محمد سعود مقصود
مبتدی
- شمولیت
- مارچ 04، 2025
- پیغامات
- 6
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 5
قارئین کرام!
جو شخص کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ وہ اللہ کی مشیئت کے تحت ہوتا ہے۔ یعنی اللہ چاہے تو اسے عذاب دے گا اور چاہے تو معاف کر دے گا۔
اس بات کا ثبوت اللہ کی اس آیت میں موجود ہے: *"إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ"* [النساء: ٤٨]
ترجمہ: اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کرتا، لیکن اس کے علاوہ جو گناہ ہیں، انہیں وہ جسے چاہے معاف کردیتا ہے۔
یہ آیت اس بات پر دال ہے کہ اللہ تعالی شرک کے سوا باقی تمام گناہ معاف کردے گا، ہاں یہ معافی اللہ کی مرضی پر منحصر ہے، اگر اللہ کا ارادہ ہو تو وہ گناہ ِکبیرہ کو بھی معاف کر سکتا ہے، اور اگر وہ چاہے تو عذاب بھی دے سکتا ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں گناہِ کبیرہ کو معاف کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اللہ کی رضا ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ آیت بے معنی ہوتی۔
اور احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ مرتکبِ کبیرہ اگرچہ جہنم میں چلا جائے تب بھی مخلد فی النار نہیں ہوگا۔
١۔ أَبو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ، وَهُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ، فَقَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ» [أخرجہ البخاری(ح ۵۸۲۷)، و مسلم (ح ۹۴)]۔
ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو جسم مبارک پر سفید کپڑاتھا اور آپ سورہے تھے پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے پھر آپ نے فرمایا جس بندہ نے بھی کلمہ لا الہ الا اللہ ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ) کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا ۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو ، چاہے اس نے چوری کی ہو ، آپ نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو ، میں نے پھر عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو ۔ فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو ۔ میں نے ( حیرت کی وجہ سے پھر ) عرض کیا چاہے اس زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہوچا ہے اس نے چوری کی ہو ۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو ۔
اس حدیث سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ جو شخص "لا إله إلا الله" کہہ کر مر جائے، وہ جنت میں داخل ہو گا اگرچہ وہ گناہ ِ کبیرہ کا مرتکب رہا ہو، جیسے زنا چوری وغیرہ
اور یہی بات ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی بندہ جو لا الہ الا اللہ کہے اور اس پر مر جائے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
۲۔حدیث أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَدْخُلُ أَهْلُ الجَنَّةِ الجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ»، ثُمَّ يَقُولُ الله تَعَالَى: «أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ. [أخرجہ البخاری (ح۲۲)، و مسلم (ح۱۸۴)۔
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ پھر اللہ پاک فرمائے گا، جس کے دل میں رائ کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو۔
اس حدیث میں ذکر ہے کہ، "جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا، وہ جہنم سے نکال لیا جائے گا"
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے دل میں تھوڑا سا بھی ایمان ہے، چاہے اس نے کوئی بڑا گناہ ہی کیوں نہ کیا ہو، تب بھی اللہ تعالیٰ اسے آخرکار جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے گا۔
۳۔ حدیث عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ لَيْلَةَ العَقَبَةِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: «بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لاَ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلاَ تَسْرِقُوا، وَلاَ تَزْنُوا، وَلاَ تَقْتُلُوا أَوْلاَدَكُمْ، وَلاَ تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلاَ تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ، [أخرجہ البخاری (ح ۱۸ )، و مسلم (ح۱۷۰۹)۔
ترجمہ: عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃ العقبہ کے ( بارہ ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں ( خدا کی ) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں ( اس عہد کو ) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان ( بری باتوں ) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں ( اسلامی قانون کے تحت ) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے ( گناہوں کے ) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے ( گناہ ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا ( معاملہ ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دے دے۔
ان تینوں احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر مرتکب کبیرہ کے دل میں ایمان ہو اور اس نے توحید کا اقرار کیا ہو، تو وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے گا۔
قال السفارینی:
أَهْلُ السُّنَّةِ لَا يَقْطَعُونَ لَهُ بِالْعُقُوبَةِ وَلَا بِالْعَفْوِ، بَلْ هُوَ فِي مَشِيئَةِ اللَّهِ - تَعَالَى -، وَإِنَّمَا يَقْطَعُونَ بِعَدَمِ الْخُلُودِ فِي النَّارِ بِمُقْتَضَى مَا سَبَقَ مِنْ وَعْدِهِ وَثَبَتَ بِالدَّلِيلِ، خِلَافًا لِلْمُعْتَزِلَةِ فِي قَوْلِهِمْ: نَقْطَعُ لَهُ بِالْعَذَابِ الدَّائِمِ، وَالْبَقَاءِ الْمُخَلَّدِ فِي النَّارِ، لَكِنَّهُ عِنْدَهُمْ يُعَذَّبُ عَذَابَ الْفُسَّاقِ لَا عَذَابَ الْكُفَّارِ، وَأَمَّا الْخَوَارِجُ فَعِنْدَهُمْ أَنَّهُ يُعَذَّبُ عَذَابَ الْكُفَّارِ لِكُفْرِهِ عِنْدَهُمْ، [اوانه الامور البهيمة (٣٨٩/١)]
"اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کسی گناہ گار مؤمن کے بارے میں قطعی طور پر نہ تو یہ کہتے ہیں کہ اسےضرور عذاب دیا جائے گا اور نہ یہ کہ اسے معاف کر دیا جائے گا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔
البتہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایسا شخص ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اس بات پر دلائل بھی موجود ہیں۔
اس کے برخلاف معتزلہ کا عقیدہ یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کے مرتکب شخص کو ہمیشہ عذاب دیا جائے گا اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا، اگرچہ وہ ان کے نزدیک کافروں کی طرح نہیں لیکن فاسقوں کی طرح اسے عذاب دیا جائے گا۔
جبکہ خوارج کا عقیدہ ہے کہ گناہ گار مؤمن کافر ہو جاتا ہے، اور اس لیے وہ کافروں والا عذاب پائے گا۔
قال شیخ الاسلام ابن تیمیۃ:
السَّلَفُ وَالْأَئِمَّةُ مُتَّفِقُونَ عَلَى مَا تَوَاتَرَتْ بِهِ النُّصُوصُ مِنْ أَنَّهُ لَا بُدَّ أَنْ يَدْخُلَ النَّارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْقِبْلَةِ ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنْهَا. وَأَمَّا مَنْ جَزَمَ بِأَنَّهُ لَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِنْأَهْلِ الْقِبْلَةِ فَهَذَا لَا نَعْرِفُهُ قَوْلًا لِأَحَدِ. ( مجموع الفتاوي:٥٠١/٧-٥٠٢)
"سلف صالحین اور ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں جس پر نصوصِ شرعیہ تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، کہ اہلِ قبلہ (یعنی مسلمان) میں سے بعض لوگ ضرور جہنم میں داخل ہوں گے، لیکن سزا بھگتنے کے بعد وہاں سے نکال دیے جائیں گے۔
رہی یہ بات ان کی جنہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا، تو اس طرح کا قول ہم کسی بھی معتبر عالم یا امام سے نہیں جانتے۔
وقال السفارینی:
ذَكَرَ بَعْضُ الْمُحَقِّقِينَ انْعِقَادَ الْإِجْمَاعِ عَلَى أَنَّهُ لَا بُدَّ سَمْعًا مِنْ نُفُوذِ الْوَعِيدِ فِي طَائِفَةٍ مِنَ الْعُصَاةِ، أَوْ طَائِفَةٍ مِنْ كُلِّ صِنْفٍ مِنْهُمْ؛ كَالزُّنَاةِ وَشَرَبَةِ الْخَمْرِ۔ [اوانه الانوار البعيدة (٣٨٩/١-٣٩٠)]
بعض محققین نے اس بات پر اجماع ذکر کیا ہے کہ گناہ گاروں پر وعید نافذ کیا جائے گا چاہے وہ کسی بھی صنف سے ہوں جیسے زناکار شراب نوشی کرنے والا وغیرہ۔
ان تمام دلائل اور علماء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہےکہ مسلمان اگر کبیرہ گناہ کرے اور بغیر توبہ کے مر جائے، تو ممکن ہے کہ اللہ کی مشیت سے وہ کچھ وقت کے لیے جہنم میں داخل ہوگا، لیکن وہ ہمیشہ وہاں نہیں رہے گا بلکہ اللہ اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا۔ واللہ أعلم
محمد سعود پوکھریاوی
متعلم؛ جامعہ نجران ، سعودی عرب
جو شخص کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ وہ اللہ کی مشیئت کے تحت ہوتا ہے۔ یعنی اللہ چاہے تو اسے عذاب دے گا اور چاہے تو معاف کر دے گا۔
اس بات کا ثبوت اللہ کی اس آیت میں موجود ہے: *"إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ"* [النساء: ٤٨]
ترجمہ: اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کرتا، لیکن اس کے علاوہ جو گناہ ہیں، انہیں وہ جسے چاہے معاف کردیتا ہے۔
یہ آیت اس بات پر دال ہے کہ اللہ تعالی شرک کے سوا باقی تمام گناہ معاف کردے گا، ہاں یہ معافی اللہ کی مرضی پر منحصر ہے، اگر اللہ کا ارادہ ہو تو وہ گناہ ِکبیرہ کو بھی معاف کر سکتا ہے، اور اگر وہ چاہے تو عذاب بھی دے سکتا ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں گناہِ کبیرہ کو معاف کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اللہ کی رضا ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ آیت بے معنی ہوتی۔
اور احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ مرتکبِ کبیرہ اگرچہ جہنم میں چلا جائے تب بھی مخلد فی النار نہیں ہوگا۔
١۔ أَبو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ، وَهُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ، فَقَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ» [أخرجہ البخاری(ح ۵۸۲۷)، و مسلم (ح ۹۴)]۔
ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو جسم مبارک پر سفید کپڑاتھا اور آپ سورہے تھے پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے پھر آپ نے فرمایا جس بندہ نے بھی کلمہ لا الہ الا اللہ ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ) کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا ۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو ، چاہے اس نے چوری کی ہو ، آپ نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو ، میں نے پھر عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو ۔ فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو ۔ میں نے ( حیرت کی وجہ سے پھر ) عرض کیا چاہے اس زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہوچا ہے اس نے چوری کی ہو ۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو ۔
اس حدیث سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ جو شخص "لا إله إلا الله" کہہ کر مر جائے، وہ جنت میں داخل ہو گا اگرچہ وہ گناہ ِ کبیرہ کا مرتکب رہا ہو، جیسے زنا چوری وغیرہ
اور یہی بات ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی بندہ جو لا الہ الا اللہ کہے اور اس پر مر جائے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
۲۔حدیث أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَدْخُلُ أَهْلُ الجَنَّةِ الجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ»، ثُمَّ يَقُولُ الله تَعَالَى: «أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ. [أخرجہ البخاری (ح۲۲)، و مسلم (ح۱۸۴)۔
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ پھر اللہ پاک فرمائے گا، جس کے دل میں رائ کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو۔
اس حدیث میں ذکر ہے کہ، "جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا، وہ جہنم سے نکال لیا جائے گا"
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے دل میں تھوڑا سا بھی ایمان ہے، چاہے اس نے کوئی بڑا گناہ ہی کیوں نہ کیا ہو، تب بھی اللہ تعالیٰ اسے آخرکار جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے گا۔
۳۔ حدیث عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ لَيْلَةَ العَقَبَةِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: «بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لاَ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلاَ تَسْرِقُوا، وَلاَ تَزْنُوا، وَلاَ تَقْتُلُوا أَوْلاَدَكُمْ، وَلاَ تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلاَ تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ، [أخرجہ البخاری (ح ۱۸ )، و مسلم (ح۱۷۰۹)۔
ترجمہ: عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃ العقبہ کے ( بارہ ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں ( خدا کی ) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں ( اس عہد کو ) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان ( بری باتوں ) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں ( اسلامی قانون کے تحت ) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے ( گناہوں کے ) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے ( گناہ ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا ( معاملہ ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دے دے۔
ان تینوں احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر مرتکب کبیرہ کے دل میں ایمان ہو اور اس نے توحید کا اقرار کیا ہو، تو وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے گا۔
قال السفارینی:
أَهْلُ السُّنَّةِ لَا يَقْطَعُونَ لَهُ بِالْعُقُوبَةِ وَلَا بِالْعَفْوِ، بَلْ هُوَ فِي مَشِيئَةِ اللَّهِ - تَعَالَى -، وَإِنَّمَا يَقْطَعُونَ بِعَدَمِ الْخُلُودِ فِي النَّارِ بِمُقْتَضَى مَا سَبَقَ مِنْ وَعْدِهِ وَثَبَتَ بِالدَّلِيلِ، خِلَافًا لِلْمُعْتَزِلَةِ فِي قَوْلِهِمْ: نَقْطَعُ لَهُ بِالْعَذَابِ الدَّائِمِ، وَالْبَقَاءِ الْمُخَلَّدِ فِي النَّارِ، لَكِنَّهُ عِنْدَهُمْ يُعَذَّبُ عَذَابَ الْفُسَّاقِ لَا عَذَابَ الْكُفَّارِ، وَأَمَّا الْخَوَارِجُ فَعِنْدَهُمْ أَنَّهُ يُعَذَّبُ عَذَابَ الْكُفَّارِ لِكُفْرِهِ عِنْدَهُمْ، [اوانه الامور البهيمة (٣٨٩/١)]
"اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کسی گناہ گار مؤمن کے بارے میں قطعی طور پر نہ تو یہ کہتے ہیں کہ اسےضرور عذاب دیا جائے گا اور نہ یہ کہ اسے معاف کر دیا جائے گا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔
البتہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایسا شخص ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اس بات پر دلائل بھی موجود ہیں۔
اس کے برخلاف معتزلہ کا عقیدہ یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کے مرتکب شخص کو ہمیشہ عذاب دیا جائے گا اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا، اگرچہ وہ ان کے نزدیک کافروں کی طرح نہیں لیکن فاسقوں کی طرح اسے عذاب دیا جائے گا۔
جبکہ خوارج کا عقیدہ ہے کہ گناہ گار مؤمن کافر ہو جاتا ہے، اور اس لیے وہ کافروں والا عذاب پائے گا۔
قال شیخ الاسلام ابن تیمیۃ:
السَّلَفُ وَالْأَئِمَّةُ مُتَّفِقُونَ عَلَى مَا تَوَاتَرَتْ بِهِ النُّصُوصُ مِنْ أَنَّهُ لَا بُدَّ أَنْ يَدْخُلَ النَّارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْقِبْلَةِ ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنْهَا. وَأَمَّا مَنْ جَزَمَ بِأَنَّهُ لَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِنْأَهْلِ الْقِبْلَةِ فَهَذَا لَا نَعْرِفُهُ قَوْلًا لِأَحَدِ. ( مجموع الفتاوي:٥٠١/٧-٥٠٢)
"سلف صالحین اور ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں جس پر نصوصِ شرعیہ تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، کہ اہلِ قبلہ (یعنی مسلمان) میں سے بعض لوگ ضرور جہنم میں داخل ہوں گے، لیکن سزا بھگتنے کے بعد وہاں سے نکال دیے جائیں گے۔
رہی یہ بات ان کی جنہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا، تو اس طرح کا قول ہم کسی بھی معتبر عالم یا امام سے نہیں جانتے۔
وقال السفارینی:
ذَكَرَ بَعْضُ الْمُحَقِّقِينَ انْعِقَادَ الْإِجْمَاعِ عَلَى أَنَّهُ لَا بُدَّ سَمْعًا مِنْ نُفُوذِ الْوَعِيدِ فِي طَائِفَةٍ مِنَ الْعُصَاةِ، أَوْ طَائِفَةٍ مِنْ كُلِّ صِنْفٍ مِنْهُمْ؛ كَالزُّنَاةِ وَشَرَبَةِ الْخَمْرِ۔ [اوانه الانوار البعيدة (٣٨٩/١-٣٩٠)]
بعض محققین نے اس بات پر اجماع ذکر کیا ہے کہ گناہ گاروں پر وعید نافذ کیا جائے گا چاہے وہ کسی بھی صنف سے ہوں جیسے زناکار شراب نوشی کرنے والا وغیرہ۔
ان تمام دلائل اور علماء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہےکہ مسلمان اگر کبیرہ گناہ کرے اور بغیر توبہ کے مر جائے، تو ممکن ہے کہ اللہ کی مشیت سے وہ کچھ وقت کے لیے جہنم میں داخل ہوگا، لیکن وہ ہمیشہ وہاں نہیں رہے گا بلکہ اللہ اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا۔ واللہ أعلم
محمد سعود پوکھریاوی
متعلم؛ جامعہ نجران ، سعودی عرب