کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
آپ پی ایچ ڈی کیوں کریں؟
ریحان احمد صدیقی27/12/2016
آپ اپنی زندگی میں کسی بھی نئے کام کا آغاز کرتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کے ذہن میں یہ خیال آتا ہو گا کہ یہ کام کرنے سے آپ کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟
اگرآپ کو اس کام میں کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ نظر آئے تو آپ اپنی سوچ کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے مزید کچھ سوالوں کے بارے میں سوچتے ہوں گے۔ جیسا کہ اس کام کو کرنے میں آپ کو کتنی مشکلات درپیش آسکتی ہیں؟
اس کام کو پایہِ تکمیل تک پہچانے میں کتنا وقت درکار ہوگا؟
اس کام کے کرنے میں کتنا سرمایہ صرف ہو گا؟
آیا آپ یہ کام بذات خود سرانجام دے سکیں گے یا نہیں؟
اگر نہیں تو آپ دوسروں سے کیسے تعاون حاصل کریں گے؟
اگر یہ تمام سوالات آپ کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو ایک خوش قسمت انسان تصور کریں کہ آپ کا شمار دنیا کے ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ایک منصوبہ ساز ذہن کے حامل ہوتے ہیں۔
آپ کے تعلیمی سفر کا آغاز کم و بیش تین سال کی عمر سے ہوا ہو گا۔ جیسے جیسے آپ اس سفر کی منزلیں طے کرتے گئے ہوں گے آپ نے اپنی ذہنی صلاحیت میں حیرت انگیز اضافہ محسوس کیا ہو گا۔ آپ میں اس سفر کو جاری و ساری رکھنے کی جستجو بھی پیدا ہوئی ہو گی اور ساتھ ساتھ آپ نے اپنے آپ کو اس سفر کی اگلی منزل کے بارے میں متجسس بھی پایا ہوگا۔
جیسا کہ آپ ضرور یہ سوچتے ہوں گے کہ اگلی کلاس میں کون کون سے مضامین پڑھائے جائیں گے؟
ان مضامین میں کون سی نئی باتیں سیکھنے کو ملیں گی؟
آپ کا یہی تجسس آپ کو اس سفر کی نئی منزل کی طرف قدم بڑھانے کے لیے متحرک کرتا ہوگا۔ اگرچہ آپ کی ذہنی صلاحیت اس سفر کی اگلی منزل کیلئے پوری طرح تیار نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود آپ کی شدید خواہش ہوتی ہو گی کہ جتنی جلد ہو سکے، ہم اگلی منزل پر پہنچ کر دیکھیں کہ وہاں آپ کے لیے کیا کچھ نیا ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں اس طرح کے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں تو یہ آپ کی خوش قسمتی کی بات ہے کہ آپ کا شمار دنیا کے ان لوگوں میں بھی ہوتا ہے جوایک مہم ساز طبیعت کے حامل ہوتے ہیں۔
آپ اپنے تعلیمی سفر کے دوران کلاس میں موجود کسی مضمون میں پڑھائے جانے والے سبق کو شاید اس طرح بھی سوچتے ہوں گے کہ اس سبق کا کس طرح دوسرے مضمون کے ساتھ تعلق جوڑا جائے یا کلاس میں پڑھائے جانے والے سبق کو اپنے گھر کے روزمرّہ کے کاموں میں کس طرح استعمال کریں اور کس طرح ان کاموں میں جدت پیدا کر کے آسان سے آسان بنایا جائے۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ آپ پچپن میں مختلف چیزوں کو جوڑ کر نت نئے کھلونے اور کارٹون بھی بناتے ہوں گے۔ اگر آپ میں یہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں تو یقین جانیں آپ میں ایک تخلیقی ذہن بھی پوشیدہ ہے جس کا ادراک شاید آپ کو نہ ہو۔
ان تمام باتوں کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ اگرقدرت نے آپ میں یہ تمام خوبیاں پیدا کی ہیں تو آپ اپنے تعلیمی سفر کو پی ایچ ڈی کی منزل تک لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی کرنے والے کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ ایک اچھا منصوبہ ساز ہوتا ہے۔ اس میں چیلنجز کا سامنا کرنے کا جذبہ ہوتا ہے، ساتھ ساتھ اس کی طبیعت میں مہم سازی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک نہایت ہی تخلیقی دماغ کا حامل ہوتا ہے اور اس میں کچھ نیا کرنے کا عزم بھی ہوتا ہے۔ جب آپ اپنے اندر ان خصوصیات کو پہچان کر پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہاں ایک نیا سوال آپ کا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپ پی ایچ ڈی کیوں کریں؟
آپ ایک لمحے کے لیے اپنے تعلیمی سفر کی منزلوں کو ایک بلند عمارت تصور کریں۔ نرسری اس کی پہلی منزل اور پی ایچ ڈی اس کی آخری منزل، آپ جب پہلی منزل پر پہنچتے ہیں تو آپ کو اس منزل کی کھڑکیوں سے سامنے بنے گھر کی چھت نظر آئے گی اور آپ کی نظر محدود ہوگی۔ جیسے جیسے آپ منزلیں طے کرتے جائیں گے آپ کی نظر کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔ بالآخر آپ اس عمارت کی چھت پر پہنچ جائیں گے جس کے بعد کوئی منزل نہیں۔ اس عمارت کی چھت پر پہنچنے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی نظر اتنی وسیع ہو گئی ہے کہ جس کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا۔ پی ایچ ڈی کی مثال بھی اس عمارت کی چھت جیسی ہے جہاں پہنچ آپ کی علمی سطح اتنی بلند ہوجاتی ہے اور آپ وہ کچھ دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں جو آپ سے نچلی منزل والے نہیں دیکھ سکتے۔
نرسری سے ماسٹرز تک آپ کو دوسروں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اور دوسروں کے نظریات سکھائے جاتے ہیں تاکہ آپ کی دماغی صلاحیت کو موجودہ دور کی دستیاب معلومات کو سمجھنے، پرکھنے اورمختلف پیرائے میں استعمال کرنے کا عادی بنایا جا سکے۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد جب آپ اگلی منزل یعنی پی ایچ ڈی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے مضمون کے کسی ایک جُز کا انتخاب کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اس انتخاب کردہ جُز کے بارے میں دنیا اب تک کیا جانتی ہے یا لوگوں نے اس جُز کے بارے میں کیا کیا جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
اب اگلے مرحلے سے آپ کے دماغ کا استعمال شروع ہو جاتا ہے۔ آپ سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ اس جُز کے بارے میں ایسی باتوں کی نشاندہی کریں جو دنیا نہیں جانتی۔ آپ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ آپ دنیا کوایک ایسا نیا نظریہ دیں جس کے بارے میں دنیا کچھ نہیں جانتی یا وہ دنیا کی نظروں سے اب تک اوجھل رہا ہے کیونکہ وہ آپ ہی ہیں جواس بلند عمارت کی چھت پر کھڑے اس نظریہ کو ایک نئے زاویے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
اس تمام عمل میں ایک طرف تو آپ دنیا کو ایک نیا نظریہ دیتے ہیں لیکن درحقیقت یہ عمل بھی آپ کی آزمائش کا ایک حصہ ہوتا ہے اور وہ آزمائش ہوتی ہے آپ کے دماغ کی کہ، کس طرح آپ اپنے ذہن کو نئی معلومات کے حصول کیلئے استعمال کر سکتے ہیں؟
کس طرح آپ ایک مخصوص چیز کو مختلف پہلوؤں سے دیکھ سکتے ہیں؟
کس طرح آپ ایک پہلو کا مختلف زاویوں سے تجزیہ کرسکتے ہیں؟
کس طرح آپ ان تجزیوں سے نئی معلومات حاصل کرسکتے ہیں؟
کس طرح حاصل کی گئی معلومات کو بنیاد بنا کر ایک نیا نظریہ دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں؟
ظاہری طور پر تو آپ کا پی ایچ ڈی آپ کے تعلیمی سفر کی آخری منزل تصور کی جاتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آپ کے حقیقی علم حاصل کرنے کا سفر دراصل اس آخری منزل پر پہنچنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ گزشتہ تمام منزلوں میں آپ کو وہ تعلیم دی جاتی ہے جو دوسروں کی کاوشوں کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن پی ایچ ڈی کے بعد آپ جتنے بھی علوم حاصل کرتے ہیں اس میں آپ کا اپنا دماغ استعمال ہوتا ہے اور جو کچھ آپ کو حاصل ہوتا ہے وہ آپ کی اپنی کوششوں کا ثمر ہوتا ہے۔ یہ سفر اتنا پر لطف ہوتا ہے کہ جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
یہ حقیر سی تحریر اگر آپ میں اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے پی ایچ ڈی کی منزل تک پہنچنے کا عزم اور جذبہ پیدا کرتی ہے تو یقین جانیں، اس دنیا کی وسعت آپ کے ایک نظر کرم کی منتظر ہے!
(ریحان احمد صدیقی کلینیکل پیتھالوجی میں گولڈ میڈل یافتہ ہیں اور جامعہ کراچی کے ایک بین الاقوامی تحقیقی ادارے کے شعبہ مالیکیولر میڈسن میں پی ایچ ڈی اسکالر کی حیثیت سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔)
(شکریہ دلیل پی کے)