• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِنفاق فی سبیل اﷲ

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
(قرآن اور تربیت نفس)

اِنفاق فی سبیل اﷲ
(م۔ زکریا زکی)

اِنفاق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ”خرچ کرنا“ اور اِنفاق فی سبیل اﷲ کا مطلب ہے ”اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا“۔ اِنفاق کو دوسرے لفظوں میں صدقات وخیرات بھی کہتے ہیں۔ قرآن نے اِس عنوان کو کثرت سے بیان کیا ہے اور اِسے اِنسان کی تربیت، اِصلاح اور تزکیہ کا اہم ترین عُنصر قرار دیا ہے۔
اِنفاق فی سبیل اﷲ کا مفہوم:
ہم جب اِنفاق فی سبیل اﷲ کا لفظ بولتے ہیں تو اِس سے مُراد فقط وُہ مال مراد ہوتا ہے جو اﷲ کی رضا اور خوشنودی کیلئے خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ وُہ مال ہوتا ہے جو اﷲ کی محبت اور اُس کا تقرب حاصل کرنے کیلئے نکالا جاتا ہے۔ اِس سے مُراد رفاہی اور فلاحی اداروں کے وُہ عطیات نہیں جو فقط نمود ونمائش کیلئے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اﷲ کے ہاں صرف اُن عطیات کا مَول لگے گا جو فی سبیل اﷲ ہوں یعنی فقط اﷲ کی رضا اور محبت کو حاصل کرنے کیلئے ہوں۔ (کینسر ہسپتال کیلئے فلم ”لگان“ کا کرکٹ بیٹ پینسٹھ لاکھ میں خریدا جائے اورکینسر ہسپتال میں عطیہ دیا جائے، فلمی اداکاراؤں کے ڈانس شوز سے حاصل شدہ آمدنی خیراتی اداروں اور مصیبت زدگان میں تقسیم کی جائے۔ اِنفاق فی سبیل اﷲ کے زمرے میں نہیں آتا)۔ اِنفاق فی سبیل اﷲ سے مُراد وہ روپیہ، ٹکا ہے جو ایک مومن آخرت اور اﷲ کیلئے اپنی حلال اور پاکیزہ کمائی سے خرچ کرتا ہے اور اُس کے دِل میں غریبوں کیلئے اور دین کی نشر واشاعت کیلئے جذبوں کا ایک سمندر ہوتا ہے، نہ کسی پر اِحسان کرنا مقصد ہے اور نہ نام آوری اور شہرت کی طلب۔
اِنفاق فی سبیل اﷲ صرف خطیر رقم خرچ کرنے کا ہی نام نہیں۔ اِنفاق تو درحقیقت اﷲ تعالیٰ سے اپنے ذاتی اور قلبی جذبے کا نام ہے۔ اﷲ کو اُس غریب کے چند روپے بہت عزیز ہیں جو دِل میں اﷲ کی چاہتوں کو چھپائے پھرتا ہے۔ روپے تھوڑے ہیں لیکن وہ دِل کی کیفیت اﷲ کو بے حد عزیز ہے جو اِنسان کو مجبور کر رہی ہے کہ اپنی ضروریات کو ایک طرف رکھ کر چند پیسے اﷲ کے حضور پیش کرے۔
اِنفاق فی سبیل اﷲ بے ہنگم اور بے قید سخاوت کا نام نہیں۔ اِنفاق فی سبیل اﷲ کرنے والا ایک منظم سوچ اور مرتب لائحہ عمل کا مالک ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں جو شخص جتنا بھی امیر ہو لیکن اخراجات کو صحیح، شرعی طور پر منظم نہ کرے گا تو اِنفاق اور صدقات کیلئے کچھ نہ بچے گا۔ باشعور مومن ہو سکتا ہے کہ کچھ پہلوؤں سے بظاہر کنجوس، بخیل اور روپے پیسے کو خرچ کرنے میں قدرے محتاط ہو۔اس طرح وہ دراصل رقم بچا کر اُسے اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا متمنی ہوتا ہے۔
اِنفاق فی سبیل اﷲ میں مال ودولت اﷲ ہی کو نہیں دینی ہوتی بلکہ اﷲ تعالیٰ کے نام پر فقرائ، مساکین اور دینی اُمور پر خرچ کرنی ہوتی ہے۔ چنانچہ اِنفاق فی سبیل اﷲ، جہاں اﷲ کی محبت اور رضاءجوئی کا نام ہے وہاں وُہ تنگ دستوں اور لاچاروں کے ساتھ محبت اور دین کی گہری محبت کا نام بھی ہے۔ اِنفاق کے بے شمار مصارف ہیں لیکن اُن سب مصارف کا خلاصہ صرف دو ہی جذبے ہیں۔ (1) سسکتی ہوئی اِنسانیت سے، مسلمانوں سے شدید قسم کی محبت اور شفقت اور (2) دِین کے احیاءوغلبہ کی جدوجہد کے لئے ذرائع فراہم کرنا۔
اِنفاق فی سبیل اﷲ چند بُنیادی اور اہم ترین اخلاقی تربیت کے مراحل سے گزرنے کے بعد معتبر اور ممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ اِنفاق کرنے والا کبھی بھی حرام کھانے کا رسیا نہیں ہو سکتا اور حرام روزی کا رسیا کبھی اِنفاق فی سبیل اﷲ نہیں کر سکتا۔ حلال روزی اور اِنفاق لازم وملزم ہیں۔ اِسی طرح یہ کیسے ممکن ہے کہ اِنفاق کے ذریعے اﷲ کی خوشنودی تلاش کرنے والا، اﷲ سے محبت کا بھی طلب گار ہو اور غریب لوگوں پر صدقہ کرکے اِحسان بھی جتلائے۔ اِنفاق وُہی فی سبیل اﷲ ہوگا جو حلال روزی سے نکالا گیا ہو، عمدہ اور بہترین اخلاق کے ساتھ ہو، خرچ کرنے والا اعلیٰ و ارفع اخلاق کا مالک ہو، اﷲ کی رضا جوئی کی تڑپ اور آخرت کی طلب کے ساتھ ہو اور مسلمانوں سے محبت اور احیائے دین کا جذبہ ہو۔
اِس ساری گفتگو سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اِنفاق فی سبیل اﷲ کی چار شرطیں ہیں اُن میں سے ایک شرط بھی ساقط ہوئی تو وُہ اِنفاق فی سبیل اﷲ نہ ہوگا اور نہ ہی اﷲ کے ہاں قابل قبول ہوگا۔
ا) اِنفاق کی سب سے پہلی اور اہم ترین شرط یہ ہے کہ وہ فقط اﷲ کی رضا اور آخرت کی طلب کیلئے ہو اور یہ صرف اِنفاق کی ہی شرط نہیں بلکہ ہر عبادت کی شرط ہے کہ عبادت فقط اﷲ کیلئے ہو۔ نہ دُنیوی شہرت، نمود ونمائش مقصد ہو اور نہ کوئی دوسری دُنیوی غرض ہو۔
وما امروا الا لیعبدوا اﷲ مخلصین لہ الدین (البینہ۔٥)
”اور اُن کو نہیں حکم دیا گیا مگر یہ کہ وُہ خالص اﷲ کیلئے دین کو اختیار کرتے ہوئے عبادت کریں“۔

”اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے کسی سطح مرتفع پرا یک باغ ہو۔ اگر زور کی بارش ہو جائے تو دوگنا پھل لائے اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اس کے لئے کافی ہو جائے۔ تم جو کچھ کرتے ہو سب اﷲ کی نظر میں ہے“۔
ب) اِنفاق کی دوسری شرط یہ ہے کہ وہ حلال مال سے ہو۔ حرام مال کا دیا ہوا صدقہ اﷲ قبول نہیں فرماتے:
یاایھا الذین آمنوا انفقوا من طیبات ما کسبتم (بقرہ: ٢٦٧)
”اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو“۔
ولا یقبل اﷲ الا الطیب (مشکوت۔ کتاب الزکوٰت۔ باب فضل الصدقہ) حدیث نمبر ١٨٨٨ متفق علیہ
”اور اﷲ تعالیٰ صرف پاکیزہ و حلال چیز کو ہی قبول کرتا ہے“۔
ج) اِنفاق وہی قابل قبول ہوتا ہے جو بلند اخلاق کے ساتھ ہو۔ صدقہ کرے تو انتہائی تواضع اور عاجزی سے جھک جائے ایسا نہ ہو کہ اِحسان جتلانے، ذہنی اذیت دینے سے بجائے ثواب کے اﷲ کی ناراضی کا مستحق ہو۔ اﷲ تعالیٰ نے اِحسان جتلانے والے صدقے کی حیثیت کو بڑے واشگاف لفظوں میں بیان کیا ہے۔
”اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو“۔
د) اِنفاق کی آخری شرط یہ ہے کہ اِنفاق مستحقین کو دے جو شخص جان بوجھ کر اپنا صدقہ کسی غیر مستحق کو دیتا ہے وہ اپنا صدقہ ضائع کر دیتا ہے۔ صدقہ اﷲ کی رضا کیلئے ہوتا ہے چنانچہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خرچ ہو۔ اپنے ذاتی اغراض کے لئے جانب داری سے کام لیتے ہوئے غیر مستحق کو نوازنا صدقہ کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ صدقہ کا ایک ضمنی محرک انسانیت کی غمگساری اور احیاءدِین ہے۔ چنانچہ یہی محرک ہی نظروں کے سامنے رہے۔ جلد بازی، غفلت، غیر ذمہ داری سے اِنفاق جیسا عظیم عمل خاک میں مل جائے گا۔ ہمارے ہاں صدقہ کرنے والوں کی روش ہے کہ جو پہلے آئے یا زیادہ زور آور ہو وہ صدقہ لے جاتا ہے چاہے وہ مستحق ہو یا نہ ہو۔ قرآن نے صدقات کے مستحقین کی فہرست بتلائی ہے:
”صدقے صرف فقیروں کیلئے ہیں اور مسکینوں کیلئے اور اُن کے وصول کرنے (عاملین) کیلئے اور اُن کیلئے جن کے دلوں کی تسلی مقصود ہے اور گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کیلئے اور اﷲ کی راہ میں اور راہ رَو مسافروں کیلئے“۔
ایمان کے بعد نماز اور اِنفاق دو اولین عملی نتیجے ہیں
اﷲ پر ایمان لانے کے بعد اِنسان کی ذہنی شخصیت میں ایک گہرا انقلاب ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً وہ مشکل ترین حالات میں بھی اﷲ پر توکل اور بھروسے کا دامن نہیں چھوڑتا، خوشیوں کی گھڑیوں میں اﷲ کی نعمتوں پر شکریہ بجا لاتا ہے، غم اور افسردگی کی حالت میں اﷲ کی طرف واپسی کے منظر کو سوچتا ہے اور آخرت کے عیش کوہی اصل عیش تصور کرتا ہے۔ یہ توکل، صبر وشکر، زہد وقناعت ایمان کے تنے سے ہی پھوٹتے ہیںا ور اِسی زہد وتوکل سے، صبر وشکر سے، امید وخوف الٰہی سے انسان کی دو عظیم ترین خوبیاں ظاہر ہوتی ہیں جن کے مدمقابل دُنیا کی کوئی خوبی نہیں۔ یہی دو عظیم ترین خوبیاں ہیں جو اِنسانی اخلاق کا عروج اور بلند ترین معیار ہے۔ کوئی بھی مذہبی شخصیت، اﷲ کو ماننے والی ہستی اِن دو اخلاقی خوبیوں سے علیحدہ نہیں ہو سکتی۔ اِنسان کی تمام دُنیوی، نفسیاتی، معاشرتی، معاشی، روحانی تربیت کی بنیاد انہی دو اخلاقی خوبیوں کی مرہون منت ہے۔ یہ دو خوبیاں ایمان کے بعد اولین دو نتیجے ہیں جو انسان کی عملی زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں۔
یہ اولین نتیجے (١) نماز اور (٢) اِنفاق فی سبیل اﷲ ہیں۔
قرآن میں بے شمار مقامات پر کامیابی کو صرف ان لوگوں کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جن میں کم از کم تین خوبیاں ہوں۔ یعنی ایمان، نماز اور اِنفاق فی سبیل اﷲ۔
چنانچہ سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
”جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اُس پر جو آپ پر اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں“۔
اِس آیت میں ایمان کی انواع واقسام بتلانے کے علاوہ صرف دو ہی اہم ترین خوبیاں اور اولین عملی مظاہر بیان کئے گئے ہیں جن پر اِنسان کی دُنیوی واخروی کامیابی کا انحصار ہے اور وُہ اولین عمل نماز اور اِنفاق ہے۔
کوئی بھی مومن خواہ وہ سیاستدان ہو یا ان تھک بے مثال مجاہد، اُمت کا دردمند داعی ہو یا سیدھا سادہ محنتی کارکن، دکاندار ہو یا کسان۔ اِن دو عظیم عبادتوں سے بے نیاز نہیں رَہ سکتا۔ یہی دو عمل ہیں جنہیں صحیح طور پر سمجھے اور عمل کیے بغیر ہم مکمل اِسلامی شخصیت کے حامل نہیں بن سکتے۔ نماز کے ذریعے ہماری رُوحانی قوتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ اور اِنفاق کے ذریعے ہمارا دُنیوی انہماک ٹوٹتا ہے، مال کی محبت کم ہوتی ہے، آخرت کی سوچ پیدا ہوتی ہے، اِنسانی ہمدردی وغم خواری کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، ضبط نفس اور جفاکشی کی ذہنیت مستحکم ہوتی ہے، مال کا صحیح تصور دِل میں جگہ پکڑتا ہے اور ہماری ساری معاشی ومعاشرتی زندگی اپنے تمام عناصر واجزاءکے ساتھ اپنی اصل جگہ پر قرار پکڑتی ہے۔
قرآن میں بے شمار مقامات پر نماز اور اِنفاق کا متصل ذکر ہے۔ حتی کہ یہ دونوں خوبیاں اخلاقی معراج کی قرینین (دو ساتھی) کہلاتی ہیں اِنفاق میں سے زکوٰت مالداروں پر فرض ہے لیکن مطلق انفاق ہر امیر وغریب مومن کی خوبی ہونی چاہیئے۔ یہ صرف امیروں کے ساتھ خاص نہیں۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار لوگ ہیں جو نماز اور اِنفاق کے نظام کو سمجھنا تو دور رہا، نماز و اِنفاق کو ادا بھی نہیں کرتے۔ نماز اور زکوٰت فرض ہیں، اسلام کے دو اولین عملی رُکن ہیں، ان کی فرضیت میں شک وشبہے کی کوئی گنجائش نہیں لیکن کتنی ہی بستیاں، دیہات اور محلے ہیں جہاں فجر کی اذان پر کوئی ایک فرد بھی نہیں جاگتا، کتنی ہی جگہیں ایسی ہیں جہاں فجر کی نماز میں ایک جامع مسجد کے اندر فقط دو چار نمازی ہوتے ہیں، کتنے ہی علاقے ہیں جہاں اذانیں گونجتی ہیں لیکن اﷲ کو ماننے والے اپنے گھروں کو چھوڑتے ہوئے، گلیوں میں ہجوم کرتے ہوئے، مساجد کی طرف نہیں لپکتے۔ اور کتنی ہی اسلامی تحریکیں ہیں جواپنے کارکنان کی تربیت نمازاور اِنفاق کی بنیاد پر نہیں کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں رات گئے تک کانفرنسیں ہوتی ہیں لیکن فجر کی نماز رَہ جاتی ہے۔ تبلیغی جلسے اور علمی سیمینار ہوتے ہیں لیکن نماز کا اہتمام، اولین حیثیت کا حامل نہیں ہوتا۔ قرآن میں جگہ جگہ نماز اور اِنفاق کو کامیابی اور اصلاح نفس کا اولین عنوان بنایا ہے۔
”عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔ وہ ایسے ہیں کہ جب اﷲ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل تھرا جاتے ہیں، انہیں جو برائی و تکلیف پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں۔ نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں“۔
”میرے ایمان دار بندوں سے کہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے اُنہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وُہ دِن آجائے جس میں نہ خرید وفروخت ہوگی نہ دوستی ومحبت“۔
نماز وانفاق کا حکم بنی اسرائیل کو بھی دیا گیا تھا:
”اور نماز قائم کرو اور زکوٰت دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو“۔
اور یہی حکم مسلمانوں کو بھی دیا گیا:
”اور تم نمازیں قائم کرو اور زکوٰت دیتے رہا کرو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے سب کچھ اﷲ کے پاس پالو گے۔ بے شک اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے“۔
مسلمانوں کی دوستی اور محبت کیلئے کم از کم مطلوب شرط یہ ہے کہ مومن نماز وزکوٰت کا پابند ہو۔
سورہ توبہ میں بار بار یہ باور کرایا گیا ہے کہ دشمنان اسلام جب تک توبہ کرکے نماز اور زکوٰت کے پابند نہ ہو جائیں وُہ تمہارے دینی بھائی نہیں ہو سکتے اور نہ ہی تمہاری اُن کے ساتھ مخاصمت ختم ہو سکتی ہے۔
”اگر وُہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰت ادا کریں تو اُن کا راستہ چھوڑ دو“۔
”اگر وُہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰت ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں“۔
مومن ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اﷲ ورسول کی اطاعت کرتا ہے لیکن مومنین کی اطاعت کا جب بھی ذکر آیا ہے توخاص طور پر نماز اور زکوٰت کا ذکر ضرور آیا ہے یعنی اطاعت کے سب اُمور ایک طرف لیکن نماز واِنفاق کے برابر کوئی چیز نہیں۔
”اور (وُہ مومن خاص طور پر) نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰت ادا کرتے ہیں اور (عام طور پر وُہ ہر کام میں) اﷲ ورسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی ہیں جن پر اﷲ رحم کرے گا۔ بے شک اﷲ غالب اور حکمت والا ہے“۔
بدنی اورمالی عبادت کی اہمیت اس بات سے معلوم ہو سکتی ہے کہ انبیاءعلیہم السلام کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
”اور ہم نے اُن (ابراہیم اور اُن کی اولاد) کو پیشوا بنایا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہبری کریں اور نمازوں کے قائم رکھنے اور زکوٰت دینے کی وحی (تلقین) کی اور وہ سب کے سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے“۔
مومنین کی ریاست جہاں انسانی فلاح کے سب امور سرانجام دیتی ہے وہاں مومنین کیلئے نماز وزکوٰت کا قیام ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔
”(مومنین) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰت دیں اور اچھے کاموں کا حکم دیںاور بُرے کاموں سے منع کریںاور واقعہ یہ ہے کہ تمام کاموں کا انجام اﷲ کے اختیار میں ہے“۔
اﷲ کے راستے میں اِنفاق کیوں کیا جائے؟ (اِنفاق کی فکری بنیادیں)
اﷲ کے راستے میں اِنفاق کیوں کیا جائے؟ اِس سوال کا جواب قرآن نے تین حقیقتوں کے ساتھ جوڑا ہے۔ جو شخص اِن تین حقیقتوں کو سامنے رکھتا ہے وہی شخص ہی اِنفاق کی ہمت اور استطاعت رکھتا ہے اور جو شخص اِن حقیقتوں کو سامنے نہ رکھے گا اُس کی مٹھی کبھی بھی اِنفاق فی سبیل اﷲ کیلئے نہ کھل سکے گی۔ وُہ حقیقتیں درج ذیل ہیں۔ جن پر ہم یکے بعد دیگرے گفتگو کریں گے۔
١) اﷲ تعالیٰ ہی مال عطا کرنے والا ہے:
یہ پہلی حقیقت ہے جو پیش نظر رہے تو اِنسان کا دِل مائل ہوتا ہے کہ وُہ اﷲ کی راہ میں صدقات وخیرات کرے۔ مال بھی اﷲ دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اِنسان کی امارت عسرت، عزت ذلت، فتح وشکست، صحت وبیماری، خوش بختی وبدبختی، ہر چیز ہی اﷲ کے اختیار میں ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے واضح لفظوں میں جتلایا ہے کہ اُس مال میں سے خرچ کرو جو ہم نے ہی عطا کیا ہے۔ گویا مال عطا کرنے والا بھی وُہی ہے اور اِنفاق کا مطالبہ بھی وُہی کر رہا ہے۔
ومما رزقناھم ینفقون (بقرہ۔ ٣)
”(اور وُہ متقین) ہمارے عطا کیے ہوئے رزق سے اِنفاق کرتے ہیں“۔
وانفقوا مما رزقناھم (الرعد۔ ٢٢)
”اور وُہ خرچ کرتے ہیں جو ہم نے اُن کو رزق عطا کیا“۔
وانفقوا مما رزقناکم (منافقون۔ ١٠)
”اور صدقہ وخیرات کرو اس مال میں سے جو ہم نے تم کو عطا کیا“۔
اور کتنے کھلے لفظوں میں اﷲ تعالیٰ نے اِنفاق کو اِس حقیقت کے ساتھ جوڑا ہے کہ اﷲ ہی تمام آسانوں اور زمینوں کا مالک ہے تو اُس کی راہ میں صدقہ کیوں نہ کیا جائے؟
”اور تم اﷲ کی راہ میں اِنفاق کیوں نہیں کرتے حالانکہ زمین آسمان کی ساری وراثت کا مالک اﷲ تعالیٰ اکیلا ہی ہے“۔
٢) حقیقت خلق اور حقیقت معاد:
یہ دوسری حقیقت ہے جو اِنسان کی نظروں کے سامنے رہے تو اِنسان ہر نیکی کیلئے مائل ہوتا ہے اور صدقات وخیرات بھی کشادہ دِلی سے کرتا ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ اﷲ ہی ہر انسان کا خالق ہے۔ آدم علیہ السلام ہوں یا کوئی عامی۔ ہر شخص اﷲ کی تخلیق اور اس کی مرضی سے دُنیا میں آیا ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی بندگی اور عبادت کیلئے بھی یہی دلیل دی ہے۔
”اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے تمام لوگوںکو پیدا کیا یہی (بندگی ہی) تمہارے بچ جانے کی ضمانت ہے“۔
ایک جگہ پر اﷲ اپنی عظمت کا اقرار، اپنی تخلیق کی قوت سے کراتے ہیں:
”تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اﷲ کی برتری کا عقیدہ نہیں رکھتے حالانکہ اس نے تمہیں تخلیق کے کئی مراحل سے گزار کر پیدا کیا ہے“۔
جہاں اﷲ نے ہمیں پیدا کیا ہے وہاں اس کی طرف سب انسانوں کو لوٹنا بھی ہے۔اﷲ کی طرف لوٹنے کا یہ نظریہ ہی مومن کے تمام اخلاق وکردار کی جڑ ہے اور اﷲ نے بار بار عقیدہ آخرت کی طرف مختصر الفاظ کے ذریعے انسان کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ تاکہ اس یقینی امر کے لئے ہر بار دلیل دینے کی ضرورت نہ رہے اور بندہ مختصر الفاظ سے ہی آخرت کی تیاری کے لئے مستعد ہو جائے۔
اور اسلوبِ حصر کے ذریعے یہ حقیقت بھی بار بار ذہن نشین کرائی کہ لوٹنا بھی ضرور ہے اور لوٹنا بھی فقط اﷲ کی طرف ہے۔ براہ راست اﷲ کے ساتھ معاملہ ہے صرف اُسی کے سامنے پیشی ہے۔ نہ عیسیٰ علیہ السلام کسی عیسائی کو چھڑا سکیں گے نہ محمد کسی امتی کوچھڑا سکیںگے ہر شخص اﷲ کے سامنے اکیلا حاضر ہوگا۔
چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے جہاں انسان کی پیدائش کا ذکر کیا ہے وہاں ساتھ ہی انسان کی موت کی بھی خبردی ہے۔
واﷲ خلقکم ثم یتوفاکم (نحل۔ ٧٠)
”اور دیکھو اﷲ نے تم کو پیدا کیا اور پھر وہ تم کو موت دیتا ہے“۔
اﷲ الذی خلقکم
”اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا“
ثم رزقکم
پھر روزی دی
ثم یمیتکم
پھر تمہیں مار ڈالے گا
ثم یحییکم (روم۔ ٤٠)
”پھر وہ تمہیں زندہ کریگا“۔
اﷲ کی طرف لوٹنا یقینی ہے:

”اور اس دِن سے ڈرو جب تم اﷲ کی طرف لوٹائے جائو گے پھر ہر جان نے جو عمل کیے ہونگے اُس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اُن پر ظلم نہ کیا جائے گا“۔
”یاد رکھو کہ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اﷲ ہی کی ملک ہیں یاد رکھو اﷲ کا وعدہ (کہ تمہیں اپنے پاس جمع کریگا) سچا ہے مگر اکثر انسان جانتے نہیں ہیں۔ وہی جان ڈالتا ہے وہی جان نکالتا ہے اور تم سب صرف اُسی کے پاس لائے جاؤ گے“۔
ایک جگہ پر اﷲ نے فرمایا:
”کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بے کار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے۔ اﷲ تعالیٰ سچا بادشاہ ہے جو (اس قسم کی بے مقصد حرکتوں سے) بلند ہے۔ اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں وہی بزرگ عرش کا مالک ہے“۔
قرآن میں جگہ جگہ اﷲ تعالیٰ نے آخرت کا خوف دِلا کر قیامت کا احساس دِلا کر اِنفاق کی ترعیب دی ہے۔
”اے ایمان والو! ہم نے تمہیں جو کچھ دے رکھا ہے، اُسی میں سے خرچ کرو۔ اُس دِن کے آنے سے پہلے جب نہ کوئی خرید وفروخت ہوگی اور نہ دوستی اور نہ سفارش اور کافر ہی ظالم ہیں“۔
اور جو لوگ اﷲ کے راستے میں صدقہ خیرات نہیں کرتے۔ اُن کیلئے آخرت میں بدترین انجام کی وعید سنائی گئی ہے۔


”جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں بخل کی روش کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کیلئے نہایت بدتر ہے جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ آسمان اور زمین کی میراث اﷲ تعالیٰ ہی کیلئے ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اﷲ تعالیٰ آگاہ ہے“۔
”وہ لوگ جو سونا، چاندی جمع کرتے ہیں اور اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے پس اُن کو دردناک عذاب کی خوشبری سنا دیجیے۔ جس دِن اُن پر اِس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اُسی سے اُن کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اُن سے کہا جائیگا) پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو“۔
اور اِنفاق کی کم از کم مقدار جو فرض ہے وہ زکوٰت ہے جس کا نصاب، شرائط اور واجب مقداروں کی تفصیلات مشہور ہیں۔
٣) انسان کا حقیقی مال اور ذخیرہ وُہ نیکیاں ہیں جو پائیدار اور ہمیشہ رہنے والی ہیں
تیسری حقیقت کے جس کے ادراک سے انسان خوشی خوشی خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ یہ تصور ہے کہ آخرت پر ایمان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مومن آخرت کے فائدے کو کبھی بھی دُنیا کی خاطر نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اِسی طرح مومن دُنیا کی خواہش اور طلب میں اِس قدر منہمک نہیں ہو سکتا کہ اﷲ تعالیٰ کو یکسر فراموش کردے۔ یا دُنیا کو آخرت پر ترجیح دے۔
اﷲ تعالیٰ نے مال کو نجس، پلید اور منحوس قرار نہیں دیا جیسا کہ دیگر مذاہب میں مال ودولت کو یکسر بُرائی قرار دیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ مال کو ”خیر“ اور ”فضل اﷲ“ قرار دیتے ہیں اور اِس میں مال کی بُرائی نہیں۔ اسلام میں مال کو اﷲ تعالیٰ کی قربت، خوش نودی کا ذریعہ قرار دیا گیاہے۔ مال بذاتِ خود بُرا نہیں یہ تو بہت بڑا ہتھیار ہے اﷲ کی محبت اور رضا کے حصول کا، انسانیت کی ہمدردی اور دِین کی خدمت کرنے کا ایک گراں قیمت ذریعہ۔
مال اُس وقت انتہائی مذموم قرار پاتا ہے جب وہ اِنسان کا مقصد حیات، نصب العین اور سب سے بڑا معیار قرار پائے۔ یہ درحقیقت مال کی پوجا ہے اور اِنسان مال کا پجاری۔ ایسی صورتحال میں اﷲ تعالیٰ یاد دہانی فرماتے ہیں کہ مال کمانا، مال سمیٹنا اور مال میں ہی ساری ساعتیں خرچ کرنا کوئی محمود کام نہیں۔ مال تو فنا ہونے والا ہے اصل پائیدار اور مضبوط چیز وُہ نیکیاں ہیں جو آخرت میں کام آئیں گی۔ اِنسان کا حقیقی ذخیرہ اور بنک بیلنس وُہ مال ہے جو اﷲ تعالیٰ کے اکاؤنٹ میں جمع ہو گیا۔ اب ہر ہر بندہ دیکھ سکتا ہے کہ وُہ حقیقی طور پر آخرت میں کتنا مال جمع کر رہا ہے کس قدر امیر ہے اور کس قدر دُنیا میں کھپا رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نیکیوں کی پائیداری اِس طرح بیان فرماتے ہیں:
المال والبنون زینہ الحیات الدنیا والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثواباً وخیر املاً (کہف۔ ٧٦)
”مال اور اولاد تو دُنیا کی زندگی کی (عارضی) زینت ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں بدلے کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں اور توقع کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں“۔
”جان لو کہ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لئے امتحان کی چیز ہیں۔ اور اِس بات کو بھی جان رکھو کہ اﷲ کے ہاں بہت بھاری اجر ہے“۔
”اے ایمان والو تمہیں تمہارے مال، اولاد اﷲ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔ اور جو ایسا کریگا پس یہی لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں“۔
وما اُوتیتم من شییءفمتاع الحیوت الدنیا وزینتھا وما عنداﷲ خیراً وابقی افلا تعقلون۔
”جو تمہیں دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی مال۔ یہ تو فقط دُنیا کی زندگی کا سامان اور اُس کی زینت ہے۔ اور جو اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہے وہ زیادہ بہتر ہے اور زیادہ پائیدار ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں؟“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا لنک
 
Top