• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِس حدیث کے بارے میں معلومات چاہیں۔

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حوض اور شفاعت کا بیان ۔ حدیث 151
قیامت کے دن شفاعت وغیرہ سے متعلق کچھ اور باتیں
راوی:
وعن أبي سعيد الخدري أن أناسا قالوا يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة ؟ قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نعم هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر صحوا ليس فيها سحاب ؟ " قالوا : لا يا رسول الله قال : " ما تضارون في رؤية الله يوم القيامة إلا كما تضارون في رؤية أحدهما إذا كان يوم القيامة أذن مؤذن ليتبع كل أمة ما كانت تعبد فلا يبقى أحد كان يعبد غيرالله من الأصنام والأنصاب إلا يتساقطون في النار حتى إذا لم يبق إلا من كان يعبد الله من بر وفاجر أتاهم رب العالمين قال : فماذا تنظرون ؟ يتبع كل أمة ما كانت تعبد . قالوا : ياربنا فارقنا الناس في الدنيا أفقر ما كنا إليهم ولم نصاحبهم "
(3/212)
5579 – [ 14 ] ( متفق عليه )
وفي رواية أبي هريرة " فيقولون : هذا مكاننا حتى يأتينا ربنا فإذا جاء ربنا عرفناه "وفي رواية أبي هريرة " فيقولون : هذا مكاننا حتى يأتينا ربنا فإذا جاء ربنا عرفناه "
وفي رواية أبي سعيد : " فيقول هل بينكم وبينه آية تعرفونه ؟ فيقولون : نعم فيكشف عن ساق فلا يبقى من كان يسجد لله من تلقاء نفسه إلا أذن الله له بالسجود ولا يبقى من كان يسجد اتقاء ورياء إلا جعل الله ظهره طبقة واحدة كلما أراد أن يسجد خر على قفاه ثم يضرب الجسر على جهنم وتحل الشفاعة ويقولون اللهم سلم سلم فيمر المؤمنون كطرف العين وكالبرق وكالريح وكالطير وكأجاويد الخيل والركاب فناج مسلم ومخدوش مرسل ومكدوس في نار جهنم حتى إذا خلص المؤمنون من النار فوالذي نفسي بيده ما من أحد منكم بأشد مناشدة في الحق – قد تبين لكم – من المؤمنين لله يوم القيامة لإخوانهم الذين في النار يقولون ربنا كانوا يصومون معنا ويصلون ويحجون فيقال لهم : أخرجوا من عرفتم فتحرم صورهم على النار فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقولون : ربنا ما بقى فيها أحد ممن أمرتنا به . فيقول : ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال دنيار من خير فأخرجوه فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقول : ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال نصف دينار من خير فأخرجوه فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقول : ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال ذرة من خير فأخرجوه فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقولون : ربنا لم نذر فيها خيرا فيقول الله شفعت الملائكة وشفع النبيون وشفع المؤمنون ولم يبق إلا أرحم الراحمين فيقبض قبضة من النار فيخرج منها قوما لم يعملوا خيرا قط قد عادوا حمما فيلقيهم في نهر في أفواه الجنة يقال له : نهر الحياة فيخرجون كما تخرج الحبة في حميل السيل فيخرجون كاللؤلؤ في رقابهم الخواتم فيقول أهل الجنة : هؤلاء عتقاء الرحمن أدخلهم الجنة بغير عمل ولا خير قدموه فيقال لهم لكم ما رأيتم ومثله معه " . متفق عليه
" اور حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ) کچھ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں دیکھو گے ۔ " ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدار الہٰی کے ثبوت کو واضح کرنے کے لئے لوگوں سے سوال کیا کہ ) کیا تم لوگ دوپہر کے وقت جب کہ آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا بھی نہ ہو ، سورج کو دیکھنے میں کوئی رکاوٹ وتکلیف محسوس کرتے ہو ؟ " لوگوں نے عرض کیا کہ ہرگز نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فرمایا " تو پھر قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں بھی کوئی رکاوٹ وتکلیف محسوس نہیں کروگے ، ہاں جیسا کہ تم ان دونوں ( یعنی سورج وچاند ) میں سے کسی کو دیکھنے میں رکاوٹ وتکلیف محسوس کرتے ہو ۔ ( اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) جب قیامت کا دن برپا ہوگا ( اور تمام مخلوق میدان محشر میں جمع ہوگی ، تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ جو طبقہ ( دنیا میں ) جس چیز کی عبادت کرتا تھا وہ اسی کے پیچھے رہے ، چنانچہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بجائے بتوں اور انصاب کو پوجتے تھے ۔ ان میں سے کوئی ایک بھی باقی نہیں بچے گا اور سب کے سب دوزخ میں جا گریں گے ۔ کیونکہ انصاب اور بت کہ جن کی پوجا ہوتی تھی ، دوزخ میں پھینکے جائیں گے ، لہٰذا ان کے ساتھ ان کی پوجا کرنے والے بھی دوزخ میں ڈالے جائیں گے ) یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا کوئی موجود نہیں رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے وہ خواہ نیک ہوں یا بد ، تو تمام جہانوں کا پروردگار ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ تم کس کے منتظر ہو؟ ہر طبقہ اس چیز کے پیچھے پیچھے چلا جارہا ہے جس کی وہ عبادت کرتا تھا ( تو تم پھر یہاں کیوں کھڑے ہو ، تم بھی کیوں نہیں چلے جاتے وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہمارے پروردگار ! ہم نے دنیا میں ان لوگوں سے کہ جو دنیا میں غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اب اپنے معبودوں کے پیچھے پیچھے دوزخ میں چلے جائیں گے ) پوری طرح جدائی اختیار کر رکھی تھی حالانکہ ہم ( اپنی دنیاوی ضرورتوں میں ) ان لوگوں ( کی مددواعانت ) کے ضرورت مند تھے لیکن ہم نے کبھی ان کی صحبت وہمنشینی کو گوارا نہیں کیا ( اور نہ کبھی ان کی اتباع کی بلکہ ہمیشہ ان کے مدمقابل رہے اور صرف تیری رضا کی خاطر ان سے جنگ وجدال کرتے رہے ، پس اب جب کہ ہم ان کے کسی طرح سے ضرورت مند بھی نہیں ہیں اور ان سب کی منزل بھی دوزخ ہے ، تو ہم ان کے ساتھ کیسے چلے جاتے ) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں یہاں یوں نقل کیا گیا ہے کہ وہ لوگ ( جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے ۔ یہ کہیں گے کہ ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ہمارا پروردگار ہمارے پاس نہیں آئے گا یعنی جب تک وہ ہم پر اس طرح سے تجلی نہ فرمائے جس کے سبب ہم اس کو پہچان لیں کہ یہی ہمارا پرودگار ہے اور جب ہمارا پروردگار ( اپنی تجلی وصفات کے اظہار کی صورت میں کہ جس کے سبب ہم اس کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں ) ہمارے پاس آئے گا تو ہم اس کو ( اچھی طرح ) پہچان لیں گے اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ کیا تمہارے پروردگار کے درمیان نشانی ہے جس کے ذریعے تم اس کو پہچان لوگے ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں نشانی ہے تب اللہ کی پنڈلی کھولی جائے گی اور اس موقع پر اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سجدہ کی اجازت وتوفیق عطا فرمائے گا جو ( دنیا میں کسی کو دکھانے سنانے اور کسی خوف اور لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے نفس کے تقاضے یعنی اخلاص وعقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا تھا اور ہر وہ شخص کہ ( جو دنیا میں ) کسی خوف سے یا لوگوں کو دکھانے سنانے کے لئے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا تھا اللہ تعالیٰ اس کی کمر کو ایک پورا تختہ بنا دے گا ( یعنی اس کو پیٹھ وکمر کی ہڈیوں کے جوڑ بالکل ختم کر دئیے جائیں گے اور اس کی پوری پیٹھ ایک تختہ بن جائے گی تاکہ وہ جھک نہ سکے اور نہ سجدہ کر سکے ) چنانچہ وہ سجدہ میں جانے کے لئے جھکنا چاہے گا تو چت گر پڑے گا پھر دوزخ کے اوپر ( اس کے بیچوں بیچ ) پل صراط کو رکھا جائے گا اور شفاعت کی اجازت عطا کی جائے گی ، چنانچہ تمام انبیاء علیہم السلام ( اپنی اپنی امتوں کے حق میں طلب استقامت وسلامتی کے لئے ) یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ ! ان کو پل صراط کے اوپر سے ) سلامتی سے گزار دے ، ان کو دوزخ میں گرنے سے محفوظ رکھ ۔ پس مسلمان لوگ ( پل صراط کے اوپر سے اس طرح) سے گزریں گے کہ بعض تو پل جھپکتے ہی گزر جائیں گے ، بعض کو ندے کی طرح نکل جائیں گے ، بعض ہوا کے جھونکے کی مانند بعض پرندوں کی اڑان کی مانند ، گزریں گے پس ان میں سے کچھ مسلمان تو وہ ہونگے جو دوزخ کی آگ سے بالکل سلامتی اور نجات پائے ہونگے ( یعنی پل صراط کے اوپر سے گزرنے کے وقت ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا ) اور کچھ مسلمان وہ ہونگے جو زخم کھا کر نکلیں گے اور ( دوزخ کی آگ سے نجات پالیں گے ، تو قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی شخص ظاہر ثابت شدہ حق کے حصول میں اتنی شدید جدوجہد اور سختی نہیں کرتا جتنی شدید جدوجہد مؤمن قیامت کے دن اپنے ان بھائیوں کی نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں کریں گے جو دوزخ میں ہوں گے وہ مؤمن کہیں گے کہ " ہمارے پروردگار ! یہ لوگ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے ( یعنی ان کی نماز ہماری نمازوں کی طرح ہوتی تھی اور ان کا حج ہمارے ہی حج کی طریقہ سے ہوتا تھا پس تو ان کو بھی دوزخ سے نجات دیدے " ) ان سے کہا جائے گا کہ جاؤ اور جن لوگوں کو تم ( اپنی مذکورہ شہادت کی روشنی میں ) پہچانتے ہو انہیں ( دوزخ ) سے نکال لو ، پس دوزخ کی آگ پر ان کی صورتوں کو حرام کر دیا جائے گا ۔ چنانچہ وہ مؤمن بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لیں گے ۔ پھر کہیں گا کہ ہمارے پروردگار ! جن لوگوں کو تو نے ( دوزخ ) سے نکالنے کا حکم دیا تھا ( یعنی اہل نماز ، اہل زکوۃ اور اہل حج وغیرہ ) ان میں سے اب دوزخ میں کوئی باقی نہیں رہا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا پھر جاؤ اور ہر اس شخص کو بھی دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں تم دینار برابر بھی نیکی پاؤ پس وہ مؤمن ( جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا ، اور اب ہر شخص کو دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں آدھے دینار برابر بھی نیکی پاؤ ، پس وہ مؤمن جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جاؤ اور اب اس شخص کو دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں تم از قسم نیکی ذرہ برابر بھی کوئی چیز پاؤ پس وہ مؤمن جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے اور کہیں گے کہ پروردگار ! ہم نے دوزخ میں بھلائی کو باقی نہیں رہنے دیا ہے ( یعنی دوزخ میں اب ایسا کوئی شخص باقی نہیں بچا ہے جس کے دل میں اصل ایمان کے علاوہ ادنی سے ادنی درجہ کی اور ذرہ برابر بھی بلکہ ذرہ سے کمتر کوئی نیکی ہو خواہ اس نیکی کا تعلق اعمال سے ہو یا افعال قلب سے ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فرشتوں نے شفاعت کرلی اور پیغمبروں نے بھی شفاعت کرلی ) اور مؤمنوں نے بھی شفاعت کرلی ) اور ان سب کے شفاعت کا تعلق ان لوگوں سے تھا جن کا نامہ اعمال میں کوئی نہ کوئی نیکی ضرور تھی خواہ وہ نیکی ذرہ کے برابر یا اس سے کمتر درجہ ہی کیوں نہ ہو اور اس طرح ، اب کوئی ایسی کوئی ذات باقی نہیں رہ گئی ہے ( جو خود بھلائی پہنچانے یا بھلائی پہنچانے والے سے سفارش وشفاعت کے ذریعہ کسی کے ساتھ رحم ومروت اور عنایت وہمدردری کا معاملہ کرے لیکن ابھی ارحم الراحمین کی ذات باقی ہے ( جس کی رحمت جس کا کرم اور جس کی عنایت ہر ایک پر سایہ فگن ہے اور اس کی رحمت وعنایت کے اثرات کے مقابلہ ہر ایک کی رحمت وعنایت ہیچ ہے اور ( یہ فرما کر ) اللہ تعالیٰ دوزخ میں سے اپنی مٹھی بھر کر ( ان ) لوگوں کو نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھی کوئی ( چھوٹی یا بڑی ) نیکی کی ہی نہیں ہوگی ، یہ لوگ دوزخ میں ( جلتے رہنے کی وجہ سے ) کوئلہ بن چکے ہوں گے ، چنانچہ ان کو اس نہر میں ڈالے گا جو جنت کے دروازوں کے سامنے ہے اور جس کو " نہر حیات " کہا جائے گا ، اور پھر یہ لوگ اس نہر سے اس طرح تروتازہ نکلیں گے جیسے دانہ سیلاب کے کوڑے کچرے میں اگتا ہے ( یعنی جس طرح سیلابی کوڑے کچرے میں پڑا ہوا دانہ بہت جلد اگ آتا ہے اور خوب ہرا بھرا معلوم ہوتا ہے ، اس طرح یہ لوگ بھی اس نہر میں غوطہ دلائے جانے کے بعد نہایت تیزی کے ساتھ بہتر جسمانی حالت میں واپس آجائیں گے اور خوب تروتازہ اور توانا معلوم ہوں گے ) نیز یہ لوگ ( اس نہر سے ) موتی کی مانند پاک و شفاف باہر آئیں گے ان کی گردنوں میں مہریں لٹکی ہوئی ہوں گی چنانچہ ( جب اہل جنت ان لوگوں کو ( ان کی امتیازی علامتوں کے ساتھ ) دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ وہ ( خوش نصیب ) لوگ ہیں جو خدائے رحمان کے آزاد کئے ہوئے ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ نے ( اپنے خاص فضل وکرم کے تحت ، اس امر کے باوجود جنت میں داخل کیا ہے کہ انہوں نے ( دنیا میں ) کوئی نیک عمل کیا تھا اور نہ انہوں نے (کم سے کم افعال قلب ہی کی صورت میں ، کوئی نیکی کرکے آگے بھیجی تھی اور پھر ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) ان نو آزاد لوگوں سے کہا جائے گا کہ ) بلکہ جنت میں تم جو کچھ دیکھ رہے ہو ( یعنی تمہاری حد نظر تک تمہیں جو اعلی سے اعلی نعمتیں نظر آرہی ہے ) نہ صرف یہ بلکہ ان ہی جیسی اور بہت سی نعمتیں بھی ، سب تمہارے لئے ہیں ۔ " ( بخاری)۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
یہ سب بخاری یا مسلم کی صحیح احادیث ہیں ۔
 
Top