• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آئی ایس اٗٓئی ایس کے اصل اہداف کے بارے میں برطانوی سفارتکار کے حیران کن انکشافات

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
آئی ایس اٗٓئی ایس کے اصل اہداف کے بارے میں برطانوی سفارتکار کے حیران کن انکشافات​
بیروت (مانیٹرنگ ڈیسک) شام اور عراق میں دولتہ اسلامی عراق و شام (آئی ایس آئی ایس) کے ظہور کے بعد نہ صرف یہ دو ممالک اس کی یلغار کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں بلکہ سارا مشرق وسطیٰ لرز رہا ہے۔

اگرچہ اس تنظیم کی دہشت کے نمایاں پہلو طاقت اور تشدد کا خوفناک استعمال، سخت مذہبی فلسفہ اور مخالفین کی سرعام گردنیں کاٹنا ہیں لیکن مغربی میڈیا میں سعودی دانشور فواد ابراہیم کی تحقیقات پر مبنی انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کا اصل ہدف اس کی موجودہ یلغار سے کہیں زیادہ لرزہ خیز ہے۔

مشہور مصنف الیسٹر کروک کے ”دی ورلڈ پوسٹ“ میں شائع ہونے والے مضمون میں فواد ابراہیم کی تحقیق کی روشنی میں آئی ایس آئی ایس کی بنیاد، ارتقاء اور مستقبل کے عزائم سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے۔

اس تحریر کے مطابق آئی ایس آئی ایس کی بنیاد اس فلسفہ پر ہے جو اٹھارہویں صدی میں اسلام کے ایک بڑے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھنے والے عالم دین نے پیش کیا اور جسے موجودہ سعودی ریاست کے بانی ابن سعود نے سیاسی طاقت سے عملی جامہ پہنایا۔ آئی ایس آئی ایس کا بنیادی مقصد اسی فلسفہ کی خالص حالت کا احیاء اور آلِ سعود کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ آئی ایس آئی ایس کو عرب دنیا کا مطلق العنان مقتدر قوت بنانا ہے۔

اگرچہ موجودہ سعودی ریاست اور سیاست کا فکری اور عملی ڈھانچہ اٹھارہویں صدی میں نجد سے اٹھنے والی تحریک کے فلسفہ پر رکھا گیا لیکن بیسویں صدی کے آغاز میں سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جب مملکت عرب پر آلِ سعود کا اقتدار مکمل طور پر چھا گیا تو مغربی دنیا کے ساتھ قریبی تعاون اور دیگر سیاسی وجوہ کی بناء پر جدید انداز فکر اور نئی مذہبی و سیاسی سوچ نے بھی اپنی جگہ بنا لی۔

آئی ایس آئی ایس نے اس تبدیلی فکر کو بنیاد بنا کر سعودی عرب میں بالخصوص اور مشرق وسطی میں بالعموم خالص مذہبی فلسفے کے احیاء کا علم بلند کر دیا ہے۔ سعودی ریاست میں بھی اس تحریک سے ہمدردی رکھنے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں کی قابل ذکر تعداد موجود ہے اور اس تنظیم کے انتظامی اور آپریشنل ڈھانچے میں بھی سعودی شہریوں کی نمایاں تعداد موجود ہے۔

آئی ایس آئی ایس کی طرف سے شام اور عراق کے بعد سعودی عرب کی طرف بڑھنے کا عندیہ بھی دیا جا چکا ہے اور یہ دعویٰ بھی سامنے آ چکا ہے کہ مملکت میں اس تنظیم کے خفیہ مراکز اور اہلکار سرگرم ہیں اور مستقبل کی یلغار کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔

جدید سعودی عرب اور مغرب کے ساتھ اس کے روابط کو ماضی کے خالص سعودی فلسفہ اور نظام حیات سے انحراف قرار دیا جا رہا ہے اور اس کی اصلاح کیلئے آلِ سعود کے اقتدار کے خاتمہ کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔

عراق و شام میں نمایاں کامیابیوں اور بعض سعودی حلقوں میں موجود حمایت کے پیش نظر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئی ایس آئی ایس عرب دنیا پر آلِ سعود کے بھرپور اثرورسوخ کیلئے ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آ گئی ہے۔

اگرچہ سعودی ریاست نے اس خطرے کے خلاف سخت ترین اقدامات کا آغاز کر دیا ہے اور اس سلسلہ میں برطانیہ اور امریکہ بھی میدان میں آ چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس تنظیم کیلئے فکری حمایت کی موجودگی میں اسے روکنے کے اقدامات کس حد تک کامیاب ہو سکیں گے۔

مستقبل کی عرب دنیا کا نقشہ کیا ہو گا؟ یہ تو ابھی واضح نہیں ہے لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ آئی ایس آئی ایس سرزمین حجاز پہنچ کر نئے امیر عرب کا منصب سنبھالنے کیلئے پیش قدمی کر چکی ہے۔

04 ستمبر 2014 (20:13)
 
Top