور فرما دے۔ ‘‘
اوربعض روایات میں یوں الفاظ ہیں: ’’اے اللہ! ابیؓ سے شک کو دور فرما دے۔‘‘
قولہ:
فرددتُّ إلیہ أن ھوِّنْ علی أُمَّتی میں سوال دہرانے کی وضاحت ہے، جس کی تفصیل دوسری حدیث میںاس طرح آئی ہے:
(أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ)(صحیح مسلم:۸۲۱)
’’میں اللہ سے معافی اورمغفرت کا طلبگار ہوں۔‘‘
اس حدیث میں ہے کہ جبریل علیہ السلام نے تیسری مرتبہ کہا کہ سا ت لہجات میں پڑھائیے، جبکہ اس سے پہلی حدیث میں ہے کہ یہ بات جبریل علیہ السلام نے چوتھی مرتبہ کہی تھی۔ ان دونوں روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ بعض اوقات اختصارکی غرض سے تکرار حذف کردیا جاتا ہے۔
قولہ:
وذلک بکل رِدۃ رددتکھا مسالۃ تسألنیھا کے حوالے سے امام ِ نوویؒ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
’’اس کا معنی ہے کہ یہ دعائیں تو یقینی طور پر قبول کر لی گئیں ہیں، جبکہ دیگر دعاؤں کی قبولیت کی امید تو کی جا سکتی ہے لیکن ان کی مقبولیت ضروری نہیں۔‘‘(شرح مسلم:۶؍۳۴۴)
واضح رہے کہ حضرت ابی ؓ نے اپنے ساتھی کی جس قراء ت پر انکار کیا تھا، وہ سورۃالنحل کی آیات تھیں، لیکن بہت کوشش کے باوجود ہمیں علم نہیں ہوسکا کہ وہ کون سی آیات تھیں۔
٥
عن أبیِّ رضی اﷲُ عنہ قال لقی رسول اﷲِ ﷺ جبریلَ فقال: یا جبریلُ! إنی بعثت إلی أمّۃ أمیین فیہم العجوز والشیخ الکبیر والغلام والجاریۃ والرجل الذی لم یقرأ کتابا قطُّ، قال یا محمَّد ﷺ! إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف۔ (سنن الترمذی:۲۹۴۴وقال حدیث حسن صحیح)
’’حضرت ابیؓ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں:نبی کریمﷺ کی جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ نے جبریل علیہ السلام سے کہا، میں تو اَن پڑھ لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیاہوں، ان میں غلام، لونڈیاں، بوڑھے ، کمزور اورایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کتاب پڑھ کے نہیں دیکھی۔ تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد ﷺ! قرآن سا ت لہجات میں نازل کیا گیا ہے۔ امام احمدؒ اور امام ترمذیؒ نے اسے نقل کیا ہے اورامام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن، صحیح ہے۔‘‘